اصول ومبادی کے باب کے تمہیدی حصے میں اسلام کا تعارف کراتے ہوئے مصنف نے فطرت اور دین کے باہمی تعلق، دین کے ماخذ، مصادر دین کے قطعی تاریخی ثبوت اور دینی علم میں اخبار آحاد کی حیثیت واہمیت جیسے نکات پر اصولی بات کی ہے۔ ذیل میں ان مباحث کی توضیح پیش کی جائے گی۔
’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔‘‘ (میزان ۱۳)
یہ مصنف کے تصور دین کا بنیادی نکتہ ہے، جس کا ماخذ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ.(الروم ۳۰: ۳۰)
’’سو ایک خدا کے ہو کر تم اپنا رخ اُس کے دین کی طرف کیے رہو۔ تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی اِس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
اس آیت کے تحت مصنف نے ’’البیان‘‘ میں لکھا ہے:
’’ مطلب یہ ہے کہ یہ دین کوئی خارج کی چیز نہیں ہے جو اوپر سے تم پر لادی جا رہی ہے۔ یہ عین تمھاری فطرت کا ظہور ہے۔ اِس سے اختلاف کرو گے تو گویا اپنے ساتھ اختلاف کرو گے اور اپنے ہی باطن میں چھپے ہوئے خزانے سے اپنے آپ کو محروم کر لو گے۔ ...انبیا علیہم السلام اِسی فطرت کی تفصیل کرتے اور اِس کے تمام مقتضیات و لوازم کو انسان کے لیے واضح کر دیتے ہیں۔ قرآن نے ’ذِكْر‘ اور ’ذِكْرٰي ‘کا لفظ اِسی پہلو سے اپنے لیے استعمال کیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ درحقیقت اُنھی حقائق کی یاددہانی کرتا ہے جو انسان کے اندر موجود ہیں، لیکن وہ اُنھیں فراموش کر بیٹھتا ہے۔‘‘ (۴/ ۵۸، ۵۹)
اس کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل مصنف نے کتاب کے مختلف مباحث میں اور اپنی دیگر تحریروں میں بیان کی ہے جو یہاں پیش نظر رہنے چاہییں۔
’’دین فطرت‘‘ کے زیر عنوان اپنی تحریر میں مصنف نے فطرت کا مفہوم یوں واضح کیا ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے جس مخلوق کو اُس کے جن خصائص کے ساتھ پیدا کیا ہے، وہی اُس کی فطرت ہے۔ انسان کی خلقت میں اِن خصائص کا ظہور اُس کے جبلی داعیات، جذبات و احساسات اور اُس کے اضطراری علم کی صورت میں ہوتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۴)
فطرت کی اس تعریف میں جبلی داعیات، (مثلاً خوراک کی طلب اور جنسی تسکین کا داعیہ) اور جذبات و احساسات (جیسے خوف، محبت، غصہ اور رنج) کا مفہوم واضح ہے۔ اضطراری علم سے مصنف نے اپنی مراد ’’علم کی بنیاد‘‘ کے زیر عنوان ایک تحریر میں یوں واضح کی ہے کہ انسان کی فطرت میں کچھ حقائق اور الہامات ودیعت کیے گئے ہیں جنھیں انسان پیدایشی طور پر اپنے اندر موجود پاتا اور ان کو اضطراراً قبول کرتا ہے (مقامات۱۲۵ )۔ ان میں سب سے بنیادی چیز موجودات سے متعلق، چاہے وہ مادی ہوں یا شعوری وذہنی، ایسے احکام ہیں جو انسان کے علم اور عقلی استدلال کے لیے بنیاد بنتے ہیں اور عقل ان کے آگے محکوم محض ہوتی ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے عالم خارجی کے موجود ہونے پر یقین، نفس انسانی کے عالم خارجی سے الگ ہونے کے شعور، حامل ومحمول یا ذات اور اس کے عوارض کے مابین فرق کے ادراک، ذات کے بغیر صفات کے ناممکن ہونے کے شعور، اپنے فعل و تصرف اور عالم خارجی کے انفعال وتاثر پر نفس کے یقین، مدرک اور غیر مدرک میں امتیاز، نفس کے مرغوبات و مکروہات اور اپنے اختیار وتصرف کے یقین جیسے امور کو فطری اور اضطراری علم میں شمار کیا ہے۔[1] مصنف کے نزدیک یہ اولیات اور بدیہیات سے مقدم ہوتے ہیں، کیونکہ اولیات اور بدیہیات بھی اپنے تحقق کے لیے ان فطری احکام کے محتاج ہوتے ہیں۔
فطری الہامات میں وہ بنیادی احساسات اور تصورات بھی شامل ہیں جو انبیا کی دعوت کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف نے سب سے بنیادی الہام خدا کی ربوبیت کے اقرار کو شمار کیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے:
’’ خدا کی ربوبیت کا اقرار ایک ایسی چیز ہے جو ازل ہی سے انسان کی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ اِس کا اولین ظہور ایک عہدومیثاق کی صورت میں ہوا تھا۔ اِس عہد کا ذکر قرآن ایک امرواقعہ کی حیثیت سے کرتا ہے۔ انسان کو یہاں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے، اِس لیے یہ واقعہ تو اُس کی یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے، لیکن اِس کی حقیقت اُس کے صفحۂ قلب پر نقش اوراُس کے نہاں خانۂ دماغ میں پیوست ہے، اِسے کوئی چیز بھی محو نہیں کرسکتی۔ چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانع نہ ہو اور انسان کو اِسے یاد دلایا جائے تو وہ اِس کی طرف اِس طرح لپکتا ہے، جس طرح بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے۔ ‘‘ (میزان ۹۱- ۹۲)
مصنف کی راے میں عہد الست پر مبنی ’’انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ جہاں تک خدا کی ربوبیت کا تعلق ہے، ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے‘‘ (میزان ۹۲)۔
فطرت میں ودیعت کیے گئے حقائق میں دوسری اہم چیز حسن وقبح کا شعور ہے۔ یہ بھی مصنف کے نزدیک اسی اضطراری علم کا حصہ ہے جو پیدایش کے ساتھ ہی انسان کے اندر الہام کر دیا گیا ہے اور جو بیدار ہوتے ہی ’’اشیا اور افعال، دونوں پر اپنا حکم لگانا شروع کر دیتا ہے۔ ‘‘ حسن وقبح کے شعور کے زیراثر انسان جن چیزوں پر حکم لگاتا ہے، مصنف نے ان کی تفصیل یوں بیان کی ہے:
