عدت کا مطلب ہے: گننا۔قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال دو قسم کی خواتین کے لیے ہوا ہے۔ ایک مطلقہ[1] کے لیے اور دوسرا بیوہ [2] کے لیے۔طلاق یافتہ خاتون کی عدت تین حیض بتائی گئی ہے اور بیوہ کی عدت چار مہینے اور دس دن مقرر کیے گئے ہیں، یعنی طلاق یافتہ خاتون تین حیض مکمل ہونے تک شادی نہیں کرسکتی اور بیوہ چار مہینے دس دن تک شادی نہیں کرسکتی۔
عدت کا صرف اور صرف مطلب یہ ہوتا ہے کہ مطلقہ اور بیوہ کا اگر حمل ہے تو وہ واضح ہوجائے اور اگر ان خواتین کے پیٹ میں بچہ ہے تو اس کی نسبت واضح طریقے سے معلوم ہوجائے۔
بیوہ کی عدت مطلقہ سے زیادہ اس لیے ہے کہ طلاق دینے کا طریقہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ خاتون جسے طلاق دینا مقصود ہو، اسے حیض کے گزرنے کے بعد جو پاکیزگی کے ان ایام میں طلاق دی جائے جن میں میاں بیوی کا ملاپ نہ ہوا ہو۔جب کہ یہ واضح ہوتا ہے کہ ان عدت کے ایام میں حمل نہیں ہوسکتا،جب کہ بیوہ کے شوہرکا انتقال ہوتا ہے اور ان میں دنوں کی گنتی متعین نہیں ہوتی۔ چنانچہ حمل واضح کرنے کے لیےاللہ تعالیٰ نے مدت کو بڑھا دیا ہے۔
سورۂ بقرہ میں آیت ہے:
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ. (۲: ۲۲۸)
’’اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار کرائیں۔‘‘
جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ اپنے آپ کو شادی کرنے سے تین حیض تک روکے رکھیں تاکہ مطلقہ کے بارے میں پوری طرح واضح ہوجائے کہ اس کے پیٹ میں بچہ ہے۔چاہے خاتون آئسہ مدخولہ ہو یا ایسی خاتون ہو جسے ابھی حیض نہ آیا ہو یا پھر حیض آنے بند ہو چکے ہوں۔ ہرطرح کی صورت حال میں اس عرصے میں حمل ہونے یا نہ ہونے کا امکان پوری طرح سے واضح ہوجاتا ہے۔اور اگر حمل واضح ہوجائے تو پھر مطلقہ کی عدت وضع حمل ہوگی، یعنی بچے کی پیدایش تک عدت ہو گی، چاہے بچہ ایک مہینے کے بعد پیدا ہویا طلاق ملنے کے نو مہینے کے بعد پیدا ہو۔اصل مقصد وضع حمل ہے ۔ بچے کی پیدایش کے بعد خاتون اپنے بارے میں فیصلہ لینے کے لیے آزاد ہے۔
لیکن اگر نکاح ہوگیا ہو اور میاں بیوی کا تعلق پیدا نہ ہوا ہو تو طلاق کی صورت میں کوئی عدت نہیں ہوگی، کیونکہ مطلقہ کے حمل کا کوئی امکان نہیں ہوگا، جس کے لیے عدت کی جائے۔
سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ.(۳۳: ۴۹)
’’ایمان والو، جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرتے ہو۔‘‘
عدت کے دوران میں اللہ تعالیٰ نے چند احکامات دیے ہیں، جن کا خیال میاں بیوی، دونوں کو رکھنا چاہیے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں بیان کیا ہے:
۱۔ مطلقہ کو عدت کے دوران میں اپنے شوہر کے گھر میں رہنا چاہیے اور شوہر کو بھی اپنی مطلقہ کو اپنے گھر میں رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، شاید ان کے ایک دوسرے کے قریب رہنے سے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان صلح کےامکانات پیدا کردیں اور وہ پھر سے اکٹھے ہوجائیں۔ایک ٹوٹتا ہوا گھر بچ جائے اور ان کے بچے در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں۔ہمارے ہاں عام طور پر اس کے الٹ ہوتا ہے۔ جس خاتون کو طلاق ملتی ہے، وہ اب شوہر کے گھر میں ٹھیرنا اپنی خودداری اورانا کے منافی سمجھتی ہے اور اس کے گھر والے بھی اپنی بچی کو وہاں چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔اور شوہر تو پہلے ہی الزامات کا پلندہ اپنی مطقہ پر لگا چکا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دونوں خیر و برکت سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں۔
۲۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کی بیوی اس کے گھر رہ کر عدت گزارنا چاہتی ہے تو وہ اس کی رہایش اور نان و نفقے کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کرے اور اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دے۔
۳۔ مطلقہ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے کہ ان تین مہینوں کے دوران میں اس پر اپنا حمل واضح ہوگیا ہے تو محض جان چھڑانے کے لیےاسے اپنے شوہر، یعنی بچے کے باپ اور سسرال والوں سے نہ چھپائے اور پوری صورت حال ان پر واضح کرے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِيْ٘ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَبُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْ٘ا اِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ.(۲: ۲۲۸)
