HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

قرآن اور ہمارے درمیان حائل رکاوٹیں

ڈاکٹر عدیل احمد


قرآن مجید دنیا کی سب سے اہم چیز ہے۔یہ کائنات کے خالق اور مالک کا انسانوں  کے نام آخری پیغام ہے۔ وہ لوگ جو اس حقیقت کو تسلیم نہیں  کرتے، ان کے لیے بھی بنیادی انسانی جستجو کی بنا پر ہی سہی، اسے پڑھے بغیر کوئی چارا نہیں  ہونا چاہیے، کیونکہ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اسے کلام الٰہی مانتا ہے اور اس دعوے کو جانچنے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے ضروری کام یہی ہے کہ اسے پڑھ کے دیکھا جائے۔لیکن خاص طور پر ان لوگوں  کے لیے جویہ ایمان رکھتے ہیں  کہ یہ خدا کا کلام ہے اور انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے آخری بار دنیا میں  بھیجا گیاہے، اس کتاب سے زیادہ اہم اور قیمتی نہ کوئی چیز ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی کام۔اس کے برعکس، واقعہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں  کی ذاتی اور سماجی زندگی کے بیش تر معاملات اس امر کی گواہی دیتے ہیں  کہ عمومی طور پر مسلمان اور قرآن کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ اس دوری کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اور قرآن کے درمیان کچھ رکاوٹیں  کھڑی کر دی ہیں۔ ان میں  سے کچھ تو جانی مانی ہیں،  مثلاً ترجیحات کا غلط چناؤ، کم ہمتی، سستی، مفاد پرستی وغیرہ، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ چند ایسی بھی دیواریں  ہیں  جوخالص نیک نیتی کے ساتھ اٹھائی گئی ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کے بارے میں  جاننا زیادہ ضروری ہے، کیونکہ اول تو یہی عوام الناس کو زیادہ تر قرآن فہمی کی کوشش سے دور رکھتی ہیں اور دوسرے ان کا معاملہ سیدھا سیدھا سفیدوسیاہ والا نہیں  ہے اور ان کے حسن و قبح کو سمجھے بغیرہم قرآن کے مطالعے کے سلسلے میں  متوازن رویہ نہیں  اپنا سکتے۔یہ دیواریں  ہیں : ناظرہ، ثواب اور تقدس کے حوالے سے ہمارے تصورات۔

ناظرہ سے مراد ’دیکھنا‘ہے۔ اصطلاحاً قرآن کے معنی سمجھے بغیرمحض عربی عبارت پڑھنے کو ناظرہ کہتے ہیں۔ جب تک قرآن ان لوگوں  کے زیر مطالعہ رہا جنھیں  اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے کسی ترجمے کی ضرورت نہیں  تھی، دنیا ایک اصطلاح کے طور پر اس لفظ سے ناواقف تھی۔گو اصلاً ناظرہ قرآن کے الفاظ اور آیات کے ساتھ روشناس ہونے کا ایک ذریعہ اور اس سلسلے کا پہلا مرحلہ تھا، لیکن بدقسمتی سے غالباً یہی وہ پہلی دیوار ثابت ہوئی جو بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں  اور اس عظیم پیغام کے درمیان حائل ہوگئی۔ عربی زبان اور خاص طور پر قرآن کی عربی پڑھ لینے پہ قدرت رکھنا اور اس میں  مہارت حاصل کر لینا یقیناً نہایت قابل ستایش ہے۔ لیکن یہیں  رک جانااور اس مشق کواس عظیم سفر کی پہلی ہی نہیں  آخری منزل بھی مان لینا، قرآن کے ساتھ ہمارا وہ تعلق کبھی پیدا نہیں  ہونے دیتا جو اس الوہی پیغام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

