HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حدیث کذبات ثلاثہ کی تحقیق

علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی

ترتیب و تعلیق :ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

 

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

[یہ موضوع اگرچہ پراناہوچکاہے، تاہم ایک نئی تحقیق اِس مضمون میں پیش کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے اس پر بحث کا جواز بنتاہے۔ قرآن کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام کوملت ابراہیم کا بانی قراردیتاہے (دعوت محمدی جس کی تجدیدہے)اورایک اولوالعزم رسول وصدیق نبی۔[1]  آپ کی اسی عظمت و جلالت قدر اور منصب نبوت کی عالمی مقامی کے پیش نظرکذبات ثلاثہ والی روایت کوماضی وحال کے بہت سے جلیل القدرائمہ اورعلما نے بھی درایت کی روشنی میں مستردکردیاہے۔ جن میں امام فخرالدین الرازی جیسے بڑے متکلم وعقلی مفسر بھی ہیں، جو فرماتے ہیں کہ ’’انبیاے کرام علیہم السلام کی طرف کذب کی نسبت کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ راویوں کی طرف ہی کذب کی نسبت کردی جائے۔[2]
اس روایت پر نقدکرنے والوں میں مولانامودودی جیسے بڑے داعی ومصنف بھی شامل ہیں۔[3]
تاہم روایتی علمابخاری کی اس روایت کے الفاظ میں واردکذب کو توریہ وتعریض بتاکرتوجیہ کرتے ہیں اور اس طرح بخاری کے راویوں کی ثقاہت کوبچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، چاہے اس سے خودنبوت کے عظیم منصب اور ایک جلیل القدرنبی کی عظمت پر حرف ہی کیوں نہ آتاہو!
حالاں کہ روایت میں جن پہلوؤں کوکذبات کہاگیاہے، قرآن نے ان کا تذکرہ جس اسلوب میں کیاہے، وہاں ان کوکذب بمعنی تعریض وتوریہ کہہ کربھی بات بنتی ہی نہیں ہے، تعریض وتوریہ کوصریح کذب کوئی نہیں کہتا، جب کہ روایات میں صریحاً کذب کہاگیاہے۔ صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ مولاناامین احسن اصلاحی فرماتے ہیں : ’’یہ ا صل واقعہ کی سیدھی سادی شکل ہے جوالفاظ قرآنی سے سامنے آتی ہے۔ لیکن مفسرین نے معلوم نہیں کس طرح اس کے تحت بعض ایسی روایتیں نقل کردی ہیں کہ جن سے یہ بات نکلتی ہے کہ نعوذباللہ حضرت ابراہیم نے اس موقع پر غلط بیانی کی۔‘‘[4]
سوال یہ ہے کہ تعریض وتوریہ کوصریح کذب کہاجاسکتاہے، جیساکہ اس روایت میں کہاگیاہے ؟ اسی طرح کذب کوخطاوغلطی کے اورخلاف واقع بات کے معنی میں لینے سے بھی کیاعصمت انبیا و شان نبوت پرحرف نہیں آتا؟ ڈاکٹراکرم ورک صاحب نے بڑازورلگاکران توجیہات کے ذریعے سے حدیث کوصحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے[5] جس میں وہ یہ دعویٰ بھی کرگزرے کہ حضرت ابراہیم کا ’اني سقيم‘ (میری طبیعت ناساز ہے) کہنا بظاہر خلاف واقعہ تھا۔ ’’اس جملے کاعام مفہوم یہی ہے کہ میں جسمانی طورپربیمارہوں، لیکن یہ جواب حقیقت کے خلاف تھا، کیونکہ آپ کواس وقت کوئی تکلیف نہیں تھی‘‘(ص ۳۰۳)۔
سوال یہ ہے راویان حدیث اوران کادفاع کرنے والے اکرم صاحب وغیرہم کوکس ذریعے سے معلوم ہوگیا کہ اس وقت حضرت ابراہیم کو کوئی تکلیف نہیں تھی اورانھوں نے ضرورخلاف واقعہ بات کہی ؟روایات کو بچانے کا شوق لوگوں کوکس دلدل میں ڈال دیتاہے، اس کی یہ کلاسیکل مثال ہے !یہ توجیہ جوبعض روایات میں آئی ہے، یہ بھی اصلاًبائیبل کی روایات سے ہی ماخوذ ہے!
بعض حضرات اس مشکل کوحسنات الابرارسیئات المقربین جیسے صوفیانہ لطائف سے حل کرناچاہتے ہیں[6] لیکن یہ توجیہ بھی پاؤں چلنے والی محسوس نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ یہ ساری توجیہات کیوں ؟ان کی ضرورت تو تب پڑے گی نا جب متن حدیث صحیح ثابت ہوجائے، اگرمتن ہی موقوف ہومرفوع نہ ہو(جیساکہ اِس تحقیق سے ثابت ہوگا)توپھراس سارے قیل وقال کی ضرورت ہی کیاہے جس کوکہاجاسکتاہے کہ :
شدپریشان خواب من ازکثرت تعبیر ہا
والدماجدعلامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی کہتے تھے کہ قرآن کریم کی طرح حدیث کا بھی یہ معجزہ ہے کہ اگرکسی روایت میں سقم ہوتاہے توایسے قرائین موجودہوتے ہیں جوپکارپکارکرکہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف یا موضوع ہے۔ اس حدیث پر روایت ودرایت کے نقطہ ٔنظرسے ان کی تنقیدہم اہل علم کے لیے پیش کررہے ہیں جوان کی تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ اوران کی کتاب ’’بخاری کا مطالعہ (دوم )‘‘سے ماخوذہے۔ ضروری حواشی کا اضافہ راقم نے کردیاہے۔ مرتب :ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ]

علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی تحریرکرتے ہیں :

 حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا: ’فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘ :پس فرماں رواے کائنات کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے۔

حضرت ابراہیم انھیں بتا چکے تھے کہ تمھارے ان معبودوں میں کوئی شکتی نہیں، نہ تمھیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور آپ کا قصد تھا کہ کسی موقع پر ان معبودوں کی بے زوری ان کے پجاریوں کو ماتھے کی آنکھوں سے دکھا دیں۔ اُن کے ایک تہوار نے جس میں سب لوگ رات کو شہر سے باہر جشن مناتے تھے یہ موقع فراہم کردیا۔ اس رات آپ کی طبیعت بھی کچھ ناساز تھی۔ اس لیے جب گھرانے کے لوگوں نے رسمی طور پر آپ سے بھی چلنے کو کہا تو آپ نے متفکرانہ انداز میں تاروں بھرے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا: میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، یہ سن کر وہ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ دراصل جب سے حضرت ابراہیم نے ان کے دین سے بے زاری ظاہر فرمائی تھی اور شرک و بت پرستی کو گم راہی بتایا تھا اور دعوت توحید دی تھی، وہ لوگ آپ سے متنفر ہوگئے تھے۔ گھرانے کا ایک فرد اور پروہت آزر کا بیٹا ہونے کی وجہ سے انھوں نے ہنوز آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی، لیکن ان کے اور آپ کے درمیان نفرت کی گہری خلیج حائل ہوچکی تھی۔

اسی لیے جب آپ نے ان سے اپنی طبیعت ناساز ہونے کا ذکر کیا تو کسی نے آپ کے علاج و تیمارداری کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور سب کے سب بے پروایانہ انداز سے منہ موڑ کر پشت پھیر کر چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد آپ نے مندر میں جاکر بڑے بت کے سوا تمام بتوں کو توڑ ڈالا، جیسا کہ تفصیل کے ساتھ سورۂ انبیاء کے پانچویں رکوع (آیت ۵۱تا۷۰)میں گزر چکا ہے۔ یہاں یہ واقعہ اختصار کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ جب ابراہیم سے جشن میں چلنے کو کہا گیا:

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُوْمِ. فَقَالَ اِنِّيْ سَقِيْمٌ. فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِيْنَ.(الصافات ۳۷: ۸۸- ۹۰)
’’تو اس نے ستاروں میں، یعنی آسمان کی طرف ایک نظر ڈال کر کہا کہ میں بیمار ہوں۔ پس وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے پشت پھیر کر۔ ‘‘

فَرَاغَ اِلٰ٘ي اٰلِهَتِهِمْ‘:وہ جھپٹ کر ان کے بتوں کی طرف گیا (جن کے سامنے چڑھاوے میں آئی ہوئی قسم قسم کی غذائیں اور مٹھائیاں رکھی تھیں ) تو ان سے کہا: کیا تم کھاتے نہیں۔ تمھیں کیا ہوا تم بولتے نہیں پس وہ ان پر پل پڑا سیدھے ہاتھ سے مارنے کے لیے۔

پجاریوں کا گروہ جشن سے فارغ ہوکر واپس آکر چڑھاوے کا مال سمیٹنے اور پوجا کرنے کے لیے مندر میں پہنچا تو بتوں کی توڑ پھوڑ دیکھ کر بہت سٹپٹایا کہ یہ کس اَن نِیائی کا کرتوت ہے۔ بس یہ ابراہیم کا ہی کام ہے۔ شہر کے بڑے لوگوں کو طلب کرکے انھوں نے اس کو ان کے سامنے حاضر کیا اور غیظ و غضب میں جھپٹ کر آپ سے پوچھنے لگے کہ کیا یہ کام تو نے کیا ہے؟

فَاَقْبَلُوْ٘ا اِلَيْهِ يَزِفُّوْنَ‘: پس متوجہ ہوئے اس کی طرف اس حال میں کہ جھپٹ رہے ہیں۔

حضرت ابراہیم نے ان کے جواب میں فرمایا کہ ان میں باہم کچھ جھگڑا ہوگیا ہے۔ بڑے نے ناراض ہوکر چھوٹوں کو سزا دے ڈالی۔ خود ان ہی سے پوچھ لو۔ آپ کا یہ جواب سن کر وہ بہت جزبز ہوئے کہ ہم نے لوگوں کے سامنے اس بے باک جوان کو چھیڑ کر اچھا نہیں کیا۔ اس کی یہ سیدھی سادھی بات اگر ان کے دل میں بیٹھ گئی تو ہمارا اور ہمارے دھرم کا بیڑا غرق ہوا رکھا ہے۔ آخر لوگوں کی اندھی مذہبیت پر بھروسا کرتے ہوئے وہ بولے کہ تو عجیب آدمی ہے۔ تجھے معلوم ہے کہ یہ مورتیاں بولا نہیں کرتیں۔ آپ نے فرمایا: جب ان میں کوئی شکتی نہیں، پھر ان کی پوجا کیوں کرتے ہو۔ انھیں تو خود تم انسان ڈھالتے تراشتے ہو، جس مورتی کو تم نے جیسا بنایا ویسی ہی بن گئی۔ پھر یہ مورتیاں تمھیں کیا نفع و نقصان پہنچا سکتی اور تمھاری بگڑی کیا بنا سکتی ہیں۔ اللہ کو ہی پوجو جو تمھارا بھی خالق ہے اور ان پتھروں اور دھاتوں کا بھی خالق ہے، جن سے تم یہ مورتیاں بناتے ہو۔ چنانچہ ارشاد ہے:

