بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ اِنْ فِيْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ٥٦
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بغیر کسی سند کے، جو اُن کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکال رہے ہیں، اُن کے دلوں میں تو صرف بڑائی کی ہوس سمائی ہے[146] جس کو وہ کبھی پانے والے نہیں ہیں۔ سو (اِن سے بے پروا ہو جاؤ اور)اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔ وہی درحقیقت سننے والا، دیکھنے والا ہے۔[147] ۵۶
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ٥٧ وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰي وَالْبَصِيْرُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِيْٓءُ قَلِيْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ ٥٨ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ٥٩ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ٘ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ٦٠
(اِنھیں تعجب ہے کہ لوگ مرنے کے بعد کس طرح اٹھائے جائیں گے)!واقعہ یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔(اِن کا خیال ہے کہ سب مر کر مٹی ہو جائیں گے۔ ہرگز نہیں)، اندھے اور بینا[148] برابر نہیں ہو سکتے اور نہ ایمان والے اور نیکوکار اور جو برائی کرنے والے ہیں، وہ برابر ہو سکتے ہیں۔ (لوگو)، تم بہت کم سوچتے ہو۔[149] یہ بالکل قطعی ہے کہ قیامت آ کے رہے گی، اِس میں کوئی شک نہیں، مگر اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔ (اِس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ بندگی سے گریزاں ہیں) اور تمھارا پروردگار کہہ چکا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمھاری التجائیں قبول کروں گا۔[150] یہ حقیقت ہے کہ جولوگ غرور کے مارے میری بندگی سے سرتابی کرتے ہیں،[151] وہ ذلیل ہو کر عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔ ۵۷- ۶۰
اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ ٦١ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاَنّٰي تُؤْفَكُوْنَ ٦٢ كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِيْنَ كَانُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ ٦٣
(لوگو) ، اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمھارے لیے تاریک بنایا تاکہ اُس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا تاکہ اُس میں کام کرو۔[152] حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔[153]یہی اللہ تمھارا پروردگار ہے،[154] ہر چیز کا خالق، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔[155] پھر کہاں سے اوندھے ہو جاتے ہو؟ اِسی طرح وہ لوگ بھی اوندھے ہوتے رہے ہیں جو (تم سے پہلے) اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ ۶۱- ۶۳
اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ٦٤ هُوَ الْحَيُّ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَﵧ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٦٥
اللہ ہی ہے جس نے زمین کو تمھارے لیے مستقر اور آسمان کو چھت بنایا اور تمھاری صورت گری کی تو تمھاری صورتیں نہایت عمدہ بنائیں اور تم کو پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا فرمایا۔یہی اللہ تمھارا پروردگار ہے۔ سو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، جہانوں کا پروردگار۔ وہی زندہ ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، لہٰذا اُسی کو پکارو، اطاعت کو اُس کے لیے خالص کرکے۔ شکر کا سزاوار اللہ ہی ہے، جہانوں کا پروردگار۔۶۴- ۶۵
قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَمَّا جَآءَنِيَ الْبَيِّنٰتُ مِنْ رَّبِّيْ وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٦٦ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْ٘ا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًاﵐ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰي مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْ٘ا اَجَلًا مُّسَمًّي وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ٦٧ هُوَ الَّذِيْ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ فَاِذَا قَضٰ٘ي اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ٦٨
اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر) کہ مجھے تو اِس سے روک دیا گیا ہے کہ میں اُن کی بندگی کروں جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ (نہیں، میں اُن کی بندگی نہیں کر سکتا)، جب کہ میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس کھلی دلیلیں آ چکی ہیں اور مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ میں اپنے آپ کو رب العٰلمین کے حوالے کر دوں۔[156] وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر تم کو وہ بچے کی صورت میں ماں کے پیٹ سے نکالتا ہے، پھر تم کو پروان چڑھاتا ہے کہ اپنی جوانی کو پہنچو، پھر تم کو مہلت دیتا ہے کہ بڑھاپے کو پہنچ جاؤ۔[157] اور تم میں سے کوئی اِس سے پہلے ہی مر جاتا ہے اور کسی کو وہ مہلت دیتا ہے[158] کہ تم ایک مقررمدت پوری کر لو اور یہ سب اِس لیے کہ تم (حقائق کو) سمجھو۔[159] وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت بھی۔ (اُس کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے)۔ چنانچہ وہ جب کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کو صرف یہ کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ ۶۶- ۶۸
اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِ اللّٰهِ اَنّٰي يُصْرَفُوْنَ ٦٩ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ وَبِمَا٘ اَرْسَلْنَا بِهٖ رُسُلَنَاﵵ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ٧٠ اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْ٘ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ يُسْحَبُوْنَ ٧١ فِي الْحَمِيْمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ ٧٢ ثُمَّ قِيْلَ لَهُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ ٧٣ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِﵧ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَيْـًٔا كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِيْنَ ٧٤ ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ ٧٥ اُدْخُلُوْ٘ا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا فَبِئْسَ مَثْوَي الْمُتَكَبِّرِيْنَ ٧٦
تم نے دیکھے نہیں یہ لوگ جو (اِن سب حقائق کو دیکھتے اور اِس کے باوجود) اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں، یہ کہاں سے پھیر دیے جاتے ہیں؟ (یہی) جنھوں نے اللہ کی اِس کتاب کو[160] جھٹلا دیا اور اُن صحیفوں کو بھی جن کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا تھا۔ سو عنقریب جان لیں گے، جب اِن کی گردنوں میں طوق اوراِن کے پاؤں میں[161] زنجیریں ہوں گی۔ یہ کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹے جائیں گے، پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ پھر اِن سے پوچھا جائے گا: کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے مقابل میں شریک ٹھیراتے تھے؟یہ کہیں گے: وہ ہم سے کھوئے گئے، نہیں، بلکہ ہم تو اِس سے پہلے کسی چیز کو پوجتے ہی نہیں رہے۔ اللہ اِس طرح اِن منکروں کے حواس گم کر دے گا (کہ مانیں گے بھی اورانکار بھی کریں گے)۔ [162] ارشاد ہو گا: یہ تم اِس انجام کو اِس لیے پہنچے کہ زمین میں ناحق ریجھتے پھرتے رہے[163] اور اِس لیے کہ تم اتراتے تھے۔ (اب جاؤ)، جہنم کے دروازوں میں[164] داخل ہو جاؤ، تم اُس میں ہمیشہ رہو گے۔ سو کیا ہی برا ٹھکانا ہے تکبر کرنے والوں کا! ۶۹- ۷۶
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ ٧٧
(یہ نہیں مان رہے، اے پیغمبر)، توصبر کرو۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا وعدہ بر حق ہے۔ پھر جس عذاب کی وعید ہم اِنھیں سنارہے ہیں، اُس کا کچھ حصہ ہم تمھیں دکھا دیں یا تم کو وفات دیں اور اِس کے بعد اِن سے نمٹیں،[165] بہرکیف اِن کو پلٹنا ہماری ہی طرف ہے۔ ۷۷
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ فَاِذَا جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ ٧٨