’’ایک، بدن کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ طہارت اور نجاست کے مابین فرق کا شعور ہے۔
دوسرے، خورو نوش کی چیزوں کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ اُن کے طیبات و خبائث کے مابین فرق کا شعور ہے۔
تیسرے، نیت، ارادے اور اعمال کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ معروف اور منکر کے مابین فرق کا شعور ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۴)
مذکورہ توضیحات اور دیگر مختلف مباحث میں مصنف کے بیانات کو پیش نظر رکھا جائے تو فطرت کا ایک جامع مفہوم سامنے آتا ہے، جو درج ذیل امور کو محیط ہے:
۱۔ عالم وجود سے متعلق انسانی شعور میں موجود اضطراری احکام ۔
۲۔ اپنے مخلوق ہونے اور خدا کی ربوبیت کا شعور۔
۳۔ خالق کے روبرو عجز وتواضع کا احساس اور اس کی پرستش کا جذبہ۔
۴۔ حاسۂ اخلاقی، یعنی خیر وشر میں امتیاز کا شعور۔
۵۔ بدنی طہارت ونجاست اور خورونوش میں طیبات وخبائث کا امتیاز۔
۶۔ حسن وجمال کا احساس اور حصول کمال کا داعیہ۔
۷۔ معاشرت کو تعاون باہمی اور عدل واحسان پر قائم کرنے کا داعیہ۔
۸۔ منکرات کی مزاحمت اور معروفات کی حمیت وحمایت کا جذبہ۔
اس جامع مفہوم کی روشنی میں فطرت اور دین کے باہمی تعلق کے حوالے سے مصنف کے نقطۂ نظر کو سمجھا جا سکتا ہے، جس کی تفصیل مصنف نے موقع بہ موقع کتاب کے مختلف مباحث میں کی ہے ۔
انسان کے فطری علم اور انبیا کی وساطت سے انسان کو دی جانے والی ہدایت کے باہمی تعلق کی وضاحت مصنف نے ’’نبی کی ضرورت‘‘ کے زیرعنوان یوں کی ہے کہ نبی کی ضرورت دراصل انسان کو پروردگار کی معرفت اور اس کی عدالت سے روشناس کرانے یا خیر وشر اور نیکی وبدی میں امتیاز کی پہچان کے لیے نہیں ہے، کیونکہ ’’یہ سب چیزیں تو اُس کی خلقت کا حصہ اور اُس کی تخلیق کے پہلے دن ہی اُس کی فطرت میں ودیعت ہیں‘‘ (میزان ۱۳۲)۔ مصنف کے نزدیک انبیا کی بعثت دراصل اتمام ہدایت یا اتمام حجت کے لیے کی جاتی ہے۔ اتمام ہدایت سے مصنف کی مراد یہ ہے کہ انسان کو فطری طور پر جن چیزوں کا اجمالی علم دیا گیا ہے، اس کو اس کی یاددہانی کرائی جائے اور اس کی ضروری تفصیلات کو متعین کر دیا جائے (میزان ۱۳۲) ۔
انبیا کے دین کو دین فطرت قرار دینے کی وضاحت بھی مصنف نے اسی نکتے کی روشنی میں کی ہے۔ دین اصلاً انسان سے انھی تین چیزوں، یعنی تطہیر بدن، تطہیر خور ونوش اور معروف ومنکر کے امتیاز کو ملحوظ رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے، جن کا شعور اور جن کی تکمیل کا داعیہ انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے۔ دین کا مقصد خلق اور خالق کے ساتھ انسان کے تعلقات وروابط کی تطہیر ہے اور اس کو دین فطرت اسی پہلو سے کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی فطرت ہی کے دواعی اور تقاضوں کی تفصیلات اور لوازم ومقتضیات کو بیان کرتا ہے (ماہنامہ اشراق، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۶)۔
اخلاقیات کی بحث میں مصنف نے مزید واضح کیا ہے کہ فطری ہدایت کی تعبیر اور تفصیل میں چونکہ اختلافات بھی عین ممکن تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا کے ذریعے سے اس نوعیت کے بڑے اختلافات کا بھی فیصلہ فرما دیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں:
’’اِس الہام کی تعبیر میں، البتہ اشخاص، زمانے اورحالات کے لحاظ سے بہت کچھ اختلافات ہوسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اِس کی گنجایش بھی اُس نے باقی نہیں رہنے دی اورجہاں کسی بڑے اختلاف کا اندیشہ تھا، اپنے پیغمبرو ں کے ذریعے سے خیرو شرکو بالکل واضح کردیاہے۔ اِن پیغمبرو ں کی ہدایت اب قیامت تک کے لیے قرآن مجید میں محفوظ ہے۔‘‘ (میزان ۲۰۳)
انبیا کی پیش کردہ ہدایت سے بہرہ مند ہونے، فطرت میں رکھی گئی ہدایت کی قدر دانی سے مشروط ہونے کا نکتہ مصنف نے’’ہدایت وضلالت‘‘ کے زیر عنوان اس طرح واضح کیا ہے:
’’قرآن نے بتایا ہے کہ یہ ہدایت اُس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ پھر شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد زمین و آسمان کی نشانیاں اُس کی طرف اُسے متوجہ کرتی ہیں۔ انسان اگر اِس ہدایت کی قدر کرے، اِس سے فائدہ اٹھائے اور خدا کی اِس نعمت پر اُس کا شکر گزار ہوتو خدا کی سنت ہے کہ وہ اِس کی روشنی کو اُس کے لیے بڑھاتا، اُس کے اندر مزید ہدایت کی طلب پیدا کرتا اور اِس کے نتیجے میں انبیا علیہم السلام کی لائی ہوئی ہدایت سے اُس کو بہرہ یاب ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔‘‘ (میزان ۱۱۶)
اصول ومبادی میں ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے عنوان کے تحت مصنف نے بیان کیا ہے کہ قرآن چونکہ اس پورے سلسلۂ ہدایت کی آخری کتاب ہے، اس لیے وہ اپنی دعوت تین چیزوں کو پہلے سے موجود اور معلوم مان کر پیش کرتا ہے۔ ان تین میں سے پہلی چیز ’’فطرت کے حقائق‘‘ ہیں، جن کی تشریح مصنف نے یوں کی ہے:
