HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات امین احسن (۱۳)

باب ۱۳

ادارۂ تدبر قرآن و حدیث


 جب ’’ تدبر قرآ ن‘‘ کا کام اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہا تھا تو امین احسن یہ کہا کرتے تھے کہ اس تفسیر کے بعد اگر عمر اور صحت نے اجازت دی تو اس طرح کی ایک کتاب حدیث پر بھی لکھیں گے۔ وہ اس بارے میں اپنے شاگردوں اور رفقا سے مشورہ بھی کرتے رہتے تھے۔ان سب کی غالب راے یہی تھی کہ مولانا کو باقی عمر حدیث کے کام کے لیے وقف کرنی چاہیے۔اس دوران میں جاوید احمد صا حب غامدی نے یہ تجویز دی کہ اس مقصد کے لیے ایک ادارہ قائم کرلیا جائے۔ چنانچہ امین احسن نے فیصلہ کیا کہ حلقۂ تدبر قرآ ن کو جو ان کی اور خالد مسعود صاحب کی نگرانی میں کام کررہا تھا، وسعت دے کر ایک ادارہ کی شکل دے دی جائے اور آیند ہ کا م اس کے تحت کیے جائیں۔ یہ ادارہ ’’ادارۂ تدبر قرآن و حدیث‘‘ کے نام سے ایک دستور کے تحت یکم محرم ۱۴۰۱ھ کو محمد نعمان علی صاحب کی اقامت گاہ پر قائم ہوا۔امین احسن اس کے صدر اور خالد مسعود صاحب اس کے ناظم مقرر ہوئے۔

اس ادارے کے تحت امین احسن نے ہفتہ وار درس قرآ ن کاوہی سلسلہ جاری رکھا جس کا آغاز ان کی گاؤں سے واپسی پر ہو چکا تھا۔اس طرح انھوں نے ہفتہ وار نشست میں حدیث کے اصولوں پر لیکچر دیے، جواس وقت ’’مبادی تدبر حدیث ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ حدیث کے حوالے سے پہلے موطا اما م مالک اوراس کے بعد بخاری کا درس ہوا۔موطا تو پوری پڑھائی گئی،مگر بخاری کا درس ۱۹۹۳ء میں معطل ہوگیا۔ادارہ کی تحقیقا ت اور امین احسن کے دروس کی اشاعت کے لیے رسالہ ’’ تدبر ‘‘ جار ی ہوا، جو ایک سلسلۂ منشورات کے طور پر شائع ہو رہا ہے۔ اسی دور میں امین احسن نے فلسفے کے بنیادی مسائل پر قرآ ن کا نقطۂ نظر بیان کیا، جو ’’فلسفہ کے بنیادی مسائل ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں چھپا۔اسی طرح ان کی کتا ب ’’تزکیۂ نفس‘‘ شائع ہوئی۔

حواشی

امین احسن کی تمام کتابیں فاران فاؤنڈیشن شائع کرتا ہے، جس کے مالک ان کے شاگر د ماجد خاور صاحب ہیں۔انھوں نے امین احسن کو کتب کے اشاعت کی پریشانیو ں سے آزاد کیے رکھا۔

 ــــــــــــــــــــ

 

باب ۱۴

وفات

 ۱۹۹۳ء تک امین احسن کی عمومی صحت بہت اچھی تھی۔اس کے بعد عارضۂ قلب کاشکار ہوئے۔ اس بیماری سے بھی نجات پالی تھی۔ ۱۹۹۳ء میں بڑھاپے کی کم زوری کے باعث ان کے دروس کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر ۸۹ برس تھی۔اس کے باوجود وہ علمی مسائل میں رہنمائی دیتے رہے،مگر ۱۹۹۵ء میں فالج نے حملہ کردیا۔اس کے بعد مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

عبد الرزاق صاحب اپنی۱۸/اکتوبر ۱۹۹۶ء کی ڈائر ی میں لکھتے ہیں :

’’ آج مو لانا سے تقریباً ۲ سا ل بعد ملا قا ت کی۔ ملا قات کیا کی فقط ان کی زیا رت ہی کی۔ مو لا نا کو دیکھ کر بے حد دکھ اور افسوس ہو ا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹے تھے۔ وہ نہا یت کمزور اور نحیف ہو چکے ہیں۔ فا لج کے حملہ کے بعد ان کی سما عت اور گویا ئی شدید متا ثر ہو ئی ہے اور اب بمشکل ہی پہچانتے ہیں۔
خا لد مسعو د صا حب نے مو لا نا کوپشت سے تکیہ کی ٹیک دے کر بٹھا ئے رکھا۔ مو لا نا کبھی کبھی چہرہ اوپر کر کے سا تھیوں کو دیکھتے مگر اب ان کی آنکھو ں اور ان کے چہرے کے تا ثرات سے واضح تھا کہ وہ خود بڑی بے بسی محسوس کر رہے ہیں۔ مو لا نا کی یہ حا لت دیکھ کر میری آنکھو ں میں آنسو آگئے۔ میرے سا منے صدی کا سب سے بڑا مفسر ِقرآن تھا جو اب نہ خود حر کت کرسکتا تھا نہ اپنے اظہار کے لیے بو لنے پر قا در تھا۔ ایسی بے بسی، ایسی مجبوری.....! مو لا نا کے پاس ہم آدھا گھنٹہ بیٹھے رہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۹)

