HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۳۶)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت طلیب بن عمیر رضی اللہ عنہ

نام و نسب

قصی بن کلاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپانچویں جد تھے۔عبد مناف (اصل نام:مغیرہ)،عبدالدار(اصل نام:عبداللہ)،عبدالعزیٰ اور عبد قصی(یا عبد)ان کے چار بیٹے تھے۔آپ کاشجرۂ نسب عبد مناف سے، جب کہ حضرت طلیب بن عمیر کا عبد سے ملتا ہے۔ عبد بن قصی کے دو بیٹے وہب اور بجیر ہوئے۔ وہب بن عبد(یا وہب بن ابو کثیر بن عبد)حضرت طلیب کے دادا تھے۔ حضرت طلیب ہجرت سے بائیس سال قبل مکہ میں عمیر (یا عمرو:ابن اثیر) بن وہب کے ہاں پیدا ہوئے۔

ابو عدی حضرت طلیب بن عمیر کی کنیت اور قرشی،عبدی نسبت ہے۔انھیں عبدری کہنا درست نہیں، کیونکہ یہ اسم منسوب عبدالدار بن قصی کی اولادسے مخصوص ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی حضرت ارویٰ بنت عبد المطلب حضرت طلیب کی والدہ تھیں۔

ایمان و اسلام

حضرت طلیب بن عمیر کاشمار ایمان سے سرفراز ہونے والے اولیں مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پراس وقت بیعت کی جب آپ دار ارقم میں تشریف رکھتے تھے۔

والدہ کا قبول اسلام

حضرت طلیب بن عمیر اسلام لانے کے بعد اپنی والدہ حضرت ارویٰ کے پاس آئے اور کہا: میں نےخلوص دل سےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر لی ہے۔ انھوں نے کہا: تمھارا ماموں زادہی حق رکھتا تھا کہ تم اس کو تقویت دیتے اور اس کا بازو بنتے۔واللہ،کاش اگر ہم بھی مردوں کی طرح طاقت رکھتیں تو ضرور ان کی حفاظت اور ان کادفاع کرتیں۔حضرت طلیب نے عرض کیا:اماں، آپ کے اسلام قبول کرنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ آپ کے بھائی حمزہ تو مسلمان ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا:میں اس انتظار میں ہوں کہ میری بہنیں کیا کرتی ہیں۔حضرت طلیب نےعرض کیا:میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی نبوت کی شہادت دے دیں۔ بیٹے کی فریاد سن کر ماں کا دل پسیج گیا اور وہ بول اٹھیں :میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری رسول ہیں۔ایمان لانے کے بعد حضرت ارویٰ زبان سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کاپرچار کرتی رہیں اور اپنے بیٹے کو آپ کی نصرت کرنے اور آپ کے احکام بجا لانے پر ابھارتی رہیں (مستدرک حاکم، رقم ۵۰۴۷)۔

ان کے ایمان کی خبرسن کر ان کا سوتیلا بھائی ابو لہب آیا اورکہا:تم نے عبدالمطلب کا دین چھوڑ کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کر لی ہے؟ حضرت ارویٰ نےکہا:تم بھی اپنے بھتیجے کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اس کا د فاع کرو۔ اگر اس کا دین غا لب آگیاتو تم اسے اپنا لینا یا اپنے دین پر قائم رہنا۔ابو لہب نےکہا:ہم ایک نئے دین کے لیے تمام عرب سے نہیں لڑ سکتے(مستدرک حاکم، رقم ۶۸۶۸)۔حضرت ارویٰ اپنی استطاعت کے مطابق نصرت دین کرتی رہیں اور اپنے بیٹے کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کا دفاع کرنے کی ہدایت کرتی رہیں۔

