وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰي بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ٢٣ اِلٰي فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ٢٤ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْ٘ا اَبْنَآءَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ وَاسْتَحْيُوْا نِسَآءَهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ٢٥
اِسی طرح ہم نے موسیٰ کو بھی فرعون اور ہامان [107] اور قارون[108] کی طرف اپنی نشانیوں اور ایک واضح حجت[109] کے ساتھ بھیجا تھا تو اُنھوں نے کہہ دیا کہ یہ ایک جادوگر ہے، سخت جھوٹا۔[110] پھر جب وہ ہماری طرف سے حق لے کر اُن کے پاس آگیا تو اُنھوں نے حکم دیا کہ جو لوگ اِس کے ساتھ ایمان لائے ہیں، اُن کے بیٹوں کو قتل کرو اور اُن کی عورتوں کو زندہ رہنے دو۔[111]لیکن اِن منکروں کی یہ تدبیر بالکل رایگاں گئی۔[112] ۲۳- ۲۵
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْ٘ اَقْتُلْ مُوْسٰي وَلْيَدْعُ رَبَّهٗ اِنِّيْ٘ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ ٢٦ وَقَالَ مُوْسٰ٘ي اِنِّيْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ٢٧
(اپنی اِس ناکامی کو دیکھ کر) فرعون نے (درباریوں سے)کہا: مجھے چھوڑو،[113] میں موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور (اپنی مدد کے لیے اب) وہ اپنے رب کو بلا لے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تمھارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں فساد نہ پھیلا دے۔[114] موسیٰ (نے یہ بات سنی تو اُس) نے کہا: میں نے ہر اُس متکبر کے شر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا، اپنے اورتمھارے پروردگار کی پناہ لے لی ہے۔[115] ۲۶- ۲۷
وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗ٘ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ٢٨ يٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظٰهِرِيْنَ فِي الْاَرْضِ فَمَنْ يَّنْصُرُنَا مِنْۣ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا٘ اُرِيْكُمْ اِلَّا مَا٘ اَرٰي وَمَا٘ اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ ٢٩
(یہی موقع تھا کہ )فرعون کے خاندان میں سے ایک بندۂ مومن [116] نے ، جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا،[117] کہا:کیا تم ایک شخص کو محض اِس بنا پر قتل کردو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟حالاں کہ وہ تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس نہایت واضح نشانیاں لے کر آیا ہے۔[118] (خدا کے بندو)، اگر وہ جھوٹا[119] ہے تو اُس کے جھوٹ کا وبال اُسی پر پڑے گا اور اگر سچا ہے تو جس عذاب کی وعید وہ تمھیں سنا رہا ہے، اُس کا کوئی حصہ تم کو پہنچ کر رہے گا۔[120] یقین رکھو، اللہ کسی ایسے شخص کو بامراد نہیں کرے گا جو حد سے گزرنے والا ہو،سخت جھوٹا ہو۔[121] میری قوم کے لوگو، آج تمھیں بادشاہی حاصل ہے کہ ملک میں تمھارا غلبہ ہے،[122] لیکن اگر خدا کا عذاب ہم پر آگیا تو مجھے بتاؤ کہ کون ہے جو اُس کے مقابل میں ہماری مدد کر سکے گا؟ فرعو ن نے کہا: میں تم کو وہی راے دے رہاہوں جو میں سمجھتا ہوں کہ اِس وقت دینی چاہیے اور تم کو وہی راہ دکھارہا ہوں جو ٹھیک ہے۔[123] ۲۸- ۲۹
