[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
بظاہر ہندو مذہب کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ اس میں نبوت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو عوام اور اہل علم بھی تصور نبوت سے واقف نہیں ہیں۔ ان کے ہاں دو تصورات کی زیادہ شہرت ہے: ایک ’رشی‘ کا تصور اور دوسرا ’اوتار ‘ کا تصور۔’رشی ‘ کا تصور اصولی طور پر ایک صوفیانہ تصور ہے، جس کے مطابق ایک شخص دھیان اور تپسیا کے ذریعے سے اعلیٰ مراتب کے حصول کے بعد حقیقت سے متعارف ہو جاتا ہے:
A general term for a ‘seer’ or ‘sage’, the word ṛṣi is often applied in the earlier literature of Hinduism to one of a set of important Vedic visionaries who literally saw with a special psychic perception the sacred mantras upon which they meditated and finally communicated in the form of the Veda۔ A traditional Sanskrit verse identifies a ṛṣi as a celibate performer of penance who controls his senses, is able to bless and curse, and is firmly devoted to telling the truth.[1]
”ہندو مت کے ابتدائی دور کے ادب میں ایک عام اصطلاح ’’رشی‘‘ کا اطلاق ایک ایسے ’’صاحب کشف‘‘ یا ’’حکیم‘‘ پر ہوتا ہے جو وید سے تعلق رکھنے والے اہل نظر افراد کی قبیل میں شمار ہوتے ہیں۔ خاص روحانی بصارت کے ذریعے سے انھوں نے ان مقدس منتروں کا مشاہدہ کیا جن پر وہ دھیان کرتے تھے اور بالآخر انھیں وید کی صورت میں بیان کیا۔ ایک سنسکرت شعر کے مطابق، رشی وہ ہوتا ہے جو برہمچاری ہو، تپسیا کرتا ہو، اپنے حواس کو قابو میں رکھتا ہو، برکت اور لعنت دینے کی طاقت رکھتا ہو اور سچ بولنے میں پختہ ہو۔‘‘
’اوتار ‘ کی معروف تفہیم کے مطابق جب جب زمین پر دھرم (دین) کا تنزل ہوتا ہے اور ادھرم (بے دینی) کا عروج ہوتا ہے، تب تب نیک لوگوں کو بچانے، دُشٹ(برے) لوگوں کے خاتمے اور دھرم کو قائم رکھنے کے لیے ذات باری کا زمین پر ظہور ہوتا ہے[2]۔ اوتار کے تصور کا جائزہ ہم آگے کے ابواب میں لیں گے۔
ہندو مذہبی متون کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین کے جو حقائق صرف ایک نبی کے ذریعے سے معلوم ہو سکتے ہیں، مثلاً جنت و دوزخ کا تصور اور ان کے داخلی احوال، فرشتوں کا تصور، قیامت کی نشانیاں وغیرہ، وہ ہندوؤں کے ہاں اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ موجود ہیں۔اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اہل ہنود کس نبی کے پیروکار ہیں یا ان پر کس نبی کی تعلیمات کے اثرات ہیں؟
ہندو مذہبی کتابوں کے مطالعہ کے دوران میں ایک شخصیت کچھ جانی پہچانی محسوس ہوتی ہے۔ اس شخصیت کا نام ہے ’منو‘ (Manu) یا زیادہ متعین طور پر ’منو ویوسوت‘ (Manu Vaivasvat)۔ ان کے بارے میں ایک کہانی ملتی ہے، جس میں لکھنے والوں کا تخیل بھی شامل ہوا ہے۔ ویدوں میں کئی مقامات پر لفظ ’منو‘ ملتا ہے، لیکن ان سے متعلق کوئی تفصیلی واقعہ ان میں بیان نہیں ہوا۔ صرف چند اشارات موجود ہیں۔ یہ شخصیت ابراہیمی روایت کے اولو العزم پیغمبر سیدنا نوح علیہ السلام سے مشابہت رکھتی ہے۔