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ. وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ.(الصافات ۳۷: ۹۵- ۹۶)
’’کہا ابراہیم نے: ہائے کیا تم اسے پوجتے ہو، جسے خود تراشتے ہو، حالاں کہ اللہ نے پیدا کیا ہے تمھیں بھی اور اس کو بھی جسے تم بناتے ہو۔ ‘‘

اس قطعی حجت کا جواب ان کے پاس کچھ نہ تھا بہ جز اس کے کہ سب نے طے کرلیا کہ ایک آتش کدہ تعمیر کرکے اس ادھرمی کو اس میں جھونک دو:

قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَحِيْمِ. فَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِيْنَ. (الصافات ۳۷: ۹۷- ۹۸)
’’وہ (باہم ) بولے، اس کے لیے ایک آتش کدہ تعمیر کرکے اسے دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دو۔ پس انھوں نے قصد کیا اسے نیچا دکھانے کی تدبیر کا تو ہم نے انھیں ہی نیچا کردیا۔‘‘

یعنی ان کا خیال تھا کہ اس فیصلہ سے ابراہیم کو ہوش آجائے گا، منت و سماجت کرکے معافی مانگے گا اور آیندہ ہمارے دھرم کے خلاف کبھی کوئی لفظ نہ کہے گا۔ اس طرح اس نے جو فتنہ اٹھایا ہے خودبخود آسانی سے دب جائے گا، لیکن حضرت ابراہیم کی پیشانی پر ایک شکن بھی نہ آئی تب آپ کو بادشاہ نمرود کے سامنے پیش کیا گیا۔ زچ ہوکر اس نے بھی مذہبی کونسل کے فیصلہ کی تائید کردی اور آپ کو قیدخانہ میں ڈال دیا۔ اور اس فیصلہ پر عمل کرنے کی تیاری ہونے لگی۔ زبردست آتش کدہ تیار ہوا، تب آپ کو قید خانہ سے نکال کر وہاں لایا گیا۔ اسے دیکھ کر بھی نہ آپ کے چہرے پر خوف و ہراس کی کوئی جھلک آئی، نہ زبان سے کوئی خوشامد یا معافی کا لفظ نکلا۔ آخر آپ کو دہکتے ہوئے آتش کدے میں پھینک دیا، مگر لوگوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب انھوں نے دیکھا کہ آپ ہشاش و بشاش پورے اطمینان سے انگاروں پر ٹہل رہے ہیں۔ نمرود بادشاہ بے اختیار چیخ پڑا کہ ابراہیم نکل کر میرے پاس آجا۔ تو سچا ہے اور آسمان کا بادشاہ تیرا حمایتی ہے۔ اس طرح مشرکین کو ذلیل ہونا پڑا اور ان میں سے بہت سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے، مگر جیسا کہ سورۂ ممتحنہ میں ہے: مشرکین اور مومنین میں چپقلش بڑھتی رہی۔ پھر کچھ مدت کے بعد نمرود کو مشرکین آپ سے بدظن کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس نے کچھ لوگوں کو حکم دے دیا کہ جب تمھارا بس چلے ابراہیم کو قتل کرڈالو۔ علاوہ بریں، آپ کا باپ آزر بڑا جاہل شخص تھا۔ اس نے آپ کو گھر سے نکل جانے کا الٹی میٹم دے دیا۔ ان حالات کی وجہ سے آپ نے وطن سے ہجرت کرجانے کا قصد فرما لیا۔ مومنین نے پوچھا کہ حضرت کہاں کا قصد ہے؟ فرمایا: کوئی خاص مقام میرے پیش نظر نہیں ہے۔ میں تو یہ سرزمین اللہ کے لیے چھوڑ رہا ہوں، جہاں جانے کا حکم ہوگا جاؤں گا اور جہاں ٹھیرنے کا ارشاد ہوگا ٹھیروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرا رب مجھے مناسب مقام پر لے جائے گا:

وَقَالَ اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰي رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ. (الصافات ۳۷: ۹۹)
’’اور کہا اس نے کہ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں، وہ مجھے راہِ راست چلائے گا۔‘‘

چنانچہ آپ مع مومنین وطن سے نکل گئے۔ اس قافلۂ مہاجرین میں آپ کی بیوی حضرت سارہ تھیں جو آپ کے چچا کی بیٹی تھیں اور حضرت لوط علیہ السلام تھے جو آپ کے بھتیجے، یعنی حاران بن آزر کے فرزند تھے اور بچپن سے ہی آپ کی تربیت و کفالت میں رہتے چلے آئے تھے۔ عراق سے نکل کر آپ مختلف علاقوں میں تشریف لے گئے۔ معاش کا وسیلہ اس قافلۂ مہاجرین اور خانہ بدوش رہروان حق کے پاس بکریوں کے ریوڑ اور گایوں کے گلے تھے، لیکن کسی جگہ مستقلاً قیام پذیر نہیں ہوئے۔

جہاں پہنچے لوگوں کو توحید و دین حق قبول کرلینے کی دعوت دیتے۔ رفتہ رفتہ مملکت مصر میں داخل ہوئے۔ مصر کا بادشاہ اور اس کے ارکان دولت آپ کی دعوت سے متاثر ہوئے اور آپ پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ مصر نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی جو شاید اس کی بہن تھی اور حسن صورت و جمال سیرت میں یگانہ تھی آپ کی زوجیت میں دے دی، اس کا نام ہاجرہ تھا، ہنوز آپ لاولد تھے۔ سارہ کے بطن سے کسی بچہ کے ہونے کی توقع نہ تھی، کیونکہ ان کی عمر ڈھل چکی تھی اور وہ بانجھ تھیں۔ بائیبل کی تصریح کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام جب مصر پہنچتے ہیں تو ان کی بیوی سارہ تقریباً ۶۵ سالہ بوڑھی تھیں۔ آپ نے دعا فرمائی کہ الٰہی، مجھے ہاجر ہ کے بطن سے کوئی فرزند عطا کر جو تیرے لائق بندوں میں سے ہو۔ یہ دعا قبول ہوئی اور آپ کو ایک بردبار، تحمل مزاج، نرم خو، صبر شیوہ فرزند کی بشارت دی گئی۔ آپ اہل و عیال اور قافلۂ مہاجرین کے ساتھ مصر سے ملک شام کی طرف روانہ ہوئے اور بحکم حق وادی کنعان میں فروکش ہوگئے۔ یہیں قیام پذیر ہونے کا حکم ہوا اور یہیں حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔

چنانچہ ارشاد ہے کہ ابراہیم نے دعا کی:

رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ. (الصافات ۳۷: ۱۰۰)
’’اے میرے رب، مجھے عطا فرما (کوئی فرزند) لائق بندوں کی جنس میں سے۔ ‘‘

یہ دعا آپ نے ہاجرہ سے شادی کرلینے کے بعد کی تھی:

فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ. (الصافات ۳۷: ۱۰۱)
’’پس ہم نے اسے ایک بردبار و فرزانہ لڑکے کی بشارت دی۔ ‘‘

یہ فرزند آپ کو کس قدر عزیز ہوگا، ظاہر ہے۔ مگر جب وہ چند ماہ کا ہوا تو اللہ کا حکم آیا کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو یہاں سے دوردراز لے جاکر ’’وادی غیر ذی ذرع‘‘ میں چھوڑ آؤ۔ آپ نے ایسا ہی کیا اور جہاں اب چاہ زمزم ہے وہیں ماں بیٹے دونوں کو یکہ و تنہا چھوڑ آئے۔ اسمٰعیل تو شیر خوار بچہ تھے جسے ہنوز بولنا بھی نہ آیا تھا، مگر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی ہمت کی بلندی اور توکل کی پختگی پر قربان جائیے کہ جب حضرت ابراہیم نے انھیں بتایا کہ اللہ کا یہی حکم ہے تو فرمایا: پھر ہمیں کیا پروا، ہمارا رب ہمیں ضائع نہ فرمائے گا۔ پھر وہاں قبیلہ جرھم آبسا، وہ لوگ حضرت ہاجرہ کو اپنی ماں اور مالکہ کی طرح مانتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تو سب آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور ایمان لے آئے۔ حضرت ابراہیم وقتاً فوقتاً بیوی اور فرزند سے ملنے کے لیے تشریف لایا کرتے، مگر مستقلاً قیام کنعان میں ہی رہتا، حتیٰ کہ حضرت اسمٰعیل تقریباً بارہ سال کے ہوگئے تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آکر انھیں بتایا کہ بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے کہ تجھے قربان کررہا ہوں۔ عرض کیا: اباجان! حکم کی تعمیل فرمائیں۔ آپ مجھے ان شاء اللہ صابر اور چون و چرا نہ کرنے والا پائیں گے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی سیرت جن اوصاف حسنہ سے مرکب تھی، ان میں وصف حلم نمایاں تر تھا اور ان کے چھوٹے بھائی حضرت اسحٰق علیہ السلام کی سیرت میں وصف علم نمایاں تر تھا، اسی لیے قرآن کریم میں جہاں حضرت اسحٰق کی بشارت کا ذکر ہے تو آپ کو ’’غلام علیم‘‘ کہا ہے (الحجر ۱۵: ۵۳۔ الذاریات ۵۱:۲۸)۔ حضرت اسحٰق کی نسل بھی حضرت اسمٰعیل کی نسل کی بہ نسبت علم میں ممتاز رہی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک بنی اسمٰعیل میں پڑھے لکھے لوگوں کی سخت کمی رہی ہے، لیکن بنی اسرائیل ہر دور میں پڑھی لکھی قوم کی حیثیت سے جانے گئے اور اہل علم و اہل کتاب سمجھے گئے ہیں۔ لیکن اللہ کے خوف اور اخروی بازپرس کے احساس سے محروم ہونے کی وجہ سے بہت سے یہودیوں نے علم اور قلم کی طاقت سے بڑے مظالم بھی ڈھائے ہیں۔ انبیاے کرام کے صحیفوں میں کتر بیونت، بے ہودہ اضافے، جھوٹے افسانے، انبیاے کرام کی سیرت کو داغ دار بنا دینے والے بہتانات، انھوں نے اپنی کتابوں میں خوب لکھے ہیں (جس کا کچھ کچھ اندازہ علامہ حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ کی کتاب’’ذبیج کون ہے؟‘‘ سے ہوتا ہے۔ غ)[7]۔ یہودی مصنفین کے تصنیف کیے ہوئے جو جھوٹے افسانوں میں سے حضرت سارہ و ہاجرہ رضی اللہ عنہما کے متعلق افسانہ بھی ہے(حوحدیث و تفسیرکی کتابوں میں حدیث مرفوع کے طورپر بھی نقل ہوگیا ہے(غ)،جس کا خلاصہ یہ ہے:

’’حضرت ابراہیم، جب کہ آپ کی عمر ۷۵ (پچھتر) سال سے بڑھ چکی تھی اور آپ کی بیوی سارہ ۶۵ سال سے متجاوز تھیں، مصر پہنچے۔ مصر کا بادشاہ بڑا ظالم و عیاش تھا۔ باہر سے آنے والوں میں کوئی خوبصورت عورت ہوتی اور اس کے ساتھ اس کا شوہر بھی ہوتا تو وہ شوہر کو قتل کرا دیتا اور عورت کو اپنے پاس رکھ لیتا۔ اور اگر شوہر کے بجاے بھائی اس کے ساتھ ہوتا تو اسے قتل نہ کیا جاتا بس ایک دو رات عورت محل میں رکھ کر بھائی کو واپس دے دی جاتی۔ حضرت ابراہیم وہاں پہنچے تو اپنی جان کا فکر ہوا۔ سارہ حسن و جمال میں نادرۂ روزگار اور چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھیں۔ حسب دستور بادشاہ کے گماشتے سارہ کو شاہی محل میں لے جانے کے لیے آگئے۔ حضرت ابراہیم نے سارہ کو یہ پٹی پڑھائی کہ جب تم بادشاہ کے پاس پہنچو تو مجھے اپنا شوہر نہ بتانا، بھائی بتا دینا کہ میری جان تو بچ جائے۔‘‘

کتاب البیوع بخاری کی روایت میں یہ ہے کہ ابراہیم نے سارہ سے کہاتھا:’واللّٰه ان علی الارض مؤمن غیری وغیرک محدث‘ میرٹھی رحمہ اللہ کے مطابق یہ قرآن سے صریح متعارض ہے، کیونکہ جب آپ اپنی قوم سے نکلے ہیں توآپ کے ساتھ آپ کے بھتیجے لوط بن حاران بھی تھے اوردوسرے مومنین بھی جن کوقرآن پاک مومنین کے لیے اسوہ کے طورپر پیش کرتاہے۔[8]

 ’قد کانت لکم اسوة حسنة فی ابراهیم والذین معه الآیة‘ (’والذين معه‘ کی تشریح مولاناعثمانی یوں کرتے ہیں، یعنی جولوگ مسلمان ہوکرابراہیم کے ساتھ ہوتے گئے۔ ترجمہ شبیراحمدعثمانی ص ۲۷۸ ) سارہ بادشاہ کے پاس خلوت میں لے جائی گئیں۔ اس نے بدقسمتی کے ساتھ ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تو شل ہوگیا، تب اس نے منت سماجت کی کہ میرے لیے دعا کر، وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے کچھ نہ کہوں گا۔ سارہ نے دعا کی تو ہاتھ ٹھیک ہوگیا، مگر اس نے بقصد شرارت دوبارہ ہاتھ بڑھایا تو پہلی بار سے بھی بڑھ کر آفت پیش آئی۔ پھر وعدہ کیا اور پھر خلاف ورزی کی، اس لیے اور بھی سخت تر کیفیت سے دوچار ہوا۔ پھر نہایت پختہ وعدہ کیا، دعا کے طفیل میں نجات مل گئی تو حضرت سارہ کو عزت و اکرام کے ساتھ واپس کردیا اور خدمت کے لیے ایک لونڈی بھی عطا کردی جس کا نام ہاجرہ تھا۔ ( کتاب البیوع میں امام بخاری نے یہ روایت ذکرکی ہے۔ علامہ میرٹھی نے اس پر بھی تفصیلی نقد کیا ہے۔ ) [9]

وہ لونڈی کو ساتھ لیے ہوئے واپس حضرت ابراہیم کے پاس پہنچیں اور ماجرا سنایا۔ ابراہیم وہاں سے سارہ اور ان کی خادمہ ہاجرہ کو لے کر روانہ ہوئے۔ کنعان پہنچے تو چونکہ سارہ لاولد تھیں، اس لیے انھوں نے دعاکی کہ ہاجرہ سے ان کواولاد عطاہو، ہاجرہ کے بطن سے اسمٰعیل پیدا ہوئے تو اب وہ ہاجرہ سے حسد کرنے اور اس پر ظلم توڑنے لگیں۔ غریب کے ناک کان چھید دیے، ابراہیم سے ملنے پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کا خاطر خواہ اثر نہ نکلا تو ابراہیم کو مجبور کیا کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو میری آنکھوں سے دور کردو۔ ایسی جگہ لے جاکر چھوڑو جہاں نہ کوئی آبادی ہو نہ پانی ہو، بیوی کے حکم سے مجبور ہوکر حضرت ابراہیم دونوں کو لے کر اس سرزمین میں چھوڑ آئے جہاں بعد میں مکہ آباد ہوا۔ (بائیبل میں یہ کہانی مختلف ٹکڑوں میں آئی ہے :ملاحظہ کریں: کتاب پیدائش باب ۱۲ آیات:۱۱- ۲۰ اورپیدائش باب ۲۰ آیات ۲- ۱۶، غ)

اس شروع سے آخر تک قطعی جھوٹی کہانی تصنیف کرنے کا مقصد صرف یہ دکھانا تھا کہ یوں تو بنی اسمٰعیل بھی حضرت ابراہیم کی ذریت ہیں، لیکن نسب میں بنی اسرائیل سے کمتر و کہتر ہیں، کیونکہ بنی اسرائیل سارہ کی نسل سے ہیں جو حضرت ابراہیم کی ہم نسب اور عم زاد تھیں۔ اور بنی اسمٰعیل ہاجرہ کی نسل سے ہیں جو سارہ کی مملوکہ و خادمہ تھیں۔ اس خبیث مقصد کی خاطر ان پڑھے لکھے جاہلوں نے بائیبل اورتلمود میں یہ کہانی گھڑ کر درج کر دی تھی۔ بنی اسمٰعیل کو کچھ علم نہ تھا کہ اسرائیلیوں نے محض اپنے نسب کی برتری ظاہر کرنے کے لیے کیا تاریخی ظلم ڈھا رکھا ہے، کیونکہ عموماً بنی اسمٰعیل ان پڑھ تھے۔ ان میں سے بعض افراد کو لکھت پڑھت سیکھنے کی ضرورت پڑی تو وہ معمولی نشست و خواند سے آگے نہ بڑھ سکے۔ عبرا نی و یونانی زبانوں سے تو وہ قطعاً ناآشنا تھے، جب کہ یہود کی تمام مذہبی کتابیں عبرانی اور یونانی میں ہی تھیں۔ ان کی کسی بھی کتاب کا عربی زبان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک کبھی بھی ترجمہ نہیں ہوا، اس لیے اسمٰعیلیوں میں جو اشخاص براے نام پڑھے لکھے بھی تھے، وہی اسرائیلی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے عاجز تھے۔