تم سے پہلے بھی ہم نے بہت سے رسول بھیجے ہیں۔ اُن میں وہ بھی ہیں جن کے حالات ہم نے تمھیں سنا دیے ہیں اور وہ بھی جن کے حالات ہم نے تمھیں نہیں سنائے۔ اُن میں سے کسی رسول کا مقدور نہ تھا کہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ کوئی نشانی لے آئے۔[166] اِس لیے (انتظار کرو)، جب اللہ کا حکم آ جائے گا تو پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اُس وقت یہی اہل باطل خسارے میں ہوں گے۔۷۸
اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ ٧٩ وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوْا عَلَيْهَا حَاجَةً فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَي الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ ٨٠ وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ فَاَيَّ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُنْكِرُوْنَ ٨١
(لوگو، نشانیاں مانگتے ہو تو ذرا یہ نشانی بھی دیکھو کہ) اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے چوپایے پیدا کیے کہ اُن میں سے کسی سے سواری کا کام لو اور کسی کو تم کھاتے ہو اور اُن میں تمھارے لیے دوسری منفعتیں بھی ہیں۔ یہ اِس لیے بھی پیدا کیے گئے کہ تمھارے دلوں میں جہاں جانے کی حاجت ہو، تم اُن پر سوار ہو کر وہاں پہنچ جاؤ۔[167] (تم اگر غور کرو تو صحراؤں اور سمندروں میں)تم اُن پر اور کشتیوں پر لدے پھرتے ہو۔ وہ اپنی اور بھی نشانیاں تمھیں دکھاتا ہے، پھر تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے! ۷۹- ۸۱
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوْ٘ا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِي الْاَرْضِ فَمَا٘ اَغْنٰي عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ٨٢
(یہ نہیں مانتے) تو کیا یہ اِس ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ اُن لوگوں کا انجام کیا ہوا جو اِن سے پہلے گزرے ہیں؟وہ اپنی قوت کے لحا ظ سے بھی اِن سے کہیں بڑھ کر اور زمین میں اپنے آثار کے لحاظ سے بھی اِن سے کہیں زیادہ تھے[168] تو اُن کی یہ کمائی اُن کے کچھ کام بھی نہیں آئی۔ ۸۲
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ٨٣ فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْ٘ا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ ٨٤ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ ٨٥
چنانچہ اُن کے رسول جب اُن کے پاس کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آئے تو وہ اپنے اُس علم پر نازاں رہے[169] جو اُن کے پاس تھا اوراُنھیں اُس عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ پھر جب اُنھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم خداے واحد پر ایمان لائے اور ہم اُن سب چیزوں کا انکار کرتے ہیں جنھیں ہم خدا کے شریک ٹھیراتے تھے۔پر جس وقت ہمارا عذاب دیکھ چکے تو اُن کا یہ ایمان اُن کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوا۔ یہی اللہ کی سنت ہے جو اُس کے بندوں میں جاری رہی ہے۔ اور جو منکر تھے، وہ اُس وقت خسارے میں رہے۔ ۸۳- ۸۵
[146]۔ یعنی مخالفت کی وجہ محض بڑائی کی ہوس ہے، اُس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حق اِن پر واضح نہیں ہوا یا اُس کے خلاف یہ کوئی دلیل اپنے پاس رکھتے ہیں۔
[147]۔ لہٰذا مطمئن رہو، اِن متکبروں کے شر سے وہی تم کو محفوظ بھی رکھے گا۔
[148]۔ اِس سے عقل ود ل کے اندھے اور بصیرت رکھنے والے مراد ہیں۔
[149]۔ یعنی ذرا سا بھی عقل و فہم سے کام نہیں لیتے، ورنہ یہ حقائق ایسے نہیں تھے کہ سمجھ میں نہ آتے۔
[150]۔ یہ بندگی کی دعوت کا انتہائی دل نواز اسلوب ہے۔ عالم کا پروردگار انسان کو خود بلا رہاہے کہ وہ اپنی حاجات اُس کے سامنے پیش کرے۔ اُس کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اُس کی بارگاہ تک رسائی کے لیے کسی وسیلے یا سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ اُس کا ہر بندہ، جب چاہے اور جہاں سے چاہے، اُس کے ساتھ براہ راست رابطہ پیدا کر سکتا ہے اور جو کچھ مانگنا چاہے، اُس سے مانگ سکتا ہے۔ اُس نے اگر صحیح چیز، صحیح طریقے سے اور صحیح وقت پر مانگی تو اُس کا پروردگار ضرور اُسے عطا فرمائے گا اور اگر کسی حکمت کے تحت موخر کرے گا تو کسی دوسرے وقت میں عطا فرما دے گا۔ بندے کو چاہیے کہ وہ خدا کے فیصلوں پر راضی رہے، اُس سے مایوس ہو کر ابلیس کی طرح سرکشی اختیارنہ کرے اور نہ اُس کا دروازہ چھوڑ کر دوسروں کے دروازے پر جائے، بلکہ زندگی کے آخری سانس تک اُسی کی دہلیز سے چمٹا رہے۔