قریش کاتشدداور حضرت طلیب کا جواب

۶ /اگست ۶۱۰ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی۔حضرت خدیجہ ،حضرت ابوبکر، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت علی فوراً آپ پر ایمان لے آئے ۔ ’يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ‘، ’’اے چادر لپیٹے رکھنے والے،اٹھ اور لوگوں کوخبردار کر‘‘(المدثر ۷۴: ۱ - ۲)  کا حکم آیاتو آپ نے درپردہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کی، یہ سلسلہ تین سال جاری رہا۔آپ کا پیغام مکہ میں پھیلنے لگا تو کفار کی طرف سے ایذاؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔نبوت کے چوتھے سال ۶۱۳ء میں اللہ کا فرمان ’فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ، اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ‘، ’’سو کھل کر بیان کیجیے جو آپ کو حکم ہوا اور مشرکوں سے منہ موڑ لیجیے۔ہم ٹھٹھا کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے آپ کی طرف سے کافی ہیں‘‘ (الحجر۱۵: ۹۴- ۹۵) نازل ہونے کے بعدعلانیہ دعوت کا سلسلہ شروع ہوا۔تب کفار قریش کے جور وستم میں تیزی آگئی۔

غریب و نادا ر اہل ایمان مشرکوں کا خاص نشانہ تھے، تاہم وہ موقع ملنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کبا ر صحابہ کو بھی ایذا دینے سے باز نہ آتے تھے۔اسلام کے ابتدائی ایام میں کہ ابھی پانچ نمازیں فرض نہ ہوئی تھیں،عصر کا وقت ہوتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ مکہ کی وادیوں میں بکھر جاتے اور ا یک ایک،دو دو کر کے نمازادا کرتے۔ حضرت طلیب بن عمیراور حضرت حاطب بن عمروحرم کے جنوب میں واقع اجیاد اصغر(موجودہ اجیاد السد) کی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ دو مشرک ابن اصدا (ابن الاصیدی:مستدرک حاکم، رقم ۶۸۶۸)اور ابن غیطلہ، یعنی حارث بن قیس(ابن القبطیہ: مستدرک حاکم، رقم ۶۸۶۸) ان پر ٹوٹ پڑے اور ان پر پتھر برسائے، حتیٰ کہ دونوں کو وہاں سے جانا پڑا (انساب الاشراف ۱/ ۱۳۳ الصلوات الخمس)۔ ان حالات نے حضرت طلیب میں رد عمل جنم دیا اور انھوں نے مشرکوں کے ظلم و ستم کا جواب دینا شروع کر دیا۔ چنانچہ متعدد ملتے جلتے واقعات ان سے منسوب کیے گئے ہیں۔ بنوسہم کا کٹر مشرک عوف بن صبرہ (:ابن حجر۔ ابوعوف بن صبیرہ: مصعب زبیری،ابن حزم) آپ کی شان میں ناروا الفاظ استعمال کررہا تھا کہ حضرت طلیب نے اونٹ کی ہڈی مار کر اسے زخمی کر دیا۔ دوسری روایت میں اس مشرک کا نام ابواہاب بن عزیزدارمی بتایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت طلیب کا یہ عمل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا، تاہم جب حضرت سعد بن ابی وقاص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی مار کرمشرک عبداللہ بن خطل کو زخمی کر دیا تو اسے بھی شرک و اسلام کی کش مکش میں بہنے والا پہلا خون قرار دیا گیا۔

مسلمان کسی درے میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل،عقبہ بن ابی معیط اور دوسر ے سرکشوں نے ان پر حملہ کر دیا اور گالی گلوچ کی۔صحابہ نے ایمان و اسلام کا اعلان کر تے ہوئے اپنا دفاع کیا۔ حضرت طلیب بن عمیر آگے بڑھے اور اونٹ کے جبڑے کی ہڈی مار کر ابو جہل کو زخمی کر دیا۔ مشرکوں نےانھیں باندھ دیا تو ابولہب نے چھڑایا اور حضرت ارویٰ کو خبر کی(الطبقات الکبریٰ، رقم ۴۰۹۵۔ مستدرک حاکم، رقم  ۶۸۶۸۔ انساب الاشراف ۴/ ۴۲۴ بنات عبدالمطلب)۔

