’’قرآن میں سورتیں،جس طرح کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے،کسی الل ٹپ طریقے سے جمع نہیں کی گئیں،بلکہ ایک خاص نظام ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ترتیب دیا ہے اور سورتوں میں نظم کلام کی طرح یہ ترتیب بھی اُس کے موضوع کی رعایت سے نہایت موزوں اور بڑی حکیمانہ ہے۔“ (میزان۵۴)
مصنف نے اس اقتباس میں قرآن مجید میں سورتوں کی ترتیب کے توقیفی ہونے اور موضوعاتی اعتبار سے ایک خاص نظام میں مربوط ہونے کا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔ سورتوں کی ترتیب میں موجود معنوی نظام کے سوال پر آگے چل کر ’’نظم کلام“ کی بحث کے تحت ضروری توضیحات پیش کی جائیں گی۔ یہاں سورتوں کی ترتیب کے توقیفی یا اجتہادی ہونے کے حوالے سے اہل علم کے مابین پائے جانے والے اختلاف اور اس ضمن میں مصنف کے نقطۂ نظر کی توضیح کی جا رہی ہے۔
اس ضمن میں اہل علم کی ایک بڑی جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کی سورتیں مصحف میں جس ترتیب سے رکھی گئی ہیں، یہ بنیادی طور پر صحابہ کا اجتہاد ہے (سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن ۱/ ۲۱۶)۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ تاریخی روایات کے مطابق اکابر صحابہ کے مصاحف میں سورتوں کی ترتیب مختلف تھی۔ نیز بعض آثار سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کے نزدیک سورتوں میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا اہم نہیں تھا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مروی ہے کہ کوفہ سے آئے ہوئے ایک شخص نے انھیں بتایا کہ اس کے علاقے میں قرآن کسی ترتیب کے بغیر پڑھا جا رہا ہے اور پھر ان سے فرمایش کی کہ وہ اسے اپنا مصحف دکھائیں تاکہ وہ اس کے مطابق اپنے مصحف میں بھی سورتوں کو مرتب کر لے۔ اس پر سیدہ نے اس سے کہا کہ:
وما يضرك أيه قرأت قبل؟ إنما نزل أول ما نزل منه سورة من المفصل فيها ذكر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام ... وما نزلت سورة البقرة والنساء إلا وأنا عنده.
(بخاری، رقم ۴۷۲۷)
’’تم کوئی بھی سورت پہلے پڑھ لو، اس سے تمھیں کیا فرق پڑے گا؟ ابتدا میں قرآن کی سورتوں میں سے مفصل کی ایک سورت نازل ہوئی تھی، جس میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے۔ پھر جب لوگ اسلام قبول کرنے لگے تو حلال اور حرام کے احکام نازل ہوئے۔ ... اور جب (مدینہ میں آنے کے بعد) سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء نازل ہوئیں تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی تھی۔“
دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کی باقی تمام سورتوں کی ترتیب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی، لیکن سورۂ انفال اور سورۂ براءۃ کو صحابہ نے اپنے اجتہاد سے موجودہ مقام پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ امام بیہقی لکھتے ہیں:
واعلم أن القرآنَ كان مجموعًا كلَّه في صدور الرجال، أيام حياة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، ومؤلفًا هذا التأليف الذي نشاهده ونقرؤه إلا سورة براءة، فإنها كانت من آخر ما نزل من القرآن، ولم يبيِّن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لأصحابه موضعها من التأليف، حتى خرج من الدنيا، فقرنها الصحابة بالأنفال. (السنن الکبریٰ ۲ /۵۰۱)
