HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات امین احسن (۱۴)

باب ۱۵

اوصاف اور مزاج

 امین احسن ظاہری اور باطنی لحاظ سے بڑی پر کشش شخصیت رکھتے تھے۔مثبت شخصی اوصاف اور مزاج رکھنے والے انسان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ، اس کی صحبت کو غنیمت سمجھتے ہیں ، اس کی غیر موجودگی میں  اسے شدت کے ساتھ یاد کر تے ہیں  اور اس کی صحبت حاصل کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں ۔میں  نے خود ان کی صحبت میں  کچھ وقت گزارنے والے حضرات سے یہ سنا کہ ان کی صحبت میں  بیٹھنے سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ تو ہوتا ہی ہے، مگر طبیعت بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ان کی نشست میں  بیٹھنے سے قبل سر میں  اگر کسی قسم کی گرانی ہو تو نشست کے خاتمے تک وہ ختم ہوچکی ہوتی ہے۔

ذیل میں  امین احسن کی شخصیت کے اوصاف اور مزاج کا ذکر کیاجاتاہے:

معمولات  

۱۹۲۵ء میں مولانا حمید الدین فراہی کی شاگردی میں  آنے کے بعدآخر عمر تک امین احسن کا یہ معمول رہا کہ صبح ۳ بجے بیدار ہوتے ،نماز تہجد ادا کرتے اور پھرقرآن مجید کا مطالعہ کرتے تھے۔وہ قرآن کی ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ پر غور کرتے تھے۔اور پھر دیگر امور انجام دینے کے بعد رات ۹ اور ۱۰ بجے کے درمیان سوجاتے تھے۔

۴/نومبر ۱۹۸۹ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں  گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے بڑھاپے میں  اپنے معمولات کی تفصیل کچھ یوں  بیان کی :

’’ اس بڑھاپے میں  میرا حال یہ ہے کہ میرے چوبیس گھنٹے مصروف رہتے ہیں ۔میرا کوئی وقت ضائع نہیں  جاتا۔ چند گھنٹے سوتا ہوں ۔ اس کے بعد اٹھتا ہوں  ۔ اوراپنے کام کرتا ہوں  ۔ کام کرنے کے بعد تھک جاتا ہوں  ۔ اب وہ قوت کار تو باقی نہیں  رہی۔ پھر اس کے بعد کچھ دیر تک آرام کرتا ہوں ۔ اس کے بعد پھر کام میں  لگ جاتا ہوں ۔ پھر کچھ دیر آرام کرتا ہوں  پھر کام میں  لگ جاتا ہوں ۔
میرے چوبیس گھنٹے مصروف ہیں ۔ کم از کم روز دو اخبار پڑھنا ضروری ہے میرے لیے۔ ایک اردو کا ایک انگریزی کا۔ اس لیے پڑھتا ہوں  تاکہ میں  اپنے ملک کے حالات سے با خبر رہوں ۔ یہ واقف رہنا ضروری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں  تھک کے چور ہو جاتا ہوں  ۔ میں  نے اوقات مصروف رکھے اپنے۔ قرآن مجید اور حدیث پر غور کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے صرف کرتاہوں ۔ اور یہ سمجھتا ہوں  کہ دین کے کیا کیا مسائل ہیں  شریعت کے کہ جن مسائل کے بارے میں  لوگوں  کے ذہن الجھے ہوئے ہیں ۔‘‘

سراپا

امین احسن خوش شکل،خوش ہیئت اور خوش لباس تھے۔چہرے کی رنگت سرخ وسفید تھی۔ بسااوقات بیمار ہوجاتے تو چہرہ دیکھ کر لو گ یقین نہ کرتے تو امین احسن مسکراتے ہوئے کہتے: بھئی، میں  واقعی بیمار ہوں ۔

ڈاکٹر زاہد منیر عامر اسی پہلو سے لکھتے ہیں :

’’یہ ۱۷ /مئی ۱۹۹۰ء کی ایک کم گرم شام تھی۔ مولانا کی رہایش گاہ کا نظر افروز لان اور ڈیفنس کی کشادہ فضا موسم کو خوشگوار بنائے ہوئے تھی ۔ مولانا اس وقت عمر کی ۸۶ ویں  حد عبو ر کر چکے تھے لیکن ان کا چہرہ تروتازہ تھا، یادداشت محفوظ ، ذہن براق۔ ثقل سماعت کے سوا، یوں  لگتا تھا پیری ان سے کچھ نہیں  چھین سکی ہے ۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۶۵-۶۶)

