HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

بچوں سے قرآن حفظ کرانا

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

عہد رسالت سے قرآن مجید حفظ و تحریر، دونوں طریقوں سے محفوظ کر کے آیند ہ نسلوں کومنتقل کیا گیا۔ صحابہ اور تابعین اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق قرآن مجید مکمل یا جزواً یاد کرلیتے تھے، لیکن رسمی حفظ قرآن اور بچوں کو بالجبر قرآن یاد کرانے کا کوئی تصور نہ تھا۔

مسلمانوں کو ایک طویل عرصے سے یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ حفظ قران کے لیے بہترین عمر بچپن کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک حافظ قرآن اپنے خاندان کے دس ایسے افراد کو جنت میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی،[1] حافظ قرآن کے والدین کو روز قیامت ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔[2] ان ترغیبات کے زیر اثر والدین یہ سعادت حاصل کرنے اور جہنم سے بچنے کے لیے ہر قیمت پر اپنے بچوں کو قرآن مجید حفظ کرانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ گلی، محلوں، گاؤں اور شہروں میں جگہ جگہ کھلے ہوئے حفظ قرآن کے مدارس ایسے ہی بچوں سے آباد اور ایک بڑے طبقے کے معاش کا ذریعہ ہیں۔

حفظ قرآن کی فضیلت سے متعلق محولہ بالا روایات ضعیف ہیں۔ یہ دین کے مسلمہ اصولوں کے بھی خلاف ہیں۔ قرآن مجید ہر شخص کو اس کے اپنے اعمال کا ذمہ دار ٹھیراتا ہے،[3] وہ بتاتا ہے کہ خد ا کی عدالت میں کوئی کسی دوسرے کے کام نہیں آ سکے گا، وہاں سفارش کی اجازت ایسے کچھ لوگوں کے لیے ملے گی جن کے لیے جہنم کا فیصلہ نہیں ہوا ہوگا، مگر ان کے اچھے اعمال بھی اس قابل نہ ہوں گے کہ انھیں جنت کے لائق بنا دیں۔ البتہ، وہ لوگ جن کے لیے جہنم کا فیصلہ ہو جائے گا، انھیں کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔[4]

مگر والدین ان برسر خود غلط ترغیبات سے متاثر ہو کر اپنے کم سن بچوں کو زبردستی حفظ کرانے کے لیے کسی مدرسے میں چھوڑ جاتے ہیں، بلکہ ترجیحاً اپنے گاؤں، محلے اور گھر سے دور کسی مدرسے میں انھیں داخل کراتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے علاقے اور گھر کے قریب کے مدرسے میں بچے کی توجہ اپنے خاندان اور دوستوں سے ملنے کی تڑپ میں منتشر رہتی ہے، چنانچہ کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ان سب سے دور بھیج دیا جائے، جہاں وہ کوئی شناسا نہ پائے اور پوری توجہ سے قرآن مجید حفظ کرنے پر مجبور ہو جائے۔

مدارس میں بچوں کے داخلے کی ایک اور وجہ غربت بھی ہے۔ بچوں کو پیش آنے والے تمام ممکنہ حادثات کے خدشات کے باوجود والدین انھیں مدارس میں اس لیے بھی داخل کرا دیتے ہیں کہ مدرسے کے خرچ پر پل کر وہ بڑے ہو جائیں اور اس دوران میں کچھ تعلیم بھی حاصل کر لیں، جو بعد میں ان کے کام بھی آ سکتی ہے۔

راقم کو ایسے والدین دیکھنے کا موقع ملا جن کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔ انھیں خبر کی گئی، وہ آئے مگر بچے کو اپنے ساتھ لے جانے کے بجاے اسے تسلی دے کر پھر اسی مدرسے میں چھوڑ کر چلے گئے۔ بہت ہوا تو ایسے ہی کسی دوسرے مدرسے میں اسے داخل کرا دیا، مگر حفظ قرآن مکمل کرائے بغیر وہ اسے واپس لے جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ان کے لیے ایسے حادثات غیر متوقع نہیں تھے۔ ان خدشات کو گوارا کرتے ہوئے ہی وہ اپنے کم سن بچوں کو اجنبی ماحول کے سپرد کرآتے ہیں۔