’’جان لو کہ پورا قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے سینوں میں جمع تھا اور اسی ترتیب کے مطابق مرتب تھا جو ہمارے سامنے ہے اور جس کے مطابق ہم اسے پڑھتے ہیں، سواے سورۂ براءۃ کے، کیونکہ یہ قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورہ تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو سورتوں کی ترتیب میں اس کی جگہ نہیں بتائی تھی، یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے اور صحابہ نے اسے سورۂ انفال کے ساتھ ملا دیا۔“
اس نقطۂ نظر کی بنیاد عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت پر ہے، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ:
قلت لعثمان بن عفان: ما حملكم أن عمدتم إلى الأنفال وهي من المثاني وإلى براءة وهي من المئين فقرنتم بينهما ولم تكتبوا بينهما سطر بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيم ووضعتموها في السبع الطول، ما حملكم على ذلك؟ فقال عثمان: كانت الأنفال من أوائل ما نزلت بالمدينة وكانت براءة من آخر القران وكانت قصتها شبيهة بقصتها فظننت أنها منها، فقبض رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ولم يبين لنا أنها منها، فمن أجل ذلك قرنت بينهما ولم أكتب بينهما سطر بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيم، فوضعتها في السبع الطول. (ترمذی، رقم ۳۱۵۸)
’’میں نے سیدنا عثمان سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ لوگوں نے سورۂ انفال کو، جو مثانی، (یعنی ۱۰۰ سے کم آیات والی سورتوں) میں سے ہے، اور سورۂ براءۃ کو، جو ’مئين‘ (یعنی ۱۰۰ سے زائد آیات والی سورتوں) میں سے ہے، اکٹھا کر دیا اور دونوں کے مابین بسم اللہ بھی نہیں لکھی اور دونوں کو قرآن کی سات لمبی سورتوں کے درمیان رکھ دیا؟ سیدنا عثمان نے کہا کہ انفال مدینہ میں بالکل ابتدا میں نازل ہوئی تھی، جب کہ سورۂ توبہ بالکل آخر میں قرآن میں نازل ہوئی، اور اس کا مضمون سورۂ انفال کے مضمون کے مشابہ تھا، جس کی وجہ سے مجھے خیال ہوتا تھا کہ یہ سورۂ انفال ہی کا حصہ ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ انفال کا حصہ ہے۔ اس وجہ سے میں نے دونوں سورتوں کو ملا دیا اور دونوں کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھی اور ان کو سات لمبی سورتوں کے درمیان رکھ دیا۔ “
تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن کی تمام سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حین حیات پورے قرآن کو سورتوں کی موجودہ ترتیب کے ساتھ مرتب فرما دیا تھا۔ ان اہل علم کے نزدیک قرآن مجید جس ترتیب سے لوح محفوظ میں موجود ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول مکمل ہونے کے بعد اس کا اسی ترتیب سے مرتب ہونا ضروری تھا۔ جبریل ہر سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت تک نازل شدہ سورتوں کا دور کرتے تھے جو لوح محفوظ کی ترتیب کے مطابق ہوتا تھا۔ اسی طریقے کے مطابق عرضۂ اخیرہ میں بھی قرآن کی تمام سورتیں اپنی موجودہ ترتیب کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دی گئی تھیں (سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن ۱/ ۲۱۷۔ فراہی، تفسیر سورۂ قیامہ، ص ۲۳۳)۔