قرآن ناظرہ کا مرحلہ دراصل ایک اجنبی زبان سے مانوسیت پیدا کرنے اور بعدازاں  قرآن کی تلاوت میں  روانی لانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔ غلط یہ ہوا کہ اسے قرآن پڑھنے کا متبادل سمجھ لیا گیا۔لوگوں  نے اتنا تو ضروری جانا کہ ان کے بچے قرآن کی تعلیم کا پہلا سبق حاصل کریں  اور اس طرح اس کی تلاوت کرنے کے قابل ہوسکیں، لیکن یہ بھول گئے کہ اس سے زیادہ ضروری اس کا پڑھنا، یعنی سمجھنا ہے تاکہ اس کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارسکیں۔ اسی پہلے سبق پہ اڑے رہنے، اس سے آگے نہ بڑھنے اور یہیں سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردینے کا نتیجہ باقی کی ساری زندگی تلاوت کی ایک ایسی مشق کی صورت میں  نکلتا ہے جس میں  قاری کے پلے کچھ نہیں  پڑتا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، کجا یہ کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلوں  اور انتخابات میں  اس مطالعے سے مدد حاصل کرے۔

قرآن ناظرہ کے ساتھ جڑا ہوا ثواب کا تصوروہ دوسری چیز ہے جسے ہم نے اپنے اور قرآن کے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل کر رکھا ہے۔ یہاں  یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ نہ تو ناظرہ قرآن کے پڑھنے میں  کوئی حرج ہے اور نہ ہی اس کلام کے الفاظ کی تلاوت سے ملنے والے ثواب سے کوئی انکار کرسکتا ہے، لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہی نیکی، اور نیکی کا یہ تصورہمارے لیے قرآن سے دوری کا سبب بن رہے ہیں۔ درحقیقت ثواب کمانے کا یہ لالچ ہم میں  سے بہت سوں  کو تلاوت سے آگے نہیں  بڑھنے دیتا اور ہم جب بھی قرآن پڑھنے بیٹھتے ہیں، یہ ہمیں  ترجمہ پڑھنے میں  وقت صرف کرنے سے روکتا ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ وقت عربی آیات کے پڑھنے میں لگائیں اور یوں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرسکیں۔اس کے برخلاف، نہایت ادب کے ساتھ راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے عربی کی اتنی بھی سدھ بدھ نہ ہو کہ وہ تلاوت کے دوران میں قرآن کی آیات سے معنی اخذ کرسکے، اگر زندگی میں  ایک بار بھی شعوری کوشش نہیں  کرتا کہ عربی زبان سیکھ کر یا کسی ترجمے کی مدد سے قرآن کا مفہوم جان سکے، تو عین ممکن ہے کہ ہر بار جب وہ محض عربی پڑھتا ہے اور اس کا مطلب جاننے کی کوشش سے اعراض کرتا ہے تو کوئی نیکی کمانے کے بجاے قیامت والے دن اپنی پوچھ گچھ کو ہی مشکل بنا رہا ہو۔

اس سلسلے میں  ایک عمومی رویہ یہ ہے کہ قرآن کے پیغام اور اوامرونواہی سے متعلق چونکہ ہمیں  پہلے سے ہی علم ہے۔ ہمارے والدین، اساتذہ، واعظین، علما اور خطیب ہمیں  ایمان کے بنیادی شرائط، ارکان، اور ضروری اصول و مبادی سے متعلق تقریباً سبھی کچھ تو بتا چکے ہیں، بلکہ بار بار بتاتے رہتے ہیں۔ توحید رسالت، آخرت پر کامل یقین، نماز، روزے کی پابندی، حج، زکوٰۃ کی ادائیگی اور سچائی، امانت داری اور ایفاے عہد پر عمل اور جھوٹ، چوری، زنا، سود وغیرہ سے بچنا۔ غرض سب اچھی بری باتیں  تو ہمیں  معلوم ہی ہیں۔ انبیا کے قصے بھی سب سن رکھے ہیں ، (بلکہ جتنا کچھ قرآن میں  بیان ہوئے ہیں، اس سے کہیں  زیادہ ہی سن رکھے ہیں)۔پھر قرآن میں  ایسی اور کیا بات ہوگی جس کے لیے ہم عربی پڑھنے کے ثواب کو داؤ پر لگا کر ترجمہ پڑھنے بیٹھ جائیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایسے بہت سے نیک نیت اور مخلص لوگ جو کسی نہ کسی صورت میں  دین کی تبلیغ سے وابستہ ہیں، وہ بھی قرآن مجید کو عملاً صرف ثواب کمانے ہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں  اور دعوت کے کام میں، جسے وہ خود دین کی محنت سے تعبیر کرتے ہیں  اور انبیا کے مشن کا تسلسل گردانتے ہیں، اس الوہی پیغام کے بجاے مختلف عبادات اور اعمال کے فضائل کی روایات کے سننے سنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں  کہ درحقیقت قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی محنت تھی اور اگر کوئی ایک پیغام ہمیں  اپنی تمام جدوجہد، قربانی اور تگ ودو کے نتیجے میں  لوگوں  تک پہنچانے کا موقع ملے تو وہ یہی ہوسکتا ہے، اور ہونا چاہیے کہ اللہ کے اس کلام کو جو قلب رسول پر ہمارے لیے اترا ہے، پڑھیں ؛ پڑھنا شروع کردیں ؛ زندگی بھر پڑھتے رہیں، کیونکہ اسے پڑھیں  گے، اور سمجھیں  گے تبھی اس کی ہدایات پر عمل کرسکیں  گے اور پھر دوسروں  کو اس سے جوڑنے کی کوشش کرپائیں  گے۔