ایک کٹر مشرک اور دشمن رسول عقبہ بن ابی معیط نے ٹوکرے میں پاخانہ ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پر بکھیر دیا۔حضرت طلیب نے دیکھا تو ٹوکرا اٹھا کر عقبہ کے سر پر دے ما را۔عقبہ انھیں پکڑ کر ان کی والدہ کے پاس لے گیا(انساب الاشراف ۱/ ۱۶۶ امر عقبہ بن ابی معیط)۔

ان سب واقعات میں لوگوں نے حضرت طلیب کی والدہ سے شکایت کی کہ آپ کے بیٹے نے اپنے آپ کو محمد کی ڈھال بنا لیا ہے تو انھوں نے جواب دیا :ہم سے زیادہ کون ان کا قریبی ہو سکتا ہے؟ہمارے جان و مال ان کے لیے حاضر ہیں۔ طلیب کی زندگی کا بہترین دن وہی ہے جس میں اس نے اپنے ماموں زاد محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دفاع کیا، جو اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں۔ انھوں نے یہ شعر بھی پڑھا:

إن طلیبًا نصر ابن خاله
واساه في ذي ذمه و ماله
’’بلا شبہ، طلیب نے اپنے ماموں زاد کی مدد کی اوراس سے ہم دردی کی کہ اس پر مذمت نہ آئے اور اس کامالی نقصان نہ ہو۔‘‘

ہجرت حبشہ

قریش کی ایذا رسانی بڑھتی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ سمندر پار ملک حبشہ (Abyssinia،حالیہ Ethiopia)ہجرت کر جائیں، جہاں ظلم نہیں ہوتا۔ تمام مورخین کا اتفا ق ہے کہ حضرت طلیب بن عمیر ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے (الطبقات الکبریٰ، رقم ۳۷۔مستدرک حاکم، رقم ۵۰۴۶)۔

مکہ کو مراجعت

ہجرت کے دو ماہ بعد، شوال ۵؍ نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ پہنچی تو مہاجرین کی بڑی تعداد نے یہ کہہ کر مکہ کا رخ کیا کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔ابن ہشام کہتے ہیں:مکہ پہنچنے سے پہلے ان کو معلوم ہوا کہ ان کی سنی ہوئی خبر جھوٹی تھی تومکہ میں وہی اصحاب داخل ہوئے جنھیں کسی کی پناہ ملی یا وہ چھپ چھپا کر رہے۔ حضرت طلیب بن عمیر ان تینتیس اصحاب اور چھ صحابیات (ابن سعد: تینتیس صحابہ اور آٹھ صحابیات) میں شامل تھے جنھوں نے مکہ میں قیام کرنے کو ترجیح دی۔ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد کے برعکس انھیں کسی مشرک کی پناہ نہ ملی۔ ابن اسحٰق کا کہنا ہے :واپس آنے والے مہاجرین کو حبشہ لوٹنا دشوار محسوس ہوا تو ہر ایک اہل مکہ میں سے کسی کی پناہ ڈھونڈکر مکہ میں داخل ہو گیا۔