۱۹۹۷ء میں مرض میں اضافہ تو رک گیا، مگر نقاہت بڑھتی چلی گئی۔اس کے باوجودخاص اعزہ، احباب اور شاگردوں کو پہچانتے،ان کے سا تھ بات کرتے، انھیں خوش آمدید کہتے اور انھیں الوداع کہتے تھے۔ اپریل ۱۹۹۷ء میں ان کے شاگرد خالد مسعود حج کر کے وطن لوٹے توان کے پاس حاضر ہوئے اور مصافحہ کرکے بیٹھنے لگے تو امین احسن نے معانقہ کے لیے فوراً ہاتھ اٹھادیے کہ حاجیوں سے ملنے کا یہی دستور ہے۔ نومبر میں ان کی غذا بہت کم ہوگئی۔نقاہت میں بہت اضافہ ہوگیا۔لوگوں کو پہچاننے میں مشکل پیش آنے لگی۔بات کرنا بھی کم و بیش ناممکن ہوگیا۔ جسم تیزی سے گھلنے لگا۔

عبد الرزاق صاحب کی ۱۵/ جون ۱۹۹۷ء کی ڈائر ی سے معلوم ہوتاہے:

’’آج ادارہ کے اراکین کے سا تھ مو لا نا اصلا حی صا حب کی عیا دت کے لیے گیا۔ اکتوبر ۹۶ء میں مو لا نا کی جو حا لت تھی اس کی نسبت اب وہ کا فی بہتر تھے۔ صحت بھی اچھی لگ رہی تھی۔ انہوں نے سا تھیوں کو پہچا ن لیا قوت ِگو یا ئی متا ثر ہو نے کی وجہ سے وہ مدعا بیان نہیں کر سکتے تھے۔ مو لانا اپنے سا تھیوں سے با تیں کرنا چاہتے تھے اور کوشش بھی کی مگر اس کا سمجھنا بڑا مشکل کا م ہے۔ وہ بس اونچی آواز سے کچھ کہہ دیتے ہیں جسے سمجھا نہیں جا سکتا۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص۷۹)

۱۸/جولائی ۱۹۹۷ء کو دوپہر سوا گیارہ بجے راقم بھی کچھ احباب کے ساتھ امین احسن کی عیادت کے لیے گیا تھا۔ ہماری گاڑ ی اصلاحی صاحب کے گھر کے سامنے دوپہر سواگیارہ بجے رکی۔ہم ایک بیرونی اور ایک اندرونی دروازے سے گزرے۔ پھر سیڑھیاں اتر کر اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں صاحب  ـــــــ ’’ تدبر قرآن‘‘ صاحب فراش تھے۔ وہ بالکل سیدھے لیٹے سورہے تھے، لیکن عینک بدستور لگی ہوئی تھی۔ وہاں موجود اصلاحی صاحب کے نواسے، معا ذنے سوچاکہ یہ عینک نانا ابو کو تکلیف نہ د ے رہی ہو، وہ آگے بڑھا اور بڑی آہستگی سے عینک اتارنے لگا۔ ابھی اس نے عینک کو ذرا کھینچا ہی تھا کہ امین احسن جاگ گئے ـــــــ  ہاں انھیں جاگ ہی جانا چاہیے تھا۔ منذرین کو کھٹکے کی نیند ہی سونا چاہیے ـــــــ  امین احسن نے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے آگے بڑھ کر باری باری مصافحہ کیا۔ امین احسن نے ہم سب کے چہر ے پر اس طرح ہاتھ پھیر کر پیار کیا، جس طرح ایک باپ اپنے بچے کو پیار کرتا ہے۔امین احسن ہمارے باپ ہی تو ہیں، معنوی باپ، بلکہ روحانی باپ۔ حقیقی والدین ہمیں عدم سے وجود میں لانے کا ذریعہ بنے اور اصلاحی صاحب ہماری فکر پر عرفان کی راہیں کھولنے کا وسیلہ بنے۔

آ…آپ …کا … حال ؟ امین احسن نے اس طرح یہ الفاظ ادا کر کے ہماری خیریت دریافت کی۔ ان کی قوت سماعت کی کم زوری کے باعث ہم نے اشارے سے کہا: ہم سب خیریت سے ہیں۔