یہ اہل علم اس ضمن میں ان روایات سے بھی استشہاد کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی سورتوں کی موجودہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی معروف تھی۔ مثلاً واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أعطيت مكان التوراة السبع، وأعطيت مكان الزبور المئين، وأعطيت مكان الإنجيل المثاني، وفضلت بالمفصل. (احمد، رقم ۱۶۶۷۵)
’’ مجھے تورات کی جگہ قرآن کی سات لمبی سورتیں دی گئی ہیں، زبور کی جگہ ’مئین‘ (۱۰۰ آیات والی سورتیں) اور انجیل کی جگہ مثانی دی گئی ہیں، اور مفصل کی سورتیں مجھے اس پر زائد عنایت کی گئی ہیں۔“
ایک روایت میں اوس بن حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عہد نبوی میں بنو ثقیف کے وفد کے ساتھ مدینہ آئے تھے (جو رمضان ۱۰/ ہجری کا واقعہ ہے)۔ اس موقع پر انھوں نے قرآن کے حصوں کے متعلق صحابہ سے دریافت کیا تو انھیں یہ جواب دیا گیا:
فسألنا أصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حين أصبحنا، قال: قلنا: كيف تحزبون القرآن؟ قالوا: نحزبه ثلاث سور، وخمس سور، وسبع سور، وتسع سور، وإحدى عشرة سورة، وثلاث عشرة سورة، وحزب المفصل من قاف حتى يختم.( احمد، رقم ۱۵۸۶۵)
’’صبح ہوئی تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے پوچھا کہ آپ قرآن کی سورتوں کو مختلف حصوں میں کیسے تقسیم کرتے ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ ہم انھیں اس طرح تقسیم کرتے ہیں: (فاتحہ کے بعد) تین سورتیں، پھر پانچ سورتیں، پھر سات سورتیں، پھر نو سورتیں، پھر گیارہ سورتیں، پھر تیرہ سورتیں اور آخر میں سورۂ قاف سے قرآن کے آخر تک باقی سورتیں۔ “
روایت میں مذکورہ سورتوں کے سات مجموعوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
پہلا مجموعہ بقرہ سے نساء تک تین سورتوں پر،
دوسرا مجموعہ مائدہ سے توبہ تک پانچ سورتوں پر،
تیسرا مجموعہ یونس سے النحل تک سات سورتوں پر،
چوتھا مجموعہ بنی اسرائیل سے فرقان تک نو سورتوں پر،
پانچواں مجموعہ شعراء سے یٰس تک گیارہ سورتوں پر،
چھٹا مجموعہ الصافات سے الحجرات تک تیرہ سورتوں پر
اور ساتواں مجموعہ ق سے الناس تک قرآن کی باقی سورتوں پر مشتمل ہے۔
اس تقسیم میں سورۂ براءۃ بھی شامل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی سورتوں کی یہ ترتیب قائم ہو چکی تھی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أخذ السبع الأول من القرآن فهر حبر.( احمد، رقم ۲۴۰۰۹)
’’جو قرآن کی پہلی سات سورتیں سیکھ لے، وہ تو ایک بڑا عالم ہے۔“
ان روایات کا حوالہ دیتے ہوئے ابو جعفر النحاس لکھتے ہیں :
فيه البيان أن تأليف القرآن عن اللّٰه تعالىٰ، وعن رسوله، لا مدخل لأحد فيه ... فهذا التأليف من لفظ رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وهذا أصل من أصول المسلمين لا يسعهم جهله، لأن تأليف القرآن من إعجازه.(الناسخ والمنسوخ ۱ /۴۷۸)
’’اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی ترتیب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے اور اس میں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں۔ ... یہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق رکھی گئی ہے اور یہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ ہے، جس سے وہ لاعلم نہیں ہو سکتے، کیونکہ قرآن کی ترتیب بھی اس کے اعجاز کا حصہ ہے۔“