وَقَالَ الَّذِيْ٘ اٰمَنَ يٰقَوْمِ اِنِّيْ٘ اَخَافُ عَلَيْكُمْ مِّثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَابِ ٣٠ مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِيْنَ مِنْۣ بَعْدِهِمْ وَمَا اللّٰهُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ ٣١ وَيٰقَوْمِ اِنِّيْ٘ اَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ ٣٢ يَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ٣٣ وَلَقَدْ جَآءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ حَتّٰ٘ي اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۣ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ ٣٤ اِۨلَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ٣٥
اُس شخص نے، جو ایمان لے آیا تھا، (اِس مداخلت کی پروا نہیں کی اور بات جاری رکھتے ہوئے) کہا: میری قوم کے لوگو، (تم نے موسیٰ کو قتل کرنے کی کوشش کی تو) مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر بھی اُسی طرح کا دن نہ آجائے جو (اِس سے پہلے) بہت سے گروہوں پر آچکا ہے اور وہی حال نہ ہو، جیسا نوح کی قوم اور عاد و ثمود[124] اور اُن لوگوں کا حال ہوا تھا جو اُن کے بعد ہوئے۔ (اِس لیے کہ رسولوں کی تکذیب کے بعد وہ اِسی کے مستحق تھے)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم نہیں کرنا چاہتا۔ میری قوم کے لوگو، میں تم پر ہانک پکار کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اور تمھیں خدا سے بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔(اِس کے باوجود نہیں سمجھتے ہو تو اِس کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ) جنھیں اللہ گم راہ کر دے، اُن کو پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔[125] اِس سے پہلے یوسف بھی تمھارے پاس اِسی طرح نہایت واضح دلائل کے ساتھ آئے تھے توجو باتیں وہ تمھارے پاس لے کر آئے تھے، اُن کی طرف سے تم شک ہی میں پڑے رہے، یہاں تک کہ جب اُن کی وفات ہو گئی تو تم نے کہہ دیا کہ (یہ بھی رسول نہیں تھے اور) اللہ اِن کے بعد بھی (ہماری طرف) ہرگز کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔[126] اللہ اِسی طرح اُن لوگوں کو گم راہ کرتا ہے جو حد سے بڑھے ہوئے اور شک میں پڑے ہوتے ہیں۔[127] وہ جو بغیر کسی دلیل کے جو اُن کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک اور ایمان والوں کے نزدیک یہ سخت مبغوض ہے ۔ اللہ اِسی طرح ہر مغرور اور سرکش کے دل پر مہر کر دیا کرتا ہے۔[128] ۳۰- ۳۵
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْ٘ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ ٣٦ اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰ٘ي اِلٰهِ مُوْسٰي وَاِنِّيْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا وَكَذٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيْلِ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِيْ تَبَابٍ ٣٧
فرعون نے (پھر مداخلت کی[129] اور اُن کا مذاق اڑاتے ہوئے ) کہا کہ اے ہامان، میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا دو کہ میں اطراف میں پہنچوں، آسمانوں کے اطراف میں، پھر موسیٰ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں تو اِسے ایک جھوٹا آدمی سمجھتا ہوں۔ اِس طرح فرعون کی نگاہوں میں اُس کی بدعملی خوش نما بنا دی گئی اور وہ سیدھی راہ سے روک دیا گیا۔ (یہ اُس نے ایک تدبیر کی تھی) اور فرعون کی یہ تدبیر بھی غارت ہو کر رہی۔ ۳۶- ۳۷
