HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

کراچی عالمی کتب میلہ میں ’’المورد‘‘ کی شرکت

سید محمد رضوان علی


 انیسواں کراچی عالمی کتب میلہ  ۱۲سے ۱۶؍ دسمبر ۲۰۲۴ء تک ایکسپو سینٹر کراچی میں منعقد ہوا۔ المورد پچھلے چار سالوں سے اس کتب میلہ میں شریک ہو رہا ہے۔ اور میں ہر سال المورد کی ٹیم کے ساتھ ،جو کہ  عظیم صاحب اور حافظ عزیز صاحب پر مشتمل ہوتی ہے، رضاکار انہ طور پر شامل ہو رہا ہوں۔ اس مضمون میں اسی سفر کی کچھ روداد سنانا پیش نظر ہے۔ اس کتب میلہ کا ہر آنے والا سال المورد اور فکر فراہی کے لیے خوشی کی نوید لے کر آیا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم پہلے سال اس میں شریک ہوئے تھے تو حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں تھے۔ محبت کرنے والے تو اس وقت بھی آتے رہتے تھے، لیکن مدارس کے طلبا کی طرف سے ایک عمومی فضا بغیر سمجھے تنقید کی نظر آتی تھی، ایک ایسی تنقید جو کسی کے افکار و نظریا ت کو براہ راست سنے  اور پڑھے بغیر کی جاتی ہے۔

اس کے برعکس، اللہ کے فضل سے آج حالات اس قدر سازگار ہیں کہ علما اور طلبا کی طرف سے  غامدی صاحب کی کتابوں اور فکر فراہی کو سمجھنے کا ایک خاص رجحان نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں دیگر اہل علم کی تصنیفات کے ساتھ ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر صاحب کی کتابوں کا بھی بڑا حصہ ہے۔ انھوں نے قرآن و سنت کے باہمی تعلق کو ہماری علمی تاریخ میں ٹریس کر کے اس میں فکر فراہی اور غامدی صاحب کی خدمات کو جس طرح واضح کیا ہے، اس کی وجہ سے دینی روایت سے وابستہ افراد کے لیے فکر فراہی کی تفہیم آسان ہوگئی ہے۔اس سال کتب میلہ کا کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں معاشرے کے ہر طبقہ کی جانب سے بہترین رسپانس دیکھنے کو نہ ملا ہو، چاہے وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان ہوں یا مدارس سے پڑھے ہوئے طلبا، ہر کوئی انتہائی محبت اورخلوص سے پیش آیا اور مہنگائی کے اس دور میں کتابوں پر خصوصی ڈسکاؤنٹ کی گزارش بھی کی جاتی رہی۔  

علما اور دانش وروں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ طلباسے بھی بات کرنے کے مواقع گاہے گاہے میسر آئے۔ ان گفتگوؤں کے بعد میں یہ بات بہ آسانی کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کی فکر اب اجنبی نہیں رہی۔ ایک زمانہ تھا جب پروپیگنڈا کے ذریعے سے حقائق کو مسخ کرنا ممکن تھا، لیکن اب سوشل میڈیا اور سمارٹ فون کے ذریعے سے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا، کیونکہ اب کوئی شخص کیا نظریہ رکھتا ہے، اس کے لیے آپ بہت آسانی کے ساتھ اس کے افکار و نظریات کو خود اس کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ۲۳ اعتراضات سیریز نے بھی بہت اہم کردار ادا کیاہے ۔ اس سیریز کے ذریعے سے غامدی صاحب نے اپنے اوپر وارد ہونے والے اعتراضات کا علمی اور تحقیقی جواب دیا ہے، اور اب یہ کتابی شکل میں بھی شائع ہونا شروع ہوگئی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کتاب کے خریدنے والوں میں شامل تھی، اور جو لوگ یہ سیریز سن کر آتے، وہ اپنے علم کی روایت اور اس کی محبت سے سرشار نظر آتے۔