پھر معاذ نے نانا جان کو سہارا دے کر بٹھا دیا۔ امین احسن کئی قسم کے امراض میں مبتلا ہیں۔ ایک مرض کی تفصیل بتاتے ہوئے معاذ نے کہا کہ ان کا خون اتنا پتلا ہو چکا ہے کہ ٹیکہ لگانے کے بعد اسے پٹی باندھ کر روکنا پڑتا ہے۔ وہ خود جم کر نہیں رکتا۔ ایسی حالت میں کسی عام آدمی سے اس کا حال پوچھیں تو وہ آہیں بھرتے ہوئے اپنی تکلیفوں کی ایک فہرست گنوا دے گا۔ خدا اور خدائی سے شکووں اور شکایتوں کا دکھڑا روئے گا، مگر جب معاذ نے آپ سے پوچھا: نانا ابو، آپ کو اس طرح بیٹھنے سے کوئی تکلیف تو نہیں ہو رہی؟ تو امین احسن نے جواب دیا :

یہاں ( اس دنیا ) کی … تکلیف بھی … آرام دہ ہے۔

امین احسن کی زبان کچھ رواں ہوگئی تھی۔ وہ الفاظ کو ایک حد تک صحیح ادا کرنے لگے تھے۔میں نے اسے موقع غنیمت سمجھا اور معاذ سے کہا : انھیں کہیں کہ ہمیں کوئی نصیحت کریں … امین احسن نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا:

صبر کریں … ( دوسروں کو آرام دیں ) … دوسروں کے آرام سے آرام ملتا ہے۔

امین پونے دو سال سے بستر سے لگے ہوئے تھے۔ چارہ گر وں کا کہنا تھا کہ وہ اب اسی حالت میں رہیں گے۔ اس کیفیت میں انھوں نے صبر کا لفظ استعمال کیا، جس سے ظاہر ہے کہ یہاں صبر سے مراد عجز اور مسکنت نہیں، جو بے بسوں اور درماندوں کا شیوہ ہوتا ہے، بلکہ اس سے مراد مصائب و شدائد میں اپنے آپ کو گھبراہٹ اور مایوسی سے بچا کر بندگی رب پر قائم رکھنا اور ہر حال میں ثابت قدم رہنا ہے۔

چنانچہ دیکھیے بڑھاپے اور خرابی صحت کی اس حالت میں بھی اصلاحی صاحب کے قول اور فعل میں مطابقت کا عالم : معاذنے بتا یا عموماً جب اذان ہوتی تو نانا ابو کانوں کے قریب ہاتھ لا کر نیچے کر لیتے تھے۔ اس دوران میں ہم ان سے کوئی بات کرتے تو وہ جواب نہ دیتے، جس پر ہم گھبرا جاتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت نانا ابو (اشاروں سے ) نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔

ایک موقع پر ہم نے معاذ سے پوچھا کہ اصلاحی صاحب کی اس وقت ٹھیک ٹھیک عمر کیا ہے ؟ تو معاذ نے غیریقینی لب و لہجے میں سوچتے ہوئے کہا :۹۳ یا ۹۴ سال۔ پھر ٹھیک ٹھیک عمر جاننے کے لیے اس نے پوچھا: ناناابو آپ کی تاریخ پیدایش کیا ہے ؟ امین احسن نے سوچتے ہوئے کہا :

…سن…

پھر ساری زندگی خود نمائی سے گریز کرنے والے اصلاحی صاحب نے قدرے بے زاری سے کہا :

’’ کیا کرو گے پوچھ کے!‘‘

اس دل نواز ملاقات سے ہم سب کی طبیعت شاد ہوگئی۔ جب ہم ان کے گھر سے باہر نکلے تو اصلاحی صاحب کے ہاتھوں کا شفیقانہ لمس اور ان کی حکیمانہ باتوں کا ’’اثاثہ‘‘ ہمارے ساتھ تھا۔ اس موقع پرصاحب ’’ تدبر قرآن‘‘ نے ہمیں دوسروں کو آرام دینے کی نصیحت کی۔

عبد الرزاق صاحب اپنی۱۰ ؍اگست ۱۹۹۷ء کی ڈائر ی میں لکھتے ہیں :

’’مولانا کو میں نے سہار ا دے کراٹھایااورکمر کے پیچھے تکیہ رکھ دیا۔اس دوران مولانازور سے اپنے دانتوں کو رگڑتے رہے۔شا ید انھیں دا نتوں میں تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر شہباز (حلقے کے رکن) کہنے لگے کہ شاید انہیں اس طر ح کر نے سے سکو ن ملتا ہو، بڑھا پے اور بیما ری کی وجہ سے مو لا نا کے ہا تھ کی انگلیا ں جڑ سی گئی ہیں۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ٍص۷۹)

۱۲/اکتوبر ۱۹۹۷ء کی ڈائر ی میں عبدالرزاق صاحب نے لکھا:

’’مو لا نا نے جب سا تھیوں کو دیکھا تو بڑی مشکل سے فقط …آ…پ …!!! ہی کہہ سکے۔ کسی نے ملا زم سے پو چھا کہ مو لا نا کھا نے پینے میں ضد تو نہیں کر تے۔ ملا ز م نے جواب دیا کہ جب بھی مو لا نا سے پو چھا جا تا ہے کہ وہ کیا کھا ئیں گے تو وہ بس یہی جواب دیتے ہیں ’’جو مل جا ئے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر اپریل ۱۹۹۸ء، ص۹۰)

امین احسن کی حا لت بہت تشویش نا ک ہو چکی تھی۔ ہر وقت دھڑکا رہتا تھا کہ کو ئی بھی جھونکا ان کا ٹمٹماتا ہو ا چراغِ ز ندگی بجھا سکتا ہے، اور ایسا ہی ہو گیا۔

۱۵/ دسمبر ۱۹۹۷ء صبح ۳ بجے محفل صدا قت کی یہ شمع بجھ گئی۔ ’’امین فراہی‘‘ فراہی کی امانت اس کے مستحقین تک پہنچاکر اپنے مالک کے حضور میں حاضر ہو گئے۔ان دنوں امین احسن ڈیفنس لاہور میں اپنے بیٹے ابوسعید اصلاحی صاحب کے گھر میں مقیم تھے۔ اسی دن صبح اور پھر دوپہر کے وقت ہم کچھ احبا ب ان کے گھر گئے۔ وہا ں تعزیت کے لیے آنے والے مرد حضرات کو اسی کمرے میں بٹھایا جا رہا تھا جہا ں امین احسن درس قرآن اور درس حدیث دیا کر تے تھے۔ وہا ں بیٹھے ہو ئے با ر با ر مجھے ان کی با کما ل شخصیت کے مختلف پہلو یا د آرہے تھے، ان کا مسکراتا ہو ا سرخ و سفید چہر ہ ان کی سوچتی ہو ئی آنکھیں، ان کے چمکتے ہو ئے با ل… ان کی مشکلا ت قرآن کی عقدہ کشا ئی، ان کی پیچیدہ احا دیث میں واضح رہنمائی، ان کی نحو ی مسا ئل میں با ریک بینیاں، ان کی سیا سی امور میں نکتہ آفرینیا ں …ان کی معنی خیز لطیف طنز…ان کے بے لا گ گہر ے تبصرے … ان کی سلطانی پر فائق دہقانی… ان کا اقتدار کے ایوانوں سے استغنا… ان کا شد ائدو مصا ئب میں صبر و ثبات۔ آہ! یہ باتیں اب محض یا دیں ہیں۔

اس کمرے میں جہاں ہمیں بٹھا یا گیا تھا، امین احسن کی افسردہ صلبی اور روحانی اولا د بیٹھی، اپنی اپنی چشم تصور سے اپنے با پ کے سا تھ گزارے ہو ئے لمحوں کی تصویر یں دیکھ رہی تھی۔ ان کی روحانی اولاد آنسو ؤ ں سے بوجھل آنکھوں اور بھرائی ہو ئی آواز کے سا تھ با تیں کر رہی تھی:

’’ایک دور ختم ہو گیا ‘‘…’’وہ ٹو ٹ کر محبت کر نے والے تھے‘‘…’’ان کے خلو ص میں بہت گہرا ئی تھی‘‘… بسا اوقا ت وہ بچوں کی طرح معصو م لگتے تھے‘‘… وہ رات۳ بجے کے قریب فوت ہو ئے۔ یہ ان کا پسندید ہ وقت تھا۔ اس وقت وہ خدا کے حضور گریہ وزاری کیا کرتے تھے‘‘…’’وہ اس قدر کم زور ہو چکے تھے کہ جسم پر گو شت نظر نہیں آتا تھا۔بس ہڈیا ں اور جلد دکھائی دیتی تھی۔‘‘…’’دعا کر یں، خدا اس چیز کو ان کے لیے کفارہ بنا دے‘‘…’’بیما ری میں بھی ان کا لب ولہجہ بہت حو صلہ افزا ہو تاتھا ‘‘…’’وہ جزع فزاع کر نے والے آدمی نہیں تھے۔‘‘… ’’حال پو چھیں تو بسا اوقات کہتے :بہت اچھا ہے ‘‘…’’وہ صبر کا پہاڑ تھے۔‘‘

انھوں نے جب اپنا رسا لہ ’’میثا ق ‘‘جا ری کیا تو انھیں کسی کی تحر یر کم ہی پسند آتی تھی، اس لیے شروع شروع میں رسا لے کے سا رے مضا مین خود ہی تحر یر کیا کر تے تھے…وہ ۱۹۰۴ء میں پیدا ہو ئے اور ۱۹۹۷ء میں وفات پائی۔ ان کا کا م ایک صدی پر محیط ہے۔