’’پہلی چیزکا تعلق ایمان و اخلاق کے بنیادی حقائق سے ہے اور اُس کے ایک بڑے حصے کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور اُنھیں برا سمجھتی ہے۔‘‘ (میزان ۴۶)
الکتاب، یعنی شریعت اور قانون سے متعلق مصنف نے بتایا ہے کہ یہ اخلاقیات ہی کی فرع ہے اور شرعی اوامر و نواہی کا مقصد انسان کا تزکیۂ اخلاق ہے۔ مصنف کے الفاظ میں:
’’ایمان کے بعد دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیۂ اخلاق ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ انسان خلق اور خالق ، دونوں سے متعلق اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے ۔ یہی وہ چیز ہے جسے ’عمل صالح‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تمام شریعت اِسی کی فرع ہے۔‘‘ (میزان ۲۰۱)
مصنف نے شریعت کے، تزکیۂ اخلاق پر مبنی اور اس کی فرع ہونے کے پہلو کو ہر دائرے میں شریعت کے احکام کی وضاحت کرتے ہوئے تفصیلاً بیان کیا ہے۔ چنانچہ ’’قانون عبادات‘‘ میں خالق کی پرستش کو انسان کا فطری جذبہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کی مختلف اور معروف صورتیں دنیا کے تمام مذاہب میں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ انبیا کے دین میں مراسم عبادت مقرر کیے جانے کا مقصد خالق کے ساتھ انسان کے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ اس تعلق کا اظہار پرستش، اطاعت اور حمیت وحمایت کی صورت میں ہوتا ہے اور نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قربانی کی عبادات انسان کو انھی تین پہلوؤں کی یاددہانی اور تربیت کے لیے مقرر کی گئی ہیں (میزان ۲۶۷) ۔
’’قانون معاشرت‘‘ میں مصنف نے خاندان کو انسان کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کرنے والے ادارے کے طور پر بیان کیا اور جنسی تعلق کے حوالے سے قریبی رشتوں کی حرمت اور تقدس کو پاکیزگی کے فطری احساس پر مبنی قرار دیا ہے۔ اس باب میں شریعت نے جو احکام وقوانین مقرر کیے ہیں، ان کا مقصد خاندانی حقوق و فرائض کو صحیح اساسات پر استوار کرنا اور رشتوں اور تعلقات کا تزکیہ وتطہیر ہے (میزان ۴۱۱) ۔
قانون سیاست کا مقصود نظم اجتماعی کی تطہیر اور ان اخلاقی اساسات اور ذمہ داریوں کی تعیین ہے جن پر اس کو استوار ہونا چاہیے (میزان ۴۸۵)۔ ’’قانون جہاد‘‘ میں انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی فتنہ وفساد کے دفیعہ کو تہذیب وتمدن کی ایک ناگزیر ضرورت قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ شریعت کی مقرر کردہ وہ حدود اور شرائط کیا ہیں جن کی پابندی کرتے ہوئے اہل ایمان پر انسانی تمدن سے شر وفساد کا خاتمہ کرنے اور منکرین حق کے خلاف اقدام کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے (میزان ۵۸۰)۔ شریعت کے ضابطۂ حدود وتعزیرات کی وضاحت بھی اسی نکتے کی روشنی میں کی گئی ہے (میزان ۶۱۱)۔ ’’قانون دعوت‘‘ کا موضوع حق کی تبلیغ واشاعت کے حوالے سے ذمہ داریوں اور حدود کا تعین ہے جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس فریضے کو بجا لایا جا سکے (میزان ۵۳۴) ۔
’’ قانون معیشت‘‘ میں معاشی تعاون وتناصر کو انسانی سماج کی ناگزیر ضرورت کے طور پر بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ شریعت میں ایسے طریقوں سے دوسروں کا مال کھانے کی ممانعت کی گئی ہے جو عدل وانصاف، معروف، دیانت اور سچائی کے خلاف ہیں۔ ان ہدایات کا مقصد معاشی عمل اور معاشی جدوجہد میں انسان کو ان اخلاقی حدود کو پابند بنانا ہے جن کی پامالی سے تمدن اور معاشرت فساد کی آماج گاہ بن جاتے ہیں (میزان ۴۹۹، ۵۰۰)۔
’’خورونوش‘‘ کے باب میں شریعت کے احکام کھانے پینے میں طیب اور خبیث کے فرق کو متعین کرتے ہیں، جس کی پابندی تزکیۂ نفس کے پہلو سے ضروری ہے (میزان ۶۳۲)۔ اس ضمن میں مصنف نے بتایا کہ اس باب میں انسان طیب اور خبیث اشیا کا فرق عموماً اپنی فطرت کی روشنی میں کرتے رہے ہیں، جب کہ شریعت نے اصلاً انھی چیزوں کو اپنا موضوع بنایا ہے جن کی حلت وحرمت کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا انسان کے لیے اپنے فطری علم کی روشنی میں ممکن نہیں تھا۔
جسمانی صحت وصفائی اور میل جول کے آداب کے حوالے سے مقرر کیے گئے رسوم کا مقصد بھی معاشرت اور تمدن کو پاکیزہ بنیادوں پر استوار کرنا ہے (میزان ۶۴۲)۔ قسم اور کفارۂ قسم کے احکام عہد کی پابندی اور اس پر خدا کو گواہ مقرر کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، جس پر انسانی تمدن کی صلاح وفلاح کا مدار ہے (میزان ۶۵۰)۔
فطری اخلاقیات اور شریعت کے باہمی تعلق کے حوالے سے کچھ مزید ’’توضیحات ‘‘ ’’اخلاقیات‘‘ کے باب میں پیش کی جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہدایت کی بنیاد انسانی فطرت میں ہونے اور انسانی عقل میں اس کی پہچان اور قبولیت کی استعداد موجود ہونے کا نکتہ اصولی طور پر اہل علم کے ہاں مسلم ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انسان کو جس چیز کی دعوت دی جائے، اس کا فی الجملہ شعور اور اس کو قبول کرنے کی طرف رجحان انسان کی فطرت میں موجود ہونا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر انسان کو خارجی طور پر کسی رہنمائی کا مخاطب نہیں بنایا جا سکتا ۔ ابن عبد البر نے اہل علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیا ہے:
لم يكن اللّٰه ليدعو خلقه إلى الإيمان به وهو لم يعرفهم نفسه إذ يكون حينئذ قد كلفهم الإيمان بما لا يعرفون. (التمہید ۱۱ /۳۷۵)
’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو اپنے اوپر ایمان کی دعوت دے، جب کہ اس نے ان کو اپنی پہچان نہ کرائی ہو، کیونکہ اس کا مطلب یہ بنے گا کہ اللہ نے انھیں ایسی چیز پر ایمان کا مکلف ٹھیرایا ہے جس سے وہ واقف ہی نہیں۔‘‘
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
ولهذا كل من تطلب معرفته بالدليل فلا بد أن يكون مشعورًا به قبل هذا، حتى يطلب الدليل عليه أو على بعض أحواله. وأما ما لا تشعر به النفس بوجه فلا يكون مطلوبًا لها.(درء تعارض العقل والنقل ۸ / ۵۳۲)
’’اسی لیے ضروری ہے کہ دلیل سے جس چیز کی بھی معرفت مقصود ہو، اس کا شعور انسان کو پہلے سے حاصل ہو تاکہ اس پر یا اس کے بعض احوال پر دلیل طلب کی جا سکے۔ جس چیز کا نفس مطلقاً شعور ہی نہ رکھتا ہو، وہ اس کا مطلوب نہیں ہو سکتی۔‘‘
البتہ اس بحث کی تفصیلات میں مختلف کلامی مکاتب فکر کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم سوال فطری ہدایت کی نوعیت اور اس کے دائرے سے متعلق ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک فطرت کا مفہوم قبول حق کی استعداد اور صلاحیت تک محدود ہے اور اس سے بڑھ کر کسی خاص حقیقت، مثلاً خدا کے وجود کا شعور اس میں شامل نہیں ہے۔ وجود باری اور دیگر حقائق کی معرفت انسان کو دنیا میں آنے کے بعد عقلی استدلال اور فکر و نظر کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک خالق کی معرفت اور توحید بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے، تاہم یہ اضطراری معرفت، ایمان کے ہم معنی نہیں ہے اور نہ محض اس معرفت کی بنیاد پر آدمی اجر و ثواب کا حق دار ہو سکتا ہے، بلکہ ایمان اس معرفت کی بنیاد پر شعوری طور پر اور ارادہ واختیار کے ساتھ کیے جانے والے اقرار واعتراف کا نام ہے۔ تیسرے گروہ کے نزدیک خدا کی معرفت کے ساتھ ساتھ اسلام، یعنی انبیا علیہم السلام کی بیان کردہ تعلیمات بھی مجموعی اور اصولی لحاظ سے انسانی فطرت میں شامل ہیں۔[2]
ان میں سے آخری نقطۂ نظر ابن تیمیہ، ابن القیم اور شاہ ولی اللہ نے بھی اختیار کیا ہے اور جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، مصنف کا موقف بھی اسی کے قریب تر ہے۔ چنانچہ ابن تیمیہ فطرت، عقل اور وحی کو انسان کی ہدایت کے ذرائع میں شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واللّٰه سبحانه تفضل على بني آدم بأمرين هما أصل السعادة: أحدهما: أن كل مولود يولد على الفطرة... الثاني: أن اللّٰه تعالى هدى الناس هداية عامة، بما جعل فيهم من العقل، وبما أنزل إليهم من الكتب، وأرسل إليهم من الرسل. (مجموع الفتاویٰ ۸ / ۲۰۵)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انسان کو دو چیزیں عنایت کی ہیں جو انسان کی سعادت کی بنیاد ہیں: ایک یہ کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ اللہ نے انسانوں کو عقل عطا کر کے اور کتابیں نازل کر کے اور اپنے رسول بھیج کر ان کی ہدایت عامہ کا بھی انتظام فرمایا ہے۔‘‘
ابن تیمیہ سچائی، امانت، صلۂ رحمی اور عدل وانصاف کی محبت جیسے اخلاقی تصورات کو فطرت میں شمار کرتے ہیں[3]
اور لکھتے ہیں کہ انبیا کو انسان کی فطرت کی تائید اور تکمیل کے لیے مبعوث کیا جاتا ہے اور شریعت، فطرت ہی کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتی ہے:
ولهذا كانت الرسل إنما تأتي بتذكير الفطرة ما هو معلوم لها وتقويته وإمداده ونفي المغير للفطرة. فالرسل بعثوا بتقرير الفطرة وتكميلها لا بتغيير الفطرة وتحويلها. والكمال يحصل بالفطرة المكملة بالشرعة المنزلة.(مجموع الفتاویٰ ۱۶ / ۳۴۸)
’’اسی لیے پیغمبر فطرت کو انھی چیزوں کی یاددہانی کراتے ہیں جو اسے معلوم ہوتی ہیں اور ان کی تقویت وتائید کرتے ہوئے فطرت میں بگاڑ پیدا کرنے والی چیزوں کی نفی کرتے ہیں۔ یعنی رسولوں کی بعثت فطرت کی تائید وتاکید اور اس کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ فطرت کو تبدیل کرنے یا بگاڑنے کے لیے۔ انسان کو کمال اسی فطرت سے حاصل ہوتا ہے جس کی تکمیل اللہ کی نازل کردہ شریعت سے کی گئی ہو۔‘‘
ابن القیم نے اس نکتے کو مزید وضاحت سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
الفطرة مركوز فيها معرفة اللّٰه ومحبته والإخلاص له والإقرار بشرعه وإيثاره على غيره، فهي تعرف ذلك وتشعر به مجملاً ومفصلاً بعض التفصيل، فجاءت الرسل تذكرها بذلك وتنبهها عليه وتفصله لها وتبينه، وتعرفها الأسباب المعارضة لموجب الفطرة المانعة من اقتفائها أثرها، وهكذا شأن الشرائع التي جاءت بها الرسل، فإنها أمر بمعروف ونهي عن منكر، وإباحة طيب وتحريم خبيث، وأمر بعدل ونهي عن ظلم، وهذا كله مركوز في الفطرة وكمال تفصيله وتبيينه موقوف على الرسل.(شفاء العلیل ۵۱۳)