حتیٰ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عہد رحمت آگیا اور عامۃ المسلمین دریاے علم میں شناوری کرنے لگے، لیکن صحابۂ کرام کو قرآن کریم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں ہی یاد کرنے کرانے سے دل چسپی تھی۔ اسرائیلی کتابوں کے مطالعہ کا انھیں کبھی شوق نہ ہوا بجز عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا کے کہ انھوں نے اسرائیلی کتابوں کا مطالعہ کرکے حاصل مطالعہ ایک کتاب میں ثبت کیا تھا۔ اس کا نام انھوں نے ’’الصحیفۃ‘‘ رکھا تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی باتیں بھی الگ کتاب میں لکھی تھیں۔ اس کا نام ’’الصحیفۃ الصادقۃ‘‘ رکھا تھا۔

البتہ حضرت ابوہریرہ حضرت عبداللہ بن عباس اور بعض دیگر صحابہ نو مسلم علماے اہل کتاب کی بیان کردہ باتیں سن لیا کرتے اور مسلمانوں سے ان کو نقل بھی کردیتے اور اعتماد کی وجہ سے بسا اوقات اس شخص کا نام بھی ذکر نہ کرتے جس سے انھوں نے وہ باتیں سنی ہوتیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے تو ان نومسلم علماے اہل کتاب کی بیان کردہ بعض باتوں پر گرفت بھی کی ہے، مگر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خاص طور سے کعب احبار[10]  سے سنی ہوئی بہت سی باتیں بدون نقد و نکیر اور کعب کا نام لیے بغیر بیان کردی ہیں،[11] جنھیں نیچے کے بعض راویوں نے غلطی سے حدیث مرفوع کے طور پر بیان کردیا۔ سننے والوں کو دھوکا لگ گیا کہ یہ باتیں ابوہریرہ نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں، لہٰذا قطعاً صحیح ہیں۔ اس طرح اہل کتاب کی متعدد اناپ شناپ باتیں کتب حدیث و تفسیر میں احادیث نبویہ کے طور پر جگہ پاگئیں۔ ازاں جملہ یہ حدیث ہے کہ حضرت ابراہیم نے عمر میں تین بار جھوٹ بولاتھا۔ ایک بار اس وقت جب بتوں کو توڑنے کے لیے بیماری کا بہانہ کردیا تھا۔ دوسری بار اس وقت جب یہ کہہ دیا تھا کہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہے۔ تیسری بار اس وقت جب اپنی بیوی سارہ کو بادشاہ مصر کے ڈر سے اپنی بہن بتا دیا تھا، مگر یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ نہیں ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’حدثنا سعید بن تلید الرُعَیْني أخبرني ابن وھب أخبرني جریر بن حازم عن أیوب عن محمد عن أبي ھریرة قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: لم یکذب إبراھیم إلا ثلاثًا. ح و حدثنا محمد بن محبوب ثنا حماد بن زید عن أیوب عن محمد عن أبي ھریرة قال: لم یکذب إبراهیم إلا ثلاث کذبات الخ‘ (صحیح البخاری، ص۵۰۹طبع ہندی قدیم) ۔

(واضح رہے کہ یہ روایت مسلم، ترمذی اورابوداؤدمیں بھی آئی ہے، تاہم اصل سب کی یہی بخاری کی روایت ہے۔ غ)۔ (یعنی حضرت ابوہریرہ سے یہ حدیث محمد بن سیرین نے اور ان سے ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی نے سنی تھی اور ایوب سے دو شخصوں جریر بن حازم و حماد بن زید نے روایت کی۔ بروایت جریربن حازم عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’ ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ نہیں بولے، مگرتین‘‘۔ اس طریق سے یہ حدیث مرفوع کے طورپر آئی ہے، جب کہ بروایت حماد بن زیدعن ایوب عن محمدعن ابی ہریرہ کے طریق میں یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ’’ ابراہیم علیہ السلام نے نہیں جھوٹ بولے، مگر تین‘‘۔ اس طریق سے یہ حدیث موقوف ہے اوریہی طریق راجح ہے۔ (غ)

اور ائمۂ رجال نے تصریحات کی ہیں کہ جریر بن حازم ضعیف الحفظ تھے۔[12]

 جریر کی بیان کردہ ان ہی حدیثوں پر اعتماد کیا جاتا ہے جو جریر نے اعمش سے سنی تھیں۔ جریر کی اسناد میں ہے کہ ابوہریرہ نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، لیکن حماد بن زید نے جو جریر سے بدرجہا قوی تر اور ثبت و ثقہ محدث تھے۔[13] اس کی اسناد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اسے خود ابوہریرہ کے قول کے طور پر بیان کیا ہے۔ الحاصل جریر نے اسے حدیث مرفوع کے طور پر بیان کیا ہے اور حماد بن زید نے حدیث موقوف اور قول ابوہریرہ کے طور پر۔ پس اسے مرفوع، یعنی حدیث نبوی بتا دینا جریر بن حازم کا وہم ہے۔ یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ حضرت ابوہریرہ کی بیان کی ہوئی بات ہے جو انھوں نے کعب احبار یا کسی اور شخص سے سن کر نقل کردی تھی اور اس نے تلبیس یہ کی تھی کہ بائیبل میں حضرت ابراہیم و سارہ کی جو عمر مذکور ہے، اسے ذکر نہیں کیا، ورنہ ابوہریرہ سمجھ لیتے کہ یہ محض جھوٹ ہے۔

