بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
حٰمٓ ١ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ٢ غَافِرِ الذَّنْۣبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيْدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ ٣
ـــــــــــــــــــ ۲ ـــــــــــــــــــ
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورۂ ’حٰمٓ ‘[84]ہے۔اِس کتاب کی تنزیل [85] اللہ کی طرف سے ہے، جو زبردست ہے،[86] سب کچھ جاننے والا ہے،[87] گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے،[88] سخت سزا دینے والا اور بڑی قدرت والا ہے۔[89] اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، (بالآخر) اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔[90] ۱- ۳
مَا يُجَادِلُ فِيْ٘ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ٤ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّالْاَحْزَابُ مِنْۣ بَعْدِهِمْ وَهَمَّتْ كُلُّ اُمَّةٍۣ بِرَسُوْلِهِمْ لِيَاْخُذُوْهُ وَجٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ فَاَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ٥ وَكَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ٦
اللہ کی آیتوں میں[91]وہی لوگ جھگڑے نکالتے ہیں جو (اُس کی پکڑ کے) منکر ہیں۔ سو اِس ملک میں اِن کی چلت پھرت تم کو کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔[92] اِن سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا اور اُن کے بعد کے گروہوں نے بھی۔ ہر قوم نے اپنے رسول پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا اورباطل کے ہتھیاروں سے جھگڑے کہ اِس سے حق کو پسپا کر دیں تو میں نے اُن کو پکڑ لیا۔[93] پھر کیسی تھی میری سزا! [94] تیرے پروردگار کی بات[95] اِن منکروں پر بھی اِسی طرح پوری ہو چکی ہے کہ یہ دوزخ میں پڑنے والے ہیں۔ ۴- ۶
اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ ٧ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ اِۨلَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٨ وَقِهِمُ السَّيِّاٰتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّاٰتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ٩
(خدا کے فرشتوں کو اُس کے شریک ٹھیرا کر یہ اُن سے اپنے لیے سفارش کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اِنھیں بتاؤ کہ)عرش الہٰی کے حاملین اور جو اُس کے ارد گرد ہیں، وہ تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اُس پر ایمان رکھتے ہیں[96] اور ایمان والوں کے لیے مغفرت کی دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب، تیری رحمت اور تیراعلم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اِس لیے جو توبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں، تو اُن کی مغفرت فرما اور اُنھیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[97] اے ہمارے رب، اور تو اُن کو ہمیشہ رہنے والے باغوں میں داخل کر، جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا تھا اور اُن کو بھی جو اُن کے باپ دادوں اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے صالح ہوں۔ بے شک ،تو ہی زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔[98] اور اُن کو، (اے پروردگار)، برے اعمال کے نتائج سے بچا۔[99] حقیقت یہ ہے کہ اُس دن جن کو تو نے برے اعمال کے نتائج سے بچالیا تو وہی ہیں جن پر تو نے رحم فرمایا۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔۷- ۹
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَي الْاِيْمَانِ فَتَكْفُرُوْنَ ١٠ قَالُوْا رَبَّنَا٘ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰي خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ ١١ ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗ٘ اِذَا دُعِيَ اللّٰهُ وَحْدَهٗ كَفَرْتُمْ وَاِنْ يُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْا فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ ١٢
(یہ سفارش کی امید لگائے بیٹھے ہیں)؟ اِن منکروں کو تو وہاں منادی کی جائے گی کہ اِس وقت جتنی بے زاری تم کو اپنے آپ پر ہے، خدا کی بے زاری تم سے اُس وقت اِس سے کہیں زیادہ رہی ہے، جب تمھیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم (رعونت کے ساتھ) انکار کر دیتے تھے۔ یہ کہیں گے: اے ہمارے رب، تو نے ہم کو دوبار موت اور دوبار زندگی دی،[100] سو (مر کر جی اٹھنے کے بارے میں تو اب کوئی شبہ نہیں رہا، چنانچہ) ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تو کیا یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ جواب دیا جائے گا: تم اِس انجام کو اِس لیے پہنچے کہ جب اکیلے خدا کو پکارا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور اگر اُس کے شریک ٹھیرائے جائیں تو تم مان لیتے تھے۔ سو اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر ہی کے اختیار میں ہے۔[101] ۱۰- ۱۲
هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ رِزْقًا وَمَا يَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنْ يُّنِيْبُ ١٣ فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ١٤ رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ١٥ يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَﵼ لَا يَخْفٰي عَلَي اللّٰهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ١٦ اَلْيَوْمَ تُجْزٰي كُلُّ نَفْسٍۣ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ١٧
وہی ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمھارے لیے آسمان سے رزق اتارتا ہے۔[102] (اِس سے) یاددہانی ،البتہ وہی حاصل کرتے ہیں جو رجوع کرنے والے ہیں۔[103] سو ،(رجوع کرنے والو)، تم اللہ کو پکارو، اپنی اطاعت کو اُسی کے لیے خالص کرکے، خواہ اِن منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ عالی مرتبت ہے، عرش کا مالک ہے، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی روح ڈال دیتا ہے[104] تاکہ وہ لوگوں کو ملاقات کے دن سے خبردار کر دے۔ جس دن وہ خدا کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ اُن کی کوئی چیز بھی خدا سے چھپی ہوئی نہ ہو گی۔ پوچھا جائے گا: آج بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ واحد و قہار کی! آج ہر شخص کو اُس کی کمائی کا بدلہ ملے گا۔ آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ بے شک، اللہ جلد حساب چکا دینے والا ہے۔۱۳- ۱۷
وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَي الْحَنَاجِرِ كٰظِمِيْنَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّطَاعُ ١٨ يَعْلَمُ خَآئِنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ ١٩ وَاللّٰهُ يَقْضِيْ بِالْحَقِّ وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَقْضُوْنَ بِشَيْءٍ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ٢٠
اِن کو اُس آفت کے دن سے خبردار کرو، (اے پیغمبر)، جو قریب آلگی ہے،[105] جب کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے اور وہ غم سے گھٹے ہوئے ہوں گے۔ اُس دن ظالموں کا کوئی دوست نہ ہو گااور نہ کوئی سفارشی ،جس کی بات مانی جائے۔ (پھراُس کے حضور کوئی کیا سفارش کرے گا؟ اِس لیے کہ) اللہ تو نگاہوں کی چوری کو بھی جانتا ہے اور اُن سب بھیدوں کو بھی جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں۔ اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا، (اُس پر کسی کی سفارش اثر انداز نہ ہو گی)۔ اور اللہ کے سوا جن کو یہ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں۔ یقیناً اللہ ہی سب کچھ سننے والا ، دیکھنے والا ہے۔ ۱۸- ۲۰
اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ كَانُوْا مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوْا هُمْ اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِي الْاَرْضِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ ٢١ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَكَفَرُوْا فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ اِنَّهٗ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ٢٢
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ اُن لوگوں کا انجام کیا ہوا جو اِن سے پہلے گزرے ہیں؟ وہ اِن سے قوت میں بھی اور اُن آثار کے لحاظ سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر تھے جو اُنھوں نے زمین میں چھوڑے ہیں۔[106] پھر اُن کے گناہوں کی پاداش میں اللہ نے اُن کو پکڑا اور اُنھیں کوئی اللہ سے بچانے والا نہیں تھا۔ یہ اِس وجہ سے ہوا کہ اُن کے رسول اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آتے رہے، پر اُنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا تو اللہ نے اُن کو پکڑ لیا۔ یقیناً وہ طاقت ور ہے، سخت سزا دینے والا ہے۔ ۲۱- ۲۲
[84]۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔ یہی نام اِس سے آگے تمام مکی سورتوں کا بھی ہے اور یہ اُن کے اسلوب ، مضامین اورمزاج میں فی الجملہ اشتراک پر دلالت کرتاہے۔
[85]۔ لفظ ’تَنْزِيْل‘ اہتمام پر دلالت کے لیے ہے اور اِس میں یہ اشارہ ہے کہ جس نے یہ اہتمام فرمایا ہے،لوگ اُس کے شکر گزار ہوں اور اُس نے جو کتاب نازل کی ہے، اُس کی قدر کریں اور اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
[86]۔ یعنی اگر قدر کرنے اور ہدایت حاصل کرنے کے بجاے آمادۂ مخالفت ہوں گے تو وہ زبردست ہے اور مخالفت کرنے والوں کو دنیا اور آخرت، دونوں میں سزا دے سکتا ہے۔
[87]۔ چنانچہ یہ بھی جانتا ہے کہ اِس کتاب کی تنزیل سے جو کشمکش برپا ہوئی ہے، اُس میں کون کیا کر رہا ہے۔
[88]۔ یہ ترغیب کے لیے فرمایا ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں، وہ بھی اگر اپنی روش سے باز آجائیں تو خدا کا دامن رحمت وسیع ہے، وہ اُس میں جگہ پا سکتے ہیں۔