سب سے پہلے ایک مفصل کہانی کا تذکرہ ’’شتپتھ براہمن‘‘ (Shatpath Brahman) نامی کتاب میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ’’شکل یجروید‘‘ (Shukla Yajurveda) کی مستند شرح سمجھی جاتی ہے، جس میں اصلاً ’’یجروید‘‘ میں موجود ’کرم کانڈ‘، یعنی تعبدی امور خاص طور پر مختلف یگیوں[3] کی تفصیلات ہیں۔ بعض داخلی شواہد کی بنیاد پر اہل علم کی بہت محتاط آرا ہیں کہ اس کی تصنیف کا زمانہ ۱۲۰۰ قبل مسیح سے پہلے کا نہیں ہو سکتا۔ شتپتھ براہمن کانڈ۱، ادھیائے ۸، براہمن ۱ ،میں منو کی کہانی بیان ہوئی ہے۔
”صبح سویرے جب منو کے سامنے وضو کے لیے پانی لایا گیا، تو ایک مچھلی ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ مچھلی نے ان سے بات کی اور کہا کہ میری حفاظت کریں اور میں آپ کی حفاظت کروں گی۔ منو نے پوچھا کہ وہ کس سے ان کے حفاظت کرے گی؟ مچھلی نے جواب دیا: ایک بڑا طوفان ان تمام مخلوقات کو بہا لے جائے گا۔ میں تمھیں اس سے بچا لوں گی۔ منو نے پوچھا کہ سیلاب سے ان کی حفاظت کس طرح ہوگی؟ مچھلی نے کہا کہ جب تک ایک مچھلی چھوٹی ہوتی ہے تب تک انھیں بڑی مچھلیوں سے خطرہ رہتا ہے۔ اس لیے جب تک میں چھوٹی ہوں تب تک مجھے ایک چھوٹے کھڈ میں رکھیے۔ پھر جب میں بڑی ہو جاؤں تو مجھے سمندر میں لے جائیں۔ جب وہ مچھلی بڑی ہو گئی تو اس نے منو سے کہا کہ فلاں سال میں ایک طوفان آئے گا۔ اس لیے آپ ایک کشتی تعمیر کریں اور جب سیلاب کا پانی چڑھنے لگے تو آپ کشتی میں سوار ہو جائیں۔ میں آپ کو طوفان سے نجات دوں گی۔ منو نے اس مچھلی کی حفاظت اسی طرح کی اور بالآخر اسے سمندر میں لے گیا۔ پھر مچھلی کی ہدایت کے مطابق منو نے کشتی تعمیر کی۔ جب طوفان آیا تو منو کشتی میں سوار ہوئے۔ انھوں نے مچھلی کے سینگ کے ساتھ کشتی کو باندھ دیا اور کشتی شمالی پہاڑ کی جانب بڑھی۔ اس کے بعد مچھلی نے ان سے کہا کہ میں نے تمھیں طوفان سے بچا لیا ہے، تو اب تم کشتی کو ایک درخت کے ساتھ باندھ لو۔ پانی کی سطح کم ہونے پر منو شمالی پہاڑ پر کشتی سے اترے۔ اب طوفان نے تمام مخلوقات کو غرق کر دیا تھا اور منو تنہا رہ گئے۔ اس نے اولاد کی چاہت میں پوجا اور تپسیا کی۔ اس وقت پاک یگیہ[4] بھی کیا اور گھی، دہی، مٹھی بھی پانیوں میں چڑھائے۔ تب ایک سال میں ایک عورت پیدا ہوئی۔ منو نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا: منو کی لڑکی۔ منو نے پوچھا کہ تو میری لڑکی کیسے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ تو نے پانیوں میں جو گھی،مٹھی چڑھایا، اسی سے تو نے مجھے پیدا کیا۔ اب یگیہ میں میرا استعمال کر تاکہ تو بہت سے جانوروں اور اولاد والا ہوگا۔ جو بھی تو میرے ذریعے سے مانگے گا وہ سب تجھ کو ملے گا۔ اب منو اس کے ذریعے سے پوجا اور تپسیا کرتا رہا۔ اس کے ذریعے سے اس مخلوق کو پیدا کیا، جو منو کی اولاد ہے۔“
اس کہانی کے مطابق:
۱۔ منو انسانوں کی ایک قدیم نسل کے فرد تھے اور یہ نسل طوفان کے ذریعے سے صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی۔ کہانی کے مطابق منو شاید اپنے زمانے کے ایک غیر معمولی انسان تھے، جسے اس بربادی سے بچانے کے لیے منتخب کیا گیا۔