’’اور (یہ دوسری صورت پیدا ہوجائے تو) جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار کرائیں۔ اور اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو اُن کے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ اللہ نے اُن کے پیٹ میں پیدا کیا ہے، اُسے چھپائیں۔ اور اُن کے شوہر اگر معاملات کی اصلاح چاہیں تو اِس (عدت کے) دوران میں زیادہ حق دار ہیں کہ اُنھیں لوٹا لیں اور (یہ اِس لیے ہے کہ اِس میں تو شبہ نہیں کہ) اِن عورتوں کے لیے بھی اُسی طرح حقوق ہیں، جس طرح دستور کے مطابق اُن پر (شوہروں کے) حقوق ہیں، لیکن مردوں کے لیے (شوہر کی حیثیت سے) اُن پر ایک درجہ ترجیح کا ہے۔ (یہ اللہ کا حکم ہے) اور اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
عدت گزارنے کے بعد خاتون آزاد ہے، وہ جہاں چاہے اپنی شادی کرے ۔سابقہ شوہر کو اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
جس خاتون کا میاں فوت ہوجائے، اسے بیوہ کہتے ہیں اور اس کی عدت اللہ تعالیٰ نے چا ر مہینے اور دس دن مقرر کی ہے۔بعض اوقات لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوہ کے شوہر کے مرنے کی وجہ سے عدت میں سوگ بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اس کی مدت چار مہینے دس دن مقرر کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں سوگ منانے کا عنصر نہیں، بلکہ طلاق کی عدت کم ہونے اور بیوہ کی عدت زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا یہ طریقہ بتایا کہ طلاق حیض ختم ہونے کے بعد پاکیزگی کے ان ایام میں دی جائے جن میں میاں بیوی کا تعلق قائم نہ ہوا ہو۔ اور اس کے بعد خاتون تین حیض تک شادی نہیں کرے گی۔اور ان تین حیض کے عرصے میں اگر شوہر اسے نہیں روکتا تو وہ آزاد ہے ۔ وہ جس سے چاہے، شادی کرسکتی ہے، جب کہ بیوہ کے مرنے کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کرنا ممکن نہیں، اس لیے اس کی عدت کے دنوں کو بڑھا کر چار مہینے دس دن کردیا گیا۔شوہر کی وفات کے بعد اس کی بیوہ اگرچہ افسردہ ہوتی ہے، لیکن عدت کا افسردگی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس کا مطلب بھی حمل کا واضح ہونا ہے تاکہ بچے کی نسبت اپنے حقیقی والد سے ہوسکے۔بچے کے خاندان ،نسل اور وراثت کا صحیح تعین ہوسکے۔اورچار مہینے دس دن تک وہ شادی نہیں کرے گی۔ عدت گزرنے کے بعد وہ آزاد ہے۔وہ جہاں چاہے، شادی کرے اور شوہر کا خاندان اور اس کے میکے والے اس کی شادی کی مخالفت نہ کریں۔
بیوہ کی عدت کے دوران میں اس پر نام نہاد پابندیاں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْ٘ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ. وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا عَرَّضْتُمْ بِهٖ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَآءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِيْ٘ اَنْفُسِكُمْ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْهُنَّ سِرًّا اِلَّا٘ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًاﵾ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰي يَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗ وَاعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِيْ٘ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْهُ وَاعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ.(البقرہ ۲: ۲۳۴ - ۲۳۵)
’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں تو وہ بھی اپنے آپ کو چار مہینے دس دن انتظار کرائیں۔ پھر جب اُن کی عدت پوری ہو جائے تو اپنے حق میں دستور کے مطابق جو کچھ وہ کریں ، اُس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے خوب جانتا ہے۔ اور تمھارے لیے اِس میں بھی کوئی گناہ نہیں جو تم اشارے کنایے میں نکاح کا پیغام اُن عورتوں کو دو یا اُس کو اپنے دل میں چھپائے رکھو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اُن سے یہ بات تو کرو گے ہی۔ سو کرو، لیکن (اِس میں) کوئی وعدہ اُن سے چھپ کر نہ کرنا۔ ہاں، دستور کے مطابق کوئی بات، البتہ کہہ سکتے ہو۔ اورنکاح کی گرہ اُس وقت تک نہ باندھو، جب تک قانون اپنی مدت پوری نہ کر لے۔ اور جان رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے، اِس لیے اُس سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں بیوہ کی زندگی کو اجیرن کردیا جاتا ہے۔
