HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

السابقون الاولون من الانصار (۱)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

اصحاب بیعت عقبۂ اولیٰ و ثانیہ


فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ.(الحجر ۱۵: ۹۴)
’’پس اے نبی ، جو آپ کو حکم دیا جا رہاہے اسے ہانکے پکارے کہہ دیجیے اور مشرکوں کی ذرا پروا نہ کریں۔‘‘

نبوت کے چوتھے سال جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ تبلیغ کا یہ حکم ہوا، آپ نے شہر مکہ کے علاوہ موسم حج میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے بازاروں میں مکہ آنے والے عرب قبائل کو دعوت دین دیناشروع کی۔ آپ فرماتے: اے قبیلے والو، اللہ نے مجھے رسول بنا کر تم سب کی طرف بھیجا ہے، وہ حکم دیتاہے کہ اللہ کی بندگی کرو، کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیراؤ، اس کے ماسوا جن دیوتاؤں اور ان کے بتوں کی پوجا کرتے ہو، ان سے قطع تعلق کر دو، مجھ پر ایمان لاؤ، میری تصدیق کرو، اور میرا ساتھ دو تاکہ میں اس پیغام کو پہنچا سکوں جس کے لیے اللہ نے مجھےمبعوث کیا ہے۔ اس کے بدلے میں تمھیں جنت ملے گی۔ آپ یہ بھی فرماتے: میں تم میں کسی کو مجبور نہیں کرتا، جو راضی ہو اسے یہ دعوت دیتا ہوں۔ آپ کو ایک فرد بھی ایسا نہ ملا جو آپ کی دعوت قبول کر کے آپ کی نصرت کرتا۔ حضرت ربیعہ بن عباد فرماتے ہیں:میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذوالمجاز کے میلے میں دیکھا، آپ گلیوں میں داخل ہوتے جاتے اور لو گ آپ کے گرد جمع ہوتے جاتے۔ آپ فرماتے: لوگو، ’لا إلٰه إلا اللّٰه‘ کہہ لو، فلاح پاؤ گے، لوگو، ’لا إلٰه إلا اللّٰه‘ کہو، فلاح پاؤ گے، یہ کہہ کرتم عرب کے مالک بن جاؤ گے اور عجم تمھارے زیرنگیں ہو جائے گا۔ تم ایمان لاؤ گے تو جنت میں بادشاہ بن جاؤ گے۔ آپ کے پیچھے کھڑا ہواایک خوب رو، مگر بھینگا، دو چوٹیوں والا، عدنی پوشاک پہنے شخص آگے بڑھتااور کہتا:یہ شخص بے دین اور جھوٹا ہے، تمھیں لات و عزیٰ کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ آپ کا چچا ابو لہب تھا (احمد، رقم  ۱۶۰۲۳۔ ۱۶۰۲۵۔ مستدرک حاکم، رقم ۳۹۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۲۷۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۴۵۸۹)۔ دوسری روایت کے مطابق ابو لہب لعنہ اللہ نے آپ کے ٹخنوں پر پتھر بھی برسائے، جس سے ٹخنےلہو لہان ہو گئے(السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۰۹۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۵۶۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۷۲۰۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۵۹)۔ لوگ آپ کی بات بری طرح رد کرتے اور یہ کہہ کر کوفت پہنچاتے: آپ کا کنبہ اور قبیلہ آپ کو بہتر جانتا تھا، اسی لیے تو انھوں نے آپ کی پیروی نہیں کی۔ جو شخص اپنی قوم کو خراب کہے، ہمارے لیے کیسے موزوں ہو سکتا ہے۔ آپ ان سے مزید بات کرتے تو وہ جھگڑتے۔ آپ اللہ کو پکارتے: اللہ تو چاہتا تو یہ ایسےمخالف نہ ہوتے۔

حضرت ابوبکر اور حضرت علی بالعموم آپ کے ساتھ ہوتے۔ ایک روا یت کے مطابق آپ اپنے چچا عباس کو بھی ساتھ لے کر گئے۔ ڈاکٹر حمید اللہ کہتے ہیں: بائیکاٹ کے زمانہ میں بھی آپ ایام حج میں شعب ابوطالب سے نکل کر منیٰ، مجنہ اور عکاظ پہنچ جاتے (ترجمہLe Prophete de l’islam:ص ۱۳۱)۔ آپ کا یہ عمل دعوت اس قدر متواتر اور مشہورتھا کہ ایسابھی ہوا کہ مصر و یمن سے کوئی حج کے سفر پر نکلا تو اس کے اعزہ و اہل وطن نے تنبیہ کی کہ قریش کا نوجوان تمھیں گم را ہ نہ کرنے پائے(احمد، رقم ۱۴۴۵۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۰۱۲)۔

