HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

مومن کی امیدوں کا محور

معاذ بن نور


[جناب جاوید احمد غامدی کی ویڈیوز کی ٹرانسکرپشن پر مبنی سوال و جواب]

سوال: مومن اپنی پریشانی اور غم کا شکوہ کس سے کرتا ہے؟

جواب: میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ یہی ایک بندۂ مومن کے شایان شان ہے۔ وہ اپنے غم و الم کا اظہار اپنے رب ہی سے کرتا ہے، اس لیے کہ اس کی تمام امیدیں اسی سے وابستہ ہوتی ہیں اور وہ جانتا ہے کہ اس کی یہ گریہ و زاری بالآخر اس کے پروردگار کی رحمت کو جوش میں لاتی ہے۔

 یعنی اسے اگر دعا کرنی ہے تو اپنے رب سے، شکوہ کرنا ہے تو اپنے رب سے، گلہ کرنا ہے تو اپنے پروردگار سے، اپنے غم اور پریشانی کا اظہار کرنا ہے تو اسی کے سامنے۔ ایک بندۂ مومن کا یہ تعلق ہونا چاہیے اپنے پروردگار سے۔ اس کے بعد پھر دنیا میں جزع فزع، ماتم، دوسروں سے گلہ، ہر موقع پر ایک داستان لے کر آپ بیٹھے ہوئے ہیں، فلاں نے یہ کر دیا، فلا‌ں نے وہ کر دیا یہ پھر بے معنی باتیں ہو جاتی ہیں۔

 یعنی آدمی کی پوری زندگی اس سے عبارت ہوتی ہے کہ وہ سعی کرے گا، ہر مرحلے پر کوشش کرے گا کہ عدل و انصاف کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے، ایسے میں دوسری جانب سے کسی بے انصافی اور غلط رویہ سے سابقہ پیش آ جاتا ہے، ایسی ایسی آزمایشیں آ جاتی ہیں کہ (یوسف علیہ السلام کی طرح) سترہ، اٹھارہ سال کے لیے اٹھا کر آپ کو زندان میں ڈال دیا جاتا ہے، اس میں کیا کیا شکوے دل میں پیدا نہیں ہوئے ہوں گے، لیکن ایک بندۂ مومن یہ سمجھتا ہے کہ مجھے دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے۔

 دنیا میں بڑا حسن ہے، بڑا جمال ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، ربوبیت کی کرشمہ سازی ہے، اس سب کے باوصف یہ دنیا ہر ہر جگہ پر ناقص ہے، سواے ایک چیز کے، یعنی دار الامتحان ہونے کے لحاظ سے آخری درجے میں یہ کامل ہے، اس لیے کہ یہ بنائی ہی اس لیے گئی ہے۔ اس میں جتنے نقائص ہیں، وہ رکھے ہی اس لیے گئے ہیں کہ امتحان ہر ہر جگہ، ہر ہر پہلو، ہر ہر مرحلے پر ہو سکے اور کوئی چیز امتحان سے فرار کا ذریعہ نہ بن سکے، یعنی انسان کی کوئی تدبیر اس کو کمرۂ امتحان سے باہر نہ لے جا سکے۔ یہ لحاظ رکھا گیا ہے اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے جیسے ترتیب دیا ہے۔ اس میں وہ دنیا کے جس میں اللہ تعالیٰ تمام نقائص کو دور کر دے گا اور اپنے کمال ہنر کا اظہار کرے گا وہ آخرت کی دنیا ہے، جنت کی دنیا ہے۔

 لہٰذا اس عارضی دنیا کی زندگی کو اس حقیقت ہی کے طور پر سمجھ کر اس سے متعلق درست رویہ بھی اختیار کرنا چاہیے اور وہ رویہ کیا ہے، وہ یہی ہے کہ میرا غم میرا شکوہ میرے رب کے لیے ہے، میں تم سے کوئی بات نہیں کرتا۔[1]

(سورۂ یوسف آیت۸۶ کے درس قرآن سے ماخوذ اقتباس)

ـــــــــــــــ

انفاق اور دل کی وسعت: حقیقی غنا کا معیار

سوال: غنی انسان دل سے ہوتا ہے یا پیسے سے؟

جواب: انسان کے اندر انفاق کا جذبہ ہو تو پھر وہ دس روپے میں سے بھی انفاق کرتا ہے اور نہ ہو تو کروڑوں میں سے بھی نہیں کرتا۔ یعنی اصل میں یہ انسان کا رویہ ہے۔

جیسے کہ اس موقع پر جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق کی اپیل کی تو سامنے آیا کہ ایک طرف جو کھاتے پیتے لوگ تھے، وہ اپنا مال لے کر آئے، تبوک کے موقع پر، اور ایک طرف وہ مزدور بھی کچھ کھجوریں لے کر آگیا جس نے یہ کہا کہ میں نے رات بھر مزدوری کر کے یہ چند کھجوریں ہی کمائی ہیں، اس لیے یہی حاضر ہیں۔ حضور نے ان کھجوروں کو اس سارے مال کے اوپر پھیلا دیا اور فرمایا کہ ان کی قدر و قیمت اس سارے مال سے زیادہ ہے۔