۱۔ بیوہ کوکہا جاتا ہے کہ اگر وہ عدت کے دوران میں گھر سے باہر قدم رکھے گی تواس کے شوہر کو عذاب دیا جائے گا۔ یہ بالکل جاہلانہ با ت ہے یہ بات وہی لوگ ہی کہہ سکتے ہیں جو قرآن مجید کی باتوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔
۲۔ بیوہ کو بڑی سخت پابندیوں میں رہتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ عدت کے دوران میں کسی بھی کام کے لیے گھر سے نکلی تو جب وہ اپنے شوہر کی قبرپر اس کے لیے دعا کرنے جائے گی تو اسے اپنے شوہر کی قبر دکھائی نہیں دے گی، جو کہ سراسر غلط بات ہے ۔اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کل تو وفات کے بعد خاتون اگر ملازمت کرتی ہے تو اسے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی ملازمت پر جانا انتہائی ضروری ہے اور بھی کئیformalities کو پورا کرنے لیے گھر سے نکلنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ہاں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ حمل کے واضح ہونے سے پہلے کسی ایسی جگہ پر اکیلی نہ جائے جہاں اس کے بچے کی نسبت پر الزام لگایا جا سکے۔
ہمارے ایک بہت ہی قریبی عزیز وفات پا گئے تو ان کی بیوہ نہ صرف یہ کہ کسی کے سامنے نہیں آتی تھیں، بلکہ اگر بیرون ملک سے ان کے کسی عزیز کا تعزیت کرنے کے لیے فون آتا تو وہ اس سے فون پر بھی بات نہیں کرتی تھیں تا کہ کوئی غیر محرم ان کی آواز نہ سن لے ۔یہ بالکل غیر ضروری پابندیاں ہیں اور ان کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں چاہتا ہے، مشکلات نہیں۔ ہمارے ہاں عدت کی غیر ضروری پابندیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بزرگ کافی عرصہ ہندوؤں کے ساتھ رہے۔ اور ان کے ہاں بیوہ کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا تھا۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بیوہ کو منحوس سمجھا جاتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کسی لڑکی کی شادی کے موقع پراگر کوئی بیوہ اس کو پیار کرنے لگتی ہے یا اس کے ہاتھوں پر منہدی لگانے کے لیے آگے بڑھنے لگتی ہے تو اس کو روک دیا جاتا ہے۔
شوہر کی وفات کے فوراً بعد اس کی چوڑیوں کو جو اس نے پہنی ہوتی ہیں، فريضۂ منصبی سمجھتے ہوئے توڑ دیا جاتا تھا۔اس بے چاری پر پہلے ہی آفت ٹوٹ پڑی ہوتی ہے مزید لوگوں کی زیادتیاں اسے ہوش وحواس میں نہیں رہنے دیتیں۔
ہندوستان میں بیوہ تا عمر سفید ساڑھی پہننے پر مجبور ہوتی ہے اور ظلم کی انتہا یہ کہ کافی صدیوں تک بیوہ کے سر کے بال مونڈھ دیے جاتے تھے تاکہ وہ کسی کے دل کو نہ بھائے۔ اسے کھانے پینے کو اتنا کم اور سادہ دیا جاتا اور زمین پر الگ تھلگ کمرے میں چارپائی پر سلایا جاتا اور بہت عرصے تک، بلکہ بھارت کے بعض علاقوں میں اب بھی اسے شوہر کی چتا میں دلہن بنا کر ستی کردیا جاتا ہے ۔یہ تو انگریزوں کی مہربانی ہے کہ انھوں بہت ساری بے ہودہ رسموں کو بھارت میں ختم کیا، لیکن ہم ابھی بھی ان کی بعض رسموں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ہم میں سے بہت سارے مسلمانوں کو پتا نہیں کہ عدت کا مقصد کیا ہے، اندھا دھند ہم دوسروں کی نقل میں بگ ٹٹ بھاگتے چلے جاتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بیوہ خاتون اپنے سسرال میں عدت گزار رہی ہے تو اسے سسرال کے ماحول میں بننے سنورنے سے احتراز کرنا چاہیے، لیکن اس بات کا تعلق سسرال والوں کے جذبات کا احترام کرنا ہے۔یہ بات عدت کے شرائط میں سے نہیں۔عدت کا اصل مقصد، جیسا کہ ہم بار بار کہہ رہے ہیں، حمل کا واضح ہونا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ (۲: ۲۴۰) میں بیوہ کے حق میں بہت زبردست احکام دیے ہیں۔اس بات کی وصیت ہر شوہر کو اپنی بیوی کے بارے میں دینی چاہیے۔ یہ وصیت اس میراث کے علاوہ ہے جو بیوی کو شوہرکی طرف سے ملتی ہے۔ہمارا دین کتنا متوازن اور خوب صورت دین ہے۔ اس نے تو یہاں بیوہ کے حق میں کہا ہے کہ اگر بیوہ کی عدت کے دوران میں کوئی اسے شادی کا پیغام دینا چاہے تو اشارے کنایے میں پیغام دے سکتا ہے، لیکن ان کا نکاح تو عدت گزرنے کے بعد ہی ہوگا۔
کیا دنیا میں کوئی ایسا مذہب ہے جس کے ایک ایک حکم میں گہرا فلسفہ اور گہری منطق پائی جاتی ہو۔
اور اسی حکمت کے تحت اس نے مطلقہ اور بیوہ کی عدت مقرر کی ہے تاکہ حمل واضح ہوسکے، اس کے علاوہ عدت کی کوئی اور وجہ نہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
۱۔ جسے طلاق دے دی گئی ہو۔
۲۔ جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو۔