کراچی میں یہ کتب میلہ المورد کے لیے صرف کتب کی تجارت کا پلیٹ فارم نہیں رہا، بلکہ حقیقی معنوں میں پانی کا ایک ایسا چشمہ بن چکا ہے، جہاں علم کی پیاس بجھانے والے وارد ہوتے رہتے ہیں۔ وہ غامدی صاحب سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، ان کی تصویر کو دیکھ کر خوش ہوتے اور اسی کو غنیمت جان کر اس کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں۔ کتنے افراد یہ پوچھتے نظر آئے کہ کراچی میں المورد کی کوئی شاخ ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہے تو کب تک بنے گی؟ چاہے کوئی عالم ہو یا طالب علم، غامدی صاحب کا عشاق ہو یا نقاد ہر کوئی محبت اور احترام سے پیش آتا اور استاذ گرامی کے علمی کام کو سراہتا ہوا نظر آیا۔ خصوصی طور پر جید اہل حدیث عالم قاری خلیل الرحمٰن صاحب سے ملاقات ہوئی، جو بہت محبت سے پیش آئے اور پوچھنے پر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ ’’غامدی صاحب کو ہم ضرور پڑھتے ہیں، مگر ہماری او ران کی رگیں آپس میں نہیں ملتیں‘‘۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب تشریف لائے اور نئی آنے والی کتب کے بارے میں دریافت فرمایا اور ان کی خریداری کی۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی شفقت اور محبت سے ملے اور حسن الیاس بھائی کا ذکر خیر بھی ہوا۔ ممتاز عالم مولانا محمود الحسینی صاحب اپنے ساتھ کافی علماے کرام کو لے کر وفتاً فوقتاً تشریف لاتے رہے اور فکر فراہی کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے رہے۔ غامدی صاحب کے ناقد مفتی فضل صاحب بھی تشریف لائے اور محبت سے ملے۔

ایک عالم دین محمد نبی صاحب سے ملاقات ہوئی، جو پشین سے تشریف لائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ جس دن ہمارے تمام علمانے آؤٹ آف کورس مطالعہ شروع کردیا، اس دن ان کی نظر میں نہ مولانا مودودی گم راہ قرار پائیں گے اور نہ غامدی صاحب پر فتوے لگ سکیں گے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نصاب کے علاوہ دیگر کتب کے مطالعہ کی ترغیب ہی نہیں دی جاتی‘‘۔ دارالعلوم کراچی کے فارغ التحصیل اویس بھائی کے مطابق’’ مدرسوں میں سوال کرنے کو عمومی طور پر پسند نہیں کیا جاتا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ تجسس کی جبلت کے حامل طالب علم  پھر اسی چشمۂ صافی کا رخ کرتے اور اللہ کے فضل سے جواب حاصل کرتے ہیں اور دین متین کی صداقت پر اپنی عقلوں کو ’آمنا و صدقنا‘ کہتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ میں چونکہ بذات خود بک فیئر میں موجود ہوتا تھا، اس لیے جانتا ہوں کہ وہ کیا طلب ہے جو علمااور طلباکو غامدی صاحب کی فکر کے پاس کھینچ کر لارہی تھی۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب ان شاء اللہ سب جان جائیں گے کہ اس عہد کے چیلنج کا جواب اللہ کے فضل سے فکر فراہی نے دیا ہے۔

آخر میں جناب شکیل الرحمٰن صاحب اور جناب ریحان احمد یوسفی صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ انتہائی تندہی اور اخلاص کے ساتھ تمام معاملا ت کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ خصوصی طور پر جناب عظیم صاحب اور جناب حافظ عزیز صاحب کا تذکرہ کرنابھی انتہائی ضروری ہے، کیونکہ یہ دونوں حضرات مکمل لگن اور محنت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے اور  ان کے اخلاق اور محبت نے لوگوں سے انسیت پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ماہنامہ ’’انذار‘‘ کے رکن جناب شفیق صاحب بھی ہر موقع پر ساتھ رہے اور مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں کی۔ 

مضمون کا اختتام غامدی صاحب کے ان الفاظ پر کرنا چاہتا ہوں جو انھوں نے مدرستہ الاصلاح میں ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے امام فراہی کے علمی کام اور دور حاضر میں اس کے متوقع اثرات کو بیان کرتے ہوئے ادا کیے تھے:

’’آپ ان کی تفاسیر کا مطالعہ کریں، آپ ان کے مسودات کا مطالعہ کریں، ہر جگہ وہ مسلمانوں کے مذہبی فکر کی تشکیل جدید کی بنیادیں فراہم کر رہے ہیں۔ میں طلبہ کی خدمت میں بھی اور اساتذہ کی خدمت میں بھی یہ عرض کروں گا کہ وہ اس زاویے سے امام فراہی کا مطالعہ کریں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تاریخ اگر ایک جانب مغربی مفکرین کی تہذیبی دریافتوں پر ختم ہو رہی ہے ــــــ جیسا کہ مغربی تہذیب کے مفکرین کا خیال ہے ــــــ تو دوسری جانب اللہ کی یہ آیات بھی نمودار ہوچکی ہیں۔ ’آیت من آیات اللّٰه‘۔ اللہ کی آیتوں میں سے ایک آیت، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی۔ اور کیا بعید ہے کہ اس آخری زمانے میں اللہ کی حجت اللہ کی کتاب کے ذریعے سے فکر فراہی کی روشنی میں پوری ہوجائے۔‘‘[1]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔https://youtu.be/Rwv6iG9xmgc?feature=shared

B