لباس

جناب جاوید احمدغامدی نے ایک دفعہ امین احسن کے لباس پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا مودودی نے ساری زندگی چوڑی دار پاجامہ یا کھلا پاجامہ پہنا اور اپنی وضع داری قائم رکھی، جب کہ امین احسن نے جلد ہی اسے ترک کردیا تھا اوریہاں کی شلوار قمیض اختیار کرلی تھی۔ان کا لباس ہمیشہ صاف ستھرااور استری شدہ ہوتاتھا ۔ٹوپی بھی بہت نفیس ہوتی تھی۔

ایک مرتبہ اپنی ہفتہ وار نشست میں  گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے اپنے لباس کے بارے میں  بڑے لطیف انداز میں  بتایا:

’’اگرچہ یہ کچھ پہلے سے ہی ہے۔ کھجلی سی ہوتی ہے۔ جلد پر خشکی بہت بڑھ جاتی ہے۔ کھرنڈ سی پڑ جاتی ہے اس پر۔ میں  جب ہاتھ اس پر پھیرتا ہوں  تو محسوس ہوتا ہے کہ ببول کے درخت کا کوئی تنا ہے۔ اس کے لیے میں  صرف ایک کام کرتا ہوں  کہ ہفتے میں  دو دن نہاتا ہوں  ۔ اس سے پہلے تیل کی مالش کر لیتا ہوں ۔ اس سے کچھ آرام آجاتا ہے۔ انڈا اس کے لیے مضر ہو سکتا ہے۔ وہ میں  ایک سے زیادہ کبھی کھاتا نہیں ۔ ایک سے زیادہ تومیں  جرم سمجھتا ہوں  کھانا۔ چائے پیتا ہوں وہ بھی کم۔ ایک پیالی، آدھی پیالی۔ نہانے کے بعد تیل لگاسکتا ہوں ۔ ویسے یہ ہے اہتمام ذرا مشکل۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر یہ کپڑے اتار کے دوسرے پہننا پڑتے ہیں  ورنہ تیل چپڑنے کے بعدمشکل ہوجاتی ہے۔آج کل بھی تھوڑا ساجو تیل لگا لیتا ہوں  تو اس کی وجہ سے رات کو کپڑے بدلنے پڑتے ہیں  اور یہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے میرے لیے۔ میری زندگی تو ہمیشہ سے طالب علمانہ رہی ہے۔ جو کپڑا پہنا اسی میں  سوتا رہا ہوں ، اسی میں  ملاقات کرتا رہا، اسی میں  لیڈری بھی کر لیتا رہا ہوں ۔‘‘

قرآن کے ساتھ زندہ تعلق

امین احسن اپنے استاذ مولانا فراہی کایہ قول سنایا کرتے تھے کہ قرآ ن کو ہمیشہ اپنی ہدایت کے لیے پڑھو۔ امین احسن کی زندگی اس بات کابہترین نمونہ تھی۔قرآن مجید میں  ہے کہ مصائب و آلام میں:’اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ[9] (صبر اور نماز سے مدد چاہو) ۔ا مین احسن کے سب سے بڑے اور جوان بیٹے ابو صالح کی اچانک موت کوئی معمولی حادثہ نہ تھا،انھیں  جب یہ دردناک خبر ملی تو اپناسر سجدے میں  رکھ دیا ۔اپنے رب سے صبر و استقامت کی دعا کی۔لوگ تعزیت کے لیے جمع ہونے لگے ۔ بڑی کرب نا ک صورت حال تھی ۔ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹا تھا۔جب یہ بوجھ نا قابل برداشت ہونے لگتا تووہ مجلس سے اٹھ جاتے اور نماز پڑھنے لگتے ۔یوں  اس نا گہانی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن کی ہدایت کے مطابق نماز سے خدا کی مدد حاصل کرتے۔ان کی زندگی کا معمول تھا کہ جب کوئی معاملہ پیش آتا تو اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے فی الفور قرآن کی طرف متوجہ ہوجاتے اور دیکھتے کہ اس صورت حال کے لیے اس کی تعلیم کیا ہے ۔جب وہ اس بات کا تعین کر لیتے تو اس پر پوری طرح عمل کرتے ، خواہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں  نہ د ینا پڑتی۔

