[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت عمرو بن ابو سرح کے دادا کا نام ربیعہ بن ہلال تھا۔ مالک (اہیب:ابو نعیم اصفہانی)بن ضبہ چوتھے اور حارث بن فہرچھٹے جد تھے۔ ساتویں جد فہر بن مالک کی نسبت سے وہ فہری اور قریش سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قرشی کہلا تے ہیں۔ ابوسعید (ابو سعد:ذہبی)کنیت اختیار کرتے تھے۔ واقدی ، ابو معشر اور ابن سعدنے ان کا نام معمر ،ابن اسحٰق،موسیٰ بن عقبہ اور ابو نعیم اصفہانی نے عمرو لکھا ہے۔ ابن عبدالبر،ابن اثیر اور ابن حجر نے ان کے حالات زندگی عمرو اور معمر، دونوں ناموں کے تحت بیان کیے ہیں۔ ابن اثیر نے چوتھے جدکا نام عمرو کے ساتھ مالک اور معمر کےساتھ اہیب لکھا ہے، ابن عبدالبر نے دونوں جگہ اہیب، جب کہ ابن حجر نے دونوں صورتوں میں مالک ثبت کیا ہے۔
حضرت عمرو کی والدہ زینب بنت ربیعہ بنو عامر بن لؤی سے تعلق رکھتی تھیں۔ابن عبدالبر اور ابن اثیر نے حضرت وہب بن ابو سرح کو حضرت عمرو کا بھائی قرار دیا ہے، جب کہ ابن حجر نے بھائی مانتے ہوئے نسب دوسرا بیان کیا ہے۔انھوں نے حضرت وہب بن سعد بن ابو سرح کو حضرت عمرو کا بھتیجا بتایاہے، جب کہ ابن سعد، ابونعیم اصفہانی،ابن عبدالبر اور ابن اثیر نے انھیں دوسری شخصیت قرار دیا ہے۔
مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد بن ابوسرح کا حضرت عمرو بن ابوسرح سے کوئی رشتہ نہ تھا،وہ دوسرے قبیلے بنو عامر بن لؤی سے تعلق رکھتے تھے۔
حضرت عمرو بن ابو سرح آفتاب رسالت طلوع ہونے کے فوراً بعد نور ہدایت سے منور ہوئے۔
حضرت عمرو بن ابو سرح نے حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔ ’’الاستیعاب‘‘ اور ’’اسد الغابہ‘‘ کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرو کے بھائی حضرت وہب بن ابو سرح نے بھی حبشہ ہجرت کی، جو درست نہیں۔ بلاذری کہتے ہیں:ہیثم بن عدی نے حضرت وہب کامہاجر ین حبشہ میں ذکر کیا ہے،یہ بات ثابت نہیں۔
شوال ۵/ نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی غلط خبرحبشہ میں موجود اصحاب تک پہنچی تو کچھ نے یہ کہہ کر مکہ کا رخ کیا کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ جوخبر انھیں سنائی گئی، جھوٹ تھی تو ان میں سے کچھ حبشہ لوٹ گئے۔ البتہ تینتیس اصحاب اور چھ صحابیات نے مکہ میں قیام کرنے کو ترجیح دی۔ حضرت عمرو بن ابو سرح انھی میں شامل تھے،انھیں کسی مشرک کی پناہ نہ ملی۔تینتیس صحابہ میں سےاٹھائیس نے اپنی ازواج کے ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور جنگ بدر میں شریک ہوئے،حضرت عمرو کا شمار انھی میں ہوتا ہے۔ چار صحابہ حضرت سلمہ بن ہشام،حضرت عیاش بن ابو ربیعہ،حضرت ہشام بن العاص اورحضرت عبداللہ بن سہیل کو ان کے اہل قبیلہ نے قید کرلیا اور ایک صحابی حضرت سکران بن عمرو نے ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں وفات پائی۔
رجب ۵/ نبوی میں حضرت عثمان کی قیادت میں پندرہ (:ابن ہشام۔سولہ:ابن سعد)صحابہ و صحابیات کے حبشہ ہجرت کرنے کو ہجرت اولیٰ کا نام دیا جاتا ہے۔ شوال ۵/نبوی میں حضرت جعفر بن ابوطالب کی سربراہی میں ایک سو ایک رکنی قافلہ سوے حبشہ روانہ ہوا۔ابن سعد کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق اس قافلے میں تراسی صحابہ،قریش سے تعلق رکھنے والی گیارہ اور دوسرے قبائل کی سات صحابیات شامل تھیں، قافلے میں موجود آٹھ بچوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو ایک سو نو کا عدد حاصل ہوتا ہے۔اسے ہجرت ثانیہ کہاجاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ قریش کے مسلمان ہونے کی افواہ سن کرحبشہ میں مقیم کچھ مہاجرین کے خوشی خوشی اپنے کنبوں میں لوٹنے کے بعد ہوئی۔ انھوں نے لوٹنے والے اصحاب کی تعداد نہیں بتائی،ابن ہشام نے البتہ تینتیس مردوں اور چھ عورتوں کا ذکر کیا ہے۔مکہ میں داخل ہونے کے بعد قریش کا تعذیب واذیت رسانی کا سلسلہ زیادہ شدت کے ساتھ دوبارہ شروع ہو گیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باردگر حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت عثمان بن عفان نے کہا:ہماری ہجرت اولیٰ اور یہ ہجرت نجاشی کی جانب ہے اور آپ ہمارے ساتھ نہ ہوں گے۔آپ نے فرمایا: تم اللہ اور میری طرف ہجرت کررہےہو اور تمھیں ان دونوں ہجرتوں کا ثواب ملےگا(الطبقات الکبریٰ)۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہجرت اولیٰ میں کل سو لہ صحابہ بشی حح حبشہ گئے تو انتالیس افراد لوٹ کیسے آ ئے؟پھر واپس آنے والے صحابہ میں کتنے ہی ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے۔اس کا مطلب ہے کہ ہجرت ثا نیہ پہلے ہوئی اور مہاجرین کی واپسی بعد میں، حالاں کہ ہجرت ثانیہ مہاجرین کے مکہ داخل ہونے اور ظلم و تعدی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کے بعد بتائی جاتی ہے۔ ایک مضمون نگار کا جملہ اس عقدے کو کسی طورحل کرتا ہے:پہلے(سولہ رکنی) قافلہ کی روا نگی کےبعدلوگ برابر ہجرت کرتے رہے۔اس طرح رجب اور شوال کے درمیان حبشہ جانے والوں اور مکہ لوٹ کر ہجرت ثانیہ میں شامل ہونے والوں کا شمار پورا ہوسکتا ہے۔ شبلی نعمانی اور اکبر شاہ نجیب آبادی کہتے ہیں:قریش کے مسلمان ہونے کی غلط خبر سن کر مہاجرین کے لوٹنے سے پہلے تراسی مسلمان حبشہ پہنچ چکے تھے، یہ وہی عدد ہے جو ہجرت ثانیہ کے بعد مرد اصحاب کا بتایا جاتا ہے۔قاضی سلیمان منصورپوری ہجرت اولیٰ کا بیان کرنے کے بعد،افواہ اور مہاجرین کی واپسی کا ذکر کیے بغیر لکھتے ہیں:ان کے پیچھے اور بھی مسلمان(۸۳ مرد۱۸ عورتیں) مکہ سے نکلے اور حبشہ کو روانہ ہوئے۔’’تاریخ طبری‘‘ اور ’’السیرة النبویۃ‘‘، ابن اسحٰق کی عبارتیں بھی یہی ہیں۔ا بن ہشام نے حضرت عثمان کی قیادت میں جانے والے قافلے اور حضرت جعفر کے ساتھ اور ان کے بعد حبشہ ہجرت کرنے والے صحابہ کا ذکر ایک ہی عنوان ’ذکر الهجرة الأولی إلی أرض الحبشة‘ کے تحت بیان کیا ہے(السیرة النبویۃ)۔کئی فصلوں کے بعد انھوں نے اہل مکہ کے اسلام کی خبر سن کر تینتیس صحابہ اور چھ صحابیات کی حبشہ سےواپسی کا ذکر کیا اور ہجرت ثانیہ کا نام نہیں لیا۔ اس کا مطلب ہے کہ مہاجرین کا مکہ کی طرف رجوع، دونوں ہجرتوں کے بعد ہوا۔
یہ متعین کرنے کے بعد ایک ہی اشکال باقی رہتا ہے:ابن سعد نے صراحت کی ہے کہ ہجرت ثانیہ مہاجرین کے رجوع کے بعد ہوئی۔ چونکہ یہ بیان باقی کتب تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے درست بات یہی ہے کہ حضرت جعفر بن ابو طالب کا قافلہ ہجرت اولیٰ کے فوراً بعد حبشہ گیا،یہی ہجرت ثانیہ تھی۔ قریش کے مسلمان ہونے کی افواہ سن کر مہاجرین کی مکہ واپسی بعد میں ہوئی۔اس کے بعد حضرت عثمان کی قیاد ت میں وہ اصحاب گئے جنھیں ابن سعد ہجرت ثانیہ کا قافلہ قرار دیتے ہیں۔
بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن ملاتوپہلے اپنے اصحاب کو مدینہ جانے کی اجازت دی۔صحابہ فرداًفرداً اور اپنے ہم قبیلہ ساتھیوں کےساتھ مل کر جانے لگے تو حضرت عمرو بن ابوسرح نےبھی شہر نبی کا رخ کیا۔مدینہ میں وہ قبیلہ اوس سے تعلق رکھنے والے حضرت کلثوم بن ہدم کے مہمان ہوئے، جن کا گھر مدینہ کی مضافاتی بستی قبا میں واقع تھا۔ حضرت حمزہ ،حضرت زید بن حارثہ، حضرت ابومرثد،ان کے بیٹے حضرت مرثد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ حضرت انسہ، حضرت ابو کبشہ بھی حضرت کلثوم کے پاس ٹھیرے۔ ۱۲/ ربیع الاول ۱۳/ نبوی کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کی معیت میں مدینہ تشریف لائے۔آپ نے بھی حضرت کلثوم بن ہدم کے ہاں چارروزقیام فرمایا۔دوسری روایات کے مطابق حضرت حمزہ حضرت اسعد بن زرارہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن خیثمہ کی مہمانی میں رہے۔