اس میں کیا شبہ ہے کہ بیسویں صدی درحقیقت علم و عرفاں کے اعتبار سے فراہی واصلا حی کی صدی ہے، بلکہ ایسے محسوس ہو تا ہے، جیسے اب ہر صدی انھی کی صدی ہے۔ دراصل ان ہستیوں نے علم و تحقیق کے سمند ر کی تہ سے، جو گو ہر نا یا ب تلا ش کیے ہیں، وہ ایسے گو ہر ہیں جو ہر صدی میں چمکتے، دمکتے اور اپنی اہمیت منواتے رہیں گے۔ ان کا کا م ایک ایسا مضبو ط درخت ہے جو ہمیشہ پُربہار، پُراثما ر اورگل و گلزار رہے گا۔

اسی کمرے میں، جہا ں ہم تعزیت کے لیے بیٹھے ہو ئے تھے، ایک خو ب صورت شیلف میں ’’ تدبر قرآن‘‘ کی تمام جلدیں ایک ترتیب سے پڑی ہو ئی تھیں، جلد پر چھپے ہو ئے سنہر ی الفا ظ ’’ تدبر قرآن‘‘ سے کمرے کے قمقموں کی روشنی منعکس ہو رہی تھی۔خدا کرے،قیامت میں ’’صاحب تفسیر‘‘ کے گرد اسی طرح روشنی کا ہا لہ ہو!

جب تعزیت کے لیے آنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو ہم گھر کے لا ن میں کرسیوں پر بیٹھے ہو ئے تھے۔ میں بھی ایک گوشے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچا نک سب لو گ ایک طرف دیکھ کر کھڑے ہوگئے، میں نے اس طرف دیکھا۔اس طرف سے کبھی اصلا حی صا حب کو ہا تھ میں چھڑی لیے ہوئے، کبھی مسکراتے ہو ئے اور کبھی سو چتے ہو ئے با ہر آتے دیکھا تھا۔ اب وہیں سے ان کا جنا زہ آرہا تھا… آخرت کی تذکیر کر نے والا سفر آخرت پر جا رہا تھا۔

لو گ جنا زے کو کندھا دینے کے لیے بے تا بی سے لپکے، گیٹ کے قریب صحن میں جنا ز ہ آخری دیدار کے لیے زمین پر رکھ دیا گیا۔ میں بھی ہجوم کے سا تھ آہستہ آہستہ چلتا ہوا جنازے کے قریب پہنچا، کفن میں لپٹا ہو ا شہر بیدار کا سردار ابدی نیند سو رہا تھا۔

قریبی مسجد میں نما ز جنا زہ ادا کی گئی۔ نما یا ں شخصیا ت میں خالد مسعود صاحب، جا وید احمد صاحب غامدی، ڈاکٹر اسرار احمد صا حب، مصطفیٰ صا دق صاحب، مجیب الرحمٰن شا می صاحب اور عطاء الر حمٰن صا حب نما ز جنا زہ میں شریک ہو ئے۔ قا ضی حسین احمد صاحب نے نما ز جنا زہ پڑھائی۔ وہا ں دیگر جما عتوں کی بہ نسبت جما عت اسلا می کے اکا برین سب سے زیا دہ تھے، حالاں کہ امین احسن نے جما عت اسلا می پر بہت سخت تنقید کی، لیکن یہ ان کی شخصیت اور ان کے کا م کی عظمت تھی کہ جماعت اسلا می کے اکابرین کے دلو ں میں آپ کے سا تھ عقیدت ہمیشہ قا ئم رہی۔

پھر ایمبو لینس کے ذریعے سے ڈیفنس ہی کے ایک قبر ستا ن کی طرف جنا زہ لے جا یا گیا… اتفاق سے ایک درخت کے سایے میں قبر بنا ئی گئی تھی۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر ایسے محسوس ہو ا، جیسے دست ِقدرت، رحمت بن کر اصلا حی صاحب کے اوپر سا یہ کیے ہو ئے ہو۔ پھر امین احسن کا جسد خا کی اٹھایا گیا اور اہل زمیں کے ایک محسن عظیم کو زمین میں اتار دیا گیا۔  آہ:

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!

کچی قبر بنی، قبر پر پا نی چھڑکا گیا اور پھر قبر پر پھول بکھیر دیے گئے، لیکن ان پھو لوں کی خوشبو اس خوشبو کی بہ نسبت بہت عار ضی اور بہت محدودتھی جو خوشبو امین احسن نے اپنے قلم، اپنی زبا ن اور اپنے کردار سے پھیلائی۔

امین احسن کی وفات پر مدرستہ الاصلاح اورادارہ علوم القرآن میں منعقد ہونے والے تعزیتی اجلاس کی رودادیں حسب ذیل ہیں :

