ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
ــــــ ۱ ــــــ
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ «تَخْرُجُ الدَّابَّةُ فَتَسِمُ النَّاسَ عَلَى خَرَاطِيمِهِمْ، ثُمَّ يَغْمُرُونَ۲ فِيكُمْ حَتَّى يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْبَعِيرَ، فَيَقُولُ: ۳ مِمَّنْ اشْتَرَيْتَهُ؟ فَيَقُولُ: اشْتَرَيْتُهُ مِنْ أَحَدِ الْمُخَطَّمِينَ۴».
وَعَنْهُ فِي رِوَايَةٍ قَالَ:۵ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَخْرُجُ الدَّابَّةُ فَتُوشِمُ النَّاسَ عَلَى خَرَاطِيمِهِمْ فَتَبْيَضُّ وُجُوهُ الْمُؤْمِنِينَ، وَتَسْوَدُّ وُجُوهُ الْمُنَافِقِينَ، وَيَمْتَازُ هَؤُلاءِ عَنْ هَؤُلاءِ، ثُمَّ يَمُرُّونَ بَعْدَ ذَلِكَ حَتَّى يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الشَّيْءَ، فَيُقَالُ لَهُ: مِمَّنِ اشْتَرَيْتَهُ؟ فَيَقُولُ: مِنْ أَحَدِ الْمُخَرْطَمِينَ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :زمین کا جانور نکلے گا ۱تو وہ لوگوں کی ناک پر نشان لگا دے گا۲۔ پھر ایسے نشان زدہ لوگ تم میں بہت ہوجائیں گے، یہاں تک کہ آدمی ایک اونٹ خریدے گا اور کوئی اُس سے پوچھے گا کہ یہ اونٹ تم نے کس سے خریدا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا: میں نے یہ نشان زدہ لوگوں میں سے ایک شخص سے خریدا ہے۔
اِنھی ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین کا جانور نکلے گا تو لوگوں کو اُن کے ناک پر گود کر نشان لگا دے گا، جس کے نتیجے میں مومنین کے چہرے سفید اور منافقین کے سیاہ ہوجائیں گے اور اِن دونوں گروہوں کے افراد ایک دوسرے سے الگ پہچانے جائیں گے۔ پھر لوگ اِسی حالت پر رہیں گے، یہاں تک کہ آدمی کوئی چیز خریدے گا تو اُس سے پوچھا جائے گا کہ یہ تم نے کس سے خریدی ہے ۔ چنانچہ وہ کہے گا: نشان زدہ لوگوں میں سے ایک شخص سے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ قیامت کی جو دس نشانیاں پیچھے بیان ہوئی ہیں ، اُن میں ایک جانور کے نکلنے کا ذکر بھی ہوا ہے۔اِس سے کیا مراد ہے؟ اِس کی وضاحت ہم اِس سے پہلے کرچکے ہیں۔ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اُسی کی تفصیل ہے۔
۲۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اِسی طرح دکھایا گیا کہ ایک جانور زمین سے نکلا ہے اور اُس نے لوگوں کی ناک کو گود کر اُس پر نشان لگا دیا ہے۔ چنانچہ لوگ اِسی نشان کے حوالے سے اُنھیں الگ پہچانتے اور اِسی کا حوالہ دے کر اُن کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے، جیسے یوسف علیہ السلام کے زنداں میں اُن کے ایک ساتھی نے دیکھا کہ اُس کے سر پر روٹیاں ہیں اور اُنھیں پرندے کھا رہے ہیں۔ رؤیا میں حقائق بالعموم اِسی طریقے سے ممثل کیے جاتے ہیں۔ مدعا غالباً یہ تھا کہ اِس جانور کا نکلنا خود مسلمانوں کی جماعت میں مومنین اور منافقین کے درمیان فرق کا باعث بن جائے گا۔ ایمان والے خوشی اور مسرت سے نہال ہوں گےکہ اُن کے پیغمبر کی پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوگئی اور منافقین کے چہرے اِس صورت حال کو دیکھ کر اپنے انجام کے خوف سے سیاہ پڑ رہے ہوں گے۔گویا ’
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ‘ کا منظر اُس زمانے کے لوگ اِس دنیا میں بھی کسی حد تک دیکھ لیں گے۔عالمی سطح پر مذہب اور مذہبی فکر کا سیاسی غلبہ ختم ہوجانے کے بعد جو دور الحاد اب شروع ہوا ہے، اُس میں مسلمانوں کے اندر یہ منافقین اب ہم ہر گھر میں دیکھ سکتے ہیں۔
۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم۲۲۳۰۸سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: مسند ابن جعد، رقم۲۹۱۹۔ اشراط الساعۃ، عبد الملک بن حبیب، رقم۲۲۔ اخبار اصبہان، ابو نعیم۲/ ۸۸۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً مسند ابن جعد، رقم۲۹۱۹ میں ’يَغْمُرُونَ‘ کے بجاے ’يُعَمَّرُونَ ‘ کا لفظ آیا ہے۔
۳۔ بعض طرق، مثلاً اشراط الساعۃ، عبد الملک بن حبیب، رقم۲۲ میں یہاں ’فَيَقُولُ‘ کے بجاے ’فَيُقَالُ لَهُ‘ کے الفاظ ہیں۔
۴۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند ابن جعد، رقم۲۹۱۹ میں یہاں ’الْمُخَطَّمِينَ ‘ کے بجاے ’الْمُخَرْطَمِينَ‘ کا لفظ آیا ہے۔
۵۔ اشراط الساعۃ، عبد الملک بن حبیب، رقم۲۲۔
ــــــ ۲ ــــــ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ۱ «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ [مِنْ مَغْرِبِهَا۲ ] وَرَآهَا النَّاسُ، آمَنُوا [كُلُّهُمْ۳ ] أَجْمَعُونَ، وَذَلِكَ حِينَ ﴿لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْ٘ اِيْمَانِهَا خَيْرًا﴾» [الأنعام: 158 ].
وَعَنْهُ قَالَ: ۴ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا تَابَ اللّٰهُ عَلَيْهِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہو گی ،جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ پھر جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور لوگ اُسے دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ تاہم یہ وہ وقت ہوگا ، جب کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان کچھ نفع نہ دے گا، جو پہلے ایمان نہ لایا ہو۱ یا اپنے ایمان میں اُس نے کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۲۔
اِنھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کر لی، اللہ اُس کی توبہ کو قبول کرلے گا۳۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ اِس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مہلت انسان کو اِس دنیا میں دے رکھی ہے، یہ اُس کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔چنانچہ ایمان والے اُن لوگوں کی بے بسی اِسی دنیا میں دیکھیں گے، جو اِس سے پہلے پیغمبروں کی دعوت کا انکار کرتے رہے تھے۔
۲۔یعنی ایمان لا کر اپنے علم وعمل میں اُس کے تقاضوں کو کسی حد تک پورا نہ کیا ہو۔ اِس طرح کا ایمان، قرآن سے بھی واضح ہے کہ کسی کے لیے نافع نہ ہوسکے گا، الاّ یہ کہ اللہ ہی اپنے قانون کے مطابق کسی کے لیے عفو و درگذر کا کوئی فیصلہ فرمادے۔
۳۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ ابتلا کا قانون اُسی وقت تک جاری رہ سکتا ہے، جب تک پردہ نہ اُٹھ جائے۔سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یہی پردہ اُٹھادے گا، لہٰذا توبہ کا دروازہ بھی اُس کے بعد بند ہوجائے گا۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۸۱۳۸ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: صحیفۂ ہمام بن منبہ، رقم۲۵۔ احادیث اسماعیل بن جعفر، رقم۲۸۵۔ اشراط الساعۃ، عبد الملک بن حبیب، رقم۱۶۔ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۱۷۶۔ مسند احمد، رقم ۷۱۶۱، ۸۸۵۰، ۹۱۷۲، ۱۰۸۵۹۔صحیح بخاری، رقم۴۶۳۵، ۴۶۳۶، ۶۵۰۶۔صحیح مسلم، رقم۱۵۷۔سنن ابن ماجہ، رقم۴۰۶۸۔سنن ابو داؤد، رقم ۴۳۱۲۔ السنن الکبرىٰ، نسائی، رقم ۱۱۱۳، ۱۱۱۱۲۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۶۰۸۵، ۶۵۱۷۔مستخرج ابی عوانۃ، رقم ۳۱۹۔ صحیح ابن حبان، رقم۶۸۳۸۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۱۷، ۱۰۱۸، ۱۰۲۱۔ التوحید ، ابن مندہ، رقم ۲۹۔ السنن الواردة فی الفتن، دانی، رقم ۷۱۰۔
