HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

شریعت میں تبدیلی

اسلامی شریعت اللہ کا قانون ہے، جو اُس نے اپنے بندوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اِس قانون سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اِس میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود اِس کے نازل کرنے والے کی طرف سے تبدیلی ہو جاتی ہے۔ قرآن سے پہلے یہ قانون تورات میں بیان ہوا ہے۔ اِسی طرح شخصی معاملات میں دین ابراہیمی کی روایت کی حیثیت سے عرب میں بھی رائج تھا۔ قرآن نازل ہوا تو اِس کے بعض احکام اور بعض رسوم و ظواہر میں اُس نے تبدیلی کر دی۔ چنانچہ اِس پر لوگوں کو تعجب ہوا اور اُنھوں نے اعتراضات کرنا شروع کردیے۔ قرآن نے اِس کے جواب میں فرمایا :

مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا٘ اَوْ مِثْلِهَا، اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ . (البقرہ ۲: ۱۰۶)
’’ہم (تورات کی) جو آیت بھی منسوخ کرتے ہیں یا اُسے بھلا دیتے ہیں، (قرآن میں) اُس کی جگہ اُس سے بہتر یا اُس جیسی کوئی دوسری لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟‘‘

یہ تبدیلی کیوں ہوتی ہے ؟ قرآن سے اِس کی مثالوں کا استقصا کیا جائے تو صاف واضح ہو جاتاہے کہ اِس کے وجوہ بالعموم دو ہی رہے ہیں:

ایک، افراد میں تبدیلی؛ جیسے خدا نے کوئی حکم اپنے کسی پیغمبر کو خاص اُسی کے لیے یا اُس کے صحابہ اور متعلقین کے لیے دیا تھا اور اب وہ دنیا میں نہیں رہے۔ اِسی طرح کسی قوم کو اُس کے کسی منصب کی رعایت سے دیا تھا اور اب وہ اُس منصب پر فائز نہیں رہی یا حاملین شریعت کی حیثیت سے ایک قوم کی جگہ کسی دوسری قوم کا انتخاب ہوا تو جن چیزوں سے وہ مانوس تھے، اُن کے لحاظ سے اُن کے لیے بعض رسوم و ظواہر بھی الگ مقرر کر دیے گئے۔

دوسرے، حالات میں تبدیلی؛ جیسے زمین کی کھیتی اور پالتو جانوروں کے درمیان زندگی بسر کرنے والوں نے صنعت و حرفت اور تجارت اختیار کرلی اور بڑے شہروں میں آکر آباد ہوگئے تو قربانی کے حکم پر عمل کرنا اُن کے لیے پہلے کی طرح ممکن نہیں رہا یا غیر معتاد مشقت کا باعث بن گیا۔ اِسی طرح تادیب و تنبیہ اور تربیت کے لیے کوئی حکم دیا گیا تھا اور اب اُس کی ضرورت نہیں رہی۔

یہ دونوں وجوہ ہر لحاظ سے قابل فہم ہیں اور علم و عقل کا تقاضا ہے کہ اِن کے پیش نظر قانون میں تبدیلی لازماً ہونی چاہیے۔ لیکن قانون اگر خدا کی طرف سے نازل کیا گیا تھا تو اُس کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے کہ خدا تو ماضی، حال اور مستقبل کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے، پھر اُس نے جب پہلی مرتبہ قانون دیا تو اُس کے ساتھ اُسی وقت صراحت کیوں نہیں کر دی کہ یہ قانون فلاں اور فلاں تغیرات کے نتیجے میں ختم ہو جائے گا، یا متغیر ہو کر فلاں صورت اختیار کرلے گا؟ یہ طریقہ اگر اختیار کرلیا جاتا تو کسی اعتراض کی گنجایش پیدا نہیں ہو سکتی تھی، مگر ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا، جس کے نتیجے میں شرائع اب بعض معاملات میں ایک دوسرے سے بہت کچھ مختلف ہو گئی ہیں۔ سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اِس فیصلے کی حکمت بیان کی اور فرمایا ہے :

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا، وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً، وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَا٘ اٰتٰىكُمْ، فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ، اِلَي اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا، فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ. (۵: ۴۸)
’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت، یعنی ایک لائحۂ عمل مقرر کیا ہے۔ اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا، مگر اُس نے یہ نہیں کیا، اِس لیے کہ جو کچھ اُس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں تمھاری آزمایش کرے۔ سو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے۔ پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں، جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘

مدعا یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے، اپنے قانون ابتلا کے مطابق کیا ہے تاکہ دیکھیں کہ لوگ رسوم و ظواہر کے تعصب میں گرفتار ہو کر اصل حقیقت سے منہ موڑتے ہیں یا حقیقت کے سچے طالب بن کر اُس کو ہر اُس صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، جس میں وہ خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے سامنے آتی ہے۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہود و نصاریٰ کی طرح تم لکیر کے فقیر اور رسوم و ظواہر کے غلام بن کر نہ رہ جاؤ، بلکہ دین کی اصل حقیقت کوسامنے رکھو اور اللہ کے پیغمبر نے نیکی، خیر اور حصول قرب الہٰی کے لیے جد وجہد کی جو راہ تمھارے لیے کھول دی ہے، اُس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ کی شریعت جس صورت میں بھی آئے، تمھارے لیے زیبا یہی ہے کہ اُس کے سامنے سرتسلیم خم کر دو اور شرائع میں اختلاف کو بنیاد بنا کر دین کی اصل حقیقت، یعنی خدا کی بندگی سے روگردانی نہ کرو۔

اِس کے بعد یہ سوال، البتہ پیدا ہو سکتا ہے کہ حالات کی تبدیلی سے شرائع اگر تبدیل ہوتی رہی ہیں تو انسانی تمدن اور اُس کے احوال میں جو تبدیلیاں سائنس کی غیرمعمولی ترقی کے نتیجے میں مستقبل قریب یا بعید میں متوقع ہو سکتی ہیں، اُن میں پھر کیا کیا جائے گا؟ اِس لیے کہ اِس سے پہلے تو نبوت جاری تھی اور اللہ کے پیغمبر حالات کے لحاظ سے نئی شریعت لے کر آسکتے تھے، لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ چنانچہ اِس طرح کی کوئی صورت حال اگر پیدا ہو جاتی ہے تو اُس کا کیا حکم ہے؟

اِس کے جواب میں عرض ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار اُن کے معنی پر ہے۔ قرآن نے یہ حقیقت اپنے اوامر و نواہی کے اطلاقات سے ہر جگہ واضح کردی ہے۔ ائمۂ اصول اِس کو ’علت‘ سے تعبیر کرتے ہیں، لہٰذا قاعدہ ہے کہ ’إن الحكم يدور مع العلة وجودًا وعدمًا‘، یعنی حکم کی علت موجود ہے تو حکم بھی موجود ہے اور علت تبدیل ہو گئی ہے تو حکم بھی اُس کے لحاظ سے تبدیل ہو جائے گا۔ یہ علت حکم کی بنیاد ہے۔ اِس کو اِسی بنا پر ’مناط‘ کہا جاتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ زیادہ تر استنباط کے ذریعے سے متعین کی جاتی ہے، مگر قرآن کے اوامر و نواہی میں جہاں اِس کا امکان تھا کہ حالات کی تبدیلی کسی وقت کوئی تقاضا پیدا کرسکتی ہے، اُسے قرآن نے استنباط کے لیے نہیں چھوڑا، بلکہ اِس طرح کے موقعوں پر حکم کی علت پوری صراحت کے ساتھ خود بیان کردی ہے۔ چنانچہ دیکھیے، سورۂ بقرہ (۲) کی آیت  ۲۸۲ میں لین دین سے متعلق تحریر و شہادت کا ایک خاص ضابطہ بیان فرمایا ہے تو اُس کے ساتھ ہی بتا دیا ہے کہ یہ ’اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ‘ ہے۔ سورۂ نساء (۴)  کی آیت ۳۴ میں شوہر کو بیوی پر قوام قرار دے کر اُس کے حقوق و اختیارات بیان کیے ہیں تو سا تھ ہی وضاحت کر دی ہے کہ ’بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَا٘ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ‘۔ اِسی طرح آیات ۱۱- ۱۲ میں میراث کے حصے متعین فرمائے ہیں تو ساتھ ہی متنبہ کر دیا ہے کہ اِن میں علت حکم ’ اَقْرَبُ نَفْعًا ‘ ہے۔

اِس سے واضح ہے کہ قرآن جس شریعت کو لے کر نازل ہو ا ہے، اُس کے اوامر و نواہی کو اُس نے ’الأحکام بالعلل‘ کے اصول پر ہر زمانے اور ہر دور کے ساتھ اِس طرح متعلق کر دیا ہے کہ اُس کو کسی نئے الہام کی ضرورت کبھی لاحق نہیں ہو سکتی۔ خدا کی یہ کتاب اب خدا کا آخری عہد نامہ ہے، جو ابدی شریعت کے سا تھ نازل کردیا گیا ہے۔ خدا کے بندوں پر اِس کی حکومت اُس دن قائم ہو گئی تھی، جس دن خدا کے مقرب ترین فرشتے جبریل امین نے اِس کو قلب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتارا تھا، اور خدا کا فیصلہ ہے کہ زمین پر انسان کے آخری دن تک یہ حکومت اِسی طرح قائم رہے گی :

حرف او را ریب نے تبدیل نے
آیہ اش شرمندۂ تاویل نے

ـــــــــــــــــــــــــ

B