جہاں تک سورۂ براءۃ سے متعلق سیدنا عثمان کے بیان کا تعلق ہے تو کئی اہل علم نے، جن میں سورتوں کی ترتیب کو اجتہادی قرار دینے والے بعض حضرات بھی شامل ہیں، اس پر مختلف اشکالات اور تحفظات پیش کیے ہیں۔ مثلاً ابوجعفر النحاس اور امام طحاوی کی راے میں سورۂ براءۃ کو سورۂ انفال کا حصہ تصور کرنا سیدنا عثمان کا ذاتی گمان تھا، جو حقیقت واقعہ سے ناواقفیت پر مبنی تھا، کیونکہ ان دونوں کا الگ الگ سورتیں ہونا متعدد دلائل سے ثابت ہے (شرح مشکل الآثار ۳ / ۴۰۴۔ الناسخ والمنسوخ ۱/ ۴۷۷ - ۴۸۳)۔
قاضی ابوبکر الباقلانی نے اس روایت کے ان الفاظ کو غیر محفوظ قرار دیا ہے جن سے مترشح ہوتا ہے کہ سیدنا عثمان، سورۂ براءۃ کو سورۂ انفال ہی کا حصہ گمان کرتے تھے، کیونکہ روایت سے ہی یہ واضح ہے کہ انھیں ان دونوں سورتوں کا الگ الگ ہونا معلوم تھا۔ لکھتے ہیں:
ولسنا نعلمُ قطعًا أن كلام عثمان خرج على هذا الوجه، بل لعله خرج على وجه آخرَ بزيادةِ لفظة ونقصان لفظة اختصرَه الراوي أو زادَ فيه، ويدل على ذلك أيضًا أنّ عثمانَ قد قال وعَلِمَ أن كلّ واحدة من السورتين لها اسمٌ يخُصها وعَلَمٌ تُعرَفُ به.(الانتصار للقرآن ۱ / ۲۸۲)
’’ہم قطعی طور پر نہیں جانتے کہ سیدنا عثمان نے یہ بات بعینہٖ اسی طرح کہی تھی۔ ممکن ہے، انھوں نے کسی اور انداز میں کہی ہو جس کے الفاظ میں راوی نے کوئی کمی بیشی کر دی ہو (جس سے اس کا مفہوم بدل گیا ہو)۔ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ سیدنا عثمان (اسی روایت کے مطابق) جانتے تھے کہ یہ دونوں سورتیں دو الگ الگ ناموں سے معروف ہیں۔“
ابن عباس کی اس روایت پر حدیث کے بعض محققین نے بھی سند اور متن کے حوالے سے تنقید کی ہے اور اسے ایک شاذ روایت قرار دیا ہے۔ مثلاً ماضی قریب کے معروف محدث احمد محمد شاکر لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں یزید الفارسی ایک مجہول راوی ہے اور یہ قرآن کی سورتوں کی ترتیب کے بارے میں بھی شک پیدا کرتی ہے جو کہ تواتر سے معلوم ہے۔ احمد شاکر لکھتے ہیں کہ محدثین کےمسلمہ اصول کی روشنی میں اس چیز کو اس روایت کے موضوع ہونے کی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے:
وفيه تشكيك في معرفة سور القرآن الثابتة بالتواتر القطعي، قراءة وسماعًا وكتابة في المصاحف، وفيه تشكيك في إثبات البسملة في أوائل السور، كأن عثمان كان يثبتها برأيه وينفيها برأيه، وحاشاه من ذلك، فلا علينا إذا قلنا إنه «حديث لا أصل له» تطبيقًا للقواعد الصحيحة التي لا خلاف فيها بين أئمة الحديث. (مسند احمد، تحقیق: احمد محمد شاکر ۱ / ۳۳۳)
’’اس سے قرآن کی سورتوں کے متعلق بھی شک وشبہ پیدا ہوتا ہے، جو قراءۃً اور سماعاً اور لکھے ہوئے مصاحف میں قطعی تواتر سے ثابت ہے، اور سورتوں کے آغاز میں بسم اللہ لکھنے کےمتعلق بھی شک جنم لیتا ہے۔ گویا عثمان رضی اللہ عنہ اپنی راے سے بسم اللہ لکھنے یا نہ لکھنے کا فیصلہ کر رہے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم مستند قواعد کا اطلاق کرتے ہوئے جن کے متعلق ائمۂ حدیث کے مابین کوئی اختلاف نہیں، اس روایت کے متعلق اگر یہ کہیں کہ یہ بے بنیاد روایت ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔“
احمد شاکر نے یہی راے اپنے استاذ علامہ رشید رضا کے حوالے سے بھی نقل کی ہے۔ حدیث کے معاصر محقق، شعیب الارنؤوط نے بھی اس روایت سے متعلق احمد شاکر کی مذکورہ تحقیق کو نقل کر کے اس کی تائید کی ہے (مسند احمد، تحقیق: شعیب الارنؤوط ۱/ ۴۶۱)۔
