گذشتہ سے پیوستہ
پچھلے حصے میں ہم نے دیکھ لیا تھا کہ اہل ہند خدا تعالیٰ کے ایک رسول سیدنا نوح علیہ السلام (منو) سے واقف ہیں اور خود کو ان کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ مہابھارت کی روایت کے مطابق جس مچھلی نے منو ویوسوت اور ان کے ہم راہ سات رشیوں کو طوفان سے بچایا، اس نے بالآخر خود کو برہما (ذات باری) کا جسدی ظہور قرار دیا۔ اسی طرح کے بیانات سے ہندو مذہب میں ’اوتار‘ (Avatara ) کا تصور پیدا ہوا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا کہ ’اوتار‘ کا تصور بتدریج ارتقا پذیر ہوتا رہا ہے۔ اس کا مختصر جائزہ تو ہم لیں گے، تاہم ہماری زیادہ دل چسپی تصور اوتار کے عملی پہلو (functional aspect) کے تجزیہ میں ہے۔ اس حصہ میں ہندو دھرم کی معتبر کتابوں کی عبارات نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ہم قرآن مجید کی آیات اور احادیث پیش کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔
پہلے اس لفظ کو دیکھتے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف ہندوازم میں ہے:
“The word ‘avatāra’ comes from the Sanskrit ava + √tṛ, ‘to descend, or cross downwards’, and is best translated as ‘descent’ rather than ‘incarnation’, which inevitably invites unhelpful comparisons with a doctrine specific to Christianity.[9]”
’’لفظ ’اوتار‘ سنسکرت کے ’اَو‘ کے ساتھ ’تْرِ‘ مصدر جوڑنے سے بنا ہے، جس کا مطلب ’نیچے اترنا یا نیچے کی طرف پھلانگنا‘ ہے، اور ’تجسیم‘ کے بجاے اس کا مناسب ترین ترجمہ ’نزول‘ ہے، کیونکہ ’تجسیم‘ کا لفظ مسیحیت کے مخصوص عقیدے کے ساتھ غیر ضروری موازنہ کو جنم دیتا ہے۔‘‘
زبان کے پہلو سے یہ بات ملحوظ رہے کہ اردو کے الفاظ ’اُتار ‘، ’اُتَر‘ اور ’اُترنا‘ بھی سنسکرت کے اسی مصدر سے ماخوذ ہیں، جس سے لفظ ’اوتار‘ نکلا ہے[10]۔
’اوتار‘ کا لفظ ویدوں کے متن میں من و عن موجود نہیں ہے، تاہم اس سے ملتے جلتے الفاظ بعض مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن کیا اوتار کا مروجہ تصور ویدوں میں پایا جاتا ہے؟ یہ محل نظر ہے۔ یہ بحث اوتار کی تفہیم پر منحصر ہے۔ جن لوگوں کے نزدیک ذات باری کے زمین پر مادی صورت میں آنے کو اوتار کہتے ہیں، وہ ویدوں میں مذکور دیوتاؤں، بالخصوص ایک غیر معمولی دیوتا ’اِندر‘ (Indra) کے مختلف صورتیں اختیار کرنے کے واقعات سے دلیل پکڑتے ہیں[11]۔
لفظ ’اوتار‘ میں ’اترنے‘، ’نازل ہونے‘ یا ’نیچے آنے‘ کا پہلو اہم ہے اور اس پر ہم آگے چل کر قرآن مجید کی روشنی میں مزید غور کریں گے۔
اوتار کی ضرورت اور مقاصد کا سب سے واضح بیان بھگود گیتا کے چوتھے باب میں ہوا ہے۔
چوتھے باب کے آغاز میں دھرم کی روایت کا تذکرہ کچھ اس طرح سے ہواہے:
श्रीभगवानुवाच
इमं विवस्वते योगं प्रोक्तवानहमव्ययम् ।
विवस्वान्मनवे प्राह मनुरिक्ष्वाकवेऽब्रवीत् ॥ १ ॥
एवं परम्पराप्राप्तमिमं राजर्षयो विदुः ।
स कालेनेह महता योगे नष्टः परन्तप ॥ २ ॥
स एवायं मया तेऽद्य योगः प्रोक्तः पुरातनः ।
भक्तोऽसि मे सखा चेति रहस्यं ह्येतदुत्तमम् ॥ ३ ॥[12]
’’شری بھگوان نے کہا: یہ لافانی فلسفہ میں نے ووسوان کو سکھایا۔ انھوں نے منو کو اور منو نے اکشواکو کو سکھایا۔ اے دشمنوں کو خوف زدہ کرنے والے! سلسلہ راج رشیوں نے اس فلسفہ کو جانا۔ لیکن امتداد زمانہ کے باعث یہ فلسفہ دنیا سے غائب ہو گیا۔ اب اسی پرانے فلسفہ کو آج میں نے تجھے بتایا، کیوں کہ تو میرا شاگرداور دوست ہے اور یہ اعلیٰ ترین راز کی چیز ہے۔‘‘ (ادھیائے ۴، اشلوک ۱- ۳)