عام الحزن کے بعد

۱۰/نبوی (۶۱۹ء):آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اپنے قبیلۂ قریش کی معاندانہ سرگرمیوں کے خلاف آپ کادفاع کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مشرکوں کی ایذائیں بڑھ گئیں۔ آپ اپنے گھر کی کوٹھڑی یا کسی دیوار کی اوٹ میں نماز ادا کرنے لگے۔ جانوروں کی اوجڑیاں ڈالنا اور آپ کے گھر کوڑا پھینکنا تو معمول تھا، ایک اوباش نے سر مبارک پر خاک ڈال دی۔ اپنے ہم وطنوں کی طرف سے دین اسلام کی دعوت میں رکاوٹیں ڈالنے اور اسے رد کیے جانےکے بعد آپ نے مکہ سے باہر دوسرے مقامات میں دعوت پیش کرنے پر غور فرمایا۔ ا س سلسلے میں آپ کا پہلا انتخاب قریبی شہرطائف تھا۔ بعثت کے دسویں سال آپ حضرت زید بن حارثہ کو ساتھ لے کر اس سفر پر روانہ ہوئے۔ آپ نے بنو ثقیف کے سرداروں کو اللہ واحد پر ایمان لانے کی دعوت دی ا ور نصرت اسلام کا مطالبہ کیا، لیکن انھوں نے کہا: آپ کے شہر والوں نے آپ کی بات نہیں مانی تو آپ ہمارے پاس آ گئے ہیں۔ ہم ان سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ انتہائی بداخلاقی کا برتاؤ کرنے کے بعد انھوں نے آوارہ لونڈوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا، جنھوں نے پتھر مار مار کر آپ کے قدم مبارک لہو لہان کر دیے۔

دعوت قبائل جاری رہی

۱۱/نبوی: مکہ اورطائف کے مشرکوں سے مایوس ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موسم میں منیٰ، عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے میلوں میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ جا ری رکھا۔ آپ یمن کے بڑے قبیلے کندہ کے خیموں میں آئے اور ان کے سردار ملیح کو دعوت دی، لیکن اس نے شایستگی کے ساتھ انکار کر دیا۔ پھر آپ بکر بن وائل کے ڈیرے پر تشریف لائے۔ انھوں نے بتایا: ہم ایران کے پڑوسی ہیں، اس کا مقابلہ کرتے ہیں نہ اس کے خلاف کسی کی مدد کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:تم اللہ کی تسبیح وحمد کرو تو ان کے گھروں کے مالک بن جاؤگے اور ان کی عورتوں سے شادیاں کرو گے۔ انھوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں۔ آپ کے جانے کے بعد ابو لہب پہنچ گیا اور کہا: اس کی بات پر دھیان نہ کرنا، یہ پاگل ہے۔ آپ بنو کلب کے بطن بنو عبداللہ کے ڈیرے میں پہنچے اور فرمایا:اللہ نے تمھارے باپ کو اچھا نام دیا ہے، انھوں نے بھی دعو ت دین قبول نہ کی۔ آپ بنو حنیفہ کی قیام گاہ تشریف لائے، ان کا رد عمل عربوں میں بدترین تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عامر بن صعصعہ سے رابطہ کیا۔ وہ ایمان تو نہ لائے، تاہم کار رسالت میں اس شرط پر آپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا کہ انھیں بعد میں خلیفہ بنایا جائے۔ آپ نے فرمایا: یہ تو اللہ کا اختیار ہے۔ ا ن کےسردار بیحرہ(بحیرہ) بن فراس قشیری نے کہا: آپ کاساتھ دے کر اپنی گردنیں ہم کٹوائیں اور حکومت کےمزے دوسرے لوٹیں۔ اپنی قوم سے اس نے کہا: اس شخص کو جسے اس کی قوم نے جھٹلا دیا ہے، پناہ دے کر ہم تمام عرب سے جنگ کیوں مول لیں۔ آپ واپس جانے کے لیے اونٹنی پر سو ار ہوئے تو اس خبیث نے اونٹنی کے پہلو میں ٹہوکا دیا۔ وہ اچھلی اور آپ کو نیچے گرا دیا۔ وہاں پر موجود حضرت ضباعہ بنت عامر کی تحریک پر بنو عامر کے تین جوان اٹھے اور بیحرہ اوراس کے دو ساتھیوں کوگرا کر ان کےچہروں پر تھپڑوں کی برسات کر دی۔ اوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف کے سردار سوید بن صامت حج یا عمرہ کرنے آئے تو آپ نے ان سے ملاقات کی اور اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا: میرے پاس لقمان کا نصیحت نامہ ہے، ہو سکتا ہے آپ کے پاس ویسا ہی پند نامہ ہو۔ آپ نے ان کا مجلہ سن کر قرآن کی تلاوت فرمائی تو انھوں نے تحسین کی، عام خیال ہے کہ وہ مسلمان ہو گئے۔ آپ نے بنو عبد الاشہل کے ابو الحیسرانس بن رافع کوبھی توحید کی دعوت دی، اس نے کہا:ہم تواپنے دشمنوں کے خلاف قریش کو حلیف بنانے آئے تھے، الٹا ان کی عداوت مول لے کر واپس چلے جائیں۔ البتہ اس قبیلے کا نوجوان ایاس بن معاذ مسلمان ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات بنو شیبان بن ثعلبہ کے مفروق بن عمرو، ہانی بن قبیصہ اور مثنیٰ بن حارثہ سے ہوئی۔ مفروق نے کہا: برادرقریش، آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ نے یہ آیت قرآنی تلاوت فرمائی:

قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوْ٘ا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ. (الانعام ۶: ۱۵۱)
’’کہہ دیجیے، آؤ میں تمھیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمھارے رب نے حرام کیا، وہ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمھیں اور انھیں سب کو رزق دیں گے اور ظاہری و باطنی بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق نہ مارو۔ تمھیں یہ نصیحت کی ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔‘‘

مفروق یہ سن کر بہت متاثر ہوا اورکہا: واللہ، یہ کلام اہل ز مین میں سے کسی کا نہیں ہو سکتا۔ اب ہانی بولا:ہم آپ کی باتوں کو سچ جانتے ہیں، لیکن اپنی قوم کی مرضی کے خلاف کوئی عہد نہیں کر سکتے۔ ہانی نے عہد صدیقی میں بھی اسلام قبول کرنے کے بجاے جزیہ دینے کو ترجیح دی، لیکن حضرت عمر کے دور خلافت میں وہ مسلمان ہوگیا (السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۰۷۴، ۱۸۶۴۷)۔ ان کےتیسرے ساتھی مثنیٰ بن حارثہ نے کہا: ہم عرب اور ایران کے درمیان رہتے ہیں، ایران کی جانب تو نہیں، البتہ عرب میں آپ کی نصرت و حمایت کر سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اللہ کے دین کا ساتھ وہی دے سکتا ہے جو تمام اطراف کا احاطہ کرے۔ کچھ ہی دیرکی بات ہے کہ اللہ ایرانیوں کا ملک اور دولت تمھیں عطا کر دے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبس، بنو سلیم، بنو غسان، بنو محارب، بنو نضر، بنو مرہ، بنو عذرہ، بنو ثعلبہ اور حضرمی قبائل کو ایک ایک کر کے اللہ واحد پر ایمان لانےکی دعوت دی، مگر کسی نے قبول نہ کی۔ ان کا جواب تھا: آپ کا کنبہ اور قبیلہ آپ کو بہتر جانتا تھا، انھوں نے بھی آپ کی پیروی نہیں کی۔ یثرب کا ایک شخص قیس بن خطیم قرآن کی تلاوت سن کر متاثر ہوا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال کی مہلت مانگی، لیکن اسے اجل نے آن لیا۔ بیہقی نے اس سے ملتا جلتا واقعہ ایک ہمدانی کی طرف منسوب کیا ہے۔ پھراللہ کا کرنا ہوا کہ آپ کی ملاقات یثرب سے آنے والےزائرین خزرج سے ہوئی، جب وہ اپنے سر منڈا رہے تھے۔