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں  کہ اس مفروضے کی بنیاد پر، چاہے اس میں  کتنی ہی حقیقت کیوں  نہ ہو، کہ اس کتاب میں  جو کچھ کہا گیا ہے، ہمیں  سب معلوم ہے، کوئی شخص جو یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ واقعی اللہ کا کلام ہے، کیسے خود اپنی آنکھوں سے قرآن پڑھے بغیر، پڑھنے کی کوشش کیے بغیر ایک دن بھی گزار سکتا ہے۔ کجا یہ کہ ساری زندگی اس کتاب کی عبارت کو دیکھتے، اور سمجھے بغیر دہراتے رہنے میں  گزار دی جائے اور کبھی یہ خیال تک نہ آئے کہ آخر خود بھی تو جاننا چاہیے کہ میرے مالک نے مجھ سے کیا بات کی ہے۔ فرض کیجیے، آپ کو کسی بڑے ادارے کے مالک یا کسی سربراہ مملکت کی جانب سے ایک مراسلہ موصول ہوتا ہے۔ خط لانے والا ضروری ہدایات اور پیغام کا خلاصہ زبانی سمجھادیتا ہے۔ آپ کو بتا دیتا ہے کہ آپ کو خط بھیجنے والی شخصیت سے ملنا ہے اور ملاقات میں  چند ضروری سوالات ہوں  گے، جو آپ کے لیے کسی بڑی سزا یا کسی بہت بڑے انعام کی صورت میں  منتج ہوسکتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے کی کوشش سے پہلے آپ کوئی بھی اور کام کریں گے؟ اور اگر یہ خط کسی ایسی زبان میں ہے جو آپ نہیں سمجھتے تو مجھے یقین ہے کہ جب تک کسی زبان دان سے آپ اس کے ایک ایک لفظ کا ترجمہ نہیں سمجھ لیں گے، آپ کو چین نہیں آئے گا؛ ہوسکتا ہے کہ رات کو سو بھی نہ سکیں۔تو پھر اس سب سے بڑی ہستی کی طرف سے ملنے والے سب سے بڑے پیغام کے لیے ہی ایسی بے پروائی اور بے خوفی کیوں؟