’’منعقد ہ مدرستہ الاصلا ح سرائے میر ۱۶/ دسمبر ۱۹۹۷ء بمطا بق ۱۵ شعبا ن ۱۴۱۸ھ یہ خبر کہ مدرستہ الاصلاح کے گل سر سبد معر وف مفسر قرآن، تر جما ن فراہی، جنا ب مو لا نا امین احسن اصلاحی طویل علا لت کے بعد کل ۱۴؍ شعبان ۱۴۱۸ھ وقت سحر اس عا لم فا نی سے عا لم جا ودانی کو سدھا ر گئے۔ یہ خبر صحن مدرستہ الا صلا ح میں بجلی بن کر گری جس سے مدرسہ کے چپہ چپہ پر غم والم کی دبیز کہر چھا گئی۔ سالانہ امتحان اور دوسری تما م مصروفیات یک لخت ملتوی کر دی گئیں اور مدرسہ کی وسیع مسجد میں اساتذہ، طلبہ اور ذمہ داران جمع ہوئے، مولانا کی عظیم علمی وقرآنی خدما ت کو یا د کیا۔انھیں خراج تحسین پیش کیا، اپنے رنج و غم کا اظہا ر کیا اور حسب ذیل قرار داد منظور کی:

۱۔مدر ستہ الا صلا ح کے اسا تذہ و طلبہ کا یہ اجلا س مدرسہ کے اس عظیم فر زند اور فقید المثا ل مفسر قرآن، جانشینِ فراہی ؒ مو لا نا امین احسن اصلا حی کی وفا ت حسرت آیا ت پر اپنے شدید رنج و غم کا اظہا ر کرتا ہے۔

۲۔ یہ اجلا س کھلے دل سے اعتراف کر تا ہے کہ مو لا نا مر حوم مدرستہ الاصلاح کے لیے سرمایۂ افتخار تھے اور ہیں۔ قحط الرجا ل کے اس دور میں مو لا نا مر حو م نے فکر فراہی کی روشنی میں علمی، قرآنی، فکری، تحقیقی، تصنیفی، دعوتی، تحریکی، تعلیمی اور سیا سی میدان میں جو بے مثا ل خد ما ت انجا م دی ہیں اور ایک خاص نہج عطا کیا ہے وہ ملت اسلا میہ کے لے نہ صرف قیمتی متا ع اور قابل قدر سر ما یہ ہے بلکہ ایک ایسا منا رۂ نور ہے جس سے ملت اسلامیہ کے اہل علم و فکر صدیوں کسب نور اور اخذ و استفا دہ کر تے رہیں گے۔

۳۔مو لا نا مر حو م آسما ن علم و تحقیق کے آفتا ب و ما ہتا ب تھے۔ ان کی وفا ت سے علمی دنیا پر تا ریکی سی چھا گئی ہے اس لئے مو لا نا کا سا نحۂ ارتحا ل نہ صرف مدرستہ الاصلا ح بلکہ عا لم اسلا م کا نا قا بل تلافی نقصان اور عظیم حادثہ ہے۔

۴۔یہ اجلا س با ر گا ہ خدا وندی میں اشکبا ر آنکھو ں اور لرزتے ہا تھو ں کے سا تھ دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحو م کی عظیم خدما ت کو شرف قبو لیت سے نوازے۔ ان کی مغفرت فر ما ئے۔ انہیں اعلیٰ علیین میں شہدا ء و صدیقین کی صف میں جگہ دے۔ ان کی وفا ت سے ملت اسلا میہ کا جو عظیم خسا رہ ہوا ہے اس کی تلافی کی سبیل پیدا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی تو فیق بخشے۔ آمین !