وَقَالَ الَّذِيْ٘ اٰمَنَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِيْلَ الرَّشَادِ ٣٨ يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ ٣٩ مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰ٘ي اِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰي وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ٤٠ وَيٰقَوْمِ مَا لِيْ٘ اَدْعُوْكُمْ اِلَي النَّجٰوةِ وَتَدْعُوْنَنِيْ٘ اِلَي النَّارِ ٤١ تَدْعُوْنَنِيْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَاُشْرِكَ بِهٖ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ وَّاَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَي الْعَزِيْزِ الْغَفَّارِ ٤٢ لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِيْ٘ اِلَيْهِ لَيْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْاٰخِرَةِ وَاَنَّ مَرَدَّنَا٘ اِلَي اللّٰهِ وَاَنَّ الْمُسْرِفِيْنَ هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ ٤٣ فَسَتَذْكُرُوْنَ مَا٘ اَقُوْلُ لَكُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْ٘ اِلَي اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيْرٌۣ بِالْعِبَادِ ٤٤
اُس شخص نے، جو ایمان لے آیا تھا، (اِس پر بھی اپنی بات جاری رکھی اور ) کہا: میری قوم کے لوگو، تم میری پیروی کرو، میں تمھیں سیدھی راہ دکھا دوں گا۔[130] اے میری قوم، یہ دنیا کی زندگی تو چند دن کا سامان ہے، حقیقت یہ ہے کہ اصل ٹھیرنے کی جگہ آخرت ہی ہے۔ اور (وہاں ضابطہ یہ ہے کہ) جو برائی کرے گا، وہ تو اُسی کے برابر بدلہ پائے گا، مگر جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو تو یہی لوگ ہیں جو بہشت میں داخل ہوں گے، جس میں وہ بے حساب رزق پائیں گے۔میری قوم کے لوگو،کیا ماجرا ہے، میں تمھیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی دعوت دے رہے ہو! [131]تم مجھے دعوت دے رہے ہو کہ میں خدا سے کفر کروں اور اُن چیزوں کو اُس کا شریک ٹھیراؤں جن کا مجھے کوئی علم نہیں ہے[132] اور میں تمھیں خداے عزیز و غفار کی طرف بلارہا ہوں۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ جن کی دعوت تم مجھے دے رہے ہو، اُن کو نہ دنیا میں پکارنے کا کوئی فائدہ ہے، نہ آخرت میں،[133] اور یہ بھی کہ ہم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے اور یہ بھی کہ جو زیادتی کرنے والے ہیں،[134] وہی دوزخ کے لوگ ہوں گے۔ سو جو کچھ میں تم سے کہہ رہا ہوں، عنقریب تم اُسے یاد کرو گے۔[135] میں اپنا معاملہ اب اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ اپنے بندوں کا نگران ہے۔۳۸- ۴۴
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ ٤٥ اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْ٘ا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ٤٦
چنانچہ اُس کو تو اللہ نے اُن کی تدبیروں کے شر سے بچا لیا،[136] مگر فرعون والوں کو (اِس کے بعد) برے عذاب نے گھیر لیا۔[137] دوزخ کی آگ کہ جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں،[138] اور جس دن قیامت برپا ہو گی، حکم دیا جائے گا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔ ۴۵- ۴۶