والدین کی شفقت اور احساس تحفظ سے محروم ہو جانے کے بعد ایک اجنبی ماحول میں بچہ جس جذباتی المیے سے گزرتا ہے، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بچپن کی بے فکری کا یہ خوب صورت دور ایک سخت روٹین کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے۔ ایک محدود ماحول میں مقید ہو جانے سے معاشرتی رویے سیکھنے کے مواقع بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ مختلف عمر اور مزاج کے لڑکوں اور اساتذہ کے درمیان اس کی معصومیت بھی ہمہ وقت خطرے میں رہتی ہے۔ بچہ جتنا کم عمر، خوش شکل اور والدین کی خبر گیری سے دور ہوتا ہے، اس کے استحصال کے امکانات اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔

بچے سے قرآن حفظ کرانے کے لیے والدین نہ صرف خود اس پر تشدد کرتے ہیں، بلکہ اساتذہ کو بھی اس کی کھلی اجازت دیتے ہیں۔ اس کے لیے یہ بے اصل روایت بھی مشہور کرا رکھی ہے کہ جسم کے جس حصے پر استاد کی مار پڑتی ہے، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ تشدد کی صورت میں بچہ اگر زخمی ہو جائے یا، خدانہ خواستہ، اس کی موت واقع ہو جائے تو والدین عموماً استاد کو معاف کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق بچہ خدا کی راہ میں شہید ہو گیا۔ یوں والدین کی آخرت سنور گئی۔ یہی ان کا نصب العین تھا، جو قبل از وقت حاصل ہو گیا۔ اس ’خدمت‘ کے عوض استاد کو سزا کیوں دی جائے؟ سزا سے مامونیت کی یہ توقع تشدد پسند طبائع کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

کچھ بچوں میں اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ پورا قرآن یاد کر سکیں۔ راقم کے تجربے میں ایسے والدین بھی آئے جنھیں بتایا گیا کہ ان کا بچہ حفظ نہیں کر سکتا، لہٰذا اسے مجبور نہ کریں۔ انھوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور بضد رہے کہ بچے کو ہر صورت حفظ کرایا جائے۔ ان کے مطابق حفظ کرنے کی محنت سے دماغ تیز ہو جاتا ہے۔

ایسے بچوں کو برسوں حفظ کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔ سبق یاد نہ کر سکنے کی پاداش میں سب کے سامنے مار پیٹ اور ذلت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انھیں باور کرایا جاتا ہے کہ وہ گناہ گار ہیں، اس وجہ سے ان کی یادداشت کام نہیں کررہی، اور یہ کہ حافظ قرآن کے ساتھ عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ شیطان لگے ہوتے ہیں، جواسے حفظ قرآن کی سعادت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ صورت حال کسی اذیت گاہ (ٹارچر سیل) سے کم نہیں ہوتی۔ بچہ ہر صبح یہ سوچ کر اٹھتا ہے کہ تشدد اور ذلت کا ایک اور طویل دن اس کا منتظر ہے۔ وہ خود کو گناہ گار سمجھتا ہے، جس سے اس کے والدین راضی ہیں نہ اساتذہ اور نہ ہی خدا۔ ہم مکتب ساتھیوں کی نظروں میں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ایسے بچے مدرسے اور گھر سے بھاگ جاتے ہیں تو پکڑ پکڑ کر لائے جاتے ہیں اور بھاگنے پر مزید تشدد اور ذلت سہتے ہیں۔ ان کی عزت نفس ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ مکمل طور پر منفی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں، جو ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کر لیتی ہے اور پھر مختلف منفی رویوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ بہت سے طلبہ میں انھی وجوہات سے قرآن مجید سے بدمزگی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