ماضی قریب کے معروف محدث علامہ البانی نے بھی اس روایت کو سنداً ضعیف اور متن کے لحاظ سے منکر قرار دیا ہے۔ البانی لکھتے ہیں کہ روایت کے متن میں اس پہلو سے نکارت پائی جاتی ہے کہ سیدنا عثمان کی بات میں داخلی تضاد ہے۔ ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ سورۂ انفال مدینہ کے ابتدائی دور میں اور براءۃ آخری دور میں نازل ہوئی تھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں کوالگ الگ سورتیں مان رہے ہیں، لیکن دوسری طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ دونوں کا مضمون ملتا جلتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے پہلے یہ واضح نہیں کر سکے کہ سورۂ براءۃ، سورۂ انفال کا حصہ نہیں ہے، اس لیے میں نے دونوں کو اکٹھا رکھ دیا۔ البانی لکھتے ہیں:
ثم إن في الحديث نكارة، وهو قوله: قُبِض رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ولم يبين لنا أنها منها فإنه ينافي قوله بعْدُ: وكانت الأنفال من أول ما أنزل عليه بالمدينة، وكانت (براءة) من آخر ما نزل من القرآن.
(ضعیف ابی داؤد ۱/ ۳۰۸)
’’پھر روایت میں نکارت بھی پائی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ سیدنا عثمان کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور ہمیں یہ نہیں بتایا کہ سورۂ براءۃ، سورۂ انفال کا حصہ ہے۔ پھر اس کے بعد اس سے متضاد بات کہتے ہیں کہ انفال مدینہ کے بالکل ابتدائی دور میں، جب کہ براءۃ بالکل آخری دور میں قرآن میں نازل ہوئی تھی (جس کا مطلب یہ ہے کہ براءۃ، انفال سے الگ ایک مستقل سورت ہے)۔“
مولانا امین احسن اصلاحی نے مذکورہ مواقف میں سے تیسرے موقف سے اتفاق کیا اور سورتوں کی ترتیب کے توقیفی ہونے کا نقطۂ نظر اختیار کیا ہے، البتہ مولانا نے اس کی تائید میں قرآن مجید سے ایک منفرد استدلال پیش کیا ہے۔ مولانا کے مطابق قرآن کی سورتوں کا ایک خاص ترتیب سے رکھا جانا خود قرآن میں منصوص ہے۔ اس کے لیے مولانا سورۂ حجر اور سورۂ زمر میں ’مَثَانِی ‘ کی تعبیر سے استدلال کرتے ہیں، جو قرآن مجید کے لیے استعمال کی گئی ہے۔
سورۂ زمر میں ارشاد ہے :
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ.(۳۹: ۲۳)
’’(لوگو)، اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب کی صورت میں جس کا ہر جزو دوسرے سے ہم رنگ اور جس کی سورتیں جوڑے جوڑے ہیں۔ “
مفسرین نے عموماً ’مَثَانِی ‘ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ قرآن میں ایک ہی مضمون کو مختلف اسالیب میں بار بار دہرایا گیا ہے یا یہ کہ قرآن کی آیات کی بار بار تلاوت کی جاتی ہے۔ مولانا اصلاحی نے اس تفسیر سے اس بنیاد پر اختلاف کیا ہے کہ ’مثاني ‘، ’مثنی‘ کی جمع ہے، جس کا مطلب بار بار دہرائی جانے والی چیز نہیں، بلکہ دو کا مجموعہ، یعنی جوڑا ہوتا ہے۔ قرآن میں اس لفظ کے تمام نظائر اسی مفہوم کو واضح کرتے ہیں۔ مثلاً :
فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰي وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ. (النساء ۴: ۳)
’’تو ان خواتین سے جو تمھیں پسند ہوں، نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار۔“
اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰي وَفُرَادٰي ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا. (سبا ۳۴: ۴۶ )
’’یہ کہ تم اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، دو دو ہوکر اور اکیلے اکیلے، پھر غور کرو۔“
جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِيْ٘ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰي وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ. (فاطر ۳۵: ۱)
’’فرشتوں کو پیغام بر بنانے والا، جن کے دو دو، تین تین، چار چار پر ہیں۔“
مولانا اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن کو اس مفہوم میں ’مثاني‘ کہا گیا ہے کہ اس کی سورتیں معنوی مناسبت کے اعتبار سے جوڑا جوڑا ہیں، یعنی دو سورتیں مل کر ایک ہی مضمون کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرتی ہیں۔
اسی نکتے کی روشنی میں مولانا نے سورۂ حجر کی اس آیت کی بھی تفسیر کی ہے:
وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ.( ۱۵: ۸۷)
’’اور ہم نے تمھیں سات مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔“
مولانا کے نزدیک اس آیت میں ’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ ‘اور ’الْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ‘ کا مصداق ایک ہی ہے اور عطف، تفسیر وتوضیح کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہم نے آپ کو قرآن عظیم دیا ہے، جس کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں اور قرآن میں ان سورتوں کو سات مجموعوں کی صورت میں رکھا گیا ہے۔ اس تفسیر کے مطابق سورتوں کا سات مجموعوں میں تقسیم ہونا اور آپس میں جوڑے کی نسبت رکھنا اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ان کی ترتیب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی گئی ہو۔
مولانا کی یہ تاویل بنیادی طور پر ان علماے تفسیر کی راے سے ہم آہنگ ہے جو ’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ ‘ کا مصداق پورے قرآن کو قرار دیتے اور ’سَبْعًا‘ سے مراد قرآن مجید کی سورتوں کے سات مجموعے لیتے ہیں،[1] تاہم ’مَثَانِی ‘ کے مفہوم اور سات مجموعوں کی تعیین میں مولانا کی راے ان سے مختلف ہے۔ چنانچہ ابن الجوزی نے ابن قتیبہ کے تفسیری قول کی روشنی میں ’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ ‘ کا مفہوم یوں واضح کیا ہے:
وقال ابن قتيبة: قد يكون المثاني سور القرآن كله، قصارها وطوالها، وإِنما سمي مثاني لأنّ الأنباء والقصص تثنّى فيه، فعلى هذا القول المراد بالسبع: سبعة أسباع القرآن، ويكون في الكلام إِضمار، تقديره: وهي القرآن العظيم. (زاد المسیر ۲/ ۵۴۲)
’’ابن قتیبہ نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ مثانی سے مراد قرآن کی تمام چھوٹی اور بڑی سورتیں ہوں۔ ان کو مثانی اس لیے کہا گیا ہے کہ ان میں اخبار اور واقعات بار بار بیان کیے گئے ہیں۔ اس قول کی رو سے ’سَبْعًا‘ سے مراد قرآن کی سورتوں کے سات مجموعے ہوں گے اور جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ ’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ‘ ہی ’الْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ‘ ہیں۔“