دس سالہ تبلیغ مسلسل کا ثمرہ

۱۱/ نبوی کے حج میں آپ منیٰ کی گھاٹی ( عقبہ ) میں تشریف فرما تھے کہ قبیلۂ خزرج کے چھ آدمی آپ کے پاس آئے۔ آپ نےدریافت فرمایا:کیا آپ یہودیوں کے حلیف ہیں؟ آپ بیٹھیں گے کہ میں آپ سے کچھ باتیں کرلوں۔ آپ نے آیات قرآنی تلاوت کر کے انھیں اسلام کی دعوت دی۔ یثرب کے اوس و خزرج قبائل بت پرست تھے، مگر انھوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں سے سن رکھا تھاکہ نبی آخر الزماں کاظہور ہونے والا ہے۔ یہودی ان کو دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ ہم آخری نبی کے لشکر میں شامل ہو کر تم بت پرستوں کو عاد و ارم کی طرح نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ کلام الٰہی سن کر یہ لوگ بے حد متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ یہودی جن خاتم النبیین کی خوش خبری دیتے رہے ہیں، یقیناً یہی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم سے پہلے اسلام کی دعوت قبول کرلیں۔ یہ کہہ کر سب ایک ساتھ ایمان لے آئے اور توقع کی کہ اگر یثرب کی ساری قومیں اوس اور خزرج آپ کی دعوت قبول کر لیں تو ان کی باہمی دشمنیاں ختم ہو جائیں۔ ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں:بنو نجار کے حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت عوف بن الحارث(ابن عفراء)، بنو زریق کےحضرت رافع بن مالک، بنو سلمہ کے حضرت قطبہ بن عامر، بنو حرام (بنو غنم: ابن اثیر)کے حضرت عقبہ بن عامراور بنو عبید بن عدی( بنو عبیدہ: ابن اثیر) کے حضرت جابر بن عبداﷲ بن رئاب۔ یثرب جا کر انھوں نے اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ ابن اثیر نے ساتویں صاحب بنوزریق کے حضرت عامر بن عبد حارثہ کے نام کا اضافہ کیا ہے(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۷۲۳۸)۔ عروہ بن زبیر اور ابن سعد نے یثرب کے ان ’السٰبقون الأولون‘ کی تعداد آٹھ بتائی ہے: حضرت معاذ بن عفرا، حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت رافع بن مالک، حضرت ذکوان بن عبد قیس، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت یزید بن ثعلبہ، حضرت ابوالہیثم بن تیہان اورحضرت عویم بن ساعدہ(مستدرک حاکم، رقم ۵۲۴۹)۔

بیعت عقبۂ اولیٰ

۱۲/نبوی (جولائی ۶۲۱ء):کے حج میں یثرب کے بارہ اصحاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ مکہ سے منیٰ آتے ہوئے کوہ ثبیر کی ایک گھاٹی (عربی:عقبہ)سے گزرنا پڑتا ہے۔ جمرۂ اولیٰ یا جمرۂ عقبہ یہیں واقع ہے، جب کہ باقی دو جمرے اور منیٰ کامیدان مشرق کی سمت میں ہیں۔ رمی جمرات کے بعد حاجیوں کا ہجوم یہاں سے چھٹ جاتا ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب فرمایا۔ ۱۴۴ھ میں ابو جعفر منصور نے یہاں مسجد عقبہ تعمیر کر ائی اور اب پہاڑ کاٹ کر کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔

بیعت عقبہ میں شامل پانچ اصحاب حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عوف بن الحارث، حضرت رافع بن مالک، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت قطبہ بن عامر کے ساتھ سات مزید اہل ایمان بھی اس بیعت میں شامل ہوئے، ان کے نام ہیں: بنو نجار کےحضرت معاذ (معوذ:بلاذری، ابن جوزی) بن حارث، بنو زریق کے حضرت ذکوان بن عبد قیس، بنو عوف کے حضرت عبادہ بن صامت اوران کے حلیف حضرت ابو عبدالرحمٰن یزید بن ثعلبہ، بنو سالم کےحضرت عباس بن عبادہ، بنوعبد الاشہل کے حضرت ابوالہیثم مالک بن تیہان اور بنو عمرو بن عوف کےحضرت عویم بن ساعدہ۔ حضرت ابو الہیثم اور حضرت عویم اوس سے تھے، جب کہ باقی دس صحابہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ انصار کے ان بارہ ’السٰبقون الأولون‘ کی بیعت ایمان بیعت عقبۂ اولیٰ کہلاتی ہے۔

