اس سے پہلے کہ ہم اس بحث کو شروع کریں کہ مسلم فکر میں فلسفے کا ماخذ کیا ہے؟ پہلے یہ بنیادی سوال اٹھانا بہت ضروری ہے کہ خود فلسفے سے کیا مراد ہے ؟ کلاسیکی فلسفے کی تعریف حکمت کے معنوں میں مستعمل تھی۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ فلسفہ دو یونانی لفظوں سے مرکب ہے۔
(φίλο) ’’فیلو‘‘، جس کا مطلب ہے: ’’محبت‘‘
(σοφία)’’سوفیا‘‘، جس کا مطلب ہے: ’’حکمت‘‘
جس کے معنی محبت اور سوفی جس کے معنی حکمت کے ہیں، یعنی فلسفہ حکمت سے محبت کو کہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن حکمت سے خالی ہے؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہو گا، بلکہ قرآن خود حکمت کی ترویج کرتا ہے۔ کچھ آیات دیکھیے :
يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّا٘ اُولُوا الْاَلْبَابِ.
(البقرہ ۲: ۲۶۹)
’’اللہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جسے حکمت ملی، اسے بڑی بھلائی مل گئی۔ اور یہ وہی لوگ سمجھتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘‘
یہ آیت حکمت کی عظمت کو واضح کرتی ہے کہ اللہ حکمت کو ایک خیر عظیم سمجھ کر اپنے منتخب بندوں کو عطا کرتا ہے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ.(لقمان ۳۱: ۱۲)
’’اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ اللہ کا شکر ادا کرو، اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور قابل تعریف ہے۔‘‘
یہاں حضرت لقمان کو عطا کی گئی حکمت کا ذکر کیا گیا ہے اور اللہ کے شکر گزار ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔
وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا.(النساء ۴: ۱۱۳)
’’اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی اور آپ کو وہ باتیں سکھائیں جو آپ نہیں جانتے تھے، اور اللہ کا آپ پر بڑا فضل ہے۔‘‘
یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی حکمت اور علم کا ذکر کرتی ہے اور اس آیت میں بھی حکمت کو فضل قرار دیا گیا ہے۔
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ.(الجمعہ ۶۲: ۲)
’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ایک رسول بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتے ہیں، انھیں پاکیزہ کرتے ہیں اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گم راہی میں تھے۔‘‘
یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بیان کرتی ہے کہ آپ کو لوگوں کو کتاب (قرآن) اور حکمت سکھانے کے لیے بھیجا گیا۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(البقرہ ۲: ۱۲۹)
’’اے ہمارے رب! ان میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے، اور انھیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انھیں پاکیزہ کرے، بے شک تو ہی غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
یہ آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے کہ اللہ ان کی اولاد میں ایک رسول بھیجے، جو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔
اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰي مَا٘ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ فَقَدْ اٰتَيْنَا٘ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا.(النساء ۴: ۵۴)
’’کیا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے عطا کیا؟ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی اور انھیں بڑی بادشاہی عطا کی۔‘‘
رہی یہ بات کہ قرآن کا اسلوب شاعرانہ یا خطیبانہ ہے تو ہمیں تاریخی اعتبار سے یہ معلوم ہے کہ قدیم یونانی فلسفی پارمنیڈیز، ایمپیڈکلیز اورو زینوفینیز وغیرہ اپنے فلسفیانہ افکار شعری صورت میں بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ اس سطح پر قرآن کے طرز استدلال اور قدیم فلسفے کے طرز استدلال میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔انسانی ذہن کے ڈھانچے میں وہ ایک خاص منطقی ربط سے ہی قابل قبول بنتا ہے۔
غزالی نے قرآن پرمنطقی کام کے کچھ نمونےیوں بھی پیش کیے ہیں:
‘‘The first figure of the Aristotelian categorical syllogism comes from Qurʾan 2:258, where Abraham shows Nimrod that he is not a god by asking him to make the sun rise in the west. The usual form of such a proof is as follows:
· [Whoever has power over the sunrise is God.]
· My god is the one who has power over the sunrise.
· Therefore, my god is God.
In the second figure, one premise must be negative and the major premise must be universal. Ghazalı - uses another example from the life of Abraham, when he mistook the moon, sun, and stars for God until he saw them set.
· The moon sets.
