HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

میزان: توضیحی مطالعہ: اصول و مبادی (۲)

مبادی تدبر قرآن

  اس باب میں مصنف نے دس عنوانات کے تحت قرآن مجید کے متن کے تاریخی استناد، زبان وبیان، طرز کلام، مذہبی وتاریخی پس منظر، بنیادی مضمون اور آسمانی کتابوں میں قرآن کی خاص حیثیت سے متعلق کئی اہم پہلوؤں کی وضاحت کی ہے، جنھیں ملحوظ رکھنا قرآن مجید پر علمی طریقے پر غور کرنے کے لیے مصنف کے نقطۂ نظر سے ضروری ہے۔ زیر نظر سطور میں ایک مناسب ترتیب سے ان امور کا ایک توضیحی وتقابلی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔

قرآن مجید کا متن

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا کر کے یہ قرآن جس طرح آپ کو دیا جا رہا ہے، اِس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے، لیکن اِس سے آپ کو اِس کی حفاظت اور جمع و ترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔اِس کی جو قراء ت اِس کے زمانۂ نزول میں اِس وقت کی جا رہی ہے، اِس کے بعد اِس کی ایک دوسری قراء ت ہو گی۔ اِس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اِس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرنا چاہیں گے تو اُسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اِس طرح پڑھا دیں گے کہ اِس میں کسی سہو و نسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘(میزان ۲۷)
’’قرآن،جیسا کہ اِس بحث کی ابتدا میں بیان ہوا، اِس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات مرتب ہوا ہے،لیکن یہ  ]سیدنا صدیق اور سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع و تدوین کی[ روایتیں اِس کے برخلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔‘‘ (میزان ۳۱)

ان دو اقتباسات میں سے پہلے اقتباس میں مصنف نے سورۂ قیامہ اور سورۂ اعلیٰ کی درج ذیل آیات کی روشنی میں قرآن کے نزول اور اس کی جمع وتدوین کی خدائی اسکیم کی وضاحت کی ہے ۔

سورۂ قیامہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ. فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ.(۷۵: ۱۷-  ۱۸)
’’بے شک، ہمارے ذمے ہے اس کو جمع کرنا اور اس کو پڑھ کر سنانا۔ پھر جب ہم اس کو پڑھ کر سنائیں تو تم اس پڑھے جانے والے کی پیروی کرو۔“

سورۂ اعلیٰ میں فرمایا ہے:

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰ٘ي. (۸۷: ۶)
’’جلد ہم تمھیں پڑھائیں گے اور پھر تم نہیں بھولو گے۔“

مصنف کی ذکر کردہ تشریح کے مطابق ان آیات میں قرآن مجید کے تدریجی نزول، ابتدائی قراءت کے بعد ایک دوسری قراءت اور اس کی روشنی میں متن کی جمع وترتیب، نیز حسب ضرورت قرآن کی آیات کی توضیح و تبیین سے متعلق پوری اسکیم بیان کی گئی ہے۔ اس اسکیم کی رو سے قرآن کے متن کی جمع و ترتیب کے تمام مراحل کا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل ہونا ضروری تھا۔ روایات کے مطابق جبریل علیہ السلام نے آپ کی زندگی کے آخری رمضان میں دو مرتبہ آپ کو قرآن پڑھ کر سنایا، جسے ’’عرضۂ اخیرہ کی قراء ت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی قرآن کا آخری اور حتمی متن تھا جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء صحابہ کو دی اور اللہ کی ہدایت کے مطابق قرآن کے متن مکمل اور مرتب صورت میں صحابہ کے سپرد کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔

قرآن مجید کے مذکورہ بیانات کی روشنی میں، دوسرے اقتباس میں مصنف نے ان روایات پر تنقید کی ہے جن میں سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عثمان کے زمانے میں قرآن مجید کی جمع وتدوین کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں بنیادی روایتیں صحیح بخاری میں محمد بن مسلم ابن شہاب زہری کے واسطے سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں۔