علم نفسیات کے مطابق، خدا کا پہلا تصوروالدین سے ملے تاثرات سے تشکیل پاتا ہے۔ اس میں اساتذہ کی شخصیت کے تاثرات بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین کی شفقت سے محروم اور اساتذہ کی سختیوں سے گھائل ان بچوں میں خدا سے بھی بے زاری، لاتعلقی، بلکہ توحش کے احساسات پیدا ہو جاتے ہیں۔ والدین کی شفقت اور ان کی دیکھ بھال کے بغیر جینا سیکھ لینے کے بعد وہ خدا کی محبت، اس کی رحمت اور اس کے سامنے اپنی محتاجی کے احساس سے بھی بڑی حد تک بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ وہ والدین سے ناراض ہوتے ہیں، مگر ان کی ناراضی سے ڈرتے بھی ہیں۔ یہی نفسیات خدا کے ساتھ ان کے تعلق میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ خدا سے محبت نہیں کر پاتے، لیکن اس کے ڈر کے احساس سے اس کی رسمی اور قانونی قسم کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کی یہی نفسیات لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات میں بھی جھلکتی ہے۔ وہ عام طور پر خوف دلاتے اور جبر اور دھونس سے بات منواتے نظر آتے ہیں۔

بچہ ہو یا بڑا اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی ایسی ذہنی یا جسمانی مشقت میں مبتلا کرنا، جس کا مطالبہ دین اور عقل نہیں کرتے، اس کا استحصال ہے۔ حفظ قرآن ان بنیادی مہارتوں کی تعلیم نہیں ہے جن کا سیکھنا ناگزیر ہوتا ہے اوراس بنا پر انھیں بچپن میں زبردستی بھی سکھایا جاتا ہے، جیسے لکھنا پڑھنا، ابتدائی ریاضی وغیرہ۔ حفظ قرآن ایک تخصیصی تعلیم ہے اور تخصیصی تعلیم بچے کا رجحان جانچے بغیر نہیں دی جا سکتی۔ جس طرح کسی بچے کے کیرئیر کے لیے میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول کا فیصلہ اس کے بچپن میں نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح اسے حفظ کرانے کا فیصلہ بھی اس کے بچپن میں نہیں کیا جا سکتا۔

دس سے بارہ سال کی وسیع البنیاد تعلیم پانا تعلیمی رجحان رکھنے والے ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ اس کے بعد اس کا خصوصی رجحان دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اسے کس طرح کی تخصیصی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ حفظ قرآن کی تخصیصی تعلیم حاصل کرنا ایک فرد کے اپنے ذوق، صلاحیت اور شعوری انتخاب کا معاملہ ہے، جو شعور کی عمر ہی میں کیا جا سکتا ہے۔

والدین کو بھی بچوں کے کیرئیر کے انتخاب کا کوئی مطلق اختیار نہیں ہے۔ یہاں مریم علیہا السلام کے واقعہ سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی والدہ نے ان کی پیدایش سے پہلے ہی انھیں خدا کے نام پر وقف کر دیا تھا، اس لیے والدین کو بچوں کے کیریئر کے انتخاب کا حق ہے۔ یہ، درحقیقت، مریم علیہا السلام کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے پیدا ہونے والے بچے کو دین کی خدمت کے لیے خدا کے نام پر وقف کر دیں۔ قرآن مجید میں ان کی دعا ان کی اسی خواہش کا اظہار ہے۔[5] مگر مریم علیہا السلام پر اس طرز زندگی کو اختیار کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ایسے ہی جیسے بچپن میں طے کیے گئے نکاح کو برقرار رکھنے کی پابندی بچوں پر نہیں ہوتی۔ وہ شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچ کر ایسے نکاح سے انکار کر سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مریم علیہا السلام کی اپنی طبیعت بھی اسی کام کی طرف مائل رہی جس کی خواہش اور دعا ان کی والدہ نے کی تھی۔ پھر یوں نہیں ہوا کہ مریم علیہا السلام کے پیدا ہوتے ہی یا ان کی کم سنی میں انھیں دین کے خدام کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں۔ تاہم، یہ اقدام ان کی شعور کی عمر کے بعد ہی کیا گیا ہوگا۔ اصولی طور پر اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو خدا کے لیے ذبح کر رہے ہیں تو انھوں نےاس پر من و عن عمل کرنے سے پہلے اپنے بیٹے کی راے لی، اور بیٹے کی رضامندی کے بعد ہی اقدام کیا۔

