اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت ہے کہ اس نے اپنے گناہ گار بندوں کے لیے معافی کا راستہ کھول رکھا ہے۔ کوئی نیک سے نیک انسان بھی یہ دعویٰ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا کہ اس کا اعمال نامہ کسی گناہ، بلکہ گناہوں کے اندراج سے خالی ہے۔چنانچہ ہر بندہ معافی کا محتاج ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور اسے مالک ارض و سما اپنی رداے عفو سے ڈھانپ لے۔
شیاطین جن و انس چاروں جانب سے برائیوں پر اکسانے کے لیے حملہ آور رہتے ہیں۔ خود انسان کے اندر بھوک، حرص ، ہوس، تعصب، انا اور تفوق جیسے محرکات ہیں، جو اسے اللہ کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز پر ابھارتے ہیں۔ یہ دنیا ، اس کی نعمتیں ؛ خاندان، اس کے ناتے؛ گروہ اور جماعتیں، ان کا بندھن؛ افراد، ان سے رشتے؛ رنگ ، نسل اور زبان کے امتیازات ، غرض طرح طرح کے اسباب ہیں، جن کے باعث انسان راہ صواب سے منحرف ہوتا ہے اور کبیرہ یا صغیرہ گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
بندۂ رب (مسلمان) کی زندگی اصل میں صحت ایمان اور صحت عمل سے عبارت ہے،یعنی ایمان اور عمل صالح۔ ان دونوں کو قرآن مجید نے جگہ جگہ یکجا بیان کیا ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں جنت کے صلے کا استحقاق ان الفاظ میں واضح کیا ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ.(۲: ۸۲)
’’اور جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، وہی جنت کے لوگ ہیں۔ وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
وہ بندۂ رب جس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے رب کی جنت پانے کے لائق بننا چاہتا ہے،اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کی صحت کا اہتمام کرے ، اس میں شرک کی آلودگی کو کسی صورت میں شامل نہ ہونے دے اور نہ اللہ تعالیٰ ، اللہ کے رسولوں اور آخرت کے بارے میں کوئی ایسا تصور قائم کرے جو قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسرے سے لیا گیا ہو۔ اسی طرح اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دین کے تمام احکام کا پابند رہے۔ احکام کی یہ پابندی حکم کے عملی اور قلبی تقاضے پورے کرتے ہوئے کی جائے۔
یہ زندگی نبھانا ، اصل امتحان ہے۔ اوپر ہم نے برائی میں پڑنے کے چند داعیات کا ذکر کیا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کی زندگی گزارنے کے فیصلے کے باوجود برائی کے داعیات ہر بندۂ مومن کو گھیرے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید نے ان احوال کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ.(الانبياء۲۱ : ۳۵)
’’حقیقت یہ ہے کہ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم اچھے اوربرے حالات سے تم لوگوں کو آزما رہے ہیں، پرکھنے کے لیے اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
خیر و شر کی یہی آزمایشیں ہیں جن سے ہر بندہ گزرتا ہے ۔ پھر وہ محرکات اور داعیات ہیں جودامن گیر ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ بندہ کبھی جادۂ مستقیم سے ہٹ جاتا ہے اور کبھی اعمال خیر میں ریا، غفلت، کوتاہی اور عدم آمادگی جیسے عیب پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت معاملہ کی سنگینی ہے، اسی لیے اللہ رحمٰن و رحیم نے توبہ کا قانون جاری فرمایا۔ سورۂ نساء میں معاف کر دینے کا ایک قاعدہ وعدے کی حیثیت سے بیان ہوا ہے:
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰٓئِكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا. (۴: ۱۷)
’’اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں،پھر جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں۔سو وہی ہیں جن پر اللہ عنایت کرتا اور اُن کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔‘‘
چوری جیسے کبیرہ گناہ کی سزا بیان کرنے کے بعد فرمایا:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْ٘ا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۣ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ. فَمَنْ تَابَ مِنْۣ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ يَتُوْبُ عَلَيْهِ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. (المائدہ ۵ : ۳۸ - ۳۹)
’’اور چور مرد ہو یا عورت اُن کے ہاتھ کاٹ دو، اُن کے عمل کی پاداش میں اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا کے طور پر اور (یاد رکھو کہ) اللہ سب پر غالب ہے، وہ بڑی حکمت والاہے۔پھر جس نے اپنے اِس ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلی تو اللہ اُس پر عنایت کی نظر کرےگا۔ بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ‘‘
