HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

اسلام کا مخاطب

[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی سوال و جواب]

سوال: ایک نظام فکر کے لحاظ سے اسلام  کا مخاطب فرد ہے یا قیادت؟

جواب:اسلام ایک پورا نظام فکر ہے، اس لیے جو لوگ بھی معاشرے میں قیادت کے منصب پر فائز ہوں گے، ان پر یہ پوری طرح اثرانداز ہو گا۔ وہ اگر قیادت کر رہے ہیں تو قیادت کس اصول پر کر رہے ہیں، یعنی اس میں کچھ عقائد ہوں گے، جن کی وہ نگہبانی کر رہے ہوں گے، کچھ اعمال ہوں گے جن کو وہ لوگوں میں رائج دیکھنا چاہتے ہوں گے تو ان میں سے ایک ایک چیز کو یہ مذہب یا اسلام یا پیغمبر آ کر ہدف تنقید بنائیں گے اور لوگ ان کی طرف آنا شروع ہو جائیں گے تو قیادت کا سارا قصر ہی گر جائے گا۔ چنانچہ قیادت صرف سیاسی نہیں ہوتی، بلکہ وہ فکری بھی ہوتی ہے۔

معاشرے میں دانش ور، مذہبی پیشوا اور سیاسی رہنما قیادت کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ قیادت کچھ افکار پر کسی نصب العین کے حصول کے لیے کی جا رہی ہوتی ہے۔ سوسائٹی کی اقدار کی حفاظت کے لیے قیادت پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا مذہب یا مذہبی تعلیمات اگر ان کو ہدف تنقید بنائیں گی تو ردعمل ہو گا۔ چنانچہ دنیا میں ایک لمبے عرصے تک شرک کو یہ حیثیت حاصل رہی ہے۔ شرک لوگوں کے لیے تہذیب اور مذہب رہا ہے۔ اسی کی بنیاد پر حکمران اپنا جواز پیدا کرتے رہے ہیں۔ جب آپ شرک کو موضوع بناتے ہوئے یہ کہیں گے کہ اس کی تو کوئی بنیاد ہی نہیں ہے، اصل چیز توحید ہے اور اس کائنات کا خالق تو تنہا خالق ہے تو اس کے اثرات ان تصورات پر پڑیں گے جن پر قیادت کھڑی ہے یا اس معاشرے پر پڑیں گے جو پورا شیرازہ بندی کا عمل کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ تو بہت بڑے پیمانے پر ردعمل ہے، جو ناگزیر طور پر ہو گا۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ ان کی قیادت کو چیلنج کر دیں اور یہ کہیں کہ تمھاری جگہ ہم لینا چاہتے ہیں تو پھر وہ ردعمل میں جائیں گے، بلکہ قیادت کو چیلنج کرنے کا ایک پہلو وہ ہے جس میں آپ دوسرے کو کہتے ہیں کہ جگہ چھوڑو، میں تمھاری جگہ آ رہا ہوں۔ اس سے زیادہ گہرا اور بصیرت پر مبنی پہلو یہ ہے کہ وہ جن تصورات، عقائد، ثقافت اور تہذیب پر اپنی قیادت قائم کر کے کھڑا ہے، آپ اس کو تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تو  ایسے ہی ہے، جیسے آپ پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لیں۔

جس وقت مذہبی یا سیاسی معاملات میں آپ کوئی راے دیتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ راے تو موثر ہونا شروع ہو گئی، لوگ اس کو ماننا شروع گئے اور ہمارے اپنے پیروکار سوالات کرنے لگ گئے تو اس میں کس کی قیادت چیلنج ہو رہی ہوتی ہے کہ اتنا شدید ردعمل ہوتا ہے، آپ کے خلاف پروپیگنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے، علمی و فکری گفتگوؤں کے بجاے ایک طوفان بدتمیزی اٹھا دیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کا دائرۂ اثر چھینا جا رہا ہے۔