 تو اصل میں کشادگی ہو یا تنگی ہو، یہ انسان کا داعیہ اور جذبۂ ایمان ہے جس کی بنیاد پر وہ انفاق کرتا ہے، یعنی یہ کوئی عذر نہیں ہے کہ آدمی کہے کہ میرے پاس ہے کیا؟ جس طرح سے وہ تھوڑے میں سے بھی اپنی ضروریات پوری کر رہا ہوتا ہے اگر خیال ہو کہ مجھے جنت میں بھی اپنی جگہ بنانی ہے تو اس میں سے انفاق بھی کرتا رہتا ہے۔

 پھر فرمایا اور جن پر خرچ کرتے ہیں ان کی طرف سے زیادتی بھی ہو تو غصے کو دبا لیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے بعد یہ خیال کر تے ہیں کہ ہم تو بڑا احسان کر رہے ہیں۔

 آدمی کے لیے بڑا امتحان ہو جاتا ہے کہ وہ کسی کے لیے انفاق کرتا ہے خرچ کرتا ہے اور دوسرے کی طرف سے بڑا ہی غلط رویہ سامنے آجاتا ہے۔ تو فرمایا اس موقع پر بھی اپنے غصے کو دبا لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، یہی خوب کار ہیں، یہی اچھا رویہ اختیار کرنے والے ہیں اور اللہ ان خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے۔یہ اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخشتا ہے؟ [2]

(سورۂ آل عمران آیت ۱۳۴ کے درس قرآن سے ماخوذ اقتباس)

ـــــــــــــــ

اچھی صحبت کی اہمیت اور شیطان کی چالوں سے بچاؤ

سوال: جلد اچھی صحبت تلاش کرلیں، ورنہ شیطان کی چالوں سے بچنا آسان نہیں!!

جواب: اللہ کے پیغمبر کا بتایا ہوا سلوک یہی ہے کہ نماز، مسجد اور قرآن ان کے ساتھ سچا اور محکم تعلق قائم کیا جائے، یہ اللہ کا تقویٰ ہے، یہ اللہ کا ڈر ہے اور یہ پیدا ہی اس سے ہوتا ہے۔

 لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آدمی ہر وقت نماز ہی پڑھتا رہے، مسجد سے بھی کبھی دوری ہو جاتی ہے، قرآن مجید کے مطالعے کے لیے بھی لوگ وقت کم ہی نکال پاتے ہیں، اگرچہ بہت اہتمام کرنا چاہیے۔ تو فرمایا کہ ایک دوسری چیز کا اہتمام بھی کرو، وہ ان چیزوں کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بھی بنے گی اور شیطان کی دراندازیوں کے مقابلے میں حصار کا کام بھی دے گی۔ وہ کیا چیز ہے؟ وہ یہ ہے کہ ’كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ‘ اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔

 یہ ہے صحبت۔ آپ جن لوگوں کے پاس بیٹھتے ہیں، جن سے آپ کا تعلق ہوتا ہے، اس میں بہت احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کب بری صحبت نے شیطان کو دراندازی کا موقع دے دیا۔کم زور تو درکنار  بسااوقات مضبوط آدمی بھی کچھ نہ کچھ ان کا اثر قبول کر ہی لیتا ہے۔ آدمی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کب اس کے افکار میں، اس کے خیالات میں شیطان داخل ہو گیا اور کب وہ عمل پر بھی اثرانداز ہونے لگ گیا ہے۔

 جب آپ کے گرد و پیش میں اچھے لوگ ہوتے ہیں، اٹھنا بیٹھنا اچھے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے تو اس میں انسان کو ایک بڑی قوت حاصل ہو جاتی ہے، یعنی وہ اگر کسی وقت گر جاتا ہے اور اٹھنا چاہتا ہے تو اچھے لوگ اس کے مددگار بن جاتے ہیں، اٹھانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں تو کم زور سے کم زور آدمی کے اندر بھی اپنی کم زوریوں پر غالب آنے کا حوصلہ پیدا ہو جایا کرتا ہے، یعنی وہ اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے تو پھر وہ انھی کا سا ہو جاتا ہے۔

شیخ سعدی نے تو ایسی ایسی عمدہ تمثیلوں سے اس کو واضح کیا ہے کہ آدمی اش اش کر اٹھتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ صحبت صالح ترا صالح کند ( نیکوں کی صحبت انسان کو نیک بناتی ہے)۔ یہی اصول ہے۔[3]

(سورۂ توبہ آیت ۱۱۹کے درس قرآن سے ماخوذ اقتباس)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 ۱-https://www.facebook.com/share/v/otqgKASDXRKnwYj9/?mibextid=oFDknk

۲-https://www.facebook.com/share/v/9Xrz2gwXRcLJQsTs/?mibextid=oFDknk

۳-https://www.facebook.com/share/v/gpkpNWS5v6ANsZoJ/?mibextid=oFDknk


B