سیدنا صدیق کے عہد میں جمع قرآن سے متعلق روایت میں زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ یمامہ میں قرآن کے بہت سے قاریوں کے شہید ہو جانے پر سیدنا عمر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ قاریوں کے ساتھ ہی قرآن کے متن کا بہت بڑا حصہ کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ چنانچہ انھوں نے سیدنا صدیق اکبر کو قرآن کا متن جمع کرنے پر آمادہ کیا اور ان دونوں کی ہدایت پر زید بن ثابت نے لوگوں کے سینوں میں محفوظ اور مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے قرآن کے اجزا کو تلاش کر کے جمع کیا اور ان اوراق کو سیدنا ابوبکر کی تحویل میں دے دیا۔ اس سرگرمی کے دوران میں زید بن ثابت کو سورۂ توبہ کی آخری دو آیتیں انھیں صرف ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں اور ان کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے پاس یہ آیات موجود نہیں تھیں (بخاری، رقم ۴۷۰۱) ۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قرآن کو جمع کرنے کا واقعہ زید بن ثابت کی زبانی یوں بیان ہوا ہے کہ اس موقع پر جب وہ مصحف کو نقل کر رہے تھے تو سورۂ احزاب کی ایک آیت جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتے تھے، انھیں مصحف میں نہیں ملی۔ چنانچہ انھوں نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس مل گئی اور اسے سورۂ احزاب میں شامل کر لیا گیا۔ وہ آیت یہ تھی:’مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ‘ (بخاری، رقم ۴۷۰۲)۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کی جمع وترتیب مکمل ہو جانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد صحابہ کو ازسرنو قرآن کے متن کی تحقیق اور جمع وترتیب کی ضرورت نہ ہو، جب کہ مذکورہ روایات سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن مجید کے متن کی تلاش اور جمع وترتیب کا مسئلہ حل طلب تھا، جسے ان دونوں خلفا کے زمانے میں طے کرنے کی کوشش کی گئی اور صحابہ کے پاس موجود تحریری ریکارڈ اور گواہیوں کی روشنی میں قرآن کے متن کو مرتب کیا گیا۔

مستشرقین کی ایک جماعت نے، جن میں نولدیکے، رچرڈ بیل، مارگولیتھ، آرتھر جیفرے اور منٹگمری واٹ وغیرہ شامل ہیں، ان روایات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اپنی وحی کو محفوظ یا مرتب کرنا نہیں تھا اور انھوں نے اپنی زندگی میں اس کا کوئی اہتمام نہیں کیا، اس لیے جب ان کی وفات ہوئی تو قرآن کا متن منتشر حالت میں تھا، جس کے کچھ اجزا بعض لوگوں کو زبانی یاد تھے اور کچھ متفرق اشیا پر لکھے ہوئے تھے۔ اس کو جمع اور محفوظ کرنے کی ضرورت بنیادی طور پر آپ کی وفات کے بعد مسلمانوں کو محسوس ہوئی اور انھوں نے اس سلسلے میں مختلف کوششیں کیں، لیکن یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ان کوششوں کے نتیجے میں قرآن کا سارا متن محفوظ کر لیا گیا۔[1]

مسلمان اہل علم کا نقطۂ نظر اس معاملے میں یہ رہا ہے کہ عہد نبوی میں قرآن ایک مصحف میں جمع نہیں تھا اور اس کی وجہ وہ عموماً‌ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چونکہ وحی کے نزول کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے آپ قرآن کی زبان تعلیم کے علاوہ اس کے اجزا کو متفرق اوراق اور پارچوں میں لکھوانے کا اہتمام تو فرماتے تھے، لیکن آپ نے اسے ایک مصحف میں جمع نہیں کیا (زرکشی، البرہان فی علوم القرآن ۱۶۵۔ ابن حجر، فتح الباری ۹ /۱۳)۔ تاہم ایک مصحف میں جمع نہ ہونے کے باوجود قرآن کا حتمی متن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی طے ہو چکا تھا اور آپ مکمل اور مرتب شکل میں امت کو اس کی تعلیم دے کر دنیا سے تشریف لے گئے تھے ۔ آپ کی تعلیم وتلقین کے مطابق قرآن کی تمام سورتیں اپنے مخصوص ناموں کے ساتھ از اول تا آخر صحابہ کو معلوم تھیں، اور پورا قرآن حفاظ صحابہ کے سینوں میں محفوظ ہونے کے علاوہ مختلف اوراق اور اشیا پر بھی لکھا ہوا موجود تھا۔