’’فطرت میں اللہ کی معرفت، اس کی محبت اور اخلاص، اس کی شریعت کا اقرار اور غیر شریعت پر اس کو ترجیح دینے کا جذبہ، یہ سب چیزیں ودیعت شدہ ہیں۔ فطرت ان کو پہچانتی ہے اور ان کا اجمالی اور کسی قدر تفصیلی شعور بھی رکھتی ہے۔ پیغمبروں نے آ کر انھی چیزوں کی یاد دہانی کرائی، ان پر متنبہ کیا اور ان کی تفصیل وتوضیح کی ہے، نیز ان اسباب کی پہچان کرائی ہے جو فطرت کے تقاضوں میں مانع بنتے ہیں اور فطرت کو ظہور پذیر ہونے سے روک دیتے ہیں۔ انبیا جو شریعتیں لے کر آئے، ان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ معروفات کا حکم دیتی، منکرات سے روکتی، پاکیزہ چیزوں کو مباح اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتی، عدل کا حکم دیتی اور ظلم سے منع کرتی ہیں۔ یہ سب چیزیں فطرت میں پہلے سے موجود ہیں، البتہ ان کی پوری تفصیل اور ان کی تشریح وتوضیح کرنا رسولوں پر موقوف ہے۔‘‘
فطری ہدایت اور انبیا کی تعلیم ودعوت کے باہمی تعلق کے حوالے سے کچھ مزید پہلوؤں کی وضاحت ’’ایمانیات“ اور ’’اخلاقیات“ کے مباحث میں متعلقہ مقامات پر کی جائے گی۔
’’اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف اُنھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔‘‘ (میزان ۱۳)
دین کی اس تعریف میں دو نکتے بنیادی ہیں: پہلا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا کا آخری پیغمبر ہونا اور دوسرا، قیامت تک کے لیے دین کا تنہا ماخذ ہونا۔ ان دونوں نکتوں کے بعض اہم مضمرات ہیں جو پیش نظر ہونے چاہییں۔
خداکا آخری پیغمبر ہونے کا نکتہ دو اہم مضمرات کو متضمن ہے :
ایک یہ کہ آپ کے بعد نبوت ورسالت اور وحی والہام کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اور آپ کے بیان کردہ دین و شریعت کو ہی قیامت تک خدا کے حتمی اور آخری فرمان واجب الاذعان کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نکتے کی مزید تفصیل ’’ایمانیات‘‘ کے باب میں ’’ختم نبوت‘‘ کے عنوان کے تحت زیربحث آئے گی۔
دوسرا اہم مضمر یہ ہے کہ آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی ہدایت انسانوں کو پہلی مرتبہ نہیں، بلکہ آخری مرتبہ دی گئی ہے، یعنی آپ نے ہدایت الٰہی کے مشمولات تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک نئی دریافت کے طور پر پیش نہیں کیے، بلکہ آپ کی بعثت، سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی کے طور پر اور انبیا کے جاری کردہ پورے سلسلۂ ہدایت کے تاریخی پس منظر میں ہوئی ہے۔ اس نکتے کی مزید تفصیل مصنف نے ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ کے تحت ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان بیان کی ہے اور واضح کیا ہے کہ قرآن مجید جن دینی مقدمات کو پہلے سے موجود اور مخاطبین کے لیے معلوم و معروف تصور کر کے اپنی دعوت پیش کرتا ہے، وہ تین ہیں: ۱۔ فطرت کے حقائق، ۲۔ دین ابراہیمی کی روایت، اور ۳۔ نبیوں کے صحائف۔ ان میں سے دین ابراہیمی کی روایت قرآن مجید کی دعوت اور خطاب میں ضمنی واضافی طور پر زیر بحث آتی ہے، جب کہ اس کے عملی احیا اور تجدید کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انجام پایا ہے۔ تاہم بہ حیثیت مجموعی دین کے فہم میں دینی روایت کے اس پورے تاریخی پس منظر کو ملحوظ رکھنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
ماخذ دین کے حوالے سے مصنف کی یہ تعبیر کہ وہ تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، دینی روایت میں معروف تعبیر سے قدرے مختلف ہے، تاہم بنیادی نقطۂ نظر میں مصنف کا موقف دینی روایت کے معروف موقف سے ہم آہنگ ہے۔ روایتی تعبیر میں اس بات کو عموماً یوں بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کے علاوہ سنت بھی تشریع کا ماخذ ہے۔ مصنف نے اس کی جگہ یہ تعبیر اختیار کی ہے کہ دراصل امت کے لیے دین کا ماخذ تنہا پیغمبر کی ذات ہے ، کیونکہ آپ کی وساطت کے بغیر ہدایت الٰہی کے کسی بھی جزو، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب تک رسائی یا اس پر ایمان کی بھی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اصلاً واساساً اور براہ راست قرآن پر ایمان نہیں لاتا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہے، جب کہ قرآن کو خدا کا کلام ماننا اس کے بعد، آپ کی رسالت پر ایمان کے ایک لازمی تقاضے کے طور پر ضروری ٹھیرتا ہے۔
اس پہلو سے ’’ کتابوں پر ایمان‘‘ کے زیر عنوان مصنف کا یہ اشارہ بھی بہت اہم ہے کہ ’’انسان کی ہدایت کے لیے جس طرح نبی بھیجے گئے، اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ اپنی کتابیں بھی نازل کی ہیں۔ یہ کتابیں اِس لیے نازل کی گئیں کہ خدا کی ہدایت لکھی ہوئی اور خود اُس کے الفاظ میں لوگوں کے پاس موجود رہے‘‘ (میزان ۱۵۵)۔ یعنی ہدایت اور اتمام حجت کے باب میں خدا کے نمایندے کی حیثیت اصلاً انبیا کو حاصل ہے، جب کہ کتابیں ان کی تائید اور ان کے ذریعے سے دی جانے والی ہدایت کو محفوظ کرنے کے لیے نازل کی گئی ہیں۔