منجا نب

اسا تذہ و کا رکنا ن و طلبہ مدرستہ الا صلا ح سرائے میر

ـــــــــــــــ

منعقد ادارۂ علو م القرآن سر سید نگر علی گڑھ


ادارۂ علوم القرآن ( سر سید نگر، علی گڑھ بھا رت ) کے زیر اہتما م ۱۸ ؍ دسمبر کو ایک تعزیتی نشست زیرصدارت پرو فیسر اشتیا ق احمد صا حب (مو لا نا امین احسن اصلا حی کے بھتیجے ) منعقد ہو ئی جس میں ادارہ کے متعلقین کے علا وہ مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کے متعدد اسا تذہ و طلبہ شریک ہو ئے۔ تلا وت کلا م پا ک کے بعد ڈاکٹر ظفر الا سلا م اصلا حی ریڈر شعبۂ اسلا میا ت علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی نے ابتدا ئی کلما ت کے طور پر مو لا نا امین احسن اصلا حی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر روشنی ڈالی اور ان کی قرآنی خدما ت کا جا ئزہ لیا۔ آپ نے فرمایا: ’’مولانا کاا نتقا ل نہ صرف ان کے اعزہ و اقربا، متعلقین ِمدرستہ الا صلا ح اور وابستگان تحر یک اسلا می کے لئے بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لے ایک عظیم سا نحہ ہے۔ مو لا نا نے پورے ۷۵ سا ل تک قرآنی علو م اور تحر یک اسلامی کی جو عظیم خدمت انجا م دی ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے۔مو لا نا فراہی ؒ کے انتقا ل کے بعد ان کے تشکیل کردہ خطوط پر مو لا نا مدرسہ کی تر قی کے لیے کو شا ں رہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اس فکر کی تو سیع و اشا عت کے لیے تما م ممکنہ ذرائع استعما ل کیے۔ مو لا نا فراہی ؒ کے تفسیر ی اجزاء کے تر جمہ، الا صلا ح کی ادارت، دائرۂ حمیدیہ کی علمی سر گر میوں، تحر یک اسلا می کی قیا دت اور اس کے علا وہ بھی مولانا نے بہت سی علمی و دینی خدما ت انجام دیں۔قرآن مجید، حدیث، فقہ،تا ریخ اسلامی، اسلامی ریا ست، اور ان کے علا وہ دوسرے مو ضوعا ت پر متعدد کتابیں لکھیں۔ درس و تدریس، مذاکرہ و مبا حثہ، تحقیق و تصنیف، غرض کہ ہر ممکن ذریعہ سے قرآنی فکر کو عا م کر نے کی کو شش کی۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن سے وابستگی، قرآنی علو م سے لگا ؤ، قرآنی فکر کو پروان چڑھا نے کا بے پنا ہ جذبہ مو لا نا کی ذا ت کا خا صہ تھا۔ ان کی یہ قرآنی خدما ت ہما رے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹرابو سفیا ن اصلا حی لیکچر ر شعبۂ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جنہوں نے متعدد بار پاکستان کا سفر کیا ہے اور مولانا سے ملا قا ت و گفتگو کا شرف بھی ان کو حا صل رہا ہے اور اس بنا پر یہ با ت فطری ہے کہ ان کے اوپر اس سانحہ کا اثر زیا دہ تھا، کچھ زیا دہ تھا، کچھ زیا دہ گفتگو نہ کر سکے البتہ آپ نے مو لا نا سے اپنی ملا قاتوں کے حوالہ سے چند واقعات کا بطور خا ص ذکر کیا جن سے مو لا نا کی وسیع الجہات شخصیت کے کئی نما یا ں گو شے ابھر کر سا منے آئے۔ آپ نے کہا کہ آخروقت میں مو لا نا مر حو م اپنے وطن اعظم گڑھ آنے کے لیے بہت مضطرب اور بے چین رہا کر تے اور مدرستہ الا صلا ح آنے کا ہر وقت خواب دیکھا کر تے تھے۔مو لا نا کی خوا ہش تھی کہ وہ کسی طرح مدرستہ الا صلا ح پہنچ جا ئیں۔ مدرسہ اور متعلقین مدر سہ کا ذکر ہو تا تو مو لا نا آبدیدہ ہو جا تے۔ ڈاکٹر عبدالعظیم اصلا حی ریڈر شعبۂ معا شیا ت مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے اپنے جذبا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مجھے صرف دو عظیم شخصیتوں سے ملنے کی خواہش تھی۔ ایک مو لا نا سید ابو الا علیٰ مو دودی ؒ اور دوسرے مو لا نا امین احسن اصلاحی ؒ کی ذا ت گرامی تھی۔ مو لا نا مودودی ؒ سے ملنے پاکستان جانا ہوا مگر اس وقت وہ بیما رتھے اور ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ البتہ دوسرے سفر میں مو لا نا امین احسن اصلا حی سے ملا قات کا شرف حاصل ہوا، مگر اس وقت جب مو لا نا با لکل معذور ہو چکے تھے۔ مو لا نا ؒ نے پا کستان میں قرآن فہمی اور فکر فراہی کا ایک بڑا حلقہ قا ئم کیا ہے اور متعدد ادارے اس فکر کو پروان چڑھا نے کی خدمت انجا م دے رہے ہیں۔