[89]۔ اصل میں ’ذِي الطَّوْلِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ’طَوْل‘ کا لفظ کئی معنی کے لیے آتا ہے۔ یہاں تقابل کے اصول کو پیش نظر رکھ کرقدرت کے معنی کو ترجیح دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی صفات کا یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ وہ اگر توبہ کرنے والوں کی توبہ آگے بڑھ کر قبول کرتا ہے تو مخالفت کرنے والوں کے لیے اُس کے عذاب اور اُس کی قدرت کی شانیں بھی اِسی طرح ظاہر ہو جایا کرتی ہیں۔
[90]۔ یعنی اُس کے سوا نہ کوئی سہارا دے سکتا ہے اور نہ اُس سے بھاگ کر کہیں جانے کی کوئی جگہ ہے۔ بالآخر لوٹنا اُسی کی طرف ہو گا اور اُس کے اذن کے بغیر کوئی بھی کسی کے کام نہ آ سکے گا۔
سورہ کی یہ تمہید، اگر غور کیجیے تو مخاطبین کے لیے اظہار امتنان بھی ہے اور اُن کو تنبیہ بھی۔ اِس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا حوالہ اِن دونوں ہی پہلوؤں سے دیا گیا ہے۔
[91]۔ اُسی کتاب کی آیتیں مراد ہیں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
[92]۔ یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اِس میں عتاب کا رخ، اگر غور کیجیے تو قریش کے اُنھی مستکبرین کی طرف ہے جو اپنی سیادت و امارت کے غرور میں آپ کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے اور قرآن جب اُنھیں عذاب کی وعید سناتا تھا تو اُس کا مذاق اڑاتے تھے۔
[93]۔ چنانچہ تمھارے یہ منکرین بھی اِس کی جسارت کریں گے تو اِسی طرح پکڑے جائیں گے۔
[94]۔ آیت میں اِس کے لیے لفظ ’عِقَابِ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ اِس طرح کے متمردین پر اللہ جو عذاب بھیجتا ہے، وہ درحقیقت اُن کے اعمال کا قدرتی ردعمل ہوتا ہے، اُس میں اُن پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی۔
[95]۔ یعنی وہ بات جو روز ازل کہہ دی گئی تھی کہ جو لوگ اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی کریں گے، اللہ اُن سب کو جہنم میں بھر دے گا۔
[96]۔ یعنی اُسی طرح ایمان رکھتے ہیں، جس طرح خدا کے بندوں کو رکھنا چاہیے۔ وہ الوہیت کے کسی زعم میں مبتلا نہیں ہیں۔
[97]۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتے دعا اور سفارش تو یقیناً کرتے ہیں، لیکن اُنھی کے لیے کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ صحیح راستے پر گام زن ہوں۔ وہ خدا کے شریک ٹھیرانے والوں کی سفارش نہیں کرتے۔
[98]۔ یہ تفویض الی اللہ کا کلمہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ توزبردست ہے، اِس لیے جو چاہے، کر سکتا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ حکیم بھی ہے، چنانچہ وہی کرے گا جو عدل و حکمت کا تقاضا ہو گا۔
[99]۔ اصل الفاظ ہیں:’وَقِهِمُ السَّيِّاٰتِ‘۔لفظ ’سَيِّاٰت‘یہاں نتائج سیئات کے معنی میں ہے۔ یہ اُس قاعدے کے مطابق ہے کہ عمل اور نتیجۂ عمل کے لزوم کو بیان کرنے کے لیے فعل نتیجۂ فعل کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔
[100]۔ ’دوبار موت اور دوبار زندگی‘ سے مراد وہی چیز ہے جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۸ میں کیا گیا ہے کہ تم اللہ کے منکر کس طرح ہوتے ہو، دراں حالیکہ تم مردہ تھے تو اُس نے تمھیں زندگی عطا فرمائی، پھر وہی مارتا ہے، اِس کے بعد زندہ بھی وہی کرے گا۔ پھر تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
[101]۔ اور اُس کا فیصلہ وہی ہے جس سے تم اِس وقت دوچار ہو۔
[102]۔ یعنی رحمت و نقمت، دونوں اُس کے اختیار میں ہیں۔ چنانچہ برق و رعد بھی وہی دکھاتا ہے اور آسمان سے بارش بھی وہی نازل کرتا ہے جس سے رزق و فضل کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
[103]۔ یعنی جو تعصبات کے پردے چاک کرکے بات کی طرف متوجہ ہونے والے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ بات کو سمجھنے کے لیے یہ شرط اول ہے۔
[104]۔ اِس سے یہاں وحی مراد ہے جس میں امر الہٰی کلام کی صورت اختیار کر لیتاہے۔ قرآن نے تصریح کردی ہے کہ اِسے کوئی شخص اپنی خواہش یا کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ خدا کے حکم سے نازل ہوتی ہے اور وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس پر نازل کرنی ہے۔ اِس کے سوا اِس کے حصول کا کوئی طریقہ نہیں ہے، الاّ یہ کہ آدمی اپنے آپ کو فریب نفس میں مبتلا کر بیٹھے اور اُسی سے الہام حاصل کرتا رہے، جیسا کہ صوفیانہ مذاہب کے ماننے والوں نے کیا ہے۔
[105]۔ یعنی قیامت سے، جو موت کے دروازے سے گزرتے ہی ہر شخص کے سامنے کھڑی ہو گی۔ پھر یہاں تو مخاطب قریش ہیں، جنھیں جگہ جگہ اُس قیامت صغریٰ سے بھی خبردار کیا گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد گویا اُن کے سر پر کھڑی تھی۔
[106]۔ آیت میں لفظ ’اَشَدّ‘’أَعْظَمُ وَ أَكْثَرُ‘کے مفہوم پر متضمن ہے، چنانچہ ’اٰثَارًا‘ کے لیے بھی موزوں ہو گیا ہے۔یہ عاد و ثمود اور اہل مدین وغیرہ کی طرف اشارہ ہے جن کی قوت و جمعیت اور تمدنی ترقیوں کا ذکر پچھلی سورتوں میں گزر چکا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