اس سلسلے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں : 

’’امین احسن کی اقلیم فکر کیا ہے؟ جن لوگوں  نے بھی اس کی سیر کے لیے کچھ فرصت پائی ہے، وہ جانتے ہیں  کہ مذہبیات کی دنیا میں  یہ ایک بالکل نئی اقلیم ہے۔ اس میں  ساری حکومت، سارا اقتدار قرآن کے ہاتھ میں  ہے۔ اس کی زبان سے جو لفظ بھی نکلتا ہے، قانون بن جاتا ہے۔ ہر جگہ اس نے ایک میزان نصب کر رکھی ہے۔ بو حنیفہ و شافعی، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب اپنی اپنی چیزیں  لاتے اور اس میزان میں  تولتے ہیں ۔ پھر جس کی کوئی چیز ذرا بھی وزن میں  کم ہو، اس اقلیم میں  وہ اسے کہیں  بیچ نہیں  سکتا۔ علم و دانش، فلسفہ و حکمت، سب قرآن کے حضور میں  دست بستہ کھڑے رہتے ہیں ۔ اس کا ہر لفظ ایک شہرعجائب ہے اور یہ عجائب کبھی ختم نہیں  ہوتے۔ وہ پہلے محکم بولتا اور پھر اس کی تفصیل کر دیتا ہے۔ اس کی باتوں  کو سمجھنے میں  کوئی مشکل پیش آجائے تو خود اسی کی دوسری باتیں  وضاحت کر دیتی ہیں ۔ اس کا ایک ایوانِ خاص ہے جس کے بام و در پر ہر جگہ جلی حرفوں  میں  لکھا ہوا ہے کہ جو ہماری باتوں  میں  نظم و ترتیب کو نہیں  مانتا، وہ ہمارے اس ایوان میں  داخل نہیں  ہو سکتا۔ امین احسن کی ساری زندگی اسی اقلیم میں  بسر ہوئی ہے:
اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیں  پیران طریق‘‘
(ماہنامہ اشراق ،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۲۴)

دور حاضر میں  سائنس کی غیر معمولی ترقی نے بڑے بڑے علماے دین کو بھی مرعوب اور مسحور کردیا ہے ۔ وہ سائنس کے ذریعے سے مذہبی حقائق کو ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، بلکہ بعض تو اس قدر شدید احساس کم تری میں مبتلا ہوئے کہ مذہب کو سائنسی نظریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش بھی کر ڈالی، مگر امین احسن اس معاملے میں  بھی سب سے مختلف دکھائی دیتے ہیں ۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں :        

’’ امین احسن نے یہ تفسیرقرآن پر ایمان کی جس کیفیت میں  لکھی ہے ، اسے لفظوں  میں  بیان نہیں  کیا جا سکتا۔  مجھے یاد ہے ، وہ سورۂ رحمٰن کی تفسیر لکھ رہے تھے۔ ’يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ‘ کے تحت جب یہ مسئلہ سامنے آیا کہ عام خیال کے مطابق موتی صرف کھاری پانی سے نکلتے ہیں  ، لیکن قرآن بالکل صریح ہے کہ یہ دونوں  ہی پانیوں  سے نکلتے ہیں  ، تو انھوں  نے مجھے تحقیق کے لیے کہا ۔ میں  نے دیکھا ، ان کے چہرے پر تردد کی کوئی پرچھائیں  نہ تھی ، بلکہ ایک عجیب اطمینان تھا اور ایمان کی ایک عجیب روشنی تھی ۔ اس موقع پر انھوں  نے جو کچھ کہا میں  اسے بعینہٖ تو شاید دہرا نہ سکوں  ، لیکن مدعا یہی تھا کہ خدا کی قسم ، اگر موتی خود آ کر بھی مجھے کہیں  کہ وہ صرف کھاری پانی ہی سے نکلتے ہیں  تو میں  ان سے کہہ دوں  گا : تمھیں  اپنی تخلیق میں  شبہ ہوا ہے۔ قرآن کا بیان کبھی غلط نہیں  ہو سکتا ۔ ‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۱۴)

ڈاکٹرزاہد منیر عامرنے امین احسن کا انٹرویو کیا ۔ذیل میں  چندسوال و جواب پیش کیے جاتے ہیں ۔ ان سے اندازہ کیاجا سکتاہے کہ امین احسن کا قرآن کے ساتھ کیا تعلق تھا۔