مہاجرین و انصار کی فہرست مواخات میں حضرت عمرو بن ابو سرح کا نام شامل نہیں۔
حضرت عمرو بن ابو سرح نے غزوۂ بدر میں بھرپور شرکت کی، ان کے بھائی حضرت وہب بن ابو سرح بھی ان کے ساتھ تھے۔ان کے قبیلے بنو حارث بن فہرکے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح،حضرت عمرو بن حارث (ابوعمرو)،حضرت سہیل بن بیضا اور حضرت صفوان بن بیضا بھی شریک معرکہ تھے۔ واقدی نے حضرت عیاض بن زہیر کا اضافہ کیا ہے، جب کہ حضرت وہب بن ابو سرح کے بجاے بنو عامرکی شاخ بنو مالک بن حسل کے حضرت وہب بن سعد بن ابو سرح کا نام شامل کیا ہے(کتاب المغازی)۔ابن ہشام،ابن جوزی اور ابن کثیر نےبھی حضرت وہب بن ابو سرح کا نام بیان نہیں کیا، جب کہ قاضی سلیمان منصور پوری نے شرکاے بدر میں حضرت عمرو اور حضرت وہب، دونوں بھائیوں کے نام لکھے ہیں(اصحاب بدر)۔
حضرت عمرو بن ابو سرح غزوۂ احد،غزوۂ خندق اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔
حضرت عمرو بن ابو سرح کی وفات ۳۰ھ میں عہد عثمانی میں ہوئی۔
دو خواتین حضرت عمرو کے عقد میں آئیں:ان کی چچا زادحضرت امامہ بنت عامر، ان کے بطن سے عبداللہ پیدا ہوئے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کی بہن، انھوں نے عمیر کو جنم دیا۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن اسحٰق)،السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، معرفۃ الصحابۃ (ابو نعیم اصفہانی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف (بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔
ـــــــــــــــــــــــــ
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ(شاذروایت:خیثمہ) قبیلہ بنو عدی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے دادا کا نام حذیفہ (حذافہ:بلاذری)بن غانم تھا۔مشہور روایت کے مطابق ان کی والدہ جزیرۂ عرب کے شمال میں آباد قبائل تنوخ (Saracens) سے قید کر کے لائی گئی تھیں، ان کا نام نہیں بتایا گیا۔ مصعب زبیری کا کہنا ہے کہ حضرت ابوجہم بن حذیفہ حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ کے ماں جایے تھے اور ان کی والدہ کا نام یسیرہ بنت عبداللہ تھا، جو بنوعدی سے تعلق رکھتی تھیں (نسب قریش۳۷۰)۔ حضرت سلیمان بن ابو حثمہ حضرت لیلیٰ کے سوتیلے بھائی تھے۔ان کی والدہ کا نام حضرت شفا بنت عبداللہ تھا جو جھاڑ پھونک میں شہرت رکھتی تھیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس کی اجازت دے رکھی تھی۔
ام عبداللہ حضرت لیلیٰ کی کنیت تھی،وہ عدویہ و قرشیہ کی نسبتوں سے مشہور تھیں۔
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ کی شاد ی اسلام کے ابتدائی دور میں حضرت عامر بن ربیعہ سے ہوئی جو عنز بن وائل کی اولاد ہونے کی نسبت سے عنز ی اور حضرت عمر کے والد خطاب بن نفیل کے حلیف اور متبنیٰ ہونے کی وجہ سے عامر بن خطاب کہلاتے تھے، تا آنکہ اللہ کی طرف سے حقیقی نسبت سے پکارنے کا حکم آ گیا۔
حضر ت لیلیٰ بنت ابو حثمہ اولیں مسلمانوں میں سے تھیں۔ان کے شوہر حضرت عامر بن ربیعہ نے زمانہ ٔ جاہلیت کے موحد زید بن عمرو بن نفیل سے سن رکھا تھا:میں نے اپنی قوم کی مخالفت کرکے ملت ابراہیم کی پیروی کی ہے اور اب اولاد اسمٰعیل، بنوعبد المطلب میں ایک نبی کی آمد کاانتظار کر رہاہوں،میں نہیں جانتا کہ ان کا زمانہ پاؤں گا۔میں ان کی نشانیاں بیان کیے دیتا ہوں،تم انھیں دیکھ لو تو میرا سلام کہنا، اس لیے انھیں اسلام کی طرف سبقت کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا اور وہ آپ کے دار ارقم میں تشریف لانے سے پہلے نور ایمان سے