ڈا کٹر اشتیا ق احمد ریڈر شعبۂ تاریخ مسلم یو نیو رسٹی علی گڑھ، صدر ادارۂ علوم القرآن اور مدیر مجلہ علوم القرآن نے بھی مو لا نا کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فر ما یا آج ہما رے سر سے ایک سا یہ تھا جو اٹھ گیا۔ ہم اپنے آپ کو بے سہا را محسو س کر رہے ہیں۔ڈا کٹر صا حب نے کہا کہ مدر ستہ الا صلا ح کو ایک علمی مرکز کی حیثیت دینا، وہا ں علمی مزا ج پیدا کر نا، با صلا حیت شا گر دوں کا ایک حلقہ قا ئم کر نا جو اس فکراور اس کا م کو آگے بڑھا نے کی صلا حیت رکھتے تھے،مو لا نا ؒ کا نا قا بل فرا مو ش کا ر نا مہ ہے۔ اس کے علا وہ مو لا نا اپنے زما نہ کے زبر دست خطیب و مقرر تھے۔ مدر ستہ الا صلا ح کے اطراف میں اصلا ح معا شرہ کی جو تحریک چل رہی تھی اس میں مو لا نا کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ مو لا نا سلطان احمد اصلا حی رکن ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ نے فر ما یا کہ مو لانا نے قر آنی علو م کی یکہ و تنہا جو عظیم خدمت انجا م دی ہے وہ ایک شخص کا نہیں، ایک اکیڈمی کا کا م ہے۔ مو لا ناکا کا م بہت ہی منظم اور اوریجنل ہے۔ مولانا ایک عظیم مفکر اور قا ئدانہ صلا حیتوں کے مالک تھے۔ مو لا نا کے کا رنا مے ہمہ جہتی ہیں۔ مترجم، مفسر، خطیب، ادب شنا س ہو نے کے علا وہ بے شما ر دوسرے کما لا ت ان کی ذا ت میں جمع تھے۔ اللہ نے ان کو تو فیق دی کہ انہوں نے تا حیا ت ان صلا حیتوں کو اللہ ہی کی راہ میں کھپا دیا۔ ان کا حق ہے کہ آئندہ ان کی شخصیت اور خدما ت پر ریسر چ و تحقیق کا کا م ہو اور ان کے منصو بو ں کو آگے بڑھا یا جا ئے جو ان کو زندگی بھر عزیز رہے۔ تدبر قر آن ان کی شا ہکار تفسیر ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مو لا نا نے تدبر قر آن کا کا م سا ٹھ سا ل کی عمر میں اس وقت شروع کیا جب کہ عا م لوگ اس عمر میں تھک ہا ر کر بیٹھ جا تے ہیں۔ یہ مو لا نا ہی کا حو صلہ اور عزم تھا کہ اس کو مکمل کر کے اپنے استاد کا حق ادا کردیا۔ انہوں نے عزوجا ہ اور ما لی منفعت سے بے نیا ز ہو کر جو کا رنا مہ انجا م دیا ہے وہ لا ئق تقلید اور قا بل رشک ہے۔ اصلا حی برادری پر فر ض ہے کہ اس کا م کو آگے بڑھائے۔ پر وفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی ندوی شعبۂ اسلا میا ت مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے اپنے خیا لا ت کا اظہا ر کر تے ہو ئے کہا کہ مو لا نا جیسی شخصیتیں خا ندان، وطن،ادارے اور رشتوں نا تو ں سے بالا ہو ا کر تی ہیں۔ مو لا نا مر حو م پور ی انسا نیت اور پو ری کا ئنا ت کی میرا ث ہیں۔ ڈا کٹر صاحب نے اپنی حالیہ ۳۰ ؍ اکتوبر ۹۷ء کی ملا قا ت کا ذکر کر تے ہو ئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ مو لا نا کی ملاقات کا شرف حا صل ہوا۔ آپ نے فر ما یا کہ ستر بر س سے زیا دہ تصنیف و تا لیف کا کا م کر نا خو د بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پاکستان میں مو لا نا نے متعدد قرآنی حلقے قائم کیے اور پیغا م ربا نی کو ہر خاص و عام تک پہنچا یا۔ پا کستان کے خواص و عوام ہر ایک مو لا نا کا عقید ت مند ہے مو لا نا کے درس قرآن میں ہمیشہ شرکا ء کی تعد ا د میں اضا فہ ہی ہو تا رہا، جس کے ذریعہ سے انہوں نے کئی نسلو ں کو متا ثر کیا۔ اس مو قع پر ڈا کٹر سکندر علی اصلا حی نے بھی اپنے احساسات و جذبات ظاہر کیے اور بالخصوص تحریک اسلا می کے حوالہ سے ان کی خدما ت کے بعض پہلو ؤں کو واضح کیا۔ آخر میں مولانا عمید الاسلام قاسمی صاحب نے جو مو لانا مر حو م کے ایک گہر ے معتقد ہیں، اپنی عقیدت کا اظہا ر کیا اور انھی کی دعا پر نشست کا اختتام ہو ا۔ یہ نشست بعد عصر سے عشا ء کے قریب تک چلی۔ درمیا ن میں مغرب کے لیے وقفہ رہا۔ ادارۂ علوم القرآن کی جا نب سے اس عزم کا اظہا ر کیا گیا کہ ان شاء اللہ مولانا ؒ کے مشن کو جا ری و با قی رکھنے کی ہر ممکن کو شش کی جا ئے گی۔ علو م القرآن کا آئندہ شما رہ ان شا ء اللہ مو لا نا امین احسن اصلا حی نمبر کے طور پر شا ئع کیا جائے گا۔ صدر ادارہ نے یہ امید ظا ہر کی کہ اہل علم، با لخصو ص قر آنیا ت سے دل چسپی رکھنے والے، اس عظیم منصو بہ کی تکمیل میں اپنا تعا ون پیش کر یں گے۔‘‘

( ترتیب : اشہد رفیق ندوی، سکندرعلی اصلا حی)     

(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۰۶-۱۰۹)            

  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B