ہجرت مدینہ

مہاجرین حبشہ کے مکہ لوٹنے کے بعد مشرکین کے ظلم و ستم میں اضافہ ہو گیا۔صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ نے ارشادفرمایا:مجھے تمھارا دار ہجرت دکھا دیا گیا ہے،میں نے خواب میں ایک کھجوروں والی نرم زمین شور دیکھی جو دو سیاہ سنگلاخ خطوں کے مابین واقع ہے(بخاری، رقم ۲۲۹۷۔ احمد، رقم ۲۵۶۲۶۔ مستدرک حاکم، رقم  ۴۲۶۲، ۵۷۰۶۔السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم ۱۷۷۳۷۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم  ۷۲۹۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۲۷۷)۔میں نے دیکھا کہ اس نخلستان کی طرف ہجرت کر رہا ہوں۔میرے خیال میں آیاکہ یہ یمامہ یا ہجر کا علاقہ ہو گا، لیکن یہ یثرب نکلا(بخاری، مناقب الانصار ۴۵۔مسلم، رقم ۵۹۹۷۔ ابن ماجہ، رقم ۳۹۲۱۔ السنن الکبریٰ،نسائی، رقم ۷۶۰۳)۔ آپ کے فرمان کے بعد صحابہ ایک ایک کرکے اور ٹولیوں کی صورت میں مدینہ جانے لگے۔ حضرت طلیب بن عمیر نے بھی اپنی دوسری ہجرت کی تیاری کی اورمدینہ چلے آئے۔مدینہ میں وہ حضرت عبد اللہ بن سلمہ عجلانی کے مہمان ہوئے۔حضرت عبیدہ بن حارث، حضرت طفیل بن حارث، حضرت حصین بن حارث، حضرت مسطح بن اثاثہ، حضرت سویبط بن سعد اور حضرت خباب بن ارت نے بھی ان کے ساتھ قیام کیا۔ حضرت عبیدہ ، حضرت طفیل ، حضرت حصین ، تینوں بھائیوں اور ان کے بھتیجے حضرت مسطح کا اکٹھے سفر ہجرت کرنا بیان ہو اہے۔ممکن ہے،حضرت طلیب نے بھی انھی اصحاب کے ہم راہ اللہ کی راہ میں یہ سفرکیا ہو۔

مہاجرین و انصار کے مابین مواخات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف آوری کے پانچ ماہ بعد جب مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہو چکی، حضرت انس بن مالک کے گھر پینتالیس مہاجرین کی پینتالیس انصار کے ساتھ مواخات قائم فرمائی۔آپ نے حضرت منذر بن عمرو ساعدی کو حضرت طلیب کا انصاری بھائی قرار دیا۔قبیلۂ خزرج کے خاندان ساعدہ سے تعلق رکھنے والے حضرت منذر نے عقبۂ ثانیہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔آپ نے انھیں اور حضرت سعد بن عبادہ کو بنو ساعدہ کا نقیب مقرر فرمایا۔ ابن اسحٰق نے حضرت منذر بن عمرو ساعدی کی مواخات حضرت ابوذر غفاری سے بتائی ہے۔واقدی کہتے ہیں: حضرت ابوذر بدر،احد اور خندق کی جنگیں ہونے کے بعد مدینہ آئے،وہ حضرت منذر کے انصاری بھا ئی کیسے ہو سکتے ہیں؟

غزوات

حضرت طلیب بن نصیر بدری صحابی تھے۔مکہ میں جبر و ستم کا شکار ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علانیہ نصرت کرنے کے بعد مدینہ آئے تو معرکۂ فرقان غزوۂ بدر میں بھرپور شرکت کی۔ابن اسحٰق، ابو معشر اورموسیٰ بن عقبہ نے انھیں شرکاے بدر میں شمار نہیں کیا۔ باقی غزوات میں ان کی شرکت کا ذکر نہیں ملتا۔

وقت شہادت

حضرت طلیب بن عمیر نےجمادی الاولیٰ ۱۳ھ میں شام کے مقام اجنادین میں اسلامی اور رومی فوجوں کے مابین لڑی جانے والی جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ان کی عمرپینتیس برس ہوئی۔شاذ روایت کے مطابق ان کی شہادت جنگ یرموک میں ہوئی۔