 بھلا سوچیے تو سہی ۶۵ سال سے متجاوز کوئی بوڑھی عورت خواہ وہ صحت مند ہی ہو اور خواہ وہ جوانی میں حسن کے لحاظ سے یکتاے زمانہ رہی ہو کیا ایسی ہوسکتی ہے کہ اس پر کوئی عیاش بادشاہ فریفتہ ہوکر بدنیتی کے ساتھ اس کا قصد کرے۔ نہ ہی عقل یہ تصور کرسکتی ہے کہ حضرت سارہ علیہا السلام جو شروع سے ہی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں دین کی خاطر ہر طرح کی صعوبتیں جھیلتی رہیں، ان کے دل میں حسد جیسی ناپاک صفت ہو اور حضرت ابراہیم ایسے زن مرید ہوں کہ محض بیوی کے کہنے میں آکر ایسی زیادتی کر گزریں جو اس کہانی میں مذکور ہے۔

علامہ میرٹھی نے مزید لکھا ہے :’’بخاری نے جریر بن حازم و حماد بن زید، دونوں کی اسناد ذکر کر کے طالبان حدیث کی یہ بجا رہنمائی فرمائی ہے کہ جریربن حازم چونکہ بدحفظ اورکثیرالخطاراوی تھااورحمادبن زید ثبت وثقہ ہے، جریرسے بدرجہافائق وافضل ہے، اس لیے حمادکی اسنادہی صحیح وقابل اعتمادہے۔ سمجھناچاہیے کہ یہ حدیث مرفوع نہیں، بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ذکرکی ہی کہانی ہے، جریربن حازم نے وہم وغلطی سے اسے مرفوع حدیث قراردیاہے، یعنی اس کی اسنادمیں ’قال رسول اللّٰه ﷺ‘ کہناجریربن حازم کی غلطی ہے۔ معمرکی اسنادبھی حمادبن زیدکی طرح ہے۔ معمرنے بھی یہ قصہ ابوہریرہ کی کہی ہوئی کہانی کے طورپرنقل کیاہے (فتح الباری ج ۶)‘‘۔ [14]

ہشام بن حسان سے عبدالوہاب بن عطاخفاف(موزہ فروش )نے روایت کی ہے، جوسنن ابی داؤدمیں ہے: کہا ہے :’حدثنا محمد بن المثنی ثنا عبد الوهاب ثنا هشام عن محمد بن سیرین عن أبي هریرة عن النبي ﷺ إن إبراهیم علیه السلام لم یکذب إلا ثلاثًا الخ‘(سنن ابی داؤد،کتاب الطلاق باب في الرجل یقول لامرأته یا أختي)۔اس کی اسنادمیں ’عن النبي ﷺ‘ عبد الوہاب کی غلط بیانی ہے۔ عبدالوہاب بن عطا ضعیف وغیرثقہ شخص تھا۔ [15]

خلاصہ یہ ہے کہ ثلاثہ کذبات والی حدیث اصلاً مرفوع نہیں، بلکہ موقوف ہے اوریہ حضرت ابوہریرہ کا قول ہے، جس کاماخذ اہل کتاب سے سنی ہوئی باتیں ہیں، نہ کہ قول رسول۔ راویوں نے اپنے تصرف سے اس کوحدیث مرفوع بنادیاہے۔ (غ)

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ مریم ۱۹: ۴۱۔

[2]۔ ملاحظہ ہو، امام رازی: ’’فلان یضاف الكذب إلی رواته أولی من أن یضاف إلی الأنبیاء علیهم السلام‘‘ ص ۱۸۵ جلد ۲۲، تفسیر الفخر الرازی المشتہر بتفسیر الکبیر و مفاتیح الغیب، دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، الطبعۃ الاولی ۱۹۸۱ء۔

[3]۔ ملاحظہ ہو:تفہیم القرآن، جلدسوم، سورۂ انبیاء حاشیہ ۶۰ ص ۱۶۲، جولائی ۲۰۱۱ء، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزنئی دہلی۔

[4]۔ دیکھیے: مولاناامین احسن اصلاحی، تدبرقرآن، جلدششم، طبع تاج کمپنی دہلی، ص ۴۸۰۔

[5]۔ ڈاکٹرمحمداکرم ورک، متون حدیث پرجدیدذہن کے اشکالات ایک تحقیقی مطالعہ، الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ، فروری ۲۰۱۲ء۔

[6]۔ ملاحظہ ہو: مولاناشبیراحمدعثمانی، ترجمۂ قرآن، ص۵۹۸ حاشیہ ۸، شائع کردہ سعودی عرب ۔

[7]۔ مولاناحمیدالدین فراہی، ذبیح کون ہے؟ترجمہ: مولاناامین احسن اصلاحی، شائع کردہ: دائرۂ حمیدیہ، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڑھ یوپی۔ خاص طورپر باب دوم کی فصل تیرھویں دلیل یہودکی تحریفات اوران کی تردید، ص ۱۲۰۔

[8]۔ اس پر نقدکے لیے ملاحظہ ہو:بخاری کا مطالعہ، جلددوم، ص ۲۴۲تا۲۵۶، فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز ،۲۰۰۲ء ۔

[9]۔ اس پر نقدکے لیے ملاحظہ ہو:بخاری کا مطالعہ، جلددوم، ص ۲۴۲تا۲۵۶، فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز، ۲۰۰۲ء ۔