سورۂ نساء کی آیت توبہ سے متعلق یہ ضابطہ واضح کرتی ہے کہ اگر گناہ کاارتکاب کسی وقتی محرک کے باعث ہوا اور گناہ گار نے جلد ہی معافی مانگ لی ہو تو اس معافی کو قبول کرنا اللہ کے ذمے ہے۔ سورۂ مائدہ کی آیت میں یہ نوید مذکور ہے کہ بڑے سے بڑے گناہ کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ شرط یہ ہے کہ معافی مانگنے والااپنی اصلاح کا پختہ ارادہ کیے ہوئے ہو۔
اگر توبہ کرنے والے نے رجوع کا حق ادا کر دیا تو اللہ اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیں گے ۔یہ نوید سورۂ فرقان میں دی گئی ہے:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا. وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَي اللّٰهِ مَتَابًا.( ۲۵ : ۷۰ - ۷۱)
’’مگر یہ کہ جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور اچھے عمل کیے تو اِسی طرح کے لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دےگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اور جو توبہ کرے اور اچھے عمل کرے، اُس کو مطمئن ہونا چاہیے، اِس لیے کہ وہ پوری سرخ روئی کے ساتھ اللہ ہی کی طرف لوٹتاہے۔‘‘
دنیا میں تین طرح کے تائب پائے جاتے ہیں:
ایک توبہ کرنے والے وہ ہیں جن پر گناہ کے بھنور سے نکلتے ہی پچھتاوا طاری ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے معافی تلافی کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اصل میں خیر و صلاح اور طاعات کی زندگی گزارنے والےہیں۔ ان کا گناہ کسی سوچے سمجھے ارادے سے وجود میں نہیں آتا، بلکہ کسی وقتی طور پر طاری ہونے والی حالت سے گناہ ہو جاتاہے۔ اسی وجہ سے ان کے گناہ کے بعد توبہ کرنے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ یہ اصل میں صالحین ہیں ۔ اسی وجہ سے ان کو یہ خوش خبری دے دی گئی ہے کہ ان کی توبہ قبول کرنا اللہ کے ذمے ہے۔سورۂ توبہ میں معلوم ہوتا ہے، انھی کا ذکر ہوا ہے:
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِﵧ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ.( ۹ : ۱۱۲)
’’وہ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، شکر کرنے والے ہیں، (خدا کی راہ میں) سیاحت کرنے والے ہیں، (اُس کے آگے) رکوع اور سجدہ کرنے والے ہیں، بھلائی کی تلقین کرنے والے ہیں، برائی سے روکنے والے ہیں اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والےہیں۔ وہی سچے مومن ہیں، (اے پیغمبر)، اوراِن مومنوں کو خوش خبری دے دو۔‘‘
دوسرے توبہ کرنے والے وہ ہیں جو ہیں تو مسلمان، لیکن ان کی زندگی تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی نہیں ہے۔ یہ گناہ کرتے ہیں اوربالعموم ضمیر کی آواز نہیں سنتے، لیکن کسی موقع پر توبہ واصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، جس کا ایک حوالہ اوپر سورۂ مائدہ میں چور ی کے جرم کی نسبت سے بیان ہوا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کی ایک قسم کا ذکر قرآن نے اس طرح کیا ہے:
وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَيِّئًا عَسَي اللّٰهُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.(التوبہ۹: ۱۰۲)
’’کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ اُنھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اورکچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ اُن پرعنایت فرمائے، اِس لیے کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘
یعنی گناہ گار تو ہیں، لیکن ان کے اندر سچا اعتراف اور رجوع پیدا ہوا ہے۔ ان کو معاف کردیے جانے کی امید دلائی گئی ہے۔ پہلے لوگوں کی طرح یہ نہیں فرمایا کہ ان کی توبہ قبول کرنا اللہ کے ذمے ہے۔
تیسرے لوگ وہ ہیں جو موت کو سامنے دیکھ کر توبہ کرتےہیں۔ ان کی توبہ قبول ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
جن لوگوں نے گناہ کی زندگی گزاری ہے، توبہ کا راستہ ان کے لیے بھی موجود ہے، لیکن ان کو اپنے تائب ہونے کو حقیقت بنانا ہے۔ ان کو اپنے ماضی کو دھونے کی مشقت اٹھانی ہے۔یہ اپنے گناہوں کا اپنے رب کے حضور سچا اعتراف کریں ۔ جن کی تلافی ہو سکتی ہے، ان کی تلافی کریں۔ آیندہ گناہوں سے بچنے کا عہد کریں اور اس پر حتی المقدور کاربند رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے توقع یہی ہے کہ ان کی سچی واپسی کی قدر ہو گی۔
اصل مطلوب کردار پہلے لوگوں کا ہے ۔ صالحیت اور تقویٰ جن کی اصل زندگی ہے۔گناہوں سے بچ کر رہنے کی سعی ان کے ہاں پیہم ہے۔ یہی اس توبہ کی توفیق پاتے ہیں، جو یقیناً قبول کر لی جائے گی۔
ـــــــــــــــــــــــــ