۲۔ صحیح مسلم، رقم۱۵۷۔
۳۔ مسند احمد، رقم ۸۸۵۰۔
۴۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۹۵۰۹سے لیا گیا ہے۔اِس کے متابعات اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: تفسیر عبد الرزاق، رقم ۸۶۸۔ مسند احمد، رقم ۷۷۱۱، ۹۱۳۰، ۱۰۴۱۹۔صحیح مسلم، رقم ۲۷۰۳۔ مسند الحارث، رقم ۱۰۷۷۔ السنن الکبرىٰ، نسائی، رقم ۱۱۱۱۵۔معجم ابن اعرابی، رقم۱۳۲۶، ۱۳۲۷۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۲۹۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۲۴، ۱۰۲۵۔شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ، رقم۱۹۳۴، ۱۹۳۵۔
ــــــ ۳ ــــــ
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: ۱ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ قِبَلِ مَغْرِبِ الشَّمْسِ بَابًا مَفْتُوحًا لِلتَّوْبَةِ، مَسِيرَةُ عَرْضِهِ۲ سَبْعُونَ [أَوْ أَرْبَعُون۳ ] سَنَةً، [فَتَحَهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلتَّوْبَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ۴ ] فَلَا يَزَالُ ذَلِكَ الْبَابُ مَفْتُوحًا لِلتَّوْبَةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهِ،۵ فَإِذَا طَلَعَتْ مِنْ نَحْوِهِ لَمْ تَنْفَعْ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا» [وَذَلِكَ قَوْلُ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا﴾ الآيَةَ. ۶ ]. [الأنعام: 158 ].
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سورج کےغروب ہونے کی سمت میں توبہ کا ایک کھلا ہوا دروازہ ہے، جس کی چوڑائی سترسال یا فرمایا کہ چالیس سال میں طے ہونے والی مسافت ہے۔ توبہ کا یہ دروازہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کی تخلیق کے دن کھولا تھا اور یہ توبہ کے لیے کھلا رہے گا ، یہاں تک کہ سورج مغرب کی اِسی سمت سےطلوع ہوجائے۔ سو جب وہ اُدھر سے طلوع ہوگا تو کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان کچھ نفع نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان میں اُس نے کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد میں بیان ہوئی ہے کہ ’’جس دن تیرے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ظاہر ہوجائے گی۱، اُس دن کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان کچھ نفع نہ دے گا‘‘ (الانعام: ۱۵۸)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یعنی اِس طرح کی کوئی نشانی ظاہر ہوجائے گی کہ اُس کے بعد کسی کے لیے کچھ کہنے کی گنجایش باقی نہ رہے گی۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۸۸۲ سے لیا گیا ہے۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: تفسیر عبد الرزاق، رقم۸۷۷۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۷۹۵۔ مسند حمیدی، رقم۹۰۵۔ التفسیر من سنن سعید بن منصور، رقم۹۴۰۔ مسند احمد، رقم ۱۸۰۹۳، ۱۸۰۹۵، ۱۸۱۰۰۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۰۔ سنن ترمذی، رقم ۳۵۳۵، ۳۵۳۶۔ السنن الکبرىٰ، نسائی، رقم ۱۱۱۱۴۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۹۳۔ حدیث السراج، رقم ۲۷۱۰، ۲۷۱۱۔معجم ابن اعرابی، رقم۱۴۴۹۔صحیح ابن حبان، رقم ۱۳۲۱۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۳۴۴۶۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۷۳۴۸، ۷۳۵۲، ۷۳۵۳، ۷۳۵۹، ۷۳۶۰، ۷۳۶۱، ۷۳۸۸۔ جزء الالف دينار ، قطیعی، رقم۹۲۔ سنن دارقطنی، رقم۷۶۱۔ التوحید، ابن مندہ، رقم ۲۳۵۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم ۳۸۲۰۔ امالی ابن بشران، رقم ۲۸۵۔ السنن الکبرىٰ، بیہقی، رقم ۱۳۴۱۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۶۶۷۴۔