· The Deity does not “set.”
· Therefore, the moon is not a deity.
As can be seen from this brief treatment, reasoning is an integral part of the Qurʾan and has shaped the thoughts of Quranic scholars.”
’’ ارسطو کے اقسام کے مقولی قیاس کی پہلی شکل (Categorical Syllogism) کی ایک مثال قرآن کی سورۂ بقرہ ۲: ۲۵۸ میں موجود ہے، جہاں حضرت ابراہیم نے نمرود کو یہ ثابت کیا کہ وہ خدا نہیں ہے، اس سوال کے ذریعے سے کہ نمرود سورج کو مغرب سے طلوع کر کے دکھا دے۔ ایسی دلیل کی عمومی شکل یوں بنتی ہے۔
· جس کے پاس سورج کے طلوع کرنے کی طاقت ہو، وہ خدا ہے۔
· میرے خدا کے پاس سورج کے طلوع کرنے کی طاقت ہے۔
· لہٰذا، میرا خدا ہی سچا خدا ہے۔
دوسری شکل میں، ایک مقدمہ لازمی طور پر منفی ہونا چاہیے اور مقدمۂ کبریٰ کُلی ہونا چاہیے۔ غزالی نے حضرت ابراہیم کی زندگی سے ایک اور مثال دی ہے کہ جب انھوں نے چاند، سورج اور ستاروں کو خدا سمجھا، یہاں تک کہ انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ غروب ہو جاتے ہیں:
· چاند غروب ہوتا ہے۔
· معبود غروب نہیں ہوتا۔
· لہٰذا، چاند معبود نہیں ہے۔
جیسا کہ اس مختصر وضاحت سے ظاہر ہوتا ہے، استدلال (Reasoning)۔ قرآن کا ایک لازمی حصہ ہے اور اس نے قرآنی علما کے افکار کو متاثر کیا ہے۔‘‘[1]
ظاہر ہے کہ قرآن پر اب بھی اس طرح کا کام کر کے منطق وفلسفے کے ذریعے سے بہت کچھ دریافت کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر استخراجی منطق سے استفادہ اٹھاتے ہوئے مقدمات کو منطقی شکل میں بھی ڈھالا جاسکتا ہے۔ خیر دوسرا سوال تو اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ مسلم فکر میں فلسفے کا ارتقا ایک تاریخی معاملہ ہے، خاص طور پر اوائل میں مسلمانوں کی سلطنت کی ترقی کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی اس نے اسے دوسری اقوام کے علوم و فنون سے استفادے پر مجبور کیا۔ دوسرا نقطہ ٔنظر یہ بھی ہے کہ قرآن کی نوعیت تو فلسفیانہ نہیں ہے، تاہم جو مضامین اس میں زیر بحث آئے ہیں، وہ فلسفے اور مذہب میں مشترک ہیں۔ ایم ایم شریف رقم طراز ہیں:
“The Qur’an is a book essentially religious, not philosophical, but it deals with all those problems which religion and philosophy have in common. Both have to say something problem related to the significance such expression as God, the world, the individual soul, and interrelations to these; good and evil, free- will, and life after death. While dealing with these problems it also throws light on such conceptions as appearance and reality, existence and attribute, human origin and destiny, truth and error, space and time, permanence and change eternity and immortality.”