[10]۔ ترجمہ کعب بن احبار:حمیدبن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انھوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کومدینہ میں قریش کی ایک جماعت سے بات کرتے ہوئے سنا، جس میں کعب احبارکا ذکربھی آیاتوفرمایا:جولوگ ہمیں اہل کتاب کی روایتیں سناتے ہیں، ان میں تووہ سب سے سچے تھے، مگراس کے باوجودہمیں ان سے جھوٹ کا تجربہ ہوتارہتاتھا:’وان کنا مع ذلک لنبلو علیه الکذب‘۔ (دیکھیے:تہذیب التہذیب، ص ۳۹۴ا لجزء الثامن حرف الکاف الطبعۃ الاولی دار الفکر ۱۹۸۴ء)۔

[11]۔ کعب احبارکی روایات پر محقق ائمۂ متقدمین کوخودبھی تحفظات تھے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُن تابعین کے اقوال نقل کرکے جن سے حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کا قول مروی ہے، لکھا ہے: ’وھذہ الأقوال کلھا مأخوذة عن کعب الأحبار فإنه لما أسلم في الدولة العمریة جعل یحدث عمر رضي اللّٰه عنه عن کتبه القدیمة فربما استمع له عمر رضي اللّٰه عنه فترخص الناس في استماع ما عندہ و نقلوا ما عندہ عنه غثھا و سمینھا و لیس لھذہ الأمة حاجة إلی حرف واحد مما عندہ‘، یعنی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ شخص مسلمان ہوااوراپنی قدیم کتابوں سے ان کوسنانے لگا۔ کبھی کبھی حضر ت عمر اس کی باتیں سن لیاکرتے، جس سے لوگوں نے اس کی روایات سننے اورجوکچھ بھی رطب ویابس وہ بتاتا تھا، اس کوسننے اورنقل کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھا، حالاں کہ اُس نے جوکچھ بھی نقل وروایت کیاہے، اِس امت کواس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے(ص ۳۳، الجزء السابع سورہ الصافات تفسیرالقرآن العظیم للامام الحافظ ابن کثیرالدمشقی تحقیق سامی بن محمدسلامہ دارطیبہ للنشروالتوزیع الطبعۃ الثانیہ۱۹۹۹ء)۔

[12]۔ ترجمہ جریربن حازم :جریربن حازم ثقہ ہیں، مگراختلاط کا شکارہوگئے تھے:’قال أحمد بن سنان عن ابن مهدي جریر بن حازم اختلط وکان له أولاد أصحاب حدیث فلما أحسوا ذلك منه حجبوہ فلم یسمع أحد منه في حال اختلاطه شیئًا‘ (احمدبن سنان نے ابن مہدی سے جریرکے بارے میں یہ نقل کیاہے کہ وہ اختلاط کا شکارہوگئے تھے، اس لیے ان کے بچے ان کولوگوں سے ملنے نہ دیتے تھے)(تہذیب التہذیب، ص ۶۱، جلدثانی، باب الجیم، طبع دارالفکر۱۹۸۴ء)۔عبداللہ بن احمدکہتے ہیں کہ میں نے ابن معین سے جریر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: ’لیس به بأس وعن قتادہ ضعیف‘ (کام چلاؤہیں، لیکن قتادہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں )۔ ’وقا ل النسائي: لیس به بأس‘ (نسائی نے بھی ان کوکام چلاؤہی قرار دیا ہے (ایضاً)۔ یعنی ائمۂ رجال نے ان کی توثیق بڑے مضبوط انداز میں نہیں، بلکہ ڈھیلے ڈھالے اسلوب میں کی ہے۔

[13]۔ ترجمہ حماد بن زید:ابن مہدی کہتے ہیں کہ اپنے زمانوں میں چارآدمی لوگوں کے امام رہے ہیں کوفہ میں سفیان ثوری حجازمیں مالک، شام میں اوزاعی اوربصرہ میں حمادبن زید۔ فطرکہتے ہیں میں مالک کے پاس گیاانھوں نے اہل بصرہ میں سے صرف حمادبن زیدکے بارے میں مجھ سے پوچھا۔ ابن مہدی کہتے ہیں کہ میں نے حدیث وسنت کا حمادسے بڑاکوئی عالم نہیں دیکھا، اورکہتے ہیں کہ بصرہ میں حمادبن زیدسے بڑافقیہ کوئی نہیں۔ یزیدبن زریع سے حمادبن سلمہ اورحمادبن زیدکے بارے میں پوچھا گیا، دونوں میں کون زیادہ احفظ ہے توکہا:حمادبن زید یحییٰ بن یحییٰ نیساپوری کہتے ہیں کہ حمادبن زیدسے احفظ کوئی نہیں دیکھا۔ احمدوابوزرعہ وابن عیینہ نے ان کوثقہ، حجۃ، کثیرالحدیث، اصح حدیثاواتقن جیسے الفاظ سے یادکیاہے خلاصہ یہ کہ ان کی جلالت قدرپر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔ دیکھیے :تہذیب التہذیب، ص ۶۱، الجزء الثالث حرف الحاء طبع دارالفکر۱۹۸۴ء۔

[14]۔ علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی :بخاری کا مطالعہ، جلددوم ص ۳۵۱۔

[15]۔ عبدالوہاب کوکئی ائمہ نے ثقہ قرار دیا ہے، لیکن ساجی کہتے ہیں :’صدوق لیس بالقوي عندهم‘، بخاری نے کہا:’لیس بالقوي عندهم وهو یحتمل‘ اورنسائی نے بھی ’لیس بالقوي‘ کہاہے۔ یہ ساری تعبیرات بتاتی ہے کہ راوی میں ضعف ہے اوروہ بس کام چلاؤراوی ہے۔ ملاحظہ ہو:تہذیب التہذیب، الجزء السادس، ص ۳۹۹، حرف العین، الطبعۃ الاولیٰ دارالفکر، ۱۹۸۴ء۔

B