۲ ۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۷۳۸۸میں یہاں ’مَا بَيْنَ مِصْرَاعَيْهِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۳۔ مسند احمد، رقم ۱۸۰۹۵۔
۴۔ مسند احمد، رقم ۱۸۰۹۵۔
۵۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند احمد، رقم ۱۸۰۹۳میں یہاں ’لَا يُغْلَقُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهِ‘ کا اسلوب نقل ہوا ہے۔
۶ ۔ سنن ترمذی، رقم ۳۵۳۶۔
ــــــ ۴ ــــــ
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: ۱ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ: «أَتَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ۲ [الشَّمْسُ؟۳ ]»، قُلْتُ: اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ [عِنْدَ رَبِّهَا۴ ]، فَتَسْتَأْذِنَ [رَبَّهَا فِي الرُّجُوعِ۵ ] فَيُؤْذَنُ لَهَا، وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ، فَلاَ يُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ يُؤْذَنَ لَهَا [وَتَسْتَشْفِعَ وَتَطْلُبَ،۶ ] يُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ،۷ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَاﵧ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ﴾ [يٰس: 38 ]».
وَعَنْهُ فِي رِوَايَةٍ:۸ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمًا: «أَتَدْرُونَ أَيْنَ تَذْهَبُ هَذِهِ الشَّمْسُ؟» قَالُوا: اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ تَجْرِي حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى مُسْتَقَرِّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَخِرُّ سَاجِدَةً، فَلَا تَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يُقَالَ لَهَا: ارْتَفِعِي، ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَرْجِعُ فَتُصْبِحُ طَالِعَةً مِنْ مَطْلِعِهَا، ثُمَّ تَجْرِي حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى مُسْتَقَرِّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَخِرُّ سَاجِدَةً، وَلَا تَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يُقَالَ لَهَا: ارْتَفِعِي، ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَرْجِعُ فَتُصْبِحُ طَالِعَةً مِنْ مَطْلِعِهَا، ثُمَّ تَجْرِي لَا يَسْتَنْكِرُ النَّاسُ مِنْهَا شَيْئًا حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى مُسْتَقَرِّهَا ذَاكَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَيُقَالُ لَهَا: ارْتَفِعِي أَصْبِحِي طَالِعَةً مِنْ مَغْرِبِكِ، فَتُصْبِحُ طَالِعَةً مِنْ مَغْرِبِهَا»، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَدْرُونَ مَتَى ذَاكُمْ؟ ذَاكَ حِينَ ﴿لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْ٘ اِيْمَانِهَا خَيْرًا﴾ [الأنعام: 158 ]».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) سورج غروب ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو ذر،کیا تمھیں معلوم ہے کہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا:یہ عرش کے نیچے اپنے رب کے پاس پہنچ کر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ پھر اپنے رب سے لوٹ جانے کی اجازت مانگتاہے تو اِس کو اجازت دی جاتی ہے۱۔ وہ دن قریب ہے جب یہ (اپنے رب کو) سجدہ کرے گا تو اِس کا سجدہ قبول نہ ہوگا اور واپسی کے لیےاجازت طلب کرے گا، لیکن اِس کو اجازت نہیں ملے گی۲۔یہ سفارش چاہے گا اور درخواست کرے گا۳ تو اِس کو کہا جائے گا: جہاں سے آئے ہو، وہیں چلے جاؤ، چنانچہ (اُس دن) یہ اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع ہوگا۔ اِسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ ’سورج اپنے ایک مقرر راستے پر چلتا ہے۔یہ خداے عزیز و علیم کا باندھا ہوا اندازہ ہے‘‘ (یٰس:۳۸)۔
اِنھی ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ عرش الہٰی کے نیچے اپنے مستقر پر پہنچ کرسجدہ ریزہو جاتا اور اِسی حالت میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اِس سے کہا جاتا ہے: اٹھو، جہاں سے آئے تھے ، وہیں لوٹ جاؤ۔ چنانچہ وہ واپس لوٹتا اور اپنے مطلع سے طلوع ہوجاتا ہے۔ پھر چلتا ہوا عرش الہٰی کے نیچے اپنی جاے قرار پر پہنچ کر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اِسی حالت میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اِس سے کہا جاتا ہے: بلند ہو جاؤ، جہاں سے آئے تھے،وہیں لوٹ جاؤ، لہٰذا وہ واپس جاتا اور اپنے مطلع سے طلوع ہوجاتا ہے۔ پھر (ایک دن) یہ چلےگا، لوگ اِس میں معمول سے ہٹی ہوئی کوئی چیز نہیں پائیں گے، یہاں تک کہ یہ عرش الہٰی کے سایے میں اپنے اُسی مستقر پر پہنچے گا تو اِس سے کہا جائے گا: اُٹھو اور اپنے غروب ہونے کے مقام سے طلوع ہوجاؤ، سو (اُس دن) یہ اپنے مغرب سے طلوع ہو گا۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کب ہو گا؟ یہ اُس وقت ہو گا ’’جب کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان کچھ نفع نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان میں اُس نے کوئی بھلائی نہ کمائی ہو‘‘(الانعام: ۱۵۸)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ غالباً اِسی طرح رؤیا میں دکھایا گیا ۔دنیا جن سائنسی قوانین کے تحت چل رہی ہے، اُن کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے؟یہ اُس کی تمثیل تھی اور مدعا یہ تھا کہ لوگ اِس تمثیل کے آئینے میں کائنات کے ظاہر کے ساتھ ، اِس کے باطن کو بھی دیکھنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں۔
۲۔ سجدہ کی حقیقت مطیع ومنقاد اور مسخر ہونا ہے۔یہ تعبیر یہاں اُسی طرح کے مفہوم کے لیے اختیار کی گئی ہے جو زمین وآسمان کی ہر چیز ، بلکہ اُن کے سایوں کے سجدے کے لیے قرآن میں ملحوظ ہے۔ یہ استدلال کی ایک خاص قسم ہے، جسے اشارات سے تعبیر کرنا چاہیے۔ اِس میں ذہن کو علامت سے حقیقت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے، چنانچہ سورۂ رعد (۱۳) کی آیت ۱۵ میں ، جہاں سایوں کے سجدے کا ذکر ہوا ہے، وہاں اِسی حقیقت کے پیش نظر یہ تعبیر اختیار فرمائی اور اِس طرح گویا مخاطب کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھ لو، چیزوں کے سایے بھی رات بھر سجدے میں گرے رہتے ہیں ، صبح کو آہستہ آہستہ سر اُٹھاتے اور زوال آفتاب کے بعد ایک مرتبہ پھر اُسی پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ جس قانون کا سورج کروڑوں سال سے پابند رہا ہے، اُس دن وہ اُلٹ دیا جائے گا اور اُس کو پہلے سے مقرر راستے پر طلوع وغروب کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