’’قرآن بنیادی طور پر مذہبی کتاب ہے، فلسفے کی کتاب نہیں ہے، لیکن قرآن یہاں تمام مسائل سے بحث کرتا ہے جو مذہب اور فلسفہ میں مشترک ہیں۔ دونوں کو ان مسائل پر کچھ کہنا ہوتا ہے جو ان تصورات سے متعلق ہوتے ہیں جیسے خدا، دنیا، فرد کی روح، اور ان کے آپسی تعلقات؛ خیر و شر، آزاد ی ارادہ، اور موت کے بعد کی زندگی۔ ان مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے قرآن ان تصورات پر بھی روشنی ڈالتا ہے جیسے ظاہر و حقیقت، وجود و صفات، انسانی ابتدا اور مقدر، حق و باطل، زمان و مکان، تغیر و بقا، ابدیت اور لافانیت۔‘‘[2]
پہلے نقطۂ نظر کی طرف واپس آتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاں فلسفیانہ موضوعات یونانی تراجم سے ہی پنپے ہیں، ورنہ اس سے پہلے کوئی فلسفیانہ بحث مسلم روایت میں نہیں پائی جاتی۔جیسا کہ سید محمد کاظم صاحب نے بیان کیا ہے:
’’اسلام سے پہلے عربوں میں فکر کی کوئی قابل ذکر روایت نہیں ملتی۔ اسلام نے آ کر اپنے ماننے والوں کو ایک واضح اور مربوط تصور کائنات دیا اور ساتھ ہی انہیں اس عالم اور اس کے مظاہر میں فکر و تدبر کرنے اور اگلی تہذیبوں کے حالات پڑھ کر ان سے سبق سیکھنے کی ترغیب دی۔ اسلام کے پیغام کو لے کر مسلمان ایک قوت بن کر ابھرے اور کچھ ہی عرصے میں ان کا اقتدار دور دور تک پھیل گیا۔ اس پھیلاؤ کے نتیجے میں وہ قدیم علم و معرفت کے آثار سے روشناس ہوئے۔ یونان کا فلسفہ اور سائنس، ایران کی ادبی اور سیاسی دانش، ہندوستان کی طب اور ریاضیات۔ یہ سب اخذ و استفادے کے لیے ان کی دسترس میں آ گئے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اس پیج کا بھی سامنا ہوا کہ عقلی معیاروں پر پورا اترنے کے لیے وہ اپنے مذہب میں اسی طرح کی لچک اور توانائی پیدا کریں جو مشرق قریب کے دوسرے مذاہب یہودیت اور نصرانیت نے بڑی کوششوں کے بعد اپنے اندر پیدا کی تھی۔ مسلم علماء وفقہاء کا مقابلہ مفتوحہ قوموں اور یہود و نصاریٰ کے ایسے متکلمین سے ہوا جو فلسفہ اور منطق سے پوری طرح لیس تھے۔ علماء نے پہلے تو اپنے عقیدے کے زور پر ان لوگوں کے سوالات اور اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن جب اس میں ان کو کامیابی نہ ہوئی تو انہیں بھی عقلی دلائل سے کام لینا پڑا اور اس کے لیے انھوں نے فلسفے اور منطق کا سہارا لیا۔ اس طرح مسلمانوں میں علم کلام کا آغاز ہوا جس نے آگے چل کر باقاعدہ فلسفے کی صورت اختیار کر لی۔ لیکن علم کلام کی ابتدا سے پہلے مسلمانوں کے اندر کچھ ایسے فرقے پیدا ہوئے جن کے وجود میں آنے کی وجہ ان کی خاص سیاسی فکر تھی جو بعد میں دینی فکر میں بدل گئی۔‘‘(مسلم فکر و فلسفہ ۹)
علم الکلام جو مسلم فکر سے شروع ہوتا ہے کیا وہ کوئی خارجی محرکات رکھتا ہے، جیسا کہ کاظم صاحب فرما رہے ہیں یا یہ مسلم تہذیب کے اپنے اندر سے پیدا کردہ مسائل کے حل کے نتیجے میں پھوٹا ہے، یہ دیکھنا بہت اہم ہے کہ یونانی تراجم تو بہت بعد کی بات ہے، اس سے پہلے مسلم تاریخ میں خارجی، شیعہ، جبریہ، قدریہ، جہمیہ، وعدیہ پیدا ہو چکے تھے ۔ یہ تمام تحریکیں کسی بھی خارجی اثر کے بغیر مسلم تاریخ میں نمایاں نظر آتی ہیں، خاص طور پر جبریہ اور قدریہ تو خاص طور پر فلسفیانہ مبحث ہی کے ایک طرح سے بانی ہیں۔
ماجد فخری علم الکلام کے پس منظرمیں مسلمانوں کے سیاسی حالات کے بارے میں تبصرہ کر کے کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
“Much more important for our purposes than the religious political factions discussed above are the more strictly theological divisions which began to split the ranks of Islam from the earliest times but apparently gained momentum with the introduction of Greek philosophy in the eighth and ninth centuries.