ایک اور رکاوٹ تقدیس کے تصور کی وہ عملی جھلک ہے جو ہمارے رویے میں  نظر آتی ہے۔ قرآن دنیا اور مافیہا میں  سب سے زیادہ مقدس کتاب ہے، اس امر میں  کوئی شک نہیں، لیکن اس کی تعظیم کے لیے اختیار کیے گئے انداز ہی ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہوجائیں،یہ رویہ ناقابل فہم ہے۔ ہمارے گھروں  میں  قرآن مجید عام طورپرجز دان میں  لپیٹ کر ایسی اونچی جگہوں  پر رکھا جاتا ہے جو تقریباً ناقابل دسترس ہوتی ہیں۔اگر کبھی قرآن پڑھنے کاخیال آ بھی جائے تو یہ طبعی دوری اور بیچ کے مرحلوں  کا خیال سستی کو جذبے پر غالب آنے میں  مدد دیتا ہے۔ پہلے وضو کیجیے، پھر کسی کرسی یا صوفے پر کھڑے ہوکر قرآن پاک اٹھائیں، جزدان سے نکالیں، جزدان کی دھول مٹی جھاڑ کر اسے ادب سے تہ کر کے رکھیں  اور پھر تمیز سلیقے سے ترجیحاً قبلہ رو ہو کر بیٹھیں  اور پڑھیں۔ اس کے مقابلے میں  اپنی کسی نصابی کتا ب کو لے لیں یا ایسی کوئی کتاب جس سے آپ اپنے کام، بزنس یا کسی ایسے معاملے میں  رہنمائی حاصل کررہے ہوں  جو آپ کو درپیش ہے، یہ کتاب ہر وقت آپ کی رسائی میں  ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے بستر کی سائیڈ ٹیبل پر دھری رہتی ہو تاکہ جب آپ سب کاموں  سے فارغ ہوکر آرام کرنے لگیں  تو سکون کے ساتھ اسے پڑھ سکیں۔ہم قرآن کی بے توقیری یا بے ادبی کے بارے میں  سوچ بھی نہیں  سکتے، لیکن ضروری ہے کہ تقدیس اور تعظیم کے اظہار کے لیے ایسے انداز اختیار کیے جائیں  جو قرآن پاک تک ہماری رسائی کو آسان رہنے دیں  اور اس سلسلے میں  ارادہ شکن نہ ثابت ہوں۔

عوام الناس میں  پایاجانے والا یہ خیال بھی کہ قرآن کو وضو کے بغیر چھوا نہیں  جا سکتا جو قرآن ہی کی ایک آیت (الواقعہ ۵۶: ۷۹) کی تشریح سے اخذ کیا گیا ہے، ہمارے اور اس کتاب کے درمیان فاصلہ پیدا کرتا ہے، حالاں کہ سیاق و سباق کا لحاظ رکھا جائے تو آیت نمبر ۷۵ سے ۷۹ تک اللہ تعالیٰ ستاروں  کے غروب ہونے کے ٹھکانوں  یا مواقع کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ یہ ایک نہایت عزت اور تکریم والا قرآن ہے جو (اس کے ہاں ) ایک محفوظ کتاب میں  درج ہے اور اسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ یعنی شیاطین کی جانب سے اس میں  ملاوٹ کا کوئی امکان نہیں  ہے۔ اس سے ذرا آگے آیت نمبر ۸۱ پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ زیرنظرمضمون کا خلاصہ ہے جوہمیں  جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ’’کیا اس پیغام کو تم معمولی سمجھتے ہو، اس سے بے پروائی برتتے ہو؟‘‘ یعنی ایک ایسا کلام جو اللہ کے نزدیک انتہائی عزت والا ہے، جسے اس کے محافظ اور پاکیزہ فرشتے کسی بھی قسم کی آمیزش سے بچا ئے ہوئے لے کر آتے ہیں، جو ناپاک شیاطین کی دراندازی سے محفوظ ہے، تم اس سے مداہنت کا رویہ روا رکھتے ہو۔

آخر میں  ہم اپنے پڑھنے والوں  کی خدمت میں  ایک گزارش، اور اگر ہماری اس گزارش کو مان لیا جائے تو اس پر عمل کو آسان بنانے کے لیے کچھ تجاویز پیش کریں  گے۔