جنگ اجنادین

جنگ اجنادین یا فتح قیساریہ جمادی الاولیٰ ۱۳ھ (۶/ جولائی۶۳۴ء۔طبری:۱۵ھ،۶۳۶ء) میں اسرائیل و فلسطین کے مقامات رملہ اور بیت غوفرین یا بیت جبرون(Beit Gurvin) کے درمیان ایک جگہ لڑی گئی، جو بعد میں اجنادین کے نام سے مشہور ہوئی۔ ابتدائی جھڑپوں میں حضرت معاویہ بن ابو سفیان نے رومی بازنطینی قوتوں کے خلاف اسلا می فوج کی قیادت کی، جب کہ فیصلہ کن معرکہ میں حضرت عمرو بن العاص سپہ سالار تھے۔ قیصر روم کے بھائی تھیوڈور (Theodore) کی سربراہی میں ساٹھ ہزار (نوے ہزار:واقدی)کے رومی لشکر نے بیس ہزار(تینتیس ہزار:واقدی) کی اسلامی فوج سے شکست کھائی۔اس جنگ میں پچاس ہزار رومی جہنم واصل ہوئے، جب کہ مسلم شہدا کی تعداد پانچ سو پچھتر رہی، جن میں حضرت طلیب بن عمیر، حضرت عمرو بن سعید، حضرت سلمہ بن ہشام،حضرت ابان بن سعید،حضرت جندب بن عمرو،حضرت تمیم بن حارث، حضرت قیس بن حارث، حضرت حارث بن اوس، حضرت ضرار بن ازور اور حضرت ہشام بن العاص شامل تھے۔

زواج و اولاد

حضرت طلیب بن عمیرکی اہلیہ حضرت زینب کا تعلق بنو طے سے تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ عبد بن قصی کی نسل کا خاتمہ ہوا تو حضرت عبداللہ بن عباس کے پوتے عبدالصمد بن علی اور عروہ بن زبیر کے بیٹے عبیداللہ ان کے آخری فردکے وا رث بنے۔

روایت حدیث

حضرت طلیب سے کوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، تاریخ الامم و الملوک(طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف)بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ

حضرت عمرہ بنت سعدی رضی اللہ عنہا

حسب نسب

حضرت عمرہ (یا عمیرہ ) بنت سعدی قریش کی شاخ بنوعامر بن لؤی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد کانام عمرو بن وقدان تھا، ان کی دودھ پلائی بنو سعد بن بکر میں ہوئی،اس لیےسعدی کی نسبت سے مشہو ر ہو گئے۔ حضرت عمرہ کے دادا کا نام وقدان بن عبد شمس تھا،عبد ود بن نصر چوتھے،مالک بن حسل چھٹے او ر ابو القبیلہ عامر بن لؤی آٹھویں جد تھے۔نویں پیڑھی لؤ ی بن غالب پر ان کا نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرے سے جاملتاہے،لؤی آپ کے بھی نویں جد تھے۔ حضرت عمرہ کے ایک ہی بھائی حضرت عبداللہ بن سعدی کا ذکر ملتا ہے، جو اپنی نسبت ابن الساعدی سے مشہور ہیں۔وہ اپنی قوم کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔چھوٹا ہونے کی وجہ سے انھیں سواریوں کے پاس چھوڑ دیا گیا، لیکن وہ خود آپ کی خدمت میں پیش ہو گئے ا ورآپ سے استسفار بھی کیا (نسائی، رقم  ۴۱۷۷۔ صحیح ابن حبان، رقم  ۴۸۶۶)۔حضرت عمر نے انھیں زکوٰۃ کا عامل مقرر کیا اور ان کے انکار کے باوجود ان کے منصب کی اجرت دی(مسلم، رقم ۲۴۰۸۔ ابوداؤد، رقم  ۲۹۴۴ )۔ان کا انتقال عہد فاروقی میں ہوا۔ دوسری روایت کے مطابق وہ ۵۷ھ میں عہد معاویہ میں فوت ہوئے (واقدی،بلاذری)۔

حضرت عمرہ بنت سعدی کا بیاہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ کے بھائی حضرت مالک بن زمعہ سے ہوا۔ حضرت مالک کے دادا قیس بن عبد شمس حضرت عمرہ بنت سعدی کے دادا وقدان بن عبد شمس کے سگے بھائی تھے۔ابن اسحٰق اور ابن ہشام نے حضرت عمرہ کے شوہر کا نام مالک بن ربیعہ بن قیس بن عبد شمس درج کیا ہے۔ کتب صحابہ میں یہ نسب رکھنے والے کوئی صحابی نہیں پائے جاتے، اگرچہ ابن حجر نے اس نام کا عنوان قائم کر کے اس کی تفصیل مالک بن زمعہ بن قیس بن عبد شمس کے تحت بیان کی اورزبیر بن بکار کے حوا لے سے اسے درست قرار دیا ہے۔