دینی مدارس میں رائج حفظ قرآن کی کلاس کا طویل دورانیہ جو صبح فجر کے بعد سے نماز عشا تک، چند وقفوں کے ساتھ جاری رہتا ہے، بچوں پر سخت گراں بار ہوتا ہے۔ اس سرگرمی میں کوئی تنوع بھی نہیں ہوتا کہ بچہ یکسانیت کی بوریت سے نجات پا سکے۔ زبانی یاد کرنے کی ایک ہی سرگرمی اتنے طویل دورانیے تک کرانا، ایک غیر صحت مند طریقۂ تعلیم ہے۔

کچھ بچوں کو اسکول سے ہٹا کر حفظ کرانے بٹھادیا جاتا ہے۔ حفظ کے بعد انھیں دوبارہ اسکول میں داخل کرانا ہوتا ہے۔ اسکول کی تعلیم کا حرج کم کرنے اور قرآن کا حفظ جلد مکمل کرانے کی خاطر بچے کا زیادہ سے زیادہ وقت حفظ قرآن میں لگایا جاتا ہے۔ کھیلنے اور دوستوں اور کزنز کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع انھیں بہت کم ملتا ہے۔ اس سے بچے کا ذہنی اور جسمانی استحصال ہوتا ہے۔

اس سے بد تر پریکٹس یہ ہے کہ اسکول کے ساتھ حفظ بھی کرایا جاتا ہے۔ یوں بچے والدین کی دو طرفہ خواہشوں کے پاٹوں میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ انھیں اپنا بچپن جینے کا پوراموقع ہی نہیں ملتا۔

کم سن بچوں کا زیادہ وقت کھیل کود میں بیتنا چاہیے۔ ایسی ہر تعلیمی سرگرمی جس کے اوقات کھیل کے اوقات سے زیادہ ہوں، بچوں کا استحصال ہے۔ بچپن کی عمر کھیل کھیل میں سیکھنے، خود کھوجنے اور سوالات کرنے کی ہے۔ لا پروائی کی اس حسین عمر کو ایک سخت اور خشک روٹین کی نذر کرنا بچے کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔

ایک بار یاد کر لینے کے بعد قرآن مجید کو مستقلاً یاد رکھنا ایک مسلسل محنت طلب کام ہے۔ شعبۂ حفظ سے منسلک حفاظ کسی حد تک قرآن یاد رکھ پاتے ہیں، مگر عام حفاظ جو عملی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں، ان کے لیے قرآن مجید کو یاد رکھنا بے حد مشکل رہتا ہے۔ ان کی اکثریت کو بڑی عمر میں پورا قرآن یاد نہیں رہتا۔ان کا حفظ قرآن خود ایک یادگار بن کر رہ جاتا ہے۔

ادھر قرآن مجید کے بھلا دینے پر بعض روایات میں وارد ہونے والی وعیدیں قرآن یاد نہ رکھ سکنے والے حفاظ کواحساس جرم میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ تاہم، یہ تمام روایات ضعیف ہیں۔[6]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ ’لِحَامِلِ الْقُرْآنِ إِذَا أَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَنْ يَشْفَعَ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهُ، كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ‘، ’’ وہ حافظ قرآن جواس کی حلال کردہ اشیا کوحلال اور حرام کردہ اشیا کو حرام کرتا ہے، وہ اپنے گھرانے کے دس افراد، جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی، سفارش کرے گا‘‘(المعجم الاوسط، رقم ۵۲۵۸)۔

اسے علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے (ضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ، رقم ۴۶۶۲)۔

اسی مفہوم کی ایک دوسری روایت بھی ضعیف ہے:

مَن قرأَ القرآنَ واستَظهرَهُ فأحلَّ حلالَهُ وحرَّمَ حَرامَهُ أدخلَهُ اللّٰهُ بِهِ الجنَّةَ وشفَّعَهُ في عَشرةٍ من أهلِ بَيتِهِ كلُّهُم قَد وجبَت لَهُ النَّارُ‘، ’’ جس نے قرآن پڑھا، اسے حفظ کیا،اس کی حلال کردہ اشیا کوحلال اور حرام کردہ اشیا کو حرام کرتا ہے، وہ اپنے گھرانے کے دس افراد، جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی، سفارش کرے گا‘‘(ترمذی، رقم ۲۹۰۵)۔

امام ترمذی اس کی سندکو صحیح نہیں بتاتے۔علامہ البانی نے اسے سخت ضعیف قراردیا ہے (ضعیف الترمذی، رقم ۲۹۰۵)۔

[2]۔ ’حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانِ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا؟‘، ’’معاذ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی جو تمھارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمھارے درمیان ہوتا، (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہو گا‘‘ ‘‘

علامہ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (مشکاة المصابیح،رقم ۲۱۳۹)۔

[3]۔ المدثر ۷۴: ۳۸۔ ’كُلُّ نَفْسٍۣ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ‘، ’’ہر متنفس (اُس روز) اپنی کمائی کے بدلے رہن ہو گا۔‘‘

[4]۔ البقرہ ۲: ۴۸۔ ’وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْـًٔا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ‘، ’’اور اُس دن سے ڈرو، جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اُس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اُس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ لوگوں کو کوئی مدد ہی ملے گی۔‘‘

[5]۔ آل عمران ۳: ۳۵۔ ’اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّيْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِيْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّيْﵐ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ‘، ’’اِنھیں یاددلاؤ وہ واقعہ جب عمران کی بیوی نے دعا کی کہ پروردگار، یہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے، اُس کو میں نے ہرذمہ داری سے آزاد کرکے تیری نذر کردیا ہے۔سوتو میری طرف سے اِس کو قبول فرما، بے شک تو ہی سمیع و علیم ہے۔‘‘

[6]۔ مثلاً درج ذیل روایت دیکھیے:

وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسلم: «عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّى الْقَذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوتِيهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا». رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد‘ ، ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہٖ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے اعمال کا ثواب مجھ پر پیش کیا گیا، حتیٰ کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے (اس کا ثواب بھی لکھا ہوا تھا)، اور میری امت کے گناہ بھی مجھ پر پیش کیے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی آدمی کو قرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت عطا کی گئی اور اس نے (یاد کرنے کے بعد) اسے بھلا دیا‘‘ (مشکاۃ المصابیح، رقم ۷۲۰)۔

حافظ زبیر على زئی نے اس کی اسناد کو ضعیف قرار دیا ہے:

 رواہ الترمذی (۲۹۱۶ وقال: غريب) و ابو داؤد (۴۶۱)۔ ابن جریج مدلس ولم يسمع من مطلب شيئًا والمطلب: لم يسمع من سيدنا أنس رضي الله عنه.

https://islamicurdubooks.com/ur/hadith/hadith-.php?bookid=23&hadith_number=720

اس مفہوم کی درج ذیل روایت بھی ضعیف ہے:

وعن سعد بن عبادة قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: «ما من امرئ يقرا القرآن ثم ينساه إلا لقي اللّٰه يوم القيامة اجذم‘، ’’رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہٖ ‌وسلم نے فرمایا:جو شخص قرآن پڑھتا ہو، لیکن پھر وہ اسے بھول جائے تو وہ روز قیامت حالت کوڑھ میں اللہ سے ملاقات کرے گا‘‘ ( رواہ ابوداؤد والدارمی)۔

حافظ زبیر على زئی نے اس کی اسنادکو بھی ضعیف قرار دیا ہے:

يزيد بن أبي زياد: ضعيف و عيسي بن فائد: مجھول، ولم يسمعه من سعد، بينھما رجل مجھول.

https://www.islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?hadith_number=2200&bookid=23&tarqeem=1

B