۳۔ یعنی پریشانی کے عالم میں فرشتوں کی سفارش چاہے گا ۔ یہ جس عالم کے حقائق ہیں، اُس کے بارے میں قرآن نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۴۴ میں متنبہ کیا ہے کہ اُس میں ہر چیز اپنے پروردگار کی تسبیح کرتی ہے، مگر تم اُس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔یہی معاملہ اِس سجدے اور سفارش کا بھی ہے۔اِس طرح کی چیزوں کے زیادہ درپے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔چنانچہ فرمایا ہے:
﴿وَمَا٘ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ [بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵]۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحیح بخاری، رقم ۳۱۹۹ سے لیا گیا ہے۔متن کے کچھ اختلاف کے ساتھ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کے باقی طرق اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: مسند احمد، رقم۲۱۴۵۹۔ صحیح بخاری، رقم ۷۴۲۴۔ صحیح مسلم، رقم۱۵۹۔ سنن ترمذی، رقم۲۱۸۶، ۳۲۲۷۔ مسند بزار، رقم ۴۰۱۰، ۴۰۱۱، ۴۰۱۴۔ تعظیم قدر الصلاة، مروزی، رقم ۳۲۰۔ السنن الکبرىٰ، نسائی، رقم۱۱۱۱۱، ۱۱۳۶۶۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۲۰، ۳۲۱، ۳۲۲، ۳۲۳۔ شرح مشکل الآثار، طحاوی، رقم۲۸۱۔ تفسیر ابن ابی حاتم، رقم۸۱۴۳۔ معجم الصحابۃ، ابن قانع۱/ ۱۳۵۔ صحیح ابن حبان، رقم۶۱۵۳، ۶۱۵۴۔ جزء الالف دینار، قطیعی، رقم۱۱۶۔ العظمۃ، ابو الشیخ اصبہانی۴/۱۱۸۹۔ الایمان، ابن مندہ، رقم۱۰۱۲، ۱۰۱۳، ۱۰۱۴، ۱۰۱۵۔ التوحید، ابن مندہ، رقم۲۶، ۲۸۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم۱۵۷۸۔ حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ابو نعیم۴/۲۱۶۔ الاسماء والصفات، بیہقی، رقم۸۳۶۔
۲۔ بعض طرق، مثلاً السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۱۳۶۶ میں یہاں ’تَذْهَبُ ‘ کے بجاے ’تَغْرُبُ‘ کا لفظ آیا ہے، جب کہ بعض روایتوں، مثلاً مسند بزار، رقم ۴۰۱۰میں ’تَغِيبُ‘ کا لفظ ہے۔
۳۔ صحیح ابن حبان، رقم۶۱۵۳۔
۴۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۱۰۱۲۔
۵۔ مسند بزار، رقم۴۰۱۴۔
۶۔ صحیح ابن حبان۶۱۵۴۔
۷۔ بعض روایتوں، مثلاً السنن الکبریٰ ، نسائی، رقم ۱۱۳۶۶میں یہاں ’اطْلُعِي مِنْ مَكَانِكِ‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۸۔ صحیح مسلم، رقم۱۵۹۔
ــــــ ۵ ــــــ
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: ۱ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَخْرُجُ [عَلَيْكُمْ۲ ] نَارٌ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ۳ مِنْ بَحْرِ حَضْرَمَوْتَ، أَوْ مِنْ حَضْرَمَوْتَ تَحْشُرُ۴ النَّاسَ»، قَالُوا: فَبِمَ تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: قیامت سے پہلے تمھارے سامنے حضرموت یا فرمایا کہ حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی۱ ۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول، (اُس وقت کے لیے) آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم شام چلے جانا۲۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ قیامت کی دس نشانیوں میں عدن سے جس آگ کے نکلنے کا ذکر ہوا ہے، یہ اُسی کا بیان ہے۔ یہاں اِس کی جگہ حضرموت بتائی گئی ہے۔ یہ عدن کے مشرق میں سمندر کے قریب ایک وسیع علاقے کا نام ہے، لہذا محل وقوع کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ روایتوں کے مطابق یہ وقوع قیامت کی پہلی اور تمام نشانیوں میں آخری نشانی ہے، جس کے بعد وہ ہوا چلے گی جو لوگوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دے گی۔