۲۔ ایک مچھلی کو ان کی نجات کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور دوسرے صحیفوں کی بنیاد پر بنے ہوئے ہندو عقیدے کے مطابق یہ مچھلی ذات باری کا اوتار تھی، جسے ہندو دیومالا میں ’متسیہ اوتار‘ (Matsya Avatar) کہتے ہیں؛ ’متسیہ‘ کے معنی مچھلی کے ہیں۔ یہاں اگر قران مجید کی روشنی میں ہم مچھلی کے اس کردار کو دیکھیں تو خدا نے اسے اپنا آلۂ کار بنا کر کشتی کو ٹھکانے پر پہنچا دیا۔
۳۔ صرف منو کو طوفان سے بچایا گیا۔ ’’شتپتھ براہمن‘‘ میں دوسرے لوگوں کا ان کے ہم راہ کشتی پر سوار ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
۴۔ یہاں پر کشتی سے اترنے کے بعد منو کا پوجا اور یگیہ کرنے کا بیان ہے۔ یہ بیان بائیبل کی کتاب پیدایش کے ساتھ کچھ مطابقت رکھتا ہے۔ بائیبل میں ہے:
”پھر اس کے بعد نوح نے خدا وند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور پاک و حلال چند جانوروں اور پرندوں کو لے لیا اور اُن کو قربان گاہ پر لے جا کر قربان کر دیا۔ ان قربانیوں کی خوش بو خدا وند کو بہت پسند آئی۔“ (پیدایش۸: ۲۰-۲۱ )
۵۔ ’’شتپتھ براہمن‘‘ کی کہانی میں منو کی طرف ایک معجزاتی لڑکی کو بھی منسوب کیا گیا ہے، جس کے ذریعے سے مخلوقات کی دوبارہ پیدایش ممکن ہوئی[5]۔ یہ بات بائیبل اور قران، دونوں سے مختلف ہے۔
’’مہابھارت‘‘ کے وَن پرو (Van Parv) جسے آرَنْيک پرو (Aranyak Parv) بھی کہتے ہیں، میں یہی داستان تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ یہاں پر پورا اقتباس نقل کرنا موزوں نہ ہوگا، اس لیے ہم صرف ان نکات کا تذکرہ کریں گے جو ’’شتپتھ براہمن‘‘ کی داستان سے مختلف ہیں یا اضافی تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ اس روایت کے مطابق:
۱۔ مچھلی نے منو سے کہا کہ عالم کی تطہیر[6] کا وقت آیا ہے (مہابھارت، آرنیک پرو، ادھیائے۱۸۵، اشلوک ۲۷)۔
۲۔ ’’شتپتھ براہمن‘‘ کی روایت کے خلاف مچھلی نے منو کو ہدایت کی کہ وہ کشتی میں ’سَپْت رشیوں‘[7] کے ساتھ خود بھی سوار ہوں (ایضاً، اشلوک ۲۹)۔
۳۔ منو سے کہا گیا کہ طوفان کی متوقع تباہی کے پیش نظر وہ تمام عالم کی چیزوں کے بیجوں کو حفاظت کے ساتھ ترتیب وار کشتی میں رکھ لیں (ایضاً، اشلوک ۳۰)۔
۴۔ طوفان کے بعد جس پہاڑ پر کشتی اتری اور جس کے ساتھ باندھ دی گئی، اسے ’ہِم وَت‘ کہا گیا ہے اور چوٹی کا نام ’ناؤبندھن‘ بتایا گیا ہے (ایضاً، اشلوک ۴۷) ۔
۵۔ تب اس مچھلی نے وہاں موجود منو اور سات رشیوں سے کہا کہ مجھے ہی پرجاپَتی کہتے ہیں اور میرا ہی نام برہما ہے۔[8] میرا پار کوئی نہیں پا سکا۔ میں نے مچھلی کی صورت اختیار کر کے آپ لوگوں کو اس آفت سے چھڑایا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، ویدوں میں منو سے متعلق کوئی تفصیلی واقعہ بیان نہیں ہوا ہے، صرف اشارات موجود ہیں۔ ذیل میں چند منتر پیش خدمت ہیں:
या वो भेषजा मरुतः शुचीनि या शन्तमा वर्षणो या मयोभु |
