اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایا اور اس کے بنانے کے مقصد کو بھی قرآن مجید میں جگہ جگہ واضح کردیا ہے کہ وہ آزما کر دیکھے کہ کون اچھے کام کرتا ہے اور کون برے کام کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو آخرت کی زندگی بنانی ہے، اس کے لیے لوگوں کا انتخاب کرسکے۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ کی ہوگی، اس میں کوئی بڑھاپا نہیں ہوگا اور نہ کوئی بیمار، اس کی نعمتیں بہت اعلیٰ ہوں گی اور ان میں کبھی کمی نہ ہوگی۔ ہر نعمت ہر دفعہ نئی شکل اور نئے ذائقہ کی ہوگی۔برتن سونے اور چاندی کے ہوں گے اور محل اور گھر سونے اور چاندی سے بنے ہوں گے۔اور فرشتے ہر طرف سے ان مومنوں پر سلامتی بھیجیں گے۔ مومنین جدھر دیکھیں گے، ادھر نعمت ہی نعمت ہوگی۔ اس زندگی سے انسان کبھی نہیں اکتائے گا۔اللہ تعالیٰ بہت ہی خوب صورت طریقے سے اس دنیا کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ سورۂ ملک میں بیان ہوا ہے:
اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا.(۶۷: ۲)
’’(وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
اس بہترین جنت کے لیے وہ انسانوں کو چن رہا ہے۔ اس وقتی اور عارضی زندگی میں اللہ تعالیٰ انسانوں کورکھ کر ان کا امتحان کر رہا ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے اور کون برے اعمال کرتا ہے۔
اپنی اس اسکیم کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے کیا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ انسان کواختیار دے کر آپ انھیں دنیا میں بھیجیں گے تو وہ اپنی من مانی کرے گا اور خون ریزیاں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بتایا کہ جب جب انسان اس دنیا میں فساد پیدا کرے گا،میرے نبی اور رسول آکر انھیں ہدایت کی طرف بلائیں گے اور انھیں غلط کاموں سے روکنے کی کوشش کریں گے۔اور جو برائی کے راستے پر ڈٹے رہیں گے تو میں ان سے جہنم کو بھر دوں گا۔ اگر ان سے نادانستگی میں غلطی ہوجائے گی اور وہ فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انھیں ضرور معاف کریں گے اور ان کے اگلےپچھلے سارے گناہ بھی معاف کردیں گے۔ چنانچہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو بنایا اور پہلا امتحان انھی سے لیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو ایک باغ میں رکھا اور ان سے کہا کہ اس باغ سے جہاں سے چاہے کھاؤ پیو، لیکن اس خاص درخت کے قریب نہ جانا اور نہ اس کا پھل چکھنا، ورنہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بن جاؤ گے، مگر شیطان نے اپنی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے انھیں ہر طرح سے بہکانے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کی اس نافرمانی کرنے کے بڑے حسین خواب دکھائے۔ اس نے آدم اور حوا سے کہا کہ اس درخت کا پھل کھانے سے تمھیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ تمھیں ہمیشہ کی زندگی ملے،اس لیے تمھیں اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا ہے (وہ درخت کیا تھا، اس کا ذکر ہم کسی پچھلے مضمون میں تفصیل سے کر چکے ہیں)۔ اس طرح آدم اور حوا نے اس کے بہکاوے میں آکر اس باغ کا پھل کھا لیا اور اپنے امتحان میں ناکام ہوگئے۔انھیں جونہی اپنی غلطی کا احساس ہوا، انھوں نے فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو معاف کردیا۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۳میں ہے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا٘ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ.
’’اے ہمارے پروردگار، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
اس پہلے واقعہ سے ہی معلوم ہوا کہ گناہ چاہے دانستہ کیا ہو یا غیر دانستہ یا پھر کسی کے بہکانے پر گناہ کا احساس ہوتے ہی فوراً اپنے رب سے معافی مانگو اور اپنی اصلاح کرلو تو اللہ تعالیٰ اپنے رحم کی چادر آپ پر اوڑھا دے گا اور آپ کی غلطیوں کو اچھائیوں میں بدل دے گا۔
سورۂ قیامہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک چھوٹی عدالت لگا رکھی ہے، جسے ہم ضمیر یا نفس لوامہ کے نام سے جانتے ہیں۔ ہم جونہی کوئی غلط کام کرتے ہیں تو یہ عدالت ہمیں فوراً ڈانٹتی ہے اورہمیں بے چین کردیتی ہے کہ تم نے یہ کام غلط کیا ہے۔ہمیں کسی پل چین نہیں آتا۔ضمیر نام کی یہ عدالت دنیا کے ہر انسان میں ہوتی ہے۔چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان،افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والے حبشی ہوں یا امریکا کے مہذب لوگ۔اس طرح یہ چھوٹی عدالت ایک بڑی عدالت کی گواہی دیتی ہے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ قیامت کو برپا کرے گا اور انسان کے تمام اعمال کا حساب کرے گا جو اعمال ہم نے دنیا میں کیے۔انھی اعمال پر ہمارے جنتی یا دوزخی ہونے کا انحصار ہوگا۔اگر ہم سے اس دنیا میں غلطی ہوجائے اور ہم فوراً معافی مانگ لیں تو اللہ پر واجب ہوتا ہے کہ وہ ہماری توبہ کو قبول کرے اورہماری کی گئی غلطیوں کو اچھائیوں میں بدل دیتا ہے۔ سورۂ قیامہ میں ہے:
لَا٘ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ. وَلَا٘ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ. اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ.(۷۵: ۱ - ۳)
’’(یہ قیامت کو جھٹلاتے ہیں)؟ نہیں، میں قیامت کے دن کو گواہی میں پیش کرتا ہوں، اور نہیں، میں (تمھارے اندر تمھارے) ملامت کرنے والے نفس کو گواہی میں پیش کرتا ہوں۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اِس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟‘‘
قرآن مجید کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلطیاں جن کا احساس غلطی کرنے کے فوراً بعد ہوجائے اور انسان ان پر معافی مانگ کر اپنی اصلاح کر لے تو وہ فوراً معاف ہوجاتے ہیں۔ دوسرے وہ گناہ ہیں جن کی معافی انسان فوراً نہیں مانگتا، لیکن اتنی دیر بھی نہیں کرتا کہ موت کے قریب ہوجائے تو اس کے گناہ بھی قرآن کریم پڑھنے سے اندازہ ہوتا کہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کردیں گے۔تیسری قسم کے وہ گناہ ہیں جن کو کرنے والا اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کرتا رہا، لیکن کبھی ان کی معافی نہیں مانگی، یہاں تک کہ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے موت کو دیکھ لیا اور پھر موت کو دیکھ کر کہنے لگا کہ میں اللہ پر ایمان لایا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی توبہ کو میں قبول نہیں کروں گا۔
تیسری قسم کی توبہ میں فرعون کی مثال آتی ہے،جو مصر کا بادشاہ تھا اور اس نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔وہ ان پر بے انتہا ظلم کرتا تھا۔دن بھران سے مزدوری لیا کرتا تھااور معاوضہ بہت کم دیتاتھا۔وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو ان کی نسل کشی کے لیے قتل کردیتا اور ان کی عورتوں کو اپنی عیش و عشرت کے لیے زندہ رکھتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ اس میں بنی اسرئیل کے لوگوں کےلیے بہت سخت آزمایش تھی۔ان کے ذہنوں پر غلامی کی مہر لگ چکی تھی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اندر حضرت موسیٰ کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ انھیں فرعون کی غلامی سے آزاد کرائیں اور مصر سے نکال کر کسی اور جگہ آباد کریں اور ان کی اخلاقی اور مذہبی تربیت کر سکیں۔
حضرت موسیٰ اپنے بھائی کے ساتھ فرعون کے دربار گئے اور اس سے کہا کہ میری قوم کو آزاد کر دو، میں انھیں مصر سے نکال کر ان کی تربیت کرنا چاہتا ہوں۔فرعون نے ان کی اس بات کو قبول نہ کیا اور وارننگ کو نہ سمجھ سکا۔ جس وقت اس کو اور اس کی قوم کی طرف عذاب آتا تو توبہ کرتے اور جب وہ تکلیف دور ہوتی تو پھر وہی نافرمانی کرنے لگتے۔اللہ تعالیٰ نے فرعون پر کئی چھوٹے عذاب بھیجے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لڑکوں کو موت دینا شروع کردی۔جب فرعون نے دیکھا کہ اس کا اپنا بیٹا موت کے قریب ہوگیا ہے تو اس کی بیوی نے فرعون سے کہا کہ بنی اسرائیل کو جانے دو۔یہ سارے عذاب ان کی وجہ سے آرہے ہیں۔
چنانچہ ہمارے لیے توبہ کا جو قانون سمجھ میں آتا ہے، اس کے تین پہلو ہیں:
۱۔ غلطی ہوگئی ہے،ضمیر کی آواز سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور معافی مانگو اور آیندہ کے لیے توبہ کرو۔ اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ وہ تمھیں معاف کرے گا اور اپنی مغفرت کی چادر تم پر تان دے گا۔
۲۔ کسی سے گناہ ہوا۔ اس کے ضمیر میں بے چینی اور خلش ہوئی، لیکن اپنے ضمیر کی آواز کو دبا کرمسلسل لاپروائی کا مظاہرہ کرتا رہا، لیکن زندگی کے کسی موقع پر تنبہ ہوا۔اس نے تنبہ ہوتے ہی توبہ کی۔ توبہ کرنے میں نہ بہت جلدی کی نہ بہت دیر کی تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو بھی معاف کردیں گے۔
۳۔ ایسے لوگ جو ساری زندگی گناہ کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار توبہ کے مواقع ملتے رہے، لیکن توبہ نہیں کی۔گناہ کی دنیا میں آگے بڑھتے رہے۔ گناہوں کے صحرا کے اندرگناہوں کو سراب سمجھتے ہوئے بھاگتے رہے تو اچانک موت کو سامنے دیکھ کر فرعون کی طرح کہا کہ میں ایمان لایا تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ایسی توبہ قبول نہیں ہوگی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا اور ابدی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
چنانچہ آئیے موت سے پہلے اللہ تعالیٰ سے گذشتہ تمام گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اپنی اصلاح کرکے اپنے رب کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کی ابدی نعمتوں کے حق دار بن سکیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