سیدنا ابوبکر کے عہد میں جب بہت سے حفاظ کی شہادت کے پس منظر میں قرآن کے متن کے ضائع ہو جانے کا خدشہ سامنے آیا تو اسے ایک مصحف کی صورت میں یکجا کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس موقع پر صحابہ کو اصولاً‌ قرآن کا متن جمع کرنے کے لیے ازسرنو کسی تحقیق کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ وہ معلوم و معروف تھا۔ تاہم احتیاط کے پہلو سے اور اتفاق راے پیدا کرنے کے پیش نظر صحابہ سے یہ کہا گیا کہ جس کے پاس قرآن کا جو بھی جزو زبانی یا تحریری طور پر محفوظ ہو، وہ اسے لے آئے۔ اس کے ساتھ ان سے دو گواہ بھی طلب کیے گئے، جس کا مقصد یہ تھا کہ یہ سارا عمل علیٰ رؤوس الاشہاد انجام پائے اور بعد میں کسی کو کوئی شبہ یا اعتراض اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن کے متن کو جمع یا مرتب کے لیے فی نفسہٖ کسی قسم کی تحقیق کی ضرورت نہیں تھی اور نہ اس تحقیق کے لیے انفرادی گواہیوں پر انحصار کیا گیا، کیونکہ وہ مکمل اور مرتب صورت میں پہلے ہی صحابہ کو معلوم اور حفظاً‌ وکتابۃً‌ ان کے پاس موجود تھا۔

باقلانی نے جمع قرآن کی نوعیت کی وضاحت میں لکھا ہے:

أنهم لم يثبتوا منه شيئًا غير معروف، ولا ما تقم الحُجة به، ولا أجمعوا في العلم بصحة شيء منه وثبوته إلى شهادة الواحد والاثنين ومن جرى مجراهما، وإن كانوا قد أشهدوا على النسخة التي جمعوها على وجه الاحتياط من الغلط، وطريق الحكم والإنفاذ.(الانتصار للقرآن ۱ / ۶۴)
’’صحابہ نے مصحف میں کوئی ایسی چیز درج نہیں کی جو معروف نہیں تھی اور جس کے ثبوت پر حجت قائم نہیں ہو چکی تھی۔ اسی طرح انھوں نے قرآن کے کسی حصے کی صحت اور ثبوت معلوم کرنے کے لیے ایک یا دو گواہوں یا ان کے قائم مقام کسی شہادت پر اتفاق نہیں کیا۔ ہاں، جو نسخہ انھوں نے جمع کیا، اس میں ممکنہ غلطی سے بچنے اور لوگوں کو اس نسخے کا پابند بنانے کے لیے ضرور اس پر گواہی لینے کا اہتمام کیا۔“

زرکشی لکھتے ہیں:

وإنما طلب القرآن متفرقًا ليعارض بالمجتمع عند من بقي ممن جمع القرآن ليشترك الجميع في علم ما جمع فلا يغيب عن جمع القرآن عنده منه شيء ولا يرتاب أحد في ما يودع المصحف ولا يشكوا في أنه جمع عن ملإ منهم.(البرہان فی علوم القرآن ۱۸۶)
’’قرآن کے مختلف اجزا اس لیے اکٹھے کیے گئے تاکہ پورے قرآن کو یاد کرنے والے جو صحابہ موجود تھے، ان کے پاس جمع شدہ متن کے ساتھ ان کا موازنہ کیا جائے تاکہ جمع کردہ متن تمام لوگوں میں مشترک طور پر معلوم ہو جائے اور کوئی ایسی چیز نہ ہو جو کسی کے نزدیک قرآن میں شامل ہونے سے رہ گئی ہو۔ نیز مصحف میں درج متن پر کوئی بھی شک وشبہ نہ کر سکے اور نہ لوگوں کو اس بات میں کوئی شبہ ہو کہ مصحف تمام صحابہ کے اتفاق سے مرتب کیا گیا ہے۔“