وَاِذْ يَتَحَآجُّوْنَ فِي النَّارِ فَيَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْ٘ا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِيْبًا مِّنَ النَّارِ ٤٧ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْ٘ا اِنَّا كُلٌّ فِيْهَا٘ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ ٤٨ وَقَالَ الَّذِيْنَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ ٤٩ قَالُوْ٘ا اَوَلَمْ تَكُ تَاْتِيْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا بَلٰي قَالُوْا فَادْعُوْا وَمَا دُعٰٓؤُا الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ٥٠
اُس دن کا خیال کرو، جب یہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے تو جو کم زور تھے، وہ اُن سے جو بڑے بنے رہے، کہیں گے کہ ہم تمھارے تابع تھے، پھر کیا آپ لوگ اِس آگ کا کچھ حصہ بھی ہم سے بٹائیں گے؟وہ جو بڑے بنے رہے، جواب دیں گے: اب تو ہم سب اِسی میں ہیں۔ اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا ہے۔[139] (چنانچہ ہر طرف سے مایوس ہوکر)یہ آگ میں پڑے ہوئے لوگ دوزخ کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے درخواست کرو کہ ہمارے عذاب میں سے کسی ایک دن کی تخفیف کر دے۔ وہ جواب دیں گے: کیا تمھارے پاس تمھارے رسول واضح دلیلیں لے کر نہیں آتے رہے تھے؟ وہ اعتراف کریں گے کہ ہاں، آتے توضرور رہے۔ داروغے کہیں گے:پھر تم ہی درخواست کرو اور منکروں کی پکار (اُس دن) بالکل صدا بہ صحرا ثابت ہو گی۔[140] ۴۷- ۵۰
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ٥١ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ ٥٢
(ہم نے جس طرح موسیٰ کی مدد کی) ، یقین رکھو، ہم اپنے رسولوں کی اور اُن پر ایمان لانے والے اُن کے ساتھیوں کی (اُسی طرح) دنیا کی زندگی میں بھی لازماً مدد کرتے ہیں[141] اور اُس دن بھی کریں گے، جب گواہ کھڑے ہوں گے۔[142] جس دن (خدا کے شریک ٹھیرا کر) اپنی جان پر ظلم کرنے والوں کو اُن کی معذرت کچھ بھی نفع نہ دے گی اور اُن پر لعنت پڑے گی اور اُن کے لیے بہت برا ٹھکانا ہو گا۔۵۱- ۵۲
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَي الْهُدٰي وَاَوْرَثْنَا بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ الْكِتٰبَ ٥٣ هُدًي وَّذِكْرٰي لِاُولِي الْاَلْبَابِ ٥٤ فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْۣبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ ٥٥
(چنانچہ دیکھ سکتے ہو کہ فرعون غرقاب ہوا اور) ہم نے موسیٰ کو ہدایت عطا فرمائی اور عقل والوں کی رہنمائی اور یاددہانی کے لیے بنی اسرائیل کو اپنی کتاب[143] کا وارث بنا دیا تھا۔ اِس لیے ثابت قدم رہو، (اے پیغمبر) ، یقیناً اللہ کا وعدہ برحق ہے۔[144] اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے رہو[145] اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہو۔ ۵۳- ۵۵
[107]۔ یہ فرعون کا دست راست اور اُس کے تمام مظالم میں پوری طرح شریک تھا۔ قرآن کے بیانات سے اشارہ نکلتا ہے کہ اِس کی حیثیت غالباً اُس کے وزیراعظم کی تھی۔
[108]۔ یہ اگرچہ بنی لاوی میں سے اور موسیٰ علیہ السلام کے سگے چچا کا لڑکا تھا، لیکن اُن کی مخالفت میں اِس کا رویہ بالکل وہی تھا جو ابولہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اختیار کیا۔ بائیبل میں اس کا نام قورح آیا ہے اور قرآن اور بائیبل، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے حد دولت مند اور اپنی دولت کے گھمنڈ میں مبتلا رہنے والوں میں سے تھا۔
[109]۔ اِس سے عصا کا معجزہ مراد ہے جو درحقیقت موسیٰ علیہ السلام کے خدا کی طرف سے مامور ہونے کی ایک سند تھا۔ اِس کے علاوہ جو نشانیاں اُن کو دی گئیں، اُن کی تفصیل قرآن نے سورۂ اعراف(۷) کی آیت ۱۳۳میں کر دی ہے۔