۲۔ یہ اُس سے دور چلے جانے کی ہدایت ہے، جو آپ نے ایک علاقے کا نام لے کر مخاطبین کے لحاظ سے فرمائی ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ آفت جیسی بھی ہمہ گیر ہو، انسان کو اُس سے بچنے کے لیے اپنی سی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۵۱۴۶ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں نقل ہوئے ہیں: مشیخۃ ابن طہمان، رقم ۲۰۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۳۲۰۔ مسند احمد، رقم ۴۵۳۶، ۵۳۷۶، ۵۷۳۸، ۶۰۰۲۔ سنن ترمذی، رقم۲۲۱۷۔ المعرفۃ والتاریخ ، یعقوب فسوی۲/۳۰۲۔ مسند بزار، رقم ۶۰۴۴۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۵۵۵۱۔ فوائد ابن دحیم ، رقم۶۷، ۸۴۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۳۰۵۔ فوائد ابن بشران، رقم۷۰۶۔
۲۔ صحیح ابن حبان، رقم۷۳۰۵۔
۳۔ بعض طرق، مثلاً المعرفۃ والتاریخ ، یعقوب فسوی۲/۳۰۲ میں یہاں ’قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ‘ کے بجاے ’فِي آخِرِ الزَّمَانِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
۴۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۵۵۱میں یہاں ’تَحْشُرُ‘ کے بجاے ’تَسُوقُ‘ کا لفظ آیا ہے۔
ــــــ ۶ ــــــ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:۱ «يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ، وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ، وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ، وَتَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ تَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(قیامت سے پہلے) لوگوں کو تین طریقوں سے (اِسی دنیا میں )اکٹھا کیا جائے گا۱: (کچھ) لوگ خوف ورجا کے عالم میں ہوں گے اور دو لوگ ایک اونٹ پرسوارہوں گے اور تین افراد ایک اونٹ پر اور چار ایک اونٹ پر اور دس ایک اونٹ پر۲۔اور باقی لوگوں کو آگ اکٹھا کر کے لائے گی، جہاں لوگ رات گزاریں گے، یہ آگ اُن کے ساتھ وہیں رات گزارے گی،جہاں وہ قیلولہ کریں گے، اُن کے ساتھ وہیں قیلولہ کرے گی، جہاں وہ صبح کریں گے، وہیں اُن کے ساتھ صبح کرے گی اور جہاں وہ شام کریں گے، اُس وقت بھی اُن کے ساتھ ہی ہوگی۳۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔آگے جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ اگر اِنھی طریقوں کی وضاحت ہے تو مدعا غالبًا یہ ہوگا کہ کچھ لوگ خوف ورجا کے عالم میں پیدل چل رہے ہوں گے، کچھ سواریوں پر ہوں گے، خواہ دس لوگوں کو ایک ہی اونٹ میسر ہوسکے اور زیادہ وہ ہوں گے، جنھیں آگ ہانکے گی، وہ خود جمع ہونے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
۲۔آخری زمانے میں اونٹوں کے ذکر سے کسی کو تعجب نہ ہو۔ یہ رؤیا کے مشاہدات ہیں ۔ اِن میں مستقبل کے واقعات اِسی طرح تمثیلات کی صورت میں دکھائے جاتے ہیں۔
۳۔ مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ اُن کا پیچھا کرے گی، یہاں تک کہ وہ اُس مقام تک پہنچ جائیں، جہاں اُن کے لیے قیامت کا صور پھونک دیا جائے گا۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحیح مسلم، رقم ۲۸۶۱سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: صحیح بخاری، رقم ۶۵۲۲۔ الاہوال، ابن ابی الدنیا، رقم ۲۳۵۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۸۵۔ السنن الکبریٰ ، نسائی، رقم ۲۲۲۳۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۳۳۶۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۵۱۰۷۔ البعث والنشور، بیہقی، رقم۲۷۴۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم۳۵۳۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