’’آپ کے افسانۂ حیات کا مرکزی خیال کیا ہے ؟
میں  کچھ نہیں  کہہ سکتا کہ اس کے متعلق میری کیا رائے ہے ۔ میرا افسانۂ حیات کوئی نہیں ۔ میں  صرف سیدھا سادا مسلمان آدمی ہوں  اور میرا نقطۂ نظر خالص قرآن رہا ہے ۔ قرآن کو سمجھنا، سمجھانا ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ اس کے لیے طریقہ بھی مولانا فراہی کا جوہندوستان کے ایک بڑے فاضل پروفیسر گزرے ہیں ۔ (مولانا نے پروفیسر کا لفظ غالباً میرے شعبے کی رعایت سے استعمال کیا) ۔ ان کے طریقے پر قرآن کریم پر غور کرنا میرا کام رہا ہے ، میں  نے زندگی بھر یہی کام کیا ہے اور انھی اصولوں  کے مطابق تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ لکھی ہے ، میں  نے اس میں  یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا کا جو طریقۂ فکر ہے وہی نیچرل ہے۔
میرے اس سوال پر کہ آپ کو زندگی کیسی لگی ، مولانا نے فرمایا :
میری اپنی زندگی کچھ نہیں  ہے ۔ میری اپنی زندگی تابع ہے قرآن کے ، یعنی میری زندگی میں  بامقصد نصب العین جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ قرآن کے مطابق عقلی ، اخلاقی، سیاسی ، اجتماعی (پہلوؤں  سے) زندگی گزاری جائے ، میں  ہر چیز اجتماعی ، سیاسی ، اخلاقی، عقلی میں یہ کوشش کرتا ہوں  کہ اس کی پیروی کروں  ۔
 آپ نے اپنی جوانی اور بڑھاپے کی زندگی میں  کیا فرق محسوس کیا ؟
 میری جوانی کی زندگی کہہ لیجیے اور اب بڑھاپے کی زندگی ایک ہی طرح کی ہیں  ، میرا فکر ہے قرآن، قرآن کے فکر کے مطابق میری اجتماعی، اخلاقی، اصلاحی، سیاسی زندگی ہے ۔
 کیا آپ سمجھتے ہیں  کہ زمانے نے آپ کو سمجھ لیا؟
 میرا اپنا زندگی میں  کوئی خاص اسلوب ، کوئی خاص فلسفہ نہیں  ، اگر میری زندگی کا کوئی فلسفہ ہے تو وہ قرآن ہے ۔ اگر کوئی قرآن کو سمجھتا ہے تو اس کے لیے آسان ہے کہ وہ میری زندگی کو بھی سمجھ سکتا ہے ، اور اب (اس سلسلہ میں  زیادہ) بتانے کی بھی ضرورت نہیں  ہے ۔ بتانے کی کتاب تو میں  نے لکھ دی ہے… تدبر قرآن… اس کا مقصد یہی ہے کہ لوگ قرآن کو سمجھ جائیں  اور ممکن ہے (اس طرح) مجھے بھی سمجھ جائیں  ۔
 مولانا، آپ زمانے سے جو کچھ کہنا چاہتے تھے ، آپ کا کیا خیال ہے ، آپ نے وہ سب کچھ کہا ، آپ کا پیغام زمانے تک پہنچ گیا؟
 میرا خیال یہ ہے کہ اس معاملے میں  نقطۂ نظر مختلف ہو سکتے ہیں  ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کے خیالات کے حدود کو صحیح طریقے پر ہر شخص متعین نہیں  کر سکتا ۔یہ واقعی ہے کہ قرآن سے میرا جو تعلق ہے اس کا عملی اطلاق میری اپنی زندگی پر ہوتا تھا ، (میرے لیے ضروری تھا کہ) میں  اپنی زندگی کو اسی سانچے میں  ڈھالوں  اور باقی رہ گیا دوسروں  کے لیے کوشش کرنا تو یہ (بھی) میرا کام ہے ۔ لیکن میں  اس کے متعلق تو فیصلہ نہیں  کرسکتا کہ ( اس میں  مجھے) کتنی کامیابی رہی۔
 مولانا کیا آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں  ؟
 میں  ذاتی طور پر بالکل مطمئن ہوں  ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں  جو نقطۂ نظر رکھتا ہوں  یہی ہے کہ لوگوں  تک اپنے خیالات و افکار کو پہنچا دینا میرا کام ہے ۔ (لوگوں  کے) افکار کو تبدیل کرنا میرا کام نہیں  ہے ۔