ان سات مجموعوں کی تعیین عموماً اس روایت کی روشنی میں کی جاتی ہے جو اوپر نقل کی جا چکی ہے اور جس میں ذکر ہوا ہے کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق سات دنوں میں قرآن کی تلاوت مکمل کرنے کے لیے) صحابہ نے قرآن کی سورتوں کو سات مجموعوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔
اس راے کے قائلین کے سامنے دو اہم اشکال ہیں، جن کا وہ جواب دیتے ہیں:
پہلا یہ کہ اگر اس کا مصداق پورا قرآن ہے تو پھر اس حدیث کا کیا مفہوم ہے جس میں سورۂ فاتحہ کو ’
السبع المثانی‘ قرار دیا گیا ہے؟ اس کے جواب میں زرکشی لکھتے ہیں کہ قرآن کی اپنی تصریح کے مطابق پورا قرآن ’مثانی ‘ ہے، اس لیے حدیث میں سورۂ فاتحہ کو ’
السبع المثانی‘ کا مصداق قرار دینا اس اسلوب کے تحت ہے کہ قرآن میں سورۂ فاتحہ پر یہ مضمون سب سے زیادہ صادق آتا ہے:
وقد يكون اللفظ مقتضيًا لأمر ويحمل على غيره لأنه أولى بذلك الاسم منه وله أمثلة منها تفسيرهم السبع المثاني بالفاتحة مع أن اللّٰه أخبر أن القرآن كله مثاني.(البرہان ۲ / ۱۹۶)
’’کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کا تقاضا تو کچھ اور ہوتا ہے، لیکن اسے محمول کسی اور مفہوم پر کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ اس کا زیادہ بہتر مصداق بن سکتا ہے۔ اس کی مثالوں میں سے ایک یہ ہے کہ ’السبع المثانی‘ کی تفسیر سورۂ فاتحہ سے کی جاتی ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے خود بتایا ہے کہ پورا قرآن مثانی ہے۔“
دوسرا اشکال یہ ہے کہ یہ آیت سورۂ حجر میں ہے، جو مکی سورہ ہے اور اس وقت تک نہ تو پورا قرآن نازل ہوا تھا اور نہ اس کی سات طویل سورتیں آپ کو دی گئی تھیں، جن میں سے بیش تر مدنی سورتیں ہیں، اس لیے اس آیت کے نزول کے وقت اس تعبیر کا مصداق پورے قرآن کو یا سات بڑی سورتوں کو کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
قرطبی نے اس اشکال کا ذکر کر کے اس کا جواب یوں دیا ہے:
وأنكر قوم هذا وقالوا: أنزلت هذه الآية بمكة ولم ينزل من الطول شيء إذ ذاك، وأجيب بأن اللّٰه تعالىٰ أنزل القرآن إلى السماء الدنيا ثم أنزله منها نجومًا، فما أنزله إلى السماء الدنيا فكأنما آتاه محمدًا صلى اللّٰه عليه وسلم وإن لم ينزل عليه بعد.(تفسیر القرطبی ۱۰ / ۵۵)
’’اور ایک جماعت نے اس تفسیر پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ آیت تو مکے میں تب اتری تھی جب ابھی سات لمبی سورتوں میں سے کوئی بھی نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن کو آسمان دنیا پر نازل کر دیا تھا اور پھر وہاں سے اس کو اجزا میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر) اتارا گیا۔ تو جو چیز (آپ کو دینے کے لیے) اللہ نے آسمان دنیا پر اتار دی تھی، وہ گویا آپ کو عطا کر دی تھی، چاہے ابھی آپ پر نازل نہ کی گئی ہو۔“
آلوسی نے اس اشکال کا جواب عربی زبان کے ایک دوسرے اسلوب کے حوالے سے یوں دیا ہے:
وقيل: إنه تنزيل للمتوقع منزلة الواقع في الامتنان ومثله كثير.(روح المعانی ۷ / ۳۲۱)
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز کو جو آیندہ متوقع ہے، گویا واقع شدہ فرض کر کے اس کا ذکر کرنے کا اسلوب ہے، جو احسان جتانے کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہے اور اس کی مثالیں (قرآن میں) بہت ہیں۔“
مراد یہ کہ اللہ کی طرف سے پورا قرآن اتارنے کا جو وعدہ یقینی طور پر پایۂ تکمیل کو پہنچنے والا ہے، مقام امتنان میں اس کا ذکر اللہ نے یہاں یوں کر دیا ہے، جیسے وہ وعدہ پورا کیا جا چکا ہے۔
