HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

پاکستان میں مندر کی تعمیر

[جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے اخذ و استفادہ پر مبنی]

سوال: کیا پاکستان میں ہندو مندر تعمیر ہونا چاہیے ؟

جواب: پاکستان دور جدید کی ایک قومی ریاست ہے۔ قومی ریاست اس اصول پر بنائی جاتی ہے کہ ایک خاص خطۂ ارض میں جو لوگ رہ رہے ہیں، وہ برابر کے شہری ہیں۔ جب وہ برابر کے شہری ہیں تو حکومت بھی ان سب کی نمایندہ ہوتی ہے۔ وہ سب ٹیکس دیتے ہیں اور حکومت کا نظم ان کے ذریعے سے چلتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت چلانے کے لیے جو ذمہ داریاں شہریوں پر ڈالی گئی ہیں، وہ صرف مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں، بلکہ غیرمسلموں پر بھی ڈالی گئی ہیں۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک میں ۸۰ سے ۸۵فی صد یا اس سے بھی زیادہ مسلمان ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ملائشیا میں ۵۶ سے ۵۷فی صد مسلمان ہیں، باقی زیادہ تر غیر مسلم ہیں۔ ایسی ریاستیں بھی ہیں جن میں ۵۰ فی صد یا ۹۸ فی صد مسلمان ہیں۔

چنانچہ جو بھی قومی ریاستیں ہوں گی، ان میں چونکہ سب شہریوں کی نمایندگی ہو گی اور سب شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں، اس لیے اس پر ہر ایک کے حقوق کی پاس داری کرنا لازم ہے۔ ان کے لیے مندر ، سیناگوگ اور مسجدیں بھی بنیں گی۔ جب حکومت نے یہ طے کر لیا کہ وہ شہریوں کے معاملات میں تعاون کرے گی تو یہ تعاون سب کے ساتھ کرنا ہوگا۔ ایک قومی ریاست میں آپ کسی قسم کی تفریق نہیں کر سکتے، یعنی اگر یہ طے کر لیا ہے کہ ہر کمیونٹی نے اپنی عبادت گاہ خود بنانی ہے تو آپ کو اس کےلیے بھی سہولت اور اجازت دینی پڑے گی۔ اگر یہ طے کیا ہے کہ اس میں ریاست بھی تعاون کرے گی، مثلاً ریاست جگہ دے گی یا تعمیر کے لیے کچھ معاونت کرے گی تو چونکہ آپ تمام فرقوں، تمام گروہوں اور تمام مذاہب کے ماننے والے لوگوں کی ریاست بنا کر قومی ریاست کے طور پر اس کا نظم چلا رہے ہیں، اس لیے آپ کو سب کے ساتھ یکساں معاملہ کرنا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اسلام آباد ہے یا اس میں ہندوؤں کی تعداد کیا ہے۔

اگر ان کی یہ ضرورت ہے کہ اسلام آباد میں ان کے لیے ایک مندر ہونا چاہیے تو ان کو اپنے طور پر بھی بنانے کا حق ہے۔ اگر ریاست مسجدوں کے معاملے میں تعاون کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو پھر اسے مندر کے لیے بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ قومی ریاست کا اصول یہی ہے۔ اس وقت دنیا میں جو ریاستیں بھی ہیں، انھیں اپنی حیثیت پہلے متعین کر لینی چاہیے۔ دور حاضر میں ان کی حیثیت پرانے دارالاسلام یا دارالکفر یا دار الحرب کی حیثیت نہیں ہے۔ وہ فقہ اب دنیا سے رخصت ہو چکی ہے اور وہ دور بھی چلا گیا ہے۔ یہ اسلام کی اصطلاحات نہیں تھیں، بلکہ یہ اس زمانے کی فقہ کی اصطلاحات تھیں۔ ظاہر ہے کہ اُس دور میں یہ چیزیں اپنی ایک معنویت رکھتی تھیں، مگر اب ہم قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر آپ کو کچھ تبدیل کرنا ہے تو پہلے اس بنیاد کو تبدیل کیجیے، لیکن اگر اسی بنیاد پر ریاستیں منظم ہیں تو یہ قومی ریاستیں ہیں۔

قومی ریاست بنانا اور قومی ریاست میں رہنا، یہ کوئی مذہبی لحاظ سے جرم نہیں ہے، لیکن جب اس کو بنا لیا گیا ہے تو ہر جگہ مندر بنانے کا یہ مطالبہ برحق ہو گا ۔ اگر ہم امریکا میں رہ کر یہ مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمیں مسجد بنانے کی اجازت دی جائےیا اگر امریکا کی حکومت چرچ کی مدد کرتی ہے تو مسجد کی بھی مدد کرے تو میں یہی مطالبہ کرنے کا حق پاکستان میں بھی رکھتا ہوں۔

اس حوالے سے استثنا صرف ایک سرزمین کا ہے اور وہ سرزمین عرب ہے۔ اس کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ وہاں مسلمانوں کے سوا کسی دوسرے دین کا کوئی شخص اپنی کوئی مستقل اقامت بھی نہیں رکھ سکتا۔ وہ عارضی طور پر ہی جائے گا اور اگر اس نے کوئی عبادت کی چیز بھی کرنی ہے تو عارضی طور پر ہی کرے گا۔ چنانچہ یہ سرزمین عرب یا سرزمین حجاز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون ہے، اس لیے کہ اس کی حیثیت مسجد کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے کہ :

لا یجتمع دینان في جزیرة العرب. (موطا امام مالک، رقم۱۵۸۴)
’’جزیرہ نماے عرب میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘

چنانچہ سرزمین عرب میں کوئی دوسرا دین نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ باقی دنیا میں سب قومی ریاستیں ہیں۔ قومی ریا ست کا یہی اصول ہے کہ سب کے حقوق برابر ہیں۔[1]

___________

B