مجھے معلوم ہے کہ جہاں  تک میری زندگی کا تعلق ہے میں  ایک دفعہ بھی ا س (قرآن) سے الگ نہیں  رہ سکا۔ اور میں  نے (زندگی بھر)یہی کیا ہے کہ قرآن ہر شخص کو پہنچاؤں ۔ قرآن کیا چاہتا ہے ۔ اس کا نصب العین کیا ہے، اجتماعی (اور) سیاسی زندگی میں  (اس کی) کیوں  ضرورت ہے تو (یہ سب) بتایاہے (یہ باتیں ) میں  سب کو بتاتا ہوں  ، شاگردوں  کو بھی اور جو میرے افکار کو پڑھتے ہیں  ان کو بھی (اسی مقصد کے لیے میں  نے) درجنوں  کتابیں  لکھی ہیں  ۔
اس لیے میر اکام تو بالکل ٹھیک ہو رہا ہے ۔ مجھے کوئی افسوس نہیں  ہے ۔ میرا کام صرف بتانے کی کوشش کرنا ہے ۔ آپ کو پڑھا دینا میرا کام نہیں  ہے ۔ بتا دینا میرا کام ہے ۔ یہی کر سکتا ہوں  ۔
لوگ زندگی کے متعلق (دنیوی حوالوں  سے) بہت بڑا نصب العین قائم کر لیتے ہیں  ، تو پریشانیوں  میں  مبتلا ہوتے ہیں  ۔ میں  اپنی زندگی کا (یہ) نصب العین رکھتا ہوں  کہ پہنچا دو کہ صحیح بات کیا ہے ؟ اس سے میں  نے قرآن کو سمجھا اور سمجھانے کی کوشش کی ، زندگی بھر پڑھاتا رہا ہوں ، تفسیر لکھی ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے نجانے کتنی کتابیں  لکھ ڈالی ہیں  ۔ شاید آپ نے دیکھا ہو یہ کتابیں  انھی موضوعات پر ہیں  ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ کتابیں  پھیل رہی ہیں  ۔ تفسیر بھی پھیل رہی ہے ۔
کوئی ایسی بات ، کوئی ایسا کام جسے انجام دینا آپ کی خواہش رہی ہو ،لیکن وہ انجام پذیر نہ ہو سکتا ہو؟
 مجھے یہ افسوس نہیں  ہے کہ کوئی ایسا پہلو جس میں  مزید کام کرنا چاہیے تھا (رہ گیا)۔ میں  نے ، اللہ کا شکر ہے کہ اپنے استاد کی رہنمائی میں  پہلے زندگی کا نصب العین جانا اور پھر اس پر زندگی بھر قائم رہا۔ اور یہ بات بھی ہے کہ وہ ایسا نصب العین تھا جس نصب العین میں  ریا کا کوئی سوال نہیں  تھا۔ میں  (الحمدللہ)اپنے دائرے میں  بالکل صحیح اور موثر ہوں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۶۸-۷۰)

 فلسفہ اورقرآن

امین احسن ابتدا میں  فلسفہ کی طرف بڑی رغبت رکھتے تھے ،مگر قرآن مجیدنے ان کی رغبت بالکل بد ل کر رکھ دی ۔ عبد الرزاق صاحب اپنی ڈائری میں  لکھتے ہیں :

’’۲۸جنوری ۱۹۹۴: آج مولانا کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ روانی کے ساتھ گفتگو کی ۔ مختلف سوالوں  کے جوابات بھی دیے ۔ مولانا نے فرمایا کہ انھیں  نوجوانی میں  فلسفہ سے خاص لگاؤ رہا ۔ وہ مختلف فلسفیوں  کی کتابوں  کو بڑے شوق سے پڑھتے تھے ۔ انھوں  نے کہا کہ قرآن حکیم کا فہم ہونے کے بعد انھوں  نے فلسفہ کی طرف زیادہ توجہ نہیں  دی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان فلسفیوں  کے نام تک بھول گئے جن کی کتابیں  وہ بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے ۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر ،اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۷)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[9]۔ البقرہ ۲: ۱۵۳۔

B