[151]۔ اصل الفاظ ہیں: ’يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ‘۔ اِن میں ’عَنْ‘اِس بات کا قرینہ ہے کہ ’اِسْتِكْبَار‘ یہاں اعراض کے مفہوم پر متضمن ہے۔
[152]۔ اِس آیت میں ’الَّيْل‘ کے بعد ’مُظْلِمًا‘ اور ’مُبْصِرًا‘ کے بعد ’لِتَعْمَلُوْا‘ کے الفاظ وضاحت قرینہ کی بنا پر محذوف ہیں۔ اِس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔
[153]۔ لہٰذا بندگی سے سرتابی کرتے اوراُس کے شریک ٹھیرانے لگتے ہیں۔
[154]۔ یعنی جس نے رات اور دن کا یہ الٹ پھیر پیدا کیا، پھر اِس کے باوجود کہ دونوں اضداد تھے، اُن کے اند رایسی سازگاری اور ہم آہنگی رکھ دی کہ دونوں مل کر انسان کی پرورش کرتے ہیں اور اِس طرح زبان حال سے بتاتے ہیں کہ ہمارا خالق، اللہ ہی تمھارا پروردگار ہے۔
[155]۔ یہ اُس کے خالق ہونے کا لازمی نتیجہ ہے۔ اِس لیے کہ جب نہ خلق میں اُس کا کوئی شریک ہے، نہ مخلوقات کے نظم و تدبیر میں تو اُس کے سوا کسی کو معبود کیوں بنایا جائے؟
[156]۔ یعنی پرستش بھی اُسی کی کروں اور اطاعت بھی اُسی کی اور پورے دل کے ساتھ اُس کے سامنے سرافگندہ رہوں۔
[157]۔ اصل الفاظ ہیں:’ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ، ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًا‘۔اِن میں دو فعل استعمال ہوئے ہیں اور دونوں سے پہلے عربی زبان کے معروف اسلوب کے مطابق ایک ایک جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔
[158]۔ اوپر جس اسلوب کا ذکر ہے، اُسی کے مطابق یہ الفاظ بھی آیت میں محذوف ہیں۔
[159]۔ یعنی وہ حقائق جو خدا کی قدرت و حکمت اور توحیدو آخرت سے متعلق انبیا علیہم السلام نے واضح فرمائے ہیں۔
[160]۔ یعنی قرآن مجید کو، جو وہی تعلیم دیتا ہے جو اللہ کے پیغمبر اور اُس کی تمام کتابیں دیتی رہی ہیں۔چنانچہ قرآن کو جھٹلادیا تو گویا سب کو جھٹلا دیا۔ آگے اِسی کی وضاحت ہے۔
[161]۔ یہ الفاظ اصل میں عربیت کے معروف اسلوب کے مطابق محذوف ہیں۔
[162]۔ اِس کیفیت کی طرف قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں بھی اشارے ہیں کہ ایک ہی سانس میں یہ متکبرین اپنے معبودوں کا اقرار بھی کریں گے اور انکار بھی کہ شاید یہی چیز اِن کے لیے کچھ نافع ہو جائے۔
[163]۔ اِسے ناحق اِس لیے کہا ہے کہ انسان کو دنیا میں جو چیزیں بھی ملتی ہیں، اُن میں سے کوئی بھی اُسے اُس کے کسی ذاتی استحقاق کی بنا پر نہیں ملتی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اور اُسی کی ملکیت ہے۔ اِس وجہ سے صرف اُسی کے لیے تکبر زیبا ہے، کسی دوسرے کے لیے یہ زیبا نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا تکبر کرتا ہے تو یہ ’بِغَيْرِ الْحَقِّ‘ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی خاص ردا اپنے اوپر ڈالنے کی جسارت کر رہا ہے، جو شرک ہے۔ ’الکبریاء رداءی‘میں اِسی حقیقت کی یاددہانی کی گئی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۷/ ۶۴)
[164]۔ یہ اُن سات دروازوں کی طرف اشارہ ہے جن کی تفصیل دوسرے مقام میں ہو چکی ہے۔
[165]۔ یہ اُس سنت الہٰی کا حوالہ ہے جو رسولوں کے مکذبین کے لیے مقرر ہے۔ اِس میں بالعموم یہی دو صورتیں پیش آتی ہیں۔ پہلی صورت کی مثالیں قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہیں۔ دوسری صورت کی مثال یہود ہیں جن کی پیٹھ پر عذاب کا تازیانہ مسیح علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد برسنا شروع ہوا۔
[166]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ تمھارے مخاطبین اگر بار بار عذاب کی نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس کا فیصلہ کسی رسول کے اختیار میں بھی نہیں تھا۔ اِسے ہمیشہ خدا نے کیا ہے اور اب بھی وہی اپنی حکمت کے تحت، جب مناسب سمجھے گا، کرے گا۔
[167]۔ یہ اشارہ اونٹ کی طرف ہے جو اہل عرب کے لیے گویا سفینۂ صحرا تھا۔
[168]۔ اصل الفاظ ہیں:’كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِي الْاَرْضِ‘۔ اِن میں ’اَكْثَرَ‘ کا تعلق ’اٰثَارًا فِي الْاَرْضِ‘سے اور ’اَشَدَّ‘ کا ’قُوَّةً‘ سے ہے۔
[169]۔ یعنی وہ علم جو اُنھوں نے دنیوی ذرائع سے حاصل کیا تھا اور جسے وہ اپنی تمدنی ترقیوں کی بنیاد سمجھتے تھے۔
کوالالمپور
۲۶/ جولائی ۲۰۱۴ء
ـــــــــــــــــــــــــ