قبول اسلام

حضرت عمرہ بنت سعدی اور ان کے شوہر حضرت مالک بن زمعہ ابتداے اسلام میں نعمت ایمان سے مالا مال ہوئے۔

ہجرت حبشہ

بعثت کے بعد تین سال تک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کار نبوت مخفی طور پر سر انجام دیتے رہے۔ پھر اللہ کے فرمان ’فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‘، ’’ (اے نبی)، آپ کو جو حکم نبوت ملا ہے، اسے ہانکے پکارے کہہ دیجیے‘‘ (الحجر۱۵: ۹۴) کی تعمیل میں قرآن مجید جہراًسنانے لگے۔ نوجوانوں، غریبوں اور غلاموں کی اکثریت نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو مشرکین مکہ نے نو مسلموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔ یہ سلسلہ عروج کو پہنچ گیا تو ۵؍ نبوی میں آپ نے اپنے صحابہ کو ارشاد فرمایا: ’’تم اﷲکی سرزمین میں بکھر جاؤ۔ حبشہ کی سرزمین میں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ تم وہاں رہنا جب تک اﷲ تمھاری سختیوں سے کشادگی کی راہ نکال نہیں دیتا۔‘‘ چنانچہ رجب ۵؍ نبوی میں سولہ اہل ایمان کشتی کے ذریعے سے  حبشہ روانہ ہوئے۔

شوال ۵؍نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ یہ کہہ کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔ یہ مکہ میں داخل ہوئے اورجب قوم کی اذیت رسانی میں تیزی آگئی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں بار دگر حبشہ جانے کی اجازت دے دی۔ان کے ساتھ کئی دیگر مسلمان بھی جانے کو تیار ہو گئے۔اس طرح مہاجرین کی کل تعداد تراسی مرد اور انیس عورتیں ہوگئی۔ حضرت مالک بن زمعہ اور ان کی اہلیہ حضرت عمرہ (:ابن ہشام، عمیرہ : ابن سعد)  بنت سعدی بھی ان میں شامل تھے۔دونوں حضرت جعفر بن ابوطالب کی قیادت میں حبشہ گئے۔بنو عامر بن لؤی کے دیگر سات اصحاب اور دو صحابیات نےان کے ہم راہ سفرہجرت کیا۔

حبشہ سے مدینہ کی طرف

حضرت عمرہ بنت سعدی ۷ھ میں اپنے شوہر حضرت مالک بن زمعہ کے ساتھ،حضرت جعفر بن ابوطالب کی قیادت میں، نجاشی کی فراہم کردہ کشتیوں پر مدینہ پہنچیں۔

ابن اسحٰق نے حضرت جعفر بن ابوطالب کے ہمراہ سمندر کا سفر کر کے ’بولا‘ کے ساحل پر پہنچنے والے صحابہ میں قبیلۂ بنوعامر بن لؤی کے صرف تین افراد کی شمولیت کا ذکر کیا ہے: حضرت ابوحاطب بن عمرو، حضرت مالک اور ان کی اہلیہ حضرت عمرہ بنت سعدی۔ اس فہرست میں انھوں نے حضرت مالک بن زمعہ کے بجاے مالک بن ربیعہ بن قیس بن عبد شمس کا نام در ج کیا،حالاں کہ وہ خود اس سے قبل حبشہ جانے والے مہاجرین کی فہرست بیان کرتے ہوئے مالک بن زمعہ لکھ چکے تھے۔ابن ہشام کی ’’السیرة النبویۃ‘‘ کے پرانے نسخوں میں حبشہ جانے اور واپس آنے والے اصحاب ،دونوں فہرستوں میں مالک بن ربیعہ لکھا ہے، جب کہ نئے نسخو ں میں حبشہ جانے والے صحابہ کی فہرست میں مالک بن زمعہ کی تبدیلی کر دی گئی ہے۔

اولاد

حضرت عمرہ بنت سعدی کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق)، السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B