مصنف کی اس تعبیر کا بنیادی مقصد جدید دور میں سامنے آنے والے بعض نظریات کی تردید اور ان کی غلطی کو واضح کرنا معلوم ہوتا ہے جن کا مدعا یہ ہے کہ پیغمبر کی حیثیت صرف ایک پیغام رساں کی ہے جو اللہ کی طرف سے دیے جانے والے احکام کو لوگوں تک پہنچا دینے کا ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تشریع کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا، جس کی پابندی اللہ کی طرف سے نازل کردہ احکام وہدایات کی طرح لازم ہو۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق سنت کی پیروی کا مطلب صرف یہ ہے کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے نازل کردہ احکام پر عمل کیا، اسی طرح امت بھی ان احکام پر، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ متعین احکام پر، عمل کا اہتمام کرے۔ برصغیر میں اس نقطۂنظر کے ایک معروف نمایندہ ڈاکٹر عبد الودود نے اس کی وضاحت یوں کی ہے:
’’رہا یہ سوال کہ آیا میں سنت کو قرآن کے ساتھ ماخذ قانون مانتا ہوں یا نہیں؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ ... بے شک حضور نے حاکم اعلیٰ کے قانون کے مطابق معاشرہ کی تشکیل تو فرمائی، لیکن یہ کہ کتاب اللہ کا قانون (نعوذ باللہ) نامکمل تھا اور جو کچھ حضور نے عملاً کیا، ا س سے اس قانون کی تکمیل ہوئی، میرے لیے ناقابل فہم ہے..... ’ما انزل اللّٰه‘کے مطابق تربیت، جماعت بندی، ریاست کا قیام، مشاورت، قضا، غزوات، یہ سارے کام امت کرے تو یہ سنت رسول اللہ ہی کی پیروی ہے۔ حضور نے بھی اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ’ما انزل اللّٰه‘ پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کی۔ اور سنت رسول اللہ کی پیروی یہ ہے کہ ہر زمانے کی امت زمانے کے تقاضوں کے مطابق ’ما انزل اللّٰه‘پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کرے۔“ (سید ابو الاعلیٰ مودودی، سنت کی آئینی حیثیت ۶۰، ۶۱)
اس نقطۂ نظر کی تردید مصنف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’دین کا تنہا ماخذ“ قرار دے کر کی ہے، جس کا مدعا یہ ہے کہ کسی انسان کو پیغمبر ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس کا دین لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہے اور وہ جو چیز بھی اس اعلان کے ساتھ لوگوں کو دے گا کہ یہ خدا کا دین ہے، اسے ماننا لازم ہوگا۔ وہ خدا کے نازل کردہ کلام کے طور پر کوئی چیز پیش کرے یا اس کے علاوہ کوئی حکم یا ہدایت، یہ کہہ کر لوگوں کو دے کہ یہ خدا کا دین ہے، ہر صورت میں اس کے پیش کردہ دین کو ماننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ بالفرض، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رسالت کا اعلان کرنے کے بعد کلام الٰہی کے طو رپر قرآن کو سرے سے پیش ہی نہ کرتے اور اس کے بجاے محض یہ فرماتے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور اس حیثیت سے تمھیں فلاں بات کا حکم دیتا اور فلاں بات سے روکتا ہوں تو بھی اس کی اطاعت بدیہی طور پر لازم ہوتی، کیونکہ اس کے بغیر آپ کو ’’رسول‘‘ ماننے کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔
’’مبادی تدبر سنت‘‘ کے زیر عنوان مصنف نے ماخذ دین کے طور پر سنت کی مستقل بالذات حیثیت کو مزید یوں واضح کیا ہے کہ جس طرح قرآن دین کے بہت سے مستقل بالذات احکام بیان کرتا اور سنت، ان احکام کے کچھ فروع اور تفصیلات کو واضح کرتی ہے، اسی طرح سنت بھی ایسے مستقل بالذات احکام بیان کرتی ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی، اور پھر قرآن ان کے بعض مزید پہلوؤں کو واضح کر دیتا ہے۔ چنانچہ جیسے یہ امکان ہے کہ کسی حکم کو اصلاً و ابتداءً قرآن نے بیان کیا ہو اور سنت نے اس کی مختلف فروع کی وضاحت کی ہو، اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس مسئلے میں تشریع کی ابتدا سنت سے ہوئی ہو اور اسی نے اس باب میں بنیادی وتاصیلی ماخذ کا کردار اد اکیا ہو، جب کہ قرآن نے اس کو ایک ثابت شدہ حکم مان کر اس پر بعض مزید احکام کا اضافہ کیا ہو۔ گویا تشریع کی ابتدا کرنے میں قرآن اور سنت، دونوں مساوی درجے کے ماخذ ہیں اور دونوں اپنی مستقل حیثیت میں دین کے تاصیلی احکام بھی بیان کر سکتے ہیں اور پہلے سے ثابت شدہ احکام میں اضافات بھی شامل کر سکتے ہیں۔
اخبار آحاد کی دینی اہمیت پر کلام کرتے ہوئے مصنف نے اس نکتے کو مزید یوں واضح کیا ہے کہ اگرچہ وہ قرآن و سنت ہی میں محصور دین کی تفہیم و تبیین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں اور ان کی تبلیغ و حفاظت کا اہتمام کرنے کے بجاے آپ نے اسے دیکھنے اور سننے والوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا کہ جن چیزوں کو اُن کی نوعیت کے لحاظ سے ضروری سمجھیں، آگے پہنچائیں اور جن کو نہ سمجھیں، نہ پہنچائیں، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی قول وفعل یا تصویب کی نسبت پر اطمینان ہو جانے کے بعد اس کو قبول کرنا بھی لازم ہوجاتا ہے اور اس سے انحراف کسی صاحب ایمان کے لیے جائز نہیں رہتا۔ سورۂ نساء (۴) کی آیت ۶۵ کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے لکھاہے:
’’اِس دائرے کے اندر ، البتہ حدیث کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہوجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان ۱۵)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے :
۱۔ قرآن مجید
۲ ۔سنت…
دین اصلاً،اِنھی دو صورتوں میں ہے ۔اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے ،نہ اُسے دین قرار دیا جاسکتا ہے۔‘‘(میزان ۱۳، ۱۵)
مصنف نے دین کو قرآن اور سنت میں محصور اور ان دونوں کے ثبوت کو اجماع اور تواتر پر مبنی قرار دیا ہے۔ سنت کے مشمولات کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف نے عبادات ، معاشرت، خورونوش اور رسوم وآداب سے متعلق درج ذیل اساسی احکام وشرائع کا ذکر کیا ہے، جو امت کے اجتماعی تعامل کا حصہ ہیں:
عبادات میں: ۱۔ نماز ۔۲۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر ۔۳۔ روزہ و اعتکاف ۔۴۔ حج و عمرہ ۔۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں ۔
معاشرت میں: ۱۔ نکاح و طلاق اور اُن کے متعلقات ۔ ۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔
خور و نوش میں: ۱۔ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت ۔ ۲۔ اپنا اور جانور کا ’رجس‘دور کرنے کے لیےاللہ کا نام لے کراُس کا تذکیہ ۔
رسوم و آداب میں: ۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ۔ ۲۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام عليكم‘ اور اُس کا جواب۔۳۔ چھینک آنے پر ’الحمد للّٰه‘ اور اُس کے جواب میں ’يرحمك اللّٰه‘ ۔ ۴ ۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۵۔ زیر ناف کے بال کاٹنا۔ ۶۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۷۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۸۔لڑکوں کا ختنہ کرنا ۔۹۔ ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۰۔استنجا۔ ۱۱۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۲۔غسل جنابت۔ ۱۳۔میت کا غسل۔ ۱۴ ۔تجہیز و تکفین ۔۱۵۔تدفین ۔۱۶ ۔عید الفطر ۔ ۱۷۔عید الاضحیٰ۔
گویا دین کے عملی احکام وشرائع کا پورا ڈھانچہ مصنف کے نزدیک سنت میں شامل ہے جو اجماع وتواتر سے ثابت ہے۔
مصنف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ دین کا اجماع وتواتر پر مبنی، یعنی باعتبار ثبوت قطعی ہونا کیوں ضروری ہے۔ چنانچہ سورۂ فرقان (۲۵) کی آیت ۱ ’لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا‘ کی تفسیر میں مصنف نے ’’البیان “ میں لکھا ہے:
’’ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۹ میں مزید وضاحت فرمائی ہے کہ قرآن کی دعوت آنے والے تمام زمانوں کے لیے بھی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’اُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۣ بَلَغَ‘(یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے سے میں تمھیں انذار کروں اور اُن کو بھی جنھیں یہ پہنچے)۔ قرآن کی یہ حیثیت لازماً تقاضا کرتی ہے کہ بعد میں آنے والوں کے لیے بھی یہ اپنے ثبوت اور دلالت کے لحاظ سے اُسی طرح قطعی رہے، جس طرح اپنے اولین مخاطبین کے لیے تھا۔ خدا کی عنایت ہے کہ ایسا ہی ہے اور اُس کی یہ کتاب اِسی قطعیت کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے۔“(۳/ ۴۶۴)
یہی استدلال مصنف نے سنت کے قطعی الثبوت ہونے کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ چنانچہ ’’مبادی تدبر سنت‘‘ کی فصل میں سنت کی تعیین کے ساتویں اصول کے تحت مصنف نے لکھا ہے:
’’ سنت کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام،پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک پہنچانے کے مکلف تھے۔ اخبار آحاد کی طرح اِسے لوگوں کے فیصلے پر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا کہ وہ چاہیں تو اِسے آگے منتقل کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔ لہٰذا قرآن ہی کی طرح سنت کا ماخذ بھی امت کا اجماع ہے اور وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے امت کو ملا ہے ، اِسی طرح یہ اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے ،اِس سے کم تر کسی ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور آپ کی تفہیم و تبیین کی روایت تو بے شک، قبول کی جا سکتی ہے ،لیکن قرآن و سنت کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتے۔ ‘‘(میزان ۶۲)
یہ نکتہ اکابر اہل علم نے بھی واضح کیا ہے کہ دین کے اساسی اور بنیادی احکام تواتر اور قطعیت کے ساتھ امت کو منتقل ہوئے ہیں۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ تاریخی ثبوت کے پہلو سے مسلمانوں کے دین اور اہل کتاب کی دینی روایت کے باہمی امتیاز کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی دینی روایت میں اساسی دین ۱۔ قرآن مجید کے الفاظ، ۲۔ اس کی اساسی تعلیمات کے معنی ومفہوم اور ۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صورت میں اجماع اور تواتر کے ساتھ منقول ہے اور تمام مسلمانوں کو اضطراراً معلوم ہے، یعنی وہ متواتر اور مجمع علیہ دین کے ثبوت میں کوئی شک وشبہ یا انکار نہیں کر سکتے۔ گویا مسلمانوں کا دین اپنے اساسی ڈھانچے کے لحاظ سے قطعیت کے ساتھ محفوظ ہے۔ لکھتے ہیں:
فكل ما أجمع المسلمون عليه من دينهم إجماعًا ظاهرًا معروفًا عندهم فهو منقول عن الرسول نقلاً متواترًا، بل معلومًا بالاضطرار من دينه، فإن الصلوات الخمس، والزكاة، وصيام شهر رمضان، وحج البيت العتيق، ووجوب العدل والصدق، وتحريم الشرك والفواحش والظلم، بل وتحريم الخمر والميسر والربا، وغير ذلك منقول عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم نقلاً متواترًا كنقل ألفاظ القرآن الدالة على ذلك. ومن هذا الباب عموم رسالته صلى اللّٰه عليه وسلم وأنه مبعوث إلى جميع الناس أهل الكتاب وغير أهل الكتاب، بل إلى الثقلين الإنس والجن وأنه كان يكفر اليهود والنصارى الذين لم يتبعوا ما أنزل اللّٰه عليه كما كان يكفر غيرهم ممن لم يؤمن بذلك وأنه جاهدهم وأمر بجهادهم. فالمسلمون - عندهم منقولاً عن نبيهم نقلاً متواترًا - ثلاثة أمور: لفظ القرآن ومعانيه التي أجمع المسلمون عليها والسنة المتواترة وهي الحكمة التي أنزلها اللّٰه عليه غير القرآن.(الجواب الصحیح ۳ / ۱۰)
’’مسلمانوں کا اپنے دین کی جن تعلیمات پر واضح اور معروف اجماع ہے، وہ سب کی سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہیں، بلکہ ان کا آپ کے دین کا حصہ ہونا قطعی اور اضطراری طور پر معلوم ہے۔ مثلاً پانچ نمازیں، زکوٰۃ، رمضان کے روزے، بیت اللہ کا حج، عدل اور سچائی کا وجوب، شرک اور فواحش اور ظلم کی حرمت، اسی طرح شراب، جوے اور سود کی حرمت اور ان کے علاوہ دوسری باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح تواتر کے ساتھ منقول ہیں، جس طرح ان پر دلالت کرنے والے قرآن کے الفاظ متواتر ہیں۔ اسی نوعیت کی تعلیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب، آپ سب انسانوں کی طرف، بلکہ انسانوں کے علاوہ جنوں کی طرف بھی مبعوث ہیں۔ اسی طرح یہ کہ جیسے آپ اہل کتاب کے علاوہ دوسرے لوگوں کو کافر قرار دیتے تھے جو آپ پر اتارے گئے دین پر ایمان نہ لائیں، اسی طرح یہود ونصاریٰ کی بھی تکفیر کرتے تھے اور ان کے خلاف بھی آپ نے جہاد کیا اور جہاد کرنے کا حکم دیا۔ پس مسلمانوں کے پاس اپنے نبی سے تواتر کے ساتھ نقل ہونے والی تین چیزیں موجود ہیں: قرآن کے الفاظ، قرآن کی وہ تعلیمات جن پر مسلمانوں کا اجماع ہے، اور سنت متواترہ جو دراصل اس حکمت سے عبارت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآن کے علاوہ نازل فرمائی۔‘‘
مولانا مودودی اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ختم نبوت کا اعلان بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرر کیے ہوئے آخری رسول کی رہنمائی اور اس کے نقوش قدم کو قیامت تک زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے لی ہے تاکہ اس کی زندگی ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتی رہے اور اس کے بعد کسی نئے رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع جریدۂ عالم پر ان نقوش کو کیسا ثبت کیا ہے کہ آج کوئی طاقت انھیں مٹا نہیں سکتی۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ یہ وضو، یہ پنج وقتہ نماز، یہ اذان، یہ مساجد کی نماز باجماعت، یہ عیدین کی نمازیں، یہ حج کے مناسک، یہ بقر عید کی قربانی، یہ زکوٰۃ کی شرحیں، یہ ختنہ، یہ نکاح وطلاق ووراثت کے قاعدے، یہ حرام و حلال کے ضابطے اور اسلامی تہذیب وتمدن کے دوسرے بہت سے اصول اور طور طریقے جس روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کیے، اسی روز سے وہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہو گئے جس طرح قرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھ گئیں، اور پھر ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں مسلمان دنیا کے ہر گوشے میں نسلاً بعد نسلٍ ان کی اسی طرح پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں جس طرح ان کی ایک نسل سے دوسری نسل قرآن لیتی چلی آ رہی ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ رسول پاک کی جن سنتوں پر قائم ہے، ان کے صحیح ہونے کا ثبوت بعینہٖ وہی ہے جو قرآن پاک کے محفوظ ہونے کا ثبوت ہے۔ ‘‘ (سنت کی آئینی حیثیت ۱۳۰)
جہاں تک اخبار آحاد کا تعلق ہے تو ان میں منقول دینی احکام وہدایات کی نوعیت مصنف نے یہ متعین کی ہے کہ وہ قرآن و سنت میں محصور دین کی تفہیم و تبیین اور اِس پرعمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کابیان ہے۔ اسی بات کو مصنف نے یوں تعبیر کیا ہے کہ اخبار آحاد سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا، کیونکہ خبر واحد میں جس عقیدہ یا عمل کی تفہیم وتبیین کی جاتی ہے، وہ اپنی اصل میں قرآن یا سنت میں موجود ہوتا ہے۔ اس نکتے کی مزید تفصیل ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کے زیر عنوان بیان کی جائے گی۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ان امور کی توضیح محولہ ’’مقامات ‘‘ کی محولہ بالا تحریر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
[2]۔ان اقوال کی تفصیل کے لیے دیکھیے: تفسیر القرطبی، سورۃ الروم، آیت ۳۰۔ علی بن عبد اللہ القرنی، الفطرة: حقیقتھا ومذاھب الناس فیھا، دار المسلم للنشر والتوزیع، الریاض، ۱۴۲۴ھ۔
[3]۔مجموع الفتاویٰ ۲۰ / ۱۲۱۔ الرد علی المنطقیین ۴۲۳۔