آپ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗ٘ اِلٰي عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ.(البقرہ ۲: ۱۲۶)
’’اور یاد کروجب ابراہیم نے دعا کی: اے رب، تو اس کو امن کاشہر بنا دے اور اس میں رہنے والوں کو جو ان میں سے اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں، ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔ فرمایا: جو کفر کریں گے میں انھیں بھی تھوڑا فائدہ دوں گا، پھر انھیں آگ کے عذاب کی طرف دھکیلوں گا، اورو ہ بہت ہی براٹھکاناہے۔‘‘

عقبۂ اولیٰ کی رات بیعت کرنے والے ایک انصاری صحابی حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آؤ، اس بات پر میری بیعت کروکہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے، اپنے ہاتھوں پاؤں کے درمیان(اعضاے صنفی) سے متعلق کوئی بہتان نہ تراشو گے اور معروف میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ تم میں سے جو عہد پورا کرے گا، اس کا اجر اللہ کےذمہ ہو گاا ور جس نے ان میں سے کوئی عہد شکنی کی اور اللہ نے اس کا پردہ رکھاتو اس کا فیصلہ اللہ کرے گا، چاہے سزا دے، چاہے معاف کر دے (بخاری، رقم ۱۸۔ احمد، رقم ۲۲۷۵۴۔ مسند شاشی، رقم ۱۱۵۰ )۔

 اسے بیعت النساءکہا جاتا ہے، کیونکہ یہ جنگ فرض ہونے سے پہلےلی گئی اور اس کے الفاظ اس بیعت سے ملتےہیں جو صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہونے والے اس حکم ربانی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے لی:

يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰ٘ي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَيْـًٔا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَﵧ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.(الممتحنہ۶۰: ۱۲)
’’اے نبی ، جب آپ کے پاس مومنہ عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ وہ نہ تو اللہ کے ساتھ کچھ شریک کریں گی، نہ چوری کریں گی، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، نہ اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان (اعضاے مخصوصہ) سے متعلق کوئی بہتان تراشیں گی (یعنی کوئی جنسی تہمت لگانا یا مولود کا نسب غلط بتانا)، نہ کسی معروف بات میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لیجیے اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگیں۔ بے شک، اللہ بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘

دوسری روایت میں خزرج کے نو اصحاب:حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت سعد بن ربیع، حضرت عبداﷲ بن رواحہ، حضرت رافع بن مالک، حضرت براء بن معرور، حضرت عبداﷲ بن عمرو، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت منذر بن عمر، حضرت عبادہ بن ثابت اور اوس کے تین صحابہ:حضرت اُسید بن حضیر، حضرت سعد بن خیثمہ، حضرت ابو الہیثم بن تیہان کے نام بتائے گئے ہیں۔

اسلام کے پہلے سفیر اور معلم

بیعت عقبۂ اولیٰ کے بعد حضرت اسعد بن زرارہ مدینہ میں نماز اور جمعہ پڑھاتے رہے، بنو بیاضہ کی سنگلاخ زمین ہزم النبیت میں خضمات(ہضبات: طبرانی) نامی میدان یا باغ میں انھوں نے عہد اسلامی کا پہلا جمعہ پڑھایا جس میں چالیس مسلمان شریک ہوئے(ابن ماجہ ، رقم ۱۰۸۲۔ مستدرک حاکم، رقم ۱۰۳۹۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۵۶۰۵۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۵۵۲۵۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۰۱۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۸۹۶)۔  انصار نے پھر حضرت معاذ بن عفرا اور حضرت رافع بن مالک کو اس درخواست کے ساتھ آپ کے پاس دوبارہ بھیجا کہ ہمارے ساتھ ایسا کوئی شخص بھیجیں جو ہمیں دین سکھائے اور قرآن پڑھائے۔ آپ نےحضرت مصعب بن عمیر کا انتخاب کیا اور انھیں حکم دیا کہ اسلام کی طرف لپکنے والے اہل یثرب کوقرآن سکھائیں، شرائع اسلام کی تعلیم دینے کے ساتھ ان میں دین کی سوجھ بوجھ (تفقہ) پیدا کر دیں۔ حضرت مصعب حضرت اسعد بن زرارہ کے مہمان ہوئے۔ وہ انصار کے گھروں اور قبائل میں جاتے، ان کی کوششوں سے خزرج کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جہاں رسول پاک کا ذکر نہ پہنچا ہو، انھیں قاری(قرآن پڑھنے والا) اورمقری (قرآن پڑھانے والا) کہا جانے لگا۔ یثرب میں ان کے ہاتھوں مسلمان ہونے والوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ حضرت مصعب نماز کی امامت بھی کرتے، اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں خفیہ رہیں۔ ایک روایت کے مطابق مدینۂ منورہ میں پہلا جمعہ حضرت مصعب بن عمیر نے پڑھایا۔

حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ پر ایمان لانے والےچند انصاری مسلمان: حضرت محمد بن مسلمہ، حضرت عباد بن بشر، حضرت اسید بن حضیر، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت سعد بن معاذ۔

حضرت اسید اور حضرت سعد بن معاذ کا قبول اسلام

بنو عبدالاشہل کے سردارسعد بن معاذکو حضرت مصعب کےآنے کی خبر ہوئی تو اسید بن حضیر کو بھیجا۔ وہ غصے سے بھالا لے کر پہنچے اورحضرت مصعب سے کہا: تم ہمارے نادان لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہو۔ حضرت مصعب نے کہا: آپ ذرا بیٹھ کر سن لیں۔ اگر بات بھلی لگے تو قبول کر لیجیے گا، پسند نہ آئے تو نہ مانیے گا۔ اسید بولے:تم نے انصاف کی بات کی۔ حضرت مصعب نے اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآن کی تلاوت کی توان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے، انھوں نے غسل کیااورکلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ پھرکہا:میں اپنے ا یک ساتھی کو بھیجتا ہوں، اس نے تمھاری پیروی کر لی تو اس کی قوم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے گا۔ اسیدکے جانے کے بعد سعد بن معاذ آئے، حضرت مصعب نے انھیں بھی بیٹھ کر بات سننے کوکہا، انھوں نے یہ آیات تلاوت کیں:

حٰمٓ. وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ. اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ.(الزخرف۴۳: ۱ -  ۳)
’’یہ ’حٰمٓ‘ ہے۔ شاہد ہے یہ واضح کتاب۔ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘

قرآن مجید کی تلاوت سننے کے بعد ان کے چہرے میں چمک پیدا ہوئی اور وہ فی الفور مسلمان ہو گئے۔ پھر اپنی قوم میں پہنچے اور اعلان کر دیا: جس کو شک ہو، اس سے بہتر راہ ہدایت لے آئے۔ جب تک تم اللہ ورسول پر ایمان نہ لاؤ، کسی مرد و عورت سے گفتگو کرنا میرے لیےحرام ہے۔ عبدالاشہل کے تمام مردوں عورتوں نے اس پکار پر لبیک کہا اور اسی وقت ایمان لے آئے۔

حضرت مصعب ، حضرت اسعد بن زرارہ کے گھر میں مقیم رہے، لیکن جب بنو نجار کی مخالفت بڑھ گئی تو وہ حضرت سعد بن معاذ کے ہاں منتقل ہو کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے، یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورت مسلمان نہ ہوچکے ہوں(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۷۲۳۸)۔ صرف بنی امیہ بن زید، خطمہ، وائل اور واقف کے گھراسلام سے محروم رہ گئے۔ بنو واقف کے شاعر اور سردار ابو قیس بن اسلت صیفی نے انھیں اسلام قبول کرنے سے روک لیا۔ جنگ خندق ( ۵ ھ ) تک وہ دین شرک پر قائم رہے۔ ابن اسحٰق کا کہنا ہے کہ ابو قیس نے اسلام قبول کر لیا تھا، لیکن واقدی کی روایت کے مطابق اس کی موت کفر پر ہوئی۔

یثرب کے مشرک قیس بن عبید کی اہلیہ حضرت حوا بنت زید نے اسلام قبول کیا تو قیس نے ان کو نشانۂ اذیت بنانا شروع کر دیا۔ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہو گئی۔ چنانچہ قیس جب اپنے مشرک ساتھیوں کے ساتھ حج کے لیے آیا تو آپ نے اسے بلا کر اپنی بیوی کو ستانے سے منع فرمایا۔ گھر لوٹ کر اس نے کہا:میں ایک خوب رو اور اچھی وضع قطع والے صاحب سےمل کر آیا ہوں۔ تم اپنے دین پر عمل کرتی رہو۔

ایک روایت کے مطابق قریش نے رات کے وقت جبل ابوقبیس پر کسی کو یہ شعر کہتے سنا:

فإن یسلم السعدان یصبح محمد
بمکة لایخشی خلاف المخالف
’’اگر دو سعد، یعنی سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ ایمان لے آئیں تو مکہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو کسی مخالف کا ڈر نہ ہو گا۔‘‘

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B