یہ ساری قیادت اصل میں آپ کے دائرۂ اثر پر قائم ہوتی ہے۔ قیادت لوگوں کی کی جاتی ہے۔ اگر معلوم ہو کہ آپ کی زیر قیادت سے آج بلال گئے، آج عمار گئے، آج عمر گئے، آج ابوبکر رضی اللہ عنہم گئے تو پھر کون ہے جس کی آپ کو قیادت کرنی ہے۔ یہ اس لیے گئے کہ جو دعوت پیش کی گئی ہے، اس سے یہ متاثر ہو رہے ہیں۔ چنانچہ درحقیقت پیغمبر کے آنے کے بعد یا کسی مصلح کے کھڑے ہونے کے بعد قیادت کے معیارات ہی تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اس لیے سب سے بڑا خطرہ قیادت ہی محسوس کرتی ہے۔ دانش ور  اپنی دانش کے لیے اور سیاست دان اپنی سیاست کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ انھیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب ہمیں چیلنج کریں یا نہ کریں، جب لوگ ہی نیچے سے نکلتے چلے جا رہے ہیں تو معلوم نہیں کہ کل ان کی قیادت کرنے کے لیے کون کھڑا ہو جائے گا۔

لہٰذا یہ خطرہ ہے جو سامنے آتا ہے، اس کو ایسے ہی دیکھنا چاہیے۔ کوئی پیغمبر لوگوں کو آ کر یہ نہیں کہتے کہ ہم انقلاب برپا کرنے کے لیے آئے ہیں تو اس لیے لوگ ان کے خلاف ہو جاتے ہیں، بلکہ ان کی وہ دعوت ہے جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں[1]۔

ـــــــــــــــ


دین اور رسم و رواج

سوال:کیا ہم نے دین، دینی فکر اور رسم و رواج کو خلط ملط کر دیا ہے؟

جواب:یہ بات بہت حد تک صحیح ہے کہ ہم نے دین، دینی فکر اور رسم و رواج کو خلط ملط کر دیا ہے۔ یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہے، بلکہ آپ اگر پوری دنیا کا مطالعہ کریں تو سب میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ انسان جب اپنے وجود کو سوسائٹی سے متعلق کرتا ہے تو ایک تو یہ ہے کہ کسی فلسفی نے کوئی نقطۂ نظر پیش کر دیا، اس کے مقابل آپ یہ چیز رکھ لیں کہ انبیا علیہم السلام نے لوگوں کے سامنے آ کر اللہ کی ہدایت کا ایک نقشہ بیان کر دیا۔ یہ چیز تو اپنی ذات میں یا کسی مفکر کے ذریعے سے پہنچی ہو گی یا کسی خدا کے پیغمبر کے ذریعے سے ملی ہو گی اور متعین اور واضح بھی ہو گی، لیکن اس کے بعد انسان ہی نے اس کو سمجھنا ہوتا ہے، یعنی اب تک کوئی ایسا طریقہ ایجاد نہیں ہو سکا کہ آپ پورے کے پورے فکری سرمائے کو ایسی صورت دے دیں کہ اس میں تاویل یا تعبیر کی گنجایش ہی باقی نہ رہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جیسے ہی کوئی فکر پیدا ہوتا یا کوئی ہدایت وجود میں آتی یا کوئی فلسفہ تشکیل پاتا ہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر انسان اس پر بحث و مباحثہ اور غور وفکر شروع کر دیتا ہے۔ اب انسان جب یہ معاملہ کرتا ہے تو تعبیرات میں اختلافات بھی ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود فرماتے ہیں کہ جس وقت میں نے اس دنیا کی ابتدا کی تو ظاہر ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے ذریعے سے ابتدا کی۔ آدم وحوا علیہما السلام، دونوں کو ان کے فطری شعور کی بنیاد پر ضروری ہدایات بھی دے دی گئیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی اولاد اور بعد میں آنے والے لوگوں کو وہی ہدایات منتقل کیں، لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ لوگوں میں اختلافات پیدا ہو گئے:

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِيْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ.(البقرہ۲: ۲۱۳)
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر (اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔‘‘

ابتدا میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن لوگوں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ اختلافات اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان اپنے اپنے زاویۂ نظر سے چیزوں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ انسان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کے ساتھ دو حوادث یا دو آفات بھی لاحق ہو جاتی ہیں:

قلت علم،

اور قلت تدبر۔

بعض اوقات کسی چیز کے لیے جتنا علم چاہیے، اس کے پاس وہ نہیں ہوتا، اس لیے قلت علم تعبیرات کے اختلافات کا باعث بن جاتا ہے۔ قلت تدبر یہ ہے کہ کسی چیز کا علم تو تھا، لیکن جس طرح ہر چیز سے الگ ہو کر غور و فکر کا حق ادا کرنے کی ضرورت تھی، وہ ادا نہیں ہوا۔ یہ چیزیں تو ہر انسان کے ساتھ کہیں نہ کہیں سے لاحق ہیں، لیکن خارجی عوامل، مثلاً تعصبات، مفادات، سیاست، معاشرت ومعیشت کے مسئلے بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔ ماحول بھی اثرانداز ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تعبیرات کا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔

چنانچہ ایک چیز تو یہ ہے کہ کوئی فلسفہ، فکر یا اللہ کے پیغمبروں کی ہدایت متعین صورت میں آپ کے سامنے آگئی۔ آدم وحوا علیہما السلام کو اگر دس باتیں بھی بتائی گئی تھیں تو وہ متعین تھیں۔ اسی طرح تورات میں احکام عشرہ واضح ہیں۔ لہٰذا ایک واضح بات اللہ تعالیٰ کہہ دیتے ہیں، لیکن اب اس کے فہم کا معاملہ شروع ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ چیز وجود میں آتی ہے جسے آپ نے ’مذہبی فکر‘ (religious thought) سے تعبیر کیا۔ پھر اس کے ساتھ تاریخ وابستہ ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ ایک مسئلہ ہے کہ دنیا نے آگے بڑھنا ہے اور جو لوگ آج موجود ہیں، انھوں نے ماضی کا حصہ بننا ہے۔ تاریخ میں واقعات ہو رہے ہوتے ہیں، تاریخ میں انطباق ہو رہا ہوتا ہے اور تاریخ میں اطلاقی مسائل زیر بحث آ رہے ہوتے ہیں، تاریخ شخصیات کا نام بھی ہے۔ بڑی شخصیات سے انسان فطری طور پر متاثر ہوتا ہے اور ان کے ذہن اور سوچ سے سیکھنا شروع کرتا ہے تو تاریخ اس پر اثرانداز ہوتی ہے۔

تاریخ کلچر کو وجود میں لے آتی ہے، یعنی جیسے ہی دنیا آگے بڑھتی ہے تو آپ کے رسوم و روایات اور ثقافت جیسی ساری چیزیں مل کر ایک ملغوبہ بن جاتا ہے۔ جب یہ ملغوبہ بن جاتا ہے تو ہر وقت اس کو الگ کر کے رکھنا کہ یہ حصہ دین ہے یا یہ کوئی فلاں فلسفے یا فکر کی اصل صورت ہے یا یہ چیز وہ ہے جس میں انسان نے اپنے آپ کو داخل کیا ہے یا یہ اس کا فہم (understanding) ہے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی متعین کرنا کہ یہاں کلچر، یہاں تہذیب، یہاں روایات ورسوم اثرانداز ہو گئی ہیں، یہ مشکل کام ہوتا ہے۔ خود آپ کی اپنی شخصیت بھی تاریخی پس منظر ہی میں کھڑی ہوتی ہے۔ خود آپ بھی جو کچھ سیکھ چکے یا جو کچھ پا چکے ہوتے ہیں، شخصیات ہی سے پاتے ہیں، اس لیے آپ کے اپنے پس منظر سے بھی نجات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ مشکل کام ہے۔[2]

ـــــــــــــــــــــــــ

B