ابن عقیلہ، حارث محاسبی کے بیان کی روشنی میں واضح کرتے ہیں کہ اس ساری سرگرمی میں بنیادی انحصار صحابہ کے انفرادی بیانات یا ان کے پاس موجود تحریری مواد پر نہیں، بلکہ قرآن کے معلوم ومعروف متن پر تھا، جو مجموعی طور پر پوری جماعت صحابہ کے پاس محفوظ تھا۔ لکھتے ہیں:

قال: فإن قيل: كيف وقعت الثقة بأصحاب الرقاع، وصدور الرجال؟ قيل: لأنهم كانوا يبدون عن تأليف معجز، ونظم معروف قد شاهدوا تلاوته من النبي ﷺ عشرين سنة، فكان تزوير ما ليس منه مأمونًا، وإنما كان الخوف من ذهاب شيء من صحفه. انتهى. وأيضًا فكانوا جماعة من الصحابة قد جمعوه في حفظهم، منهم: زيد بن ثابت؛ فكان أخذهم لما في الرقاع والصدور تأكيدًا لما عندهم، فالزيادة فيه والنقص مأمونة.(الزیادۃ والاحسان فی علوم القرآن ۲ / ۲۲)
’’(حارث محاسبی کہتے ہیں کہ) اگر یہ پوچھا جائے کہ جن کے پاس قرآن کے اجزا لکھے ہوئے یا سینوں میں موجود تھے، ان پر اعتماد کس بنیاد پر کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ ایک معجز کلام اور ایک معروف ومعلوم متن کو جمع کر رہے تھے، جس کی تلاوت کرتے ہوئے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیس سال تک دیکھا تھا۔ اس لیے کوئی چیز گھڑ کر قرآن میں شامل کر دیے جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، بلکہ صرف یہ خدشہ تھا کہ (حفاظ کی وفات سے) اس کا کوئی جز ضائع نہ ہو جائے، جو لکھا ہوا نہیں ہے۔ (ابن عقیلہ کہتے ہیں کہ) اس کے علاوہ صحابہ کی ایک جماعت کو پورا قرآن زبانی بھی یاد تھا، جن میں زید بن ثابت بھی شامل تھے، اور صحابہ لوگوں کے پاس لکھا ہوا یا سینوں میں محفوظ کلام محض اس متن کی توثیق اور تاکید کے لیے جمع کر رہے تھے جو ان کے پاس موجود تھا۔ ایسی صورت میں متن میں کسی زیادتی یا کمی کا کوئی امکان نہیں تھا۔“

اس بنیادی نقطۂ نظر کے تحت مسلمان اہل علم ان روایات کا مفہوم بھی واضح کرتے ہیں جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض آیات اکا دکا صحابہ کے بیان پر قرآن میں لکھی گئیں۔ ان کے سامنے سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کا ابلاغ عام کیوں نہیں کیا ا ور ان کے ثبوت کے لیے صحابہ کو انفرادی روایات پر کیوں انحصار کرنا پڑا؟ چنانچہ زرکشی نے اس روایت کو جس میں سورۂ احزاب کی ایک آیت کا خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی شہادت پر قرآن میں درج کیے جانے کا ذکر ہے، اس پر محمول کیا ہے کہ یہ آیت اصولی طور پر زید بن ثابت اور دیگر صحابہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، لیکن انھیں مستحضر نہیں رہی اور پھر خزیمہ کے یاد دلانے پر انھیں بھی یاد آ گئی (البرہان ۱۶۵) ۔

اسی طرح سورۂ براءۃ کی آخری آیتوں کے متعلق زید بن ثابت کے اس بیان کو کہ وہ مجھے خزیمہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ملیں (لم أجدھا مع غیرہ)، زرکشی ان صحابہ پر محمول کرتے ہیں جنھیں جزوی طور پر قرآن یاد تھا۔ یعنی جن صحابہ کو پورا قرآن حفظ تھا، ان کو تو یہ آیت یاد تھی، البتہ جزوی طور پر قرآن یاد کرنے والوں میں سے صرف ایک صحابی، یعنی خزیمہ نے یہ آیت یاد کی تھی (البرہان ۱۶۸)۔ ابن حجر کی راے میں زید بن ثابت کی مراد لکھی ہوئی آیات کی نفی کرنا ہے، یعنی یہ آیتیں فی نفسہٖ تو محفوظ اور صحابہ کو یاد تھیں، لیکن لکھی ہوئی صورت میں خزیمہ کے علاوہ کسی کے پاس موجود نہیں تھیں (فتح الباری ۹/۱۳) ۔

