HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

دن کی نفل نمازیں

حدیث سیل

ترجمہ و تدوین: شاہد رضا

 

عن عاصم بن ضمرة السلولي، قال: سألنا عليًا رضي اللّٰه عنه عن تطوع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بالنهار، فقال: إنكم لا تطيقونه. فقلنا: أخبرنا به نأخذ منه ما استطعنا. قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذا صلى الفجر، يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، يعني من قبل المشرق بمقدارها من صلاة العصر من هاهنا، يعني من قبل المغرب. قام فصلى ركعتين. ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، يعني من قبل المشرق مقدارها من صلاة الظهر من هاهنا قام فصلى أربعًا وأربعًا قبل الظهر إذا زالت الشمس وركعتين بعدها وأربعًا قبل العصر يفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين والنبيين ومن تبعهم من المسلمين والمؤمنين. قال علي: فتلك ست عشرة ركعة تطوع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بالنهار وقل من يداوم عليها.

عن أم سلمة قالت: دخل علي رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعد العصر فصلى ركعتين. فقلت: يا رسول اللّٰه، ما هذه الصلاة، ما كنت تصليها؟ قال: «قدم وفد بني تميم فحبسوني عن ركعتين أركعهما بعد الظهر».

  حضرت عاصم بن ضمرہ سلولی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دن کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا: تم ان کو ادا نہ کر سکو گے۱، ہم نے کہا کہ آپ ہمیں ان کے بارے میں بتائیے، ہم ان میں سے جتنی ادا کر سکیں گے، اتنی لے لیں گے۔ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھنے کے بعد رکے رہتے، یہاں تک کہ جب سورج مشرق کی جانب سے اتنا بلند ہو جاتا، جتنا کہ عصر کے وقت مغرب کی جانب سے ہوتا ہے تو کھڑے ہوتے اور دو رکعت (نفل) ادا فرماتے، پھر ٹھیر جاتے، یہاں تک کہ جب سورج مشرق کی جانب سے اتنا بلند ہو جاتا، جتنا ظہر کے وقت مغرب کی طرف سے بلند ہوتا ہے تو آپ کھڑے ہوتے اور چار رکعت  پڑھتے، اور جب سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر سے پہلے چار رکعت (نفل) اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتے، اور چار رکعت عصر سے پہلے، جن میں ہر دو رکعتوں کے درمیان مقرب فرشتوں، انبیاے کرام اور ان کے پیروکار مسلمانوں اور مومنوں پر سلام بھیج کر۲ فصل کرتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ سب سولہ نفل رکعتیں ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت ادا فرماتے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جو مداومت کے ساتھ انھیں ادا کرتے رہیں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نماز عصر کے بعد تشریف لائے اور دو رکعات نماز ادا فرمائی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، یہ کون سی نماز ہے جو آپ نے ادا کی ہے، آپ نے یہ نماز کبھی ادا نہیں فرمائی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: میرے پاس قبیلۂ تمیم کا وفد آیا تھا  اور انھوں نے مجھے روکے رکھا، جس کی وجہ سے میری وہ دو رکعتیں چھوٹ گئی تھیں جنھیں میں (عموماً) ظہر کے بعد ادا کرتا تھا، (لہٰذا میں نے وہی دو رکعتیں اب ادا کی ہیں)۳۔

حواشی کی توضیح

۱۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ سوال سنا تو ان کی جانب سے یہ توضیح ایک فطری امر تھا تاکہ یہ معلوم ہوسکے  کہ سائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی کے لیے جاننا چاہتا ہے۔ اسی لیے انھوں یہ کہہ کر جواب   دیا کہ سائل کو اتنی طاقت نہیں ہو گی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی نفل نمازیں ادا کر سکے۔

۲۔  سلام بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز مکمل ہو چکی ہے۔ اس بیان کا مطلب یہ ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو دو کر کے چاررکعات ادا فرماتے۔ 

۳۔ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل عبادات میں مستقل مزاجی کے حوالے سے بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس روایت کے مطابق، ایک دفعہ جب  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دو نفلی رکعتیں چھوٹ گئیں جو آپ باقاعدہ ادا کرتے تھے، قبیلۂ تمیم کے وفد کے ساتھ مصروفیت سے فراغت کے بعد آپ نے انھیں فوری طور پر ادا فرمایا۔