यानि मनुरव्र्णीता पिता नस्ता शं च योश्चरुद्रस्य वश्मि ||
’’مروتو، تمھاری جو پاکیزہ جڑی بوٹیاں ہیں، اور اے طاقت ور مروتو، جو شفا بخشنے والی اور جو راحت دینے والی دوائیاں ہیں، جن دوائیوں کو ہمارے پتا منو نے قبول کیا تھا، ان رودر کے شفا بخش اور امراض کو دور کرنے والی دوائیوں کو میں چاہتا ہوں۔‘‘ (رگ وید منڈل ۲، سوکت ۳۳، منتر ۱۳؛ ہندی ترجمہ از پنڈت دامودر ساتولیکر)
یہاں غالباً ان شفا بخش جڑی بوٹیوں کی جانب اشارہ ہے جن کے بیجوں کو منو نے کشتی میں محفوظ کر لیا تھا اور جن کا تذکرہ بعد میں مہابھارت کی کہانی میں کیا گیا ہو۔
नस्त्राध्वं ते.अवत त उ नो अधि वोचत |
मा नः पथः पित्र्यान मानवादधि दूरं नैष्ट परावतः ||
’’ہے دیوو، ہمیں تم بچاؤ، ہماری حفاظت کرو، ہمیں ہمیشہ نصیحت کرو، اور ہمارا پالن کرنے والا جو باعث خیر راستہ ہے، ہمیں اس سے دور گم راہی کی اور رغبت نہ دو۔‘‘ (رگ وید منڈل ۸، سوکت ۳۰، منتر ۳؛ ہندی ترجمہ از پنڈت دامودر ساتولیکر)
اس منتر کی اصل سنسکرت عبارت میں ’’پَتھ پِتریات مانوات‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں پنڈت ساتولیکر نے اس کا ترجمہ ’’ہمارا پالن کرنے والا باعث خیر راستہ‘‘ کیا ہے۔ البتہ ویدوں کے مشہور مفسر آچاریہ ساین (Sayana) نے منتر کے اس فقرے پر لکھا ہے: ’’پتا منو سے آئے ہوئے راستے سے‘‘۔ اور لکھا ہے ’’سَرویشام پِتا‘‘، جو سب کے پدر ہیں۔ لفظ ’’دورم‘‘، یعنی ’’دور کا‘‘۔ اس پر لکھتے ہیں کہ ’’پتا منو نے ایک دور راستے کا سفر کیا۔ اس راستے سے مختلف راستے کی اور ہماری رہنمائی نہ کرو‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اس راستے کی ہدایت کرو جو پرہیزگاری، اگنی ہوتر کی قربانی اور دیگر دینی فرائض کا راستہ ہے‘‘۔
नि तवामग्ने मनुर्दधे जयोतिर्जनाय शश्वते |
दीदेथ कण्व रतजात उक्षितो यं नमस्यन्ति कर्ष्टयः ||
’’اے اگنی، جس کو سب انسان نمن کرتے ہیں، ایسے روشنی نما تجھ کو ازل سے انسانوں کے فائدے کے لیے منو نے قائم کیا۔ یگیہ میں ظاہر ہو کر اور یگیہ میں سیر ہو کر تونے کنو کو شہرت دی۔‘‘ (رگ وید منڈل ۱، سوکت ۳۶، منتر ۱۹؛ ہندی ترجمہ از پنڈت دامودر ساتولیکر)
तवमग्ने वसून्रिह रुद्रानादित्यानुत |
यजा सवध्वरं जनं मनुजातं घर्तप्रुषम ||
’’اے اگنی، تو یہاں وَسُوؤں، رُدروں اور آدِتیوں کے اطمینان کے لیے یگیہ کر، اور بہترین یگیہ کرنے والے اور گھی کی آہوتی دینے والے منو سے پیدا ہوئے انسانوں کے اطمینان کے لیے بھی یگیہ کر۔ ‘‘(رگ وید منڈل ۱، سوکت ۴۵، منتر ۱؛ ہندی ترجمہ از پنڈت دامودر ساتولیکر)
ویدوں میں سے صرف چند منتروں کا حوالہ ہم نے یہاں دیا ہے، وگرنہ منو کا تذکرہ منتروں کی ایک کثیر تعداد میں ہے، لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکاہے کہ طوفان سے متعلق تفصیلی داستان ان میں موجود نہیں ہے۔
ویدوں، برہمنوں اور اپنشدوں کے بالمقابل ہندو عوام و خواص میں آج کل ’’بھگود گیتا‘‘ زیادہ مقبول ہے۔ ہندو روایت کے مطابق مہابھارت کی جنگ کے پس منظر میں شری کرشن (ان کے عقیدے کے مطابق ذات باری) کا ارجُن کو دیا گیا علم ہے،جسے ’’گیتا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’گیتا‘‘ کا چوتھا باب اس طرح شروع ہوتا ہے:
श्रीभगवानुवाच
इमं विवस्वते योगं प्रोक्तवानहमव्ययम् ।
विवस्वान्मनवे प्राह मनुरिक्ष्वाकवेऽब्रवीत् ॥
’’شری بھگوان نے کہا: یہ لافانی فلسفہ میں نے وِوسوان کو سکھایا۔ انھوں نے منو کو اور منو نے اِکشواکو کو سکھایا۔‘‘ (اشلوک ۱؛ اردو ترجمہ از حسن الدین احمد؛ ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، ۱۹۹۷ء، نئی دہلی)
ان حوالہ جات سے یہ بات متبادر ہوتی ہے کہ اہل ہند وِوسوان کے بیٹے منو، (یعنی منو ويوسوت) کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کی کہانی سیدنا نوح علیہ السلام کی کہانی کے مماثل ہے، گو کہ تفصیلات میں کچھ اختلاف بھی ہے۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ خدا کے ایک جلیل القدر نبی سے اہل ہند واقف ہیں، چاہے انھیں ان کے نبی ہونے کی حیثیت کا علم نہ ہو۔ ’’مہابھارت‘‘ کی کہانی کے مطابق جس مچھلی نے منو اور ان کے ساتھ سات رشیوں کو طوفان سے بچایا، اس نے بالآخر اپنے آپ کو برہما (ذات باری) کا جسدی ظہور قرار دیا۔ اسی طرح کے بیانات سے ہندو مذہب میں ’اوتار‘ کا تصور پیدا ہوا ہے، جس کا جائزہ ہم اگلے حصے میں لیں گے اور دیکھیں گے کہ اس تصور کا نبوت کے تصور کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے، نیز قرآن مجید کی روشنی میں اس تصور کی کیا توجیہ ممکن ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔John Cush, Catherine Robinson, and Michael York, Encyclopedia of Hinduism (London: Routledge, 2008), 694.
[2]۔ بھگود گیتا، ادھیائے ۴، اشلوک ۷-۸ کی معروف تفہیم۔
[3]۔Yajna
[4]۔Pakayajna (Sanskrit: पाकयज्ञ, romanized: Pāka-yajñās).
یہ ایک ہندو رسم ہے۔ یہ یگیہ کی ایک قسم ہے جو ویدک قربانیوں سے متعلق ہے، جس میں پکائے ہوئے کھانے کی قربانی پیش کی جاتی ہے، اور اسے ایک گھرانے کے سربراہ کے لیے ایک لازمی رسم سمجھا جاتا ہے۔
[5]۔ یہاں پر اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ ہندو مذہبی کتب میں تمثیلات کا استعمال بکثرت ملتا ہے اور اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ ان تمثیلات کو حقیقت پر محمول کر بیٹھے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ یہ ایسے ہی ہے، جیسے احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی اور جب اس سے فراغت ہوئی تو رحم نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کی جگہ ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے (بخاری، رقم ۵۹۸۶)۔ یا یہ حدیث کہ قیامت کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی (بخاری، رقم ۴۷۳۰)۔
[6] ۔یہاں سنسکرت لفظ (प्रक्षालन) ہے، جس کا اصل مطلب ہے:کسی چیز کو دھونا ۔
[7] ۔سپت رشی: یعنی سات رشی۔ ہندو روایت کے مطابق ۔
[8] ۔یہ نکتہ اہم ہے، کیونکہ بتدریج اوتار کے تصور میں ارتقا ہوتا رہا، یہاں تک کہ اس مچھلی کو برہما کے بجاے وشنو کا ظہور تسلیم کیا گیا۔