تعلق باللہ کی یہ ترکیب ہمارے ہاں ایک مذہبی تصور کو بیان کرنے کے لیے مستعمل ہے۔ ہر علم کچھ تصورات وجود میں لاتا ہے۔ اس کے لیے مصطلحات یا کچھ تعبیرات بھی مخصوص کرتا ہے۔ اسی طرح کی ایک تعبیر یہ بھی ہے۔ علم کے میدان میں ایک روایت ہے کہ اعراض اور جوہر کو الگ الگ بیان کیا جائے۔اللہ سے تعلق عقائدکی صحت،احوال قلب کےحصول، صفات و سنن الہٰی کا شعور، اذکار باللسان اور اعمال بالجوارح سے عبارت ہے۔ یہ اس کے اعراض ہیں اوریہ تعلق ان سے مجرد بھی ایک حقیقت ہے، وہ اس کا جوہر ہے۔ تعلق باللہ کی ترکیب اسی جوہر کے لیے وضع ہوئی ہے۔
ہماری علمی تاریخ کا آغاز صحت علم کے کام سے ہوا تھا۔ قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے اقدامات سے تمام ترددات سے محفوظ ہو گیا، لیکن دین پر عمل میں پیش آنے والے سوالات کے جواب حاصل کرنے میں دو علم ابتدائی صدیوں میں مساعی کا ہدف رہے۔ ابتدا میں فقہی مباحث پر اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تحصیل و تنقیح پر اہل علم نے اپنی مساعی صرف کیں۔ ایک طرف پھیلتی ہوئی ریاست کی ضروریات تھیں اور دوسری طرف کئی ہزار نومسلم اور تابعین اور تبع تابعین تھے، جو دین سیکھنے کے لیے ان بزرگوں کو مرجع بنائے ہوئے تھے جنھوں نے تعلیم و تعلم کا منصب سنبھال لیا تھا۔
ان دونوں ادوار میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، زیادہ زور صحت علم پر ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کار دعوت کیا تھا، اس کا رخ عرب کے تمام اہل مذہب کو ان گم راہیوں سے پاک کرنا تھا جن میں وہ مبتلا تھے۔ یہی سبب سمجھ میں آتا ہے کہ صحابہ اور تابعین کی مساعی کا ہدف بھی یہی تھا کہ دین حق بے کم و کاست اگلی نسل تک پہنچ جائے۔ کسی طرح کی کوتاہی نہ ہو، کسی طرح کی آمیزش نہ ہو اور کسی طرح کا انحراف نہ ہو۔ظاہر ہے کہ جب کچھ اسباب کے تحت کوئی ترجیح قائم ہو جاتی ہے تو کچھ امور وہ توجہ نہیں حاصل کر پاتے جو ان کو حاصل ہونی چاہیے تھی۔ قرآن مجید اور سنت میں اگرچہ دین اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ مرقوم ہے، لیکن نمایاں اہل علم کی توجہات تدوین دین کے کام کی طرف تھیں۔ اس کے نتیجے میں دین داری کے بعض احوال اور اوضاع لوگوں کے حسن ذوق اور طرز ادراک پر منحصر ہو گئے۔
چنانچہ ابتدائی صدیوں میں کچھ صالحین نے اور بعد میں صوفیا نے اس پہلو سے وعظ و نصیحت اور اعمال و اوراد کی ایک روایت پیدا کر دی، جس نے بعد میں ایک فلسفیانہ نقطۂ نظر کو بھی اپنا لیا اور اس طرح تصوف کے نام سے ایک باقاعدہ نظام فکر وعمل وجود پذیر ہو گیا۔ تعلق باللہ کی تعبیر بھی اسی مکتب فکر کے بعض رجحانات کی ترجمان ہے۔