متون

پہلی روایت بعض اختلافات کے ساتھ  ابن ماجہ ، رقم ۱۱۶۱ ؛  ترمذی، رقم ۵۹۸، ۵۹۹؛ احمد، رقم۶۵۰، ۱۲۰۲، ۱۲۰۷،  ۱۳۷۵؛ نسائی، رقم ۸۷۴، ۸۷۵؛ السنن الکبریٰ، رقم۳۳۷-۳۴۱،۴۷۰ ؛ بیہقی، رقم ۴۲۶۸، ۴۶۹۳- ۴۶۹۴؛ ابو یعلیٰ، رقم ۳۱۶،  ۶۲۲ ؛ عبدالرزاق، رقم۴۸۰۶- ۴۸۰۷اور ابن خزیمہ ، رقم۱۲۳۲ میں روایت کی گئی ہے۔

دوسری روایت بعض اختلافات کے ساتھ  ابن خزیمہ ، رقم ۱۲۷۷ ؛  احمد، رقم۲۶۵۵۸، ۲۶۷۲۰، ۲۶۸۷۵،  ۲۶۸۸۲؛ بیہقی، رقم ۴۳۳۷؛ ابو یعلیٰ، رقم ۶۹۴۶،  ۷۰۸۵ ؛ السنن الکبریٰ، رقم۳۵۰،۱۵۵۶-۱۵۵۸  اور مسند عبد ابن حمید ، رقم۱۵۳۱ میں روایت کی گئی ہے۔

پہلی روایت

بعض روایات، مثلاً نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۳۳۷ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں کے اوقات قدرے مختلف الفاظ میں بیان ہوئے ہیں:

إذا زالت الشمس، يعني من مطلعها.
’’جب سورج ڈھل جاتا، یعنی مطلع سے۔‘‘

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۱۲۰۷ میں سیدنا علی اور حضرت عاصم رضی اللہ عنہما کے درمیان ہونے والا مکالمہ درج ذیل الفاظ میں مختصر طور پر روایت کیا گیا ہے:

عن عاصم بن ضمرة، قال: سألنا عليًا رضي اللّٰه عنه عن تطوع النبي صلى اللّٰه عليه وسلم بالنهار، قال: قال علي: تلك ست عشرة ركعة تطوع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بالنهار وقل من يداوم عليها.
’’حضرت عاصم بن ضمرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ  کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دن کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا: یہ سب سولہ  نفل رکعتیں ہیں،  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن  کے وقت ادا فرماتے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جو مداومت کے ساتھ انھیں ادا کرتے رہیں ۔‘‘

بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۸۷۵ میں یہ مضمون درج ذیل مختلف الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:

عن عاصم بن ضمرة، قال: سألت علي بن أبي طالب عن صلاة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم في النهار قبل المكتوبة، قال: من يطيق ذلك؟ ثم أخبرنا قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يصلي حين تزيغ الشمس ركعتين وقبل نصف النهار أربع ركعات يجعل التسليم في آخره.
’’حضرت عاصم بن ضمرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  تووسلم کی  فرض نماز سے پہلے کی دن کی (نفل) نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا: اسے (مداومت کے ساتھ) ادا کرنے کی کون طاقت رکھتا ہے؟ پھر ہمیں یہ بتاتے ہوئے جواب دیا: جب سورج ڈھل جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں اور نصف النہار سے پہلے چار رکعات (نفل) ادا فرماتے اور ان رکعات کے آخر میں سلام پھیرتے۔‘‘

دوسری روایت

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۴۳۳۷ میں ’قدم وفد بني تميم فحبسوني عن ركعتين أركعهما بعد الظهر‘ ( میرے پاس قبیلۂ تمیم کا وفد آیا تھا اور انھوں نے مجھے روکے رکھا، جس کی وجہ سے میری وہ دو رکعتیں چھوٹ گئی تھیں جنھیں میں (عموماً) ظہر کے بعد ادا کرتا تھا، (لہٰذا میں نے وہی دو رکعتیں اب ادا کی ہیں)) کے بجاے ’كنت أصليهما بعد الظهر فجاءني مال فشغلني عنهما فصليت الآن ‘ (میں یہ دو رکعات ظہر کے بعد ادا کرتا تھا، پھر میرے پاس کچھ مال آیا اور اس نے مجھے مشغول کر دیا، جس کی وجہ سے وہ دو رکعتیں (وقت پر ادا کرنے سے) رہ گئیں۔ لہٰذا وہ میں نے اب ادا کی ہیں) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔  

اس روایت سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مساکین کے لیے   بطور صدقہ مال آیا تھا، جس کی تقسیم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصروف ہو گئے تھے۔ یہ پہلو احمد، رقم ۲۶۸۸۲ میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ بعض روایات، مثلاً ابویعلیٰ، رقم ۶۹۴۶ میں روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’كنت أصليهما قبل العصر‘  (میں یہ دو رکعات نماز عصر سے پہلے پڑھتا تھا)۔

بعض روایات، مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۲۷۷ میں ’فحبسوني عن‘(انھوں نے مجھے اس سے روکے رکھا) کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’فشغلوني عن‘ (انھوں نے اس سےمجھے مشغول کر دیا)  روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۶۸۷۵  میں یہ مضمون قدرے مختلف انداز میں روایت کیا گیا ہے:

عن ميمونة، زوج النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم فاتته ركعتان قبل العصر فصلاهما بعد.
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دو رکعتیں چھوٹ گئیں جنھیں آپ نماز عصر سے پہلے ادا فرماتے تھے، لہٰذا آپ نے وہ دو رکعتیں نماز عصر کے بعد ادا فرمائیں۔‘‘

بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۵۷۴ سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل غلط طور پر روایت کیا گیا ہے۔  اس میں بیان ہوا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:

ما ترك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم السجدتين بعد العصر عندي قط.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاں نماز عصر کے بعد کبھی دو رکعتیں ترک نہیں فرمائیں۔‘‘

بہ ظاہر  غلط طور پر کی گئی یہ روایت نسائی، رقم ۵۷۵- ۵۷۹ اور نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۵۳- ۱۵۵۶ میں بھی روایت کی گئی ہے۔

نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۵۴ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں زیادہ عام بیان   پیش کیا ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:

ما دخل علي رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعد صلاة إلا صلاهما.
’’جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد میرے پاس تشریف لاتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دو رکعات ادا فرماتے۔‘‘

نسائی، رقم ۵۷۷ میں روایت کے متن میں قدرے اضافہ بیان ہوا ہے:

عن عائشة، قالت: صلاتان ما تركهما رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم في بيتي سرًا وعلانية: ركعتان قبل الفجر وركعتان بعد العصر.
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: دو نمازیں ایسی ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں خفیہ اور علانیہ کبھی ترک نہیں کیا: دو رکعات نماز فجر سے پہلے اور دو رکعات نماز عصر کے بعد۔‘‘

متذکرہ بالا روایتوں کی روایت  میں غلط فہمی کا ثبوت نسائی، رقم ۵۷۸ سے بھی ملتا ہے، جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی درج ذیل الفاظ میں وضاحت کر دی ہے:

عن أبي سلمة أنه سأل عائشة عن السجدتين اللتين كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يصليهما بعد العصر، فقالت: إنه كان يصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما أو نسيهما فصلاهما بعد العصر وكان إذا صلى صلاة أثبتها.
’’حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان دو رکعات کے بارے میں سوال کیا جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد ادا فرماتے تھے۔ سیدہ عائشہ نے جواب دیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں نماز عصر سے پہلے ادا کرتے تھے، پھر ( کسی وجہ سے ) آپ مشغول ہو گئے اور رہ گئیں یا آپ انھیں ادا کرنا بھول گئے، اس لیے آپ نے یہ دو رکعتیں عصر کے بعد ادا فرمائیں۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا کرتے تو اسے مستقل مزاجی کے ساتھ ادا کرتے۔‘‘

نسائی، رقم ۵۷۹ کے مطابق، یہ واقعہ صرف ایک دفعہ ہی پیش آیا ہے کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دو رکعتیں نہ ادا کر سکے  جنھیں آپ عموماً نماز ظہر کے بعد   ادا فرماتے تھے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B