بعض معاصر اہل علم نے اس مفروضے پر بھی ان روایات کی توجیہ کی ہے کہ ان آیات کا علم واقعتاً‌ انھی چند صحابہ کو تھا۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ دراصل تواتر کی کوئی ایک ہی خاص شکل نہیں ہوتی، بلکہ مختلف حالتوں میں معاون قرائن کی روشنی میں راویوں کی مختلف تعداد سے کسی بات کے ثبوت کا یقین حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی راے میں مختلف روایات کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ براءۃ کی یہ دو آیتیں زبانی یا تحریری طور پر پانچ صحابہ کے پاس محفوظ تھیں اور چونکہ وضع کا کوئی محرک موجود نہیں تھا، اس لیے یہ بھی ان آیات کے یقینی ثبوت کے لیے کافی تھا ۔ اس مفہوم میں یہ آیات بھی باقی قرآن کی طرح متواتر ہو جاتی ہیں ( مصطفیٰ الاعظمی، النص القرآنی ۵۱-  ۵۲)۔

جمع قرآن کی روایات کے حوالے سے اہل علم کے اس روایتی نقطۂ نظر کے برخلاف، دو رجدید میں متعدد اہل علم کے ہاں ایک دوسرا رجحان سامنے آیا ہے، جو زیر بحث روایات کی تاریخی صحت پر کئی پہلوؤں سے تنقیدی سوالات اٹھاتا ہے۔ اس ضمن میں اولین تنقید ’’تاریخ القرآن“ کے مصنف مفتی عبد اللطیف رحمانی نے پیش کی ہے اور عہد صدیقی وعہد عثمانی میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قرآن کی جمع وتدوین سے متعلق صحیح بخاری کی معروف روایات پر متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے انھیں ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ مثلاً‌ یہ کہ مستند روایات کے مطابق زید بن ثابت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پورا قرآن یاد کر لیا تھا، اس لیے سیدنا ابوبکر نے اگر انھیں قرآن کو جمع کرنے کی ذمہ داری دی تو اس کے لیے انھیں دیگر صحابہ کے سینوں اور مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے اجزا کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مزید یہ کہ روایت میں اس موقع پر زید بن ثابت ہی سارے کام میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں، جب کہ دیگر اکابر صحابہ بھی اس موقع پر موجود تھے جنھیں اس ذمہ داری میں شریک کیا جانا چاہیے تھا۔

مولانا رحمانی یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اول تو یمامہ میں حفاظ کی کوئی ایسی بڑی تعداد شہید نہیں ہوئی تھی جس سے قرآن کے ضائع ہو جانے کا خدشہ پیدا ہوتا ہو، اور اگر واقعی ایسا تھا تو پھر سیدنا ابوبکر کو جنگوں کا سلسلہ روک کر سب سے پہلے قرآن کو محفوظ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے تھا، لیکن تاریخی طور پر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس خدشے کے غیر حقیقی ہونے کا اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ روایات کے مطابق زید بن ثابت کے جمع کردہ نسخے کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں محفوظ کر لیا گیا اور اس کی اشاعت کی کوشش نہیں کی گئی، حالاں کہ مبینہ صورت حال میں اس کی عام اشاعت کی جانی چاہیے تھی۔ اس نوعیت کے مزید کئی نکات کی روشنی میں عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایت سے متعلق اپنا نتیجۂ تحقیق انھوں نے یوں بیان کیا ہے:

’’یہ عجب بات ہے کہ جو واقعہ نہایت ہی بے اصل اور سراسر غلط اور جس قدر بے بنیاد ہوتا ہے، اسی قدر مشہور اور زبان زد عوام وخواص ہو جاتا ہے۔ خلیفہ اول کے جمع قرآن کے واقعہ نے شہرت کا یہ درجہ پایا ہے کہ آج محدثین اور مورخین اور ہر مسلمان کی زبان اور قلم پر ہے۔ اور انتہا یہ ہے کہ بخاری جیسے ناقد اور محقق کی تحقیق کی روشنی بھی اس شہرت کے آگے ماند پڑ گئی۔ “ (تاریخ القرآن ۱۳۲)

سیدنا عثمان کے عہد میں مصحف کی تیاری سے متعلق روایت پر بھی انھوں نے اسی نوعیت کے سوالات اٹھائے اور آخر میں اپنا نتیجہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’باوجود اس کے کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس پورا قرآن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہوا موجود تھا، سورۂ احزاب کی آخری آیتوں کا محض خزیمہ یا ابو خزیمہ کے پاس ملنا ایسی باتیں ہیں جو یا تو بالکل بے اصل ہیں یا درمیان کے کسی راوی کے بیان کی وہ غلطی ہے جو اقتضاء بشریت سے بعید نہیں ہے۔ بہرحال یہ تمام روایات بمقابلہ اس تواتر اور توارث کے جس سے قرآن ہمیں ملا ہے، لائق اعتبار نہیں۔“ (تاریخ القرآن ۱۴۳)

مذکورہ روایات پر اسی نوعیت کی تنقید علامہ تمنا عمادی اور مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی نے بھی کی ہے، البتہ یہ حضرات اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں قرآن کا ایک باقاعدہ مرتب نسخہ بھی تیار کیا گیا تھا جس کے ہوتے ہوئے قرآن کی جمع وتدوین کی کسی نئی کوشش کی ضرورت ہی نہیں تھی۔[2]

مصنف کا نقطۂ نظر اسی آخری رجحان کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور وہ ان روایات میں متن کی تعیین اور تحقیق کے حوالے سے ظاہراً‌ سامنے آنے والی صورت واقعہ کو قرآن مجید کی تصریح کے منافی تصور کرتے ہیں۔ مصنف نے ان روایات پر کوئی تفصیلی کلام نہیں کیا، بلکہ اصولی تنقید کرنے پر اکتفا کی ہے۔ ان میں سے صحاح کی روایات میں، جو سنداً‌ سب سے زیادہ قابل اعتماد ہو سکتی ہیں، مصنف نے سند کے پہلو سے اس کم زوری کی نشان دہی کی ہے کہ وہ اصلاً‌ ابن شہاب زہری سے مروی ہیں، جن پر تدلیس اور ادراج کا بھی الزام ہے اور امام لیث بن سعد نے ان کے اقوال وآرا کے باہم متضاد ہونے کی بھی نشان دہی کی ہے۔ مصنف کے نقطۂ نظر سے ان پہلوؤں کی موجودگی میں ’’ اِن کی کوئی روایت بھی اِس طرح کے اہم معاملات میں قابل قبول نہیں ہو سکتی۔“ اس خاص نکتے میں بھی مصنف کی راے مفتی عبد اللطیف رحمانی اور علامہ تمنا عمادی کی تائید وموافقت پر مبنی ہے۔[3]

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: ڈاکٹر حافظ محمود اختر، حفاظت قرآن اور مستشرقین، ص ۲۰۳ - ۲۱۷۔ ڈاکٹر شہزاد سلیم، History of the Qur’an ، ص ۲۵ - ۲۸۔

[2]۔ تمنا عمادی، جمع القرآن، الرحمٰن پبلشنگ ٹرسٹ کراچی، اکتوبر ۱۹۹۴ء۔ عنایت اللہ اسد سبحانی، بہجۃ الجنان فی تاریخ تدوین القرآن، موسسۃ نظام القرآن، ہندوستان، ۲۰۱۴ء۔

[3]۔ اس موضوع سے متعلق سند اور متن کے اعتبار سے صحاح اور دیگر کتب حدیث میں مروی روایات کے تفصیلی ناقدانہ جائزے کے لیے ڈاکٹر شہزاد سلیم کی کتاب ’’History of the Qur’an‘‘ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔


B