مذکورہ بالا عبارت میں دھرم کی تاریخ کا بیان ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ دھرم کی جو تعلیم ارجن کو شری کرشن کے ذریعے سے از سرنو دی جا رہی ہے، وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے،بلکہ وہی تعلیم ہے جو اس سے پہلے بھی موجود رہی ہے۔
۲۔ یہ تعلیم ایک زندہ روایت کی صورت میں ایک عرصہ تک چلتی رہی اور لوگ اس سے مانوس تھے۔
۳۔ منو کو بھی یہی تعلیم دی گئی تھی اور انھوں نے آگے بھی یہی تعلیم منتقل کی تھی۔
۴۔ امتداد زمانہ کے باعث یہ تعلیم دنیا سے غائب ہو گئی۔
بھگودگیتا کے اس اقتباس کے ساتھ قرآن مجید کی درج ذیل آیات دیکھی جا سکتی ہیں:
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۣ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًاۣ بَيْنَهُمْ فَهَدَي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ وَاللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ.(البقرہ۲: ۲۱۳)
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر(اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آ جانے کے بعد، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی رہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔ ‘‘
وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّا٘ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ.(یونس ۱۰: ۱۹)
’’حقیقت یہ ہے کہ لوگ ایک ہی امت تھے، انھوں نے بعد میں اختلاف کیا ہے اور اگر تیرے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ کر لی گئی ہوتی تو اِن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دیا جاتا جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔ ‘‘
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰي بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْ٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖ٘ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسٰ٘ي اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ.(الشوریٰ ۴۲: ۱۳)
’’اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ (اپنی زندگی میں) اِس دین کو قائم رکھو اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔‘‘
قرآن مجید کی درج بالا آیات سے جو باتیں سمجھ میں آتی ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ دین کی جو تعلیم محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے دی جا رہی ہے، وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بلکہ وہی تعلیم ہے جو ان سے پہلے کے انبیا و رسل کو دی جاتی رہی ہے۔
۲۔ خدا نے انسانیت کی ابتدا ایک ہی دین سے کی تھی۔ اُس وقت تمام انسان توحید کے ماننے والے تھے۔ دین کے بارے میں اختلافات موجود نہیں تھے۔
۳۔ پھر اختلافات پیدا ہو گئے اور اس درجے میں پیدا ہوگئے کہ دین کی حقیقت محجوب ہو گئی تو الله تعالیٰ نے پیغمبروں کا سلسلہ شروع کیا۔
۴۔ انبیا کی بعثت کے بعد بھی جن امتوں کو یہ حق عطا ہوا، انھوں نے نہایت واضح دلائل کی روشنی میں اس حق کو سمجھ لینے کے بعد محض آپس کی ضدم ضدا کے سبب سے خود ہی اس میں اختلاف کیا۔ انھی لوگوں نے کیا جو اس حق کے امین بنائے گئے تھے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے اس نزاع و اختلاف میں حق کی راہ پھر اس قرآن کے ذریعے سے اہل ایمان، یعنی پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں پر کھولی ہے۔
