HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

زنا کی حرمت کی بنیاد

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


زنا کی حرمت کی بنیاد خاندان کے ادارے کا تحفظ ہے۔ خاندان کا ادارہ انسان کی ضرورت ہے۔ ناتواں بچے کی نگہداشت اور بڑھاپے کی لاچارگی میں انسان کی دیکھ بھال نسبی تعلقات کی فطری محبت اور توجہ کے بنا کماحقہٗ ممکن نہیں ہوتی۔ مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق کو انھی کی بقا اور دیکھ بھال کی خاطر خاندان کو وجود پذیر کرنے کا سبب بنایا گیا ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے ضروری ٹھیرا کہ اس تعلق کو شوہر اور بیوی کے درمیان محدود کر دیا جائے۔ ان کی جنسی دل چسپی گھر سے باہر بھی بھٹکتی رہی تو بچوں کی صحت مند پرورش کے لیے درکار توجہ دست یاب نہیں ہو سکتی۔ خاندان کا ادارہ برقرار نہ رہے تو فرد بے یارو مددگار ہو کررہ جائے۔ ان ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شوہر اور بیوی کی آپس کی وفاداری کو رشتۂ نکاح کی لازمی قدر باور کرایا گیا، بلکہ جنسی بے قیدی کو غیر پاکیزہ (فاحشہ) قرار دے دیا۔ جنسی رویے کی اس تہذیب کو یقینی بنانے کے لیے نکاح سے پہلے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کی ممانعت کی گئی، بلکہ اسے قابل سزا جرم قرار دیا گیا، کیونکہ یہ نکاح کے بعد شریک حیات اور بچوں کی حق تلفی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

زنا بچوں کی حق تلفی کاباعث بنتا ہے۔ اُن بچوں کی حق تلفی کا باعث بھی جو نکاح کے تعلق سے وجود میں آئے، مگر انھیں اپنے باپ یا ماں یا دونوں کی جنسی آزاد روی کی وجہ سے ان کی مکمل توجہ میسر نہیں آسکتی، اور اُن بچوں کی حق تلفی کا باعث بھی جو زنا کے تعلق سے وجود میں آئے اور انھیں ان کے والدین کی مستقل توجہ اور احساس ذمہ داری میسر نہیں آ سکتی، کیونکہ ان کے ماں اور باپ کے درمیان مستقل رفاقت کے ارادے سے باندھا گیا معاہدۂ نکاح نہیں ہوتا۔

مستقل رفاقت کے ارادے کی شق کے بغیر نکاح، درحقیقت نکاح ہی نہیں، کیونکہ اس میں ممکنہ طور پر وجود پذیر ہونے والے بچوں کو ماں اور باپ، دونوں کی باہمی نگہداشت کی ضمانت دست یاب نہیں ہوتی۔ نکاح متعہ کی حرمت کی یہی حقیقت ہے۔

اسی چیز کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ. (النساء ۴: ۲۴)
’’اور اِن کے ماسوا جو عورتیں ہیں، (اُن کا مہر ادا کرکے) اپنے مال کے ذریعے سے اُنھیں حاصل کرنا تمھارے لیے حلال ہے، اِس شرط کے ساتھ کہ تم پاک دامن رہنے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے۔‘‘
فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ. (النساء ۴: ۲۵) 
’’سو اُن (لونڈیوں) کے مالکوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور دستور کے مطابق اُن کے مہر بھی اُن کو دو، اِس شرط کے ساتھ کہ وہ پاک دامن رہی ہوں، بدکاری کرنے والی اور چوری چھپے آشنائی کرنے والی نہ ہوں۔‘‘

احصان‘ کسی کو اپنی حفاظت میں لینے یا کسی کی حفاظت میں آ جانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہ نکاح میں دوسرے فریق کی ذمہ داری اٹھا لینے یا اس کی ذمہ داری میں آ جانے کا نام ہے۔’مسافحت‘ کے معنی عیاشی اور بد کاری کے ہیں۔ زنا اور متعہ، دونوں میں یہی مقصود ہوتا ہے، لیکن مستقل ذمہ داری کا معاہدہ نہیں ہوتا۔اسی بنا پر یہ حرام ہیں، جب کہ نکاح ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔

بچوں کی پیدایش کے امکان کو اگر معدوم کر بھی لیا جائے تو بھی وقتی نکاح یا نکاح کے بغیر جنسی تعلق جائز قرار نہیں پاتا، اس لیے کہ اِنھی مرد و عورت نے کبھی نہ کبھی مستقل رفاقت کے ارادے سے گھر بسانا ہے۔ چنانچہ خاندان کے تحفظ کا وہی سوال یہاں پھر لوٹ آتا ہے۔

ایسے افراد جو اولاد کی خواہش نہ رکھتے ہوں، انھیں بھی جنسی آزاد روی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ اول تو ایسے لوگ مستثنیات ہوتے ہیں، اور عمومی قوانین مستثنیات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنائے جاتے، ان کے لیے بھی عمومی قوانین کی پابندی کرنا لازم ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ ایک شخص جو آج بچوں کی خواہش نہیں رکھتا، کل یہ خواہش کرے اور گھر بسانا چاہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B