مولانا اصلاحی نے بنیادی طور پر اسی تیسری راے کو ترجیح دی ہے، البتہ مثانی کے مفہوم اور سورتوں کے سات مجموعوں کی تعیین میں مولانا کی راے تفسیری ذخیرے میں منفرد ہے۔ مولانا اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’رہا یہ سوال کہ اس کے ’مثانی‘ ہونے کا کیا مفہوم ہے تو اس کا صحیح جواب ہمارے نزدیک وہی ہے جس کی طرف ہم اس کتاب کے مقدمہ میں اشارہ کر آئے ہیں کہ قرآن کی تمام سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔ ہر سورہ اپنے ساتھ اپنا ایک مثنیٰ بھی رکھتی ہے۔ ہم نے بڑی سورتوں میں سے بقرہ اور آل عمران کو اور چھوٹی سورتوں میں معوذتین کو اس کی مثال میں پیش کیا ہے اور اپنی اس کتاب میں سورتوں کی تفسیر کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو برابر واضح کرتے آرہے ہیں۔
ہم نے مقدمہ میں نہایت تفصیل کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ قرآن میں سورتوں کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان کے الگ الگ سات گروپ یا سات مجموعے بن گئے ہیں۔ ہر گروپ ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر تمام ہوتا ہے۔ اس طرح قرآن گویا سات ابواب پر مشتمل ہے جن کے اندر سورتوں کی حیثیت فصلوں کی ہے۔ ... اس روشنی میں زیر بحث آیت کی تاویل ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ہم نے تمھیں سات مثانی کا مجموعہ، یعنی قرآن عظیم دیا۔“ (تدبر قرآن ۴ / ۳۷۷)
مولانا کی تحقیق کے مطابق ان میں سے پہلا مجموعہ فاتحہ سے المائدہ تک، دوسرا مجموعہ الانعام سے التوبہ تک، تیسرا مجموعہ یونس سے النور تک، چوتھا مجموعہ الفرقان سے الاحزاب تک، پانچواں مجموعہ سبا سے الحجرات تک اور ساتواں مجموعہ ق سے الناس تک کی سورتوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر مجموعہ قرآن کے ایک باب کی، جب کہ سورتیں اس کی فصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔[2]
مصنف نے بھی اس بحث میں مولانا اصلاحی کے موقف کو ہی اختیار کیا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ مفسرین مذکورہ آیت میں ’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ ‘کے مصداق کی تعیین میں دو مزید آرا کا بھی ذکر کرتے ہیں:
ایک راے یہ ہے کہ اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے جس کی آیات کی تعداد بسم اللہ کو شامل کر کے سات بنتی ہے اور ان آیات کو اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ وہ نماز میں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ اس راے کی تائید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے استشہاد کیا جاتا ہے جس میں آپ نے سورۂ فاتحہ کو ’السبع المثانی والقرآن العظیم‘ کا مصداق قرار دیا (بخاری، رقم ۴۴۴۸)۔
دوسری راے ابن عباس اور بعض تابعین سے یہ منقول ہے کہ اس کا مصداق ’السبع الطوال‘، یعنی قرآن کی سات لمبی سورتیں ہیں (نسائی، رقم ۹۱۲) جن میں البقرہ سے الاعراف تک اور اس کے بعد یونس کو شمار کیا جاتا ہے۔ یہ حضرات ان سورتوں کو اس مفہوم میں مثانی قرار دیتے ہیں کہ ان میں قرآن مجید کے بنیادی مضامین مثلاً اوامر ونواہی، قصص اور امثال وغیرہ بار بار دہرائے گئے ہیں۔
[2]۔ اس راے کی توضیح پر آگے ’’نظم قرآن“ کے مبحث کے تحت بات کی جائے گی۔