[110]۔ یعنی اِس شخص کے معجزے محض جادوگری ہیں اور اِس کا یہ دعویٰ کہ اِسے خدا نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، محض جھوٹ ہے۔
[111]۔ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹانے اور اُن کو مغلوب رکھنے کی یہ ظالمانہ پالیسی اگرچہ پہلے سے چل رہی تھی، لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعوت برپا ہوئی تو اِسے مزید شدت کے ساتھ جاری رکھنے کا فرمان صادر ہوا۔ یہ اُسی کی طرف اشارہ ہے۔ اِس میں بلاغت کا یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ لڑکوں کو ذبح کرنے کا ذکر ’بیٹوں‘ کے لفظ سے ہوا ہے اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے ’تمھاری عورتوں‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ پہلی تعبیر، اگر غور کیجیے تو پدری شفقت کے جذبات کو مجروح کرتی ہے اور دوسری غیرت کو چیلنج کرنے کا باعث بنتی ہے۔
[112]۔ یعنی اِس کے لیے جو طریقے اختیار کیے گئے، وہ سب ناکام ہو گئے اور بنی اسرائیل کی طاقت میں روز افزوں ترقی ہوتی گئی۔
[113]۔ یہ اسلوب بتا رہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اور شخصیت کو اُس وقت تک ایسی قوت حاصل ہو چکی تھی کہ فرعون جیسا مطلق العنان بادشاہ بھی اپنے اعیان و اکابر کی تائید کے بغیر اُن پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں سمجھتا تھا۔
[114]۔ یعنی میری قوم کے لوگ بھی اُس کی دعوت سے متاثر ہو کر اُسے قبول نہ کرلیں یا اپنی قوم کے لوگوں کو، جنھیں ہم نے غلام بنا رکھا ہے، منظم کرکے وہ ہمارے خلاف بغاوت نہ کرا دے۔
[115]۔ یہ اُس پناہ کا حوالہ ہے جو رسولوں کو اُن کے مخالفین کے مقابل میں حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی فرمایا ہے کہ ’وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ‘* (اللہ اِن لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا)۔
[116]۔ یہ اُسی بندۂ مومن کا ذکر ہے جس کے بارے میں سورۂ یٰس (۳۶)کی آیت ۱۴ میں فرمایا ہے کہ پھر ہم نے ایک تیسرے سے اپنے دو پیغمبروں کی مدد کی۔ یہ شاہی خاندان کے ایک فرد تھے، لیکن اِن کی ہم دردیاں شروع ہی سے حضرت موسیٰ کے ساتھ تھیں۔ چنانچہ سورۂ قصص (۲۸) میں ہے کہ جب اُن کے ہاتھوں اتفاقاً ایک قبطی کا قتل ہوگیا تو یہی دوڑتے ہوئے آئے اورموسیٰ علیہ السلام کو اعیان حکومت کے برے ارادوں سے آگاہ کیا اور مصر سے نکل جانے کا مشورہ دیا۔
[117]۔ اِس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اُس وقت تک وہ ایمان کے اظہار کو خود موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی دعوت کے مصالح کے خلاف سمجھتے تھے۔ لیکن جب اُنھوں نے دیکھا کہ فرعون اب اُن کے قتل کے درپے ہورہا ہے تواُنھوں نے مصلحت کی نقاب اتارکر پھینک دی اور یہ تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
[118]۔ اِس ایک ہی فقرے میں اُنھوں نے فرعون اوراُس کے اعیان کے سامنے کئی حقائق رکھ دیے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’ایک تو یہ کہ اللہ ہی کو اپنا رب ماننا ایک ایسی واضح حقیقت ہے کہ اِس میں کسی اختلاف کی گنجایش ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے تو وہ ایک نہایت روشن حق کا اظہار کر رہا ہے جس پر وہ تائید و تحسین کا سزاوار ہے نہ کہ قتل کا۔ بڑے ہی ظالم ٹھیریں گے وہ لوگ جو ایسے شخص کے قتل کی جسارت کریں گے۔