Most ancient authorities agree that the first abstract issue on which the earliest theological controversies hinged was the question of free will and predestination (qadar). Some of the first theologians to discuss this subject were Ma'bad al-Juhani (d. 699), Ghailan al-Dimashqi (d. before 743), Wasil bin Ata' (d. 748), Yonus al-Aswari, and 'Amr bin 'Ubaid (d. 762). Other theologians, like the famous Hasan al-Basri (d. 728). ’’
’’ہمارے مقاصد کے لیے مذہبی سیاسی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ اہم وہ مخصوص نظریاتی اختلافات ہیں جو ابتدائی زمانوں سے ہی اسلام کے مختلف گروہوں میں تقسیم کا سبب بنے، لیکن یہ اختلافات آٹھویں اور نویں صدی میں یونانی فلسفے کے تعارف کے ساتھ بظاہر مزید شدت اختیار کر گئے۔
زیادہ تر قدیم مآخذ اس بات پر متفق ہیں کہ ابتدائی مذہبی مباحث کا پہلا مجرد مسئلہ جبر و قدر کا سوال تھا۔ ان ابتدائی علما میں جو اس موضوع پر بحث کرتے نظر آتے ہیں، معبد الجُہنی (وفات: ۶۹۹ ء)، غیلان الدمشقی (وفات: ۷۴۳ء)، واصل بن عطا (وفات: ۷۴۸ء)، یونس الاسوری، اور عمرو بن عبید (وفات: ۷۶۲ء) اور دیگر علما، جیسے کہ مشہور حسن البصری (وفات: ۷۲۸ء)، شامل ہیں۔ ‘‘[3]
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جبر و قدر کا مسئلہ جو کہ ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے ، وہ مسلم تہذیب کے خود اندر سے پھوٹا ہے اور دونوں گروہ اس کے لیے دلائل قرآن سے بیان کر رہے ہیں اور اس پر فلسفیانہ تدبر بھی جاری ہے۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مسلم فکر میں فلسفے کا ماخذ یونان ہے۔ بلکہ Jon Mc Ginnisنے یہاں تک بیان کیا ہے کہ معاملہ اس کے الٹ ہے کہ مسلم مفکرین ان سے فلسفہ اخذ کر رہے ہیں، بلکہ وہ فلسفی کلامی مباحث میں دل چسپی لے رہے تھے، بلکہ وہ یہاں تک اس سلسلے میں بیان کرتا ہے کہ یہ تاریخی اعتبار سے کہنا بیوقوفی ہو گی کہ اس وقت کے فلاسفہ کو کلامی مبحث کا علم نہیں تھا یا وہ ان میں دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ اس کے اپنے الفاظ میں:
“There were interesting theological debates going on within Islam itself as well as between Muslims and Greek, or more precisely, Syrian Christians. It thus would be foolish, and historically inaccurate, to think that the falasifa (i.e., the practitioners of falsafa) were not aware of these theological debates, for the philosophers did react to such discussions. Still, it is with the translation of Greek philosophical and scientific works that falsafa arises within the medieval Arabic-speaking world as an independent intellectual enterprise”
’’اسلام کے اندر خود بھی دل چسپ کلامی مباحثے ہو رہے تھے، اور ساتھ ہی یونانی، یا زیادہ درست الفاظ میں شامی عیسائیوں کے درمیان بھی مکالمے جاری تھے۔ اس لیے یہ سوچنا بیوقوفی اور تاریخی لحاظ سے غلط ہوگا کہ فلاسفہ ان کلامی مباحث سے ناواقف تھے، کیونکہ فلاسفہ نے ان مباحث پر ردعمل ظاہر کیا تھا۔ تاہم، یہ یونانی فلسفیانہ اور سائنسی کاموں کے تراجم کے ذریعے سے ہی ممکن ہوا کہ فلسفہ عربی بولنے والی دنیا میں ایک آزادانہ فکری شعبے کے طور پر ابھرا۔‘‘[4]
پیراگراف کے آخر میں، مگر وہ الہٰیات اور فلسفےمیں تقسیم کر رہے ہیں، مگر یہ تقسیم فلسفے کی بنیادی تعریف میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے ہم آج تک دیکھتے ہیں کہ کوئی ایک بھی شعبہ ہاے زندگی نہیں ہے جس پر فلسفے نے کلام نہ کیا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ علم الکلام کو فلسفہ نہ مانا جائے گو علم الکلام یونانی فلسفے کے تراجم مسلم دنیا میں رواج پانے سے پہلے ہی اپنی حیثیت منوا چکاتھا۔ اب ذرا ہم ایک نظر اس نکتے پر ڈال لیتے ہیں کہ علم الکلام کے خود کیا معنی ہیں تا کہ اس مسئلے کا تصفیہ کیا جا سکے۔ سید حسین نصر نے جو مسلم فلسفے کی تاریخ مرتب کی ہے، اس میں محمد عبدالحلیم صاحب اپنے آرٹیکل میں بیان کرتے ہیں کہ :
Kalām here means discussion on theological matters. As M. Abd al-Raziq has rightly observed, such discussions were called kalām before the science of kalām became independent and recorded in writing, and people who engaged in such discussions were also called mutakallimun. When books were written about these issues, the science which was written down was given the title that had been applied earlier to such discussions. In Islamic sources a number of reasons were offered for giving such a title to the science of kalām. Taftazanl (d. 793/1390) 6 put together such reasons as follows:
1. traditionally the title that was given to the discussions of any separate issue, was al-kaldm ft kalamd wa kathd (an exposition of/a chapter or section on).