قرآن مجید میں یہ بات کئی جگہ بیان ہوئی ہے کہ یہ کتاب دین کی ہر چیز کو بیان کرتی ہے: ’تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ‘ (النحل ۱۶: ۸۹)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے تمام تصورات اسی کتاب سے ماخوذ ہونے چاہییں۔ جس دینی تصور کا بنیادی ماخذ غیر قرآن ہے، اسے دین اسلام کا جزو سمجھنا دین میں اضافہ ہے۔ دین کے اصول و مبادی کے باب میں یہ دلیل مردود ہے کہ کچھ امور مسلمانوں کے اجتہاد پر موقوف ہیں۔ ’تعلق باللہ‘ کی تعبیر قرآن مجید میں ان یا ان سے ملتے جلتے الفاظ میں مذکور نہیں ہے۔قرآن مجید کا اسلوب ہی یہ نہیں ہے کہ وہ مجرد تصورات کو بیان کرے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا تعارف بھی صفات اور امور الٰہی کے بیان سےکراتا ہے اور بندوں سے متعلق ہدایت بھی عقائد و اعمال کے حسن و قبح کے بیان سے دیتا ہے۔
قرآن مجید نے اللہ کی نسبت سے انسان کے لیے ’عبد‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسی طرح انسان کی نسبت سے اللہ کے لیے ’الٰہ‘ اور ’رب‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ الٰہ واحد کا مطلب یہ ہے کہ عالم تکوین کے تمام فیصلے اسی ذات کی جانب سے ہوتے ہیں۔ رب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عالم کا لاشریک بادشاہ ہے۔ بندہ وہ ہے جو اس کی رضا جوئی کے لیے اس کی پرستش اور اس کی فرماں برداری میں سرگرم ہے۔
انسان اور جنات زمین پر آباد دو مخلوقات ہیں، جن کی حیات ثانی کی خبر قرآن مجید میں موجود ہے۔ دونوں کے نیک و بد اس حیات ثانی میں اپنے انجام کو پائیں گے۔ آخرت کا یہ عقیدہ تعلق باللہ کی صورت گری میں سب سے بڑا عامل ہے اور ہو نا چاہیے۔اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں : پہلی یہ کہ انسان کی اصل منزل حیات بعد الموت ہے۔اس حیات کی ساری سرگرمیاں اصل نہیں ہیں۔ اس دوسری زندگی کے لیے ہمارے انجام کے متعین کرنے کا ذریعہ ہیں۔ دوسری یہ کہ انسان اس وسیع کائنات میں دوسری مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس مخلوق کو دہری زندگی سے نوازا گیا ہے۔ پہلی زندگی کا اصل عنوان امتحان ہے اور دوسری زندگی کاا صل عنوان جزا ہے۔ یہاں انسان ایک مخلوق ہی کی حیثیت سے انعام اور رضوان کی زندگی پائے گا۔ یہ تو ممکن ہے کہ غیب کے کچھ پردے ہٹا دیے جائیں، لیکن بندگی کے مقام میں کوئی تبدیلی واقع ہونے والی نہیں ۔
قرآن مجید میں صحابہ کا یہ حال مکرر بیان ہوا ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ ان سے راضی ہوگیا (البینہ ۹۸: ۸)۔ بندگی کا ذروۂ سنام یہی ہے۔ یہ خدا کے مقام کے اس شعور، جو قرآن کے بڑے موضوعات میں سے ایک ہے، کی تفہیم کا حاصل ہے۔ وہ ہمارا واحد الٰہ ہے۔ ہماری ساری سرگرمیاں، خواہ وہ امور دنیا سے متعلق ہوں اور خواہ ان کا تعلق ہمارے دین سے ہو، اس کی اتاری ہوئی ہدایت کے مطابق ہوں اور اس کی رضا کی خواہش اور اس کے غضب سے بچاؤ ان کا اول و آخر محرک ہو۔
قرآن مجید نے اپنے بندوں کی صفات، ان کے اعمال، ان کے رویوں،ان کے داخلی احساسات، ان کے مقاصد اور ان کے عقائدکو جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ تعلق باللہ کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ یہی چیزیں قرآن کے بیان کے مطابق بندے کی شخصیت بن جائیں۔ اس کا عنوان صرف بندگی ہے۔ پورے دل اور پوری جان کے ساتھ بندگی۔
ـــــــــــــــــــــــــ