گزارش تو اتنی سی ہے کہ قرآن مجید کو تلاوت کے ساتھ ساتھ مطالعے کی کتاب بنائیے۔

اس مقصد کے لیے سب سے بہترین انداز تو یہ ہے کہ عربی کو ایک زبان کے طور پر سیکھا جائے، قرآن کی تاریخ اور آیا ت کے شان نزول سے واقفیت حاصل کی جائے، اورپھر قرآن کو ایسے پڑھا جائے کہ اس کے سمجھنے کے لیے کسی ترجمے یا تفسیر کی ضرورت نہ رہے، لیکن یہ لمبا سفر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی ملازمت، کاروبار یا دیگر مصروفیات کی وجہ سے اسے نہ اختیار کرسکیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اعتماد کریں۔ لوگوں  نے اس سفر میں  عمریں  لگائی ہیں۔قرآن فہمی کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے۔ علماے کرام نے انتہائی محنت اور دقت نظر سے کام لیتے ہوئے سادہ ترین لفظی ترجمے، سلیس معانی اور بامحاورہ ترجمانی سے لے کر بہت تفصیلی تشریحات اور تفاسیرلکھی ہیں۔ یقین کر لیجیے کہ کسی مترجم یا مفسر نے بد نیتی سے کام نہیں  لیا ہے۔ہمیں  بسااوقات یہ خوف بھی قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے روکتا ہے کہ نجانے کس مسلک اور کس مکتبۂ فکر کا نقطۂ نظر ہے، کہاں  ڈنڈی ماری گئی ہے، کون کون سے اختلافی مسائل ہیں، کہیں  ہدایت کے بجاے گم راہی نہ سمیٹ بیٹھیں۔یہ خوف دل سے نکال دیجیے۔اللہ سے دعا کیجیے کہ میں  تیرے کلام کو سمجھنے کی اپنی سی کوشش کا آغاز کرنے لگا ہوں، مجھے سمجھا دے، ہدایت عطا فرما اور گم راہی سے بچا لے۔ پھر اپنے دل و دماغ سے وہ تمام نظریات اور عقیدے جو پہلے سے وہاں  موجود ہیں، نکال کر احتیاط سے کہیں  سنبھال لیں ؛ ہر طرح کے تعصب کی عینک اتار کر پڑھنا شروع کریں۔ ہم تجویز کریں  گے کہ ابتدا کے لیے کسی بہت سادہ اور مختصر ترجمے کا انتخاب کریں۔ کہیں  کوئی سوال اٹھے، کوئی الجھن پیدا ہو تو بددل نہ ہوں، پڑھتے جائیں، قرآن آگے کہیں  خود اس کو حل کرے گا۔ اگر پہلی بار کے پڑھنے میں  نہیں  تو دوسری بار میں، اگر کسی ایک ترجمے میں  نہیں  تو کسی دوسرے ترجمے میں معاملہ صاف ہوجائے گا۔بہت کم ایسا ہوگا کہ آپ کو وضاحت کے لیے کسی اہل علم سے رجوع لانا پڑے۔ قرآن ایک دفعہ کا مطالعہ نہیں  ہے؛ یہ آپ کی زندگی بھر کی پڑھائی (life time study)ہے۔ اب جس جس نظریے اور عقیدے کے بارے میں قرآن اجازت دے، اسے اٹھا کر دوبارہ سے سرمایۂ دل و جاں  بنا لیجیے، جسے رد کردے، آپ بھی ہمت کر کے اسے ترک کردیں اور جس کے بارے میں  خاموش رہے، آپ بھی توقف اختیار کریں،  جب تک مطالعے کے اس سفر میں  معاملہ واضح نہ ہو جائے۔

اس طرح آپ اپنی زندگی میں  قرآن کے مطالعے کو روزانہ دس منٹ دیں یا ایک گھنٹہ یا پھر ہفتہ وار کچھ وقت مخصوص کریں، لیکن یہ خیال رکھیں کہ تسلسل اور باقاعدگی برقرار رہے۔ بغیر اندیشہ کیے، نیک نیتی اور خوش گمانی کے ساتھ ہر قسم کا تعصب اور جانب داری بالاے طاق رکھ کرپڑھتے جائیں۔ مختلف مکاتب فکر کے مترجمین اور مفسرین کے کیے ہوئے ترجمے اور تشریحات پڑھتے پڑھتے آپ کو احساس ہوگا کہ قرآن اپنے معانی آپ پر کھول رہا ہے، آپ کلام کے لب و لہجے سے شناسا ہورہے ہیں  اور اس قابل ہوتے جارہے ہیں  کہ سمجھ سکیں  کہ یہ عظیم ہدایت نامہ آپ کی نجی اور سماجی زندگی کے حوالے سے آپ سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔اور خاص طور پر روز آخرت جب بڑی حاضری ہو اوراگر آپ کا رب آپ سے پوچھ لے کہ میں  نے خاص تمھارے لیے جوپیغام بھیجا تھا، تم نے اسے پڑھابھی یا نہیں، تو آپ شرمندگی سے بچ سکیں۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B