اوتار کی ضرورت اور مقاصد کا بیان بھگود گیتا کے اسی باب میں اس طرح ہوا ہے:
यदा यदा हि धर्मस्य ग्लानिर्भवति भारत ।
अभ्युत्थानमधर्मस्य तदात्मानं सृजाम्यहम् ॥ ७ ॥
परित्राणाय साधुनां विनाशाय च दुष्कृताम् ।
धर्मसंस्थापनार्थाय सम्भवामि युगे युगे ॥ ८ ॥[13]
’’اے بھارت! جب کبھی حق (دھرم) کو زوال آتا ہے اور باطل (ادھرم) کو فروغ ہوتا ہے تو میں نمایاں ہو جاتا ہوں۔ راست باز کی حفاظت، کج رو کی تباہی اور حق (دھرم) کو مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کے لیے میں مختلف زمانوں میں آیا گیا ہوں۔‘‘[14] (ادھیائے ۴، اشلوک ۷- ۸)
اگرچہ یہاں ’اوتار‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے، تاہم اہل علم اس کو اوتار ہی کا بیان مانتے ہیں۔ ان اشلوکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اوتار اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب دھرم زوال پذیر ہوتا اور معاشرے میں ادھرم کا غلبہ واقع ہوتا ہے۔
اس عبارت میں بعض اہم الفاظ اور تراکیب کو دیکھیے:
’’तदात्मानं सृजाम्यहम ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوتا ہے: ’’اس وقت میں خود تخلیق ہوتا ہوں‘‘۔ چونکہ ذات باری کے لیے یہ امر محال ہے، اس لیے یہاں ’سرجامی‘ کا ترجمہ ’نمایاں ہونے‘ یا ’ظاہر ہونے‘ کے کرتے ہیں۔
لفظ ’’सम्भव ‘‘ بھی دل چسپ ہے۔ اس کے معنی جس طرح ’پیدایش‘، ’ابتدا‘ کے ہیں، اسی طرح ’واقع ہونا‘ اور ’ظاہر ہونا‘ کے بھی ہیں۔
لفظ ’’ग्लानिः ‘‘ یعنی زوال سے مراد دھرم کا سیاسی و سماجی زوال ہے یا پھر دھرم کی تعلیمات کا ضائع یا غیرواضح ہو جانا؟ ہماری راے میں یہاں دوسرے معنی مراد ہیں، کیونکہ اس باب کے آغاز ہی میں امتداد زمانہ سے دھرم کی تعلیم کا دنیا سے غائب ہونے کا ذکر ہے۔
مذکورہ اشلوکوں میں اوتار کے بنیادی مقاصد کو تین اہم پہلوؤں سے سمجھایا گیا ہے:
۱۔ اوتار کا پہلا مقصد راست بازوں (سادھونام) کو نجات دینا ہے، یعنی وہ لوگ جو اپنی عقیدت اور راست بازی پر قائم رہتے ہیں، ان کی حفاظت اور مدد کرنا، جب کہ ادھرم بڑھتا جا رہا ہو۔
۲۔ اوتار کا دوسرا مقصد بدکرداروں (دُشکرتام) کا خاتمہ کرنا ہے، یعنی وہ افراد یا قوتیں جو ادھرم پھیلانے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔
۳۔ اوتار کا تیسرا اہم مقصد دھرم کو قائم کرنا (دھرم سنستھاپنا)ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
[9]۔ John Cush, Catherine Robinson, and Michael York, Encyclopedia of Hinduism (London: Routledge, 2008), 65.
[10]۔ دیکھیے فرہنگ آصفیہ، نوراللغات وغیرہ۔
[11]۔ دیکھیے رِگوید مَنْڈَل۳، سُوکْت ۵۳، منتر ۸؛ منڈل ۶، سوکت ۴۷، منتر ۱۸؛ منڈل ۱، سوکت ۵۱، منتر ۱۳، وغیرہ ۔
[12]۔ śrī-bhagavān uvāca. imaṁ vivasvate yogaṁ proktavān aham avyayam. vivasvān manave prāha manur ikṣvākave ’bravīt. evaṁ paramparā-prāptam
imaṁ rājarṣayo viduḥ. sa kāleneha mahatā yogo naṣṭaḥ paran-tapa. sa evāyaṁ mayā te ’dya yogaḥ proktaḥ purātanaḥ. bhakto ’si me sakhā ceti
rahasyaṁ hy etad uttamam.
[13]۔ yadā yadā hi dharmasya glānir bhavati bhārata. abhyutthānam adharmasya tadātmānaṁ sṛjāmy aham. paritrāṇāya sādhūnāṁ vināśāya ca duṣkṛtām.
Dharma-saṁsthāpanārthāya sambhavāmi yuge yuge.
[14]۔ اردو ترجمہ از حسن الدین احمد؛ ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، ۱۹۹۷ء، نئی دہلی