2. The question of kalam Allah (the speech of God) was the most famous question and the one that gave rise to the most disputes.
3. The science of kaldm generates in one the power to talk about or discuss religious matters and impress one’s arguments on one’s rivals as logic does in the field of philosophy. As regards the first reason, it is true that chapters in such early books as al-Ibdnah of al-Ash’ari (d. 324/935) and al-Mughm of Abd al-Jabbar (d. 415/1024) bear such titles but these works appeared much later than the name of kaldm as a science. The same can be said of the second reason, since the title was well known before the discussions on kalam Allah (the createdness or otherwise of the Qur’an).
Similarly, the third suggestion refers to the stage when logic and Greek philosophy became well known and influential in the Islamic cultural milieu in the third/ ninth century, after the title of kalam had become well established.
’’کلام سے یہاں مراد الٰہیاتی مسائل پر گفت و شنید ہے۔ جیسا کہ ایم عبدالرزاق نے درست طور پر مشاہدہ کیا ہے، ایسے مباحث کو ’’کلام‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس سے پہلے کہ علم کلام ایک خود مختار علم کے طور پر ابھرتا اور لکھا جانے لگتا۔ وہ لوگ جو ان مباحث میں حصہ لیتے تھے، انھیں بھی ’’متکلمین‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب ان موضوعات پر کتابیں لکھی گئیں تو وہ علم جو لکھا گیا، اسے وہی نام دیا گیا جو پہلے ان مباحث پر لاگو ہوتا تھا۔ اسلامی ماخذوں کے مطابق علم کلام کو یہ نام دینے کی کئی وجوہات پیش کی گئی ہیں۔ تفتازانی (وفات ۷۹۳ھ/۱۳۹۰ء) نے ان وجوہات کو کچھ یوں بیان کیا:
۱۔روایتی طور پر کسی مخصوص مسئلے پر مباحثے کا عنوان ’’الکلام فی کذا و کذا‘‘ (یعنی فلاں فلاں چیز پر بحث) دیا جاتا تھا۔
۲۔ ’’کلام اللہ‘‘ (یعنی کلام اللہ حادث ہے یا قدیم ) کا سوال سب سے مشہور مسئلہ تھا اور اسی نے سب سے زیادہ تنازعات کو جنم دیا۔
۳۔ علم کلام انسان میں الٰہیاتی امور پر بات کرنے یا بحث کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور مخالفین پر اپنے دلائل کو مضبوطی سے پیش کرنے میں مدد دیتا ہے، جیسے کہ فلسفے میں منطق کا کردار ہے۔
جہاں تک پہلے نکتہ کا تعلق ہے، یہ سچ ہے کہ ابتدائی کتابوں جیسے کہ الاشعری (وفات ۳۲۴ھ /۹۳۵ء) کی ’’الابانہ‘‘ اور عبدالجبار (وفات ۴۱۵ھ/۱۰۲۴ء) کی ’’المغنی‘‘ کے ابواب ایسے ہی عنوانات کے حامل تھے، لیکن یہ کتابیں اس وقت سامنے آئیں جب علم کلام کا نام پہلے ہی ایک علم کے طور پر قائم ہو چکا تھا۔ دوسرے نکتہ کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ’’کلام اللہ‘‘ (قرآن کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے) پر بحث کے شروع ہونے سے پہلے ہی یہ نام معروف تھا۔
اسی طرح، تیسرا نکتہ اس دور کا حوالہ دیتا ہے جب منطق اور یونانی فلسفہ تیسری صدی ہجری/نویں صدی عیسوی میں اسلامی ثقافتی ماحول میں معروف اور موثر ہوئے، جب کہ اس وقت تک ’’کلام‘‘ کا نام ایک علم کے طور پر مستحکم ہو چکا تھا۔‘‘[5]
اس کے بعد بھی اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہو کہ مسلم فکر میں فلسفے کا ماخذ قرآن نہیں، یونا ن ہے تو ان کے حضور یہی درخواست کی جا سکتی ہے کہ یونانی اثر سے انکار نہیں وہ اپنی جگہ ایک تاریخی واقعہ ہے، مگر قرآن نے جو اس قوم کو غور و فکر کی دعوت دی تھی، وہ ایمان سے بڑھ کر ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اب وہ ہر ایک مسئلے پر سوچنے سمجھنے اور حکم لگانے کی پوزیشن میں آچکے تھے۔ کوئی بھی تہذیب اپنی جڑیں اپنی تہذیب میں ہی رکھتی ہے، ورنہ وہ تہذیب آندھیوں کی زد میں ہی رہے گی، جب کہ ہم نے دیکھا کہ مسلم تہذیب نے کس طرح اس دنیا کو علوم و فنون سے روشناس کرایا ۔ کسی بھی تہذیب پر بیرونی اثرات ضرور ہوتے ہیں، مگر اصل مدعا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس پر ردعمل کا اظہار کس طرح کرتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالخالق صاحب نے درست سمت میں توجہ دلائی ہے:
’’یہ کہنا کہ مسلم فلسفہ محض فلسفۂ یونان کا چربہ ہے اور اس کی اپنی الگ کوئی حیثیت نہیں، جیسا کہ بعض مستشرقین نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مبنی پر انصاف دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بات خود ان فطری قوانین کے بھی خلاف ہے جن کے تحت ثقافتی ورثے قوموں میں منتقل ہوتے ہیں ہملٹن گرے نے اس سلسلے میں تین قوانین کا ذکر کیا ہے.
پہلا قانون یہ ہے کہ جب ایک ثقافت کسی دوسری ثقافت سے اثر قبول کرتی ہے تو مقدم الذکر میں پہلے ہی سے اس نوعیت کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔
دوسرا قانون یہ ہے کہ بیرونی اثرات اس وقت تک پروان نہیں چڑھتے جب تک خود اندرونی رحجانات ان کی تربیت نہ کریں اور ان کے لیے زمین ہموار نہ کریں۔
تیسرا قانون یہ ہے کہ کوئی قوم ان بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتی جو اس کی اپنی بنیادی اقدار، ہیجانی میلانات اور جمالیاتی پیمانوں سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔‘‘(مسلم فلسفہ ڈاکٹر خالق صفحہ ۲۷)
میرے نزدیک آج بھی جدید مغربی فلسفے کا اثر لینے کے باوجود مسلم فلسفے میں ماخذ کی حیثیت قرآن ہی کو حاصل رہے گی۔ اس کی جدید مثال کے لیے علامہ اقبال کی Reconstruction of‘‘ ’’religious thought in Islam کو دیکھا جا سکتا ہے، یعنی آج بھی کوئی مسلم اپنی فکر کو فلسفیانہ موضوعات میں صرف کرتا ہے، اس کے لیے یہ چارہ نہیں ہے کہ وہ قرآن کو نظر انداز کر دے، چہ جائیکہ ہم یہ کہیں کہ اسے ماخذ کے طور پر اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں مسلم فکر میں فلسفے کا ماخذ اولیں قرآن ہی ہے، یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، نہ کہ کوئی نقطۂ نظر۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ THE ROUTLEDGE COMPANION TO ISLAMIC PHILOSOPHY by Edited Richard C. Taylor p. 26- 28.
[2]۔ A history of Muslim philosophy edited by M.M Sharif p.136.
[3]۔ A history of Islamic Philosophy by Majid fakhri COLUMBIA UNIVERSITY PRESS p. 44.
[4]۔ Classical Arabic Philosophy by Jon Mc Ginnis and David C. Reisman 2007 by Hackett Publishing Company, Inc. p. xvii.
[5]۔ History of Islamic Philosophy, EDITED BY Seyyed Hossein Nasr and Oliver Leamano Digital Printing 2008. P 150.