دوسری یہ کہ جو نشانیاں لے کر آئے ہیں، وہ اُن کے فرستادۂ الہٰی ہونے کی نہایت واضح دلیل ہیں۔ صرف اندھے ہی اُن کے خدائی ہونے سے انکار کر سکتے ہیں۔
تیسری یہ کہ جس رب کے رسول کی حیثیت سے وہ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، وہ تمھارا بھی رب ہے۔ یہ تمھاری جہالت ہے کہ تم اُس کے سوا کسی اور کو رب بنائے بیٹھے ہو۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۳۹)
[119]۔ یعنی تمھارے خیال میں۔ یہ اسلوب اپنی طرف سے کسی شک کے اظہار کے لیے نہیں، بلکہ برسبیل تنزل محض مخاطب کی رعایت سے اختیار کیا جاتا ہے۔
[120]۔ یہ اُس سنت الہٰی کی طرف اشارہ ہے جو رسولوں کے مکذبین کے لیے مقرر ہے۔
[121]۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو فرعون پر نہایت بلیغ تعریض ہے، اگرچہ بات ایک کلیے کے انداز میں کہی گئی ہے۔
[122]۔ اصل الفاظ ہیں: ’لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ، ظٰهِرِيْنَ فِي الْاَرْضِ‘۔اِن میں ’ظٰهِرِيْنَ‘ ہما رے نزدیک ’لَكُمْ‘کی ضمیر مجرور سے حال پڑا ہوا ہے۔ اِس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔
[123]۔ فرعون نے یہ بات اُن کی بات کاٹ کر کہی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس بے محل مداخلت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ اِس مرد مومن کی تقریر بغیر کسی مداخلت کے جاری رہی تو اِس سے اُس کے بہت سے درباری متاثر ہو جائیں گے۔ اِس وجہ سے ہوشیار سیاسی لیڈروں کی طرح اُس نے اپنی نیک نیتی، اصابت راے اور مصلحت اندیشی کی دھونس جمانے کی کوشش کی۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۴۱)
[124]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ سب قو میں فرعون سے پہلے ہو چکی تھیں اور اِن کے حالات بھی اُس عہد کے لوگوں کے لیے معلوم و معروف تھے۔
[125]۔ اللہ کس طرح گم راہ کرتا ہے؟ پیرے کے آخر میں اِس کی وضاحت فرما دی ہے۔
[126]۔ یعنی نہ صرف یہ کہ یوسف علیہ السلام کو نہیں مانا، بلکہ آیندہ کے لیے بھی فیصلہ کر دیا کہ جس طرح اب تک خدا نے ہمارے پاس کوئی رسول نہیں بھیجا، آیندہ بھی نہیں بھیجے گا۔
[127]۔ یہ اُس سنت الہٰی کی وضاحت ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ جس اصول پر مبنی ہے، اُس کی طرف ... جگہ جگہ ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو خیر و شر کی جو معرفت اور عقل و فہم کی جو نعمت اُس نے بخشی ہے، لوگ اُس کی قدر کریں ۔ جو لوگ اِن کی قدر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے لیے ہدایت و معرفت کی مزید راہیں کھولتا ہے۔ جو اِن کی قدر نہیں کرتے، بلکہ اپنے نفس کی خواہشوں سے مغلوب ہو کر واضح سے واضح حق کو بھی مشتبہ بنانے کی کوشش کرتے اور اِسی مقصد کے لیے اپنی ساری ذہانت صرف کرتے ہیں، اُن کو مزید ہدایت دینا تو الگ رہا، اُن کی اِس ناقدری کی پاداش میں اللہ تعالیٰ اُن کا وہ نور بھی سلب کر لیتا ہے جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہوتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۴۳)
[128]۔ یعنی اِس لیے مبغوض ہیں کہ بغیر کسی دلیل کے کج بحثی کرتے ہیں۔ اِس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ ذہنوں میں یہ غرور سما جاتا ہے کہ اُن کے مزعومات کے خلاف کوئی بات حق کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ، ظاہر ہے کہ نہایت قابل نفرت رویہ ہے۔ چنانچہ اللہ اِس کی پاداش میں اُن کے دلوں پر مہر کر دیتا ہے، جس سے اُن کی عقلیں الٹ جاتی ہیں اور یہ اُس سنت الہٰی کے مطابق ہوتا ہے، جس کی وضاحت اوپر ہوئی ہے۔
[129]۔ بندۂ مومن کی تقریر جس عروج پر پہنچ گئی تھی، اُس سے قدرتی طور پر اہل دربار متاثر ہوتے نظر آئے ہوں گے۔ چنانچہ اُس نے پھر مداخلت کی اور وہ بات کہی جو آگے بیان ہوئی ہے۔ یہ محض ایک اشغلہ تھاجو اِس لیے چھوڑا گیا کہ اِس تقریر کے نتیجے میں موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کسی سنجیدہ بحث کاموضوع نہ بنے، بلکہ مذاق کا موضوع بن کر رہ جائے۔
[130]۔ اوپر یہی بات فرعون نے کہی تھی۔ یہ ٹھیک اُس کا جواب ہے۔
[131]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح فرعون نے اُن کی تقریر میں مداخلت کی، اُسی طرح اُس کے بعض اعیان و اکابر نے بھی مداخلتیں کیں اور غالباً کچھ استدلال کرنے اور اُنھیں آبا و اجداد کے دین پر قائم رکھنے کی کوشش بھی کی۔ فرعون کی مداخلت کا تو اُنھوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا، لیکن اِن اعیان و اکابر کو جواب دیا ہے اور نہایت ہم دردی اور دل سوزی کے ساتھ دیا ہے۔ اِس کی وجہ غالباً یہ رہی ہوگی کہ فرعون سے اُنھیں کسی خیر کی امید نہیں تھی۔
[132]۔ اِس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شرک اور کفر میں حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...جو شخص خدا کے شریک ٹھیراتا ہے، وہ درحقیقت اُس کا کفر کرتا ہے، اِس لیے کہ دین میں خدا کا صرف مان لینا مطلوب نہیں ہے، بلکہ اُس کی تمام صفات اور اُس کے تمام حقوق کے ساتھ ماننا معتبر ہے اور اِن حقوق میں سب سے بڑا حق اُس کی توحید و یکتائی کا تسلیم کرنا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۴۶)
[133]۔ اصل الفاظ ہیں:’لَيْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ‘۔اِن میں فعل کی نفی اُس کے فائدے کی نفی کے پہلو سے ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
[134]۔ یعنی خدا کے شریک ٹھیرا کر اپنی جان پر زیادتی کرنے والے ہیں۔
[135]۔ یعنی اُس وقت، جب خدا کا فیصلہ صادر ہو جائے گا، خواہ وہ دنیا میں صادر ہو یا آخرت میں۔
[136]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی اِس تقریر کے بعد فرعون اور اُس کے اعیان اُن کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں لگ گئے کہ کسی طرح وہ اپنے موقف سے دست بردار ہو کر واپس باپ دادا کے دین پر آجائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کی حفاظت فرمائی اور وہ اُن کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکے۔ یہ حفاظت و نصرت اُن کو اِس لیے میسر ہوئی کہ جن حالات میں اور جس موقع پر اُنھوں نے اعلان حق کیا، اُس نے اُنھیں بھی ایک درجے میں گویا اُسی منصب پر کھڑا کر دیا جو رسولوں کے لیے خاص ہے۔ سورۂ یٰس میں ’فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ‘**کے الفاظ سے ہماری اِس بات کی تائید ہوتی ہے۔
[137]۔ یعنی پہلے غرقابی اوراُس کے بعد برزخ کی اذیت، جس کی طرف آگے اشارہ کیا ہے۔ آیت میں اِس کے لیے ’حَاقَ‘کا لفظ اِس بات کو ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے کہ اِس عذاب نے اُن کو اِس طرح احاطے میں لے لیا کہ اُن کے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔
[138]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کا معاملہ ایسا واضح ہو، جیسا کہ فرعونیوں کا تھا، اُن پر مرنے کے بعد ہی اُن کے اعمال کے اعتبار سے کیفیات کا صدور ہونے لگتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا حساب پوچھنے اور اُن کے خیر و شر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ روایتوں میں اِسی کو عذاب قبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نیکوکاروں کے لیے بھی یہی قاعدہ ہے۔ چنانچہ راہ حق کے شہیدوں کے متعلق فرمایا ہے کہ ’اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ، يُرْزَقُوْنَ‘*** (وہ اپنے پروردگار کے حضور میں زندہ ہیں، اُنھیں روزی مل رہی ہے)۔
[139]۔ مطلب یہ ہے کہ نہ ہمارے مزعومات کی رعایت ہوئی اور نہ تمھارا یہ عذر مسموع ہوا کہ تم ہمارے دباؤ میں تھے۔ اللہ نے ٹھیک حق و عدل کے مطابق اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اب ہم سب اپنے کرتوتوں کے نتائج بھگتنے کے لیے یہاں موجود ہیں۔ اِس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہر شخص، خواہ وہ کتنا ہی دبا ہوا ہو، ایمان و اسلام کا مکلف ہے۔ وہ یہ ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر سبک دوش نہیں ہو سکتا۔
[140]۔ یعنی نہ اُن کے مزعومہ دیوی دیوتا اُن کی فریاد سنیں گے ، نہ مذہب و سیاست کے پیشوا کچھ کام آئیں گے اور نہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ شنوائی ہو گی۔ امید کے تمام دروازے اُن کے لیے اُس دن بند ہو جائیں گے۔
[141]۔ رسول اور اُس کے ساتھیوں کے لیے یہی سنت الہٰی ہے کہ اُن کے لیے خدا کی نصرت دنیا میں بھی لازماً آتی ہے اور اُن کے مخالفین تباہ کر دیے جاتے ہیں۔ آیت میں ’الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا‘ کے الفاظ اِنھی ساتھیوں کے لیے آئے ہیں۔ ہم اِس کتاب میں جگہ جگہ اِس سنت الہٰی کی وضاحت کر چکے ہیں۔
[142]۔ یعنی قیامت کے دن۔ یہ گواہ خدا کے پیغمبر بھی ہوں گے، اُس کے فرشتے بھی اور ذریت ابراہیم کے لوگ بھی جو خدا کی طرف سے اِس منصب پر فائز کیے گئے۔ اِس کی تفصیلات دوسرے مقامات میں بیان ہو چکی ہیں۔
[143]۔ یعنی تورات کا۔
[144]۔ یہ اُسی وعدے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اور تمھارے ساتھی ثابت قدم رہیں۔ جو حشر فرعون اور اُس کے اعیان و اکابر کا ہوا تھا، وہی قریش کے اِن فراعنہ کا بھی ہونا ہے۔ اِن میں سے اگر کوئی اپنی قوم کا حقیقی خیرخواہ ہے تو اُسے اُس بندۂ مومن کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جس نے فرعون کے دربار میں اعلان حق کیا تھا۔ لیکن اِن کے رویے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِن میں سے ایک ایک شخص اپنا سارا زور قوم کو عذاب الہٰی کی طرف دھکیلنے میں صرف کر رہا ہے۔ لہٰذا مطمئن رہو، خدا کا فیصلہ عنقریب صادر ہونے والا ہے۔ اہل ایمان کے لیے ، اُس کے بعد، خدا کی مدد پوری شان کے ساتھ ظاہر ہو گی اور یہ اُسی انجام کو پہنچ جائیں گے جو رسولوں کے مکذبین کے لیے مقرر ہے۔
[145]۔ یہ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن تبعاً آپ کے پیرو بھی اِس میں شامل ہیں۔ خطاب کا یہ اسلوب قرآن میں جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ ہدایت پوری جماعت کے لحاظ سے ہے۔ اِس میں گناہوں کے لفظ سے کسی کو متوحش نہیں ہونا چاہیے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* المائدہ ۵: ۶۷۔
* *۳۶: ۱۴۔’’پھر ہم نے ایک تیسرے شخص سے اُس کی تائید کی۔‘‘
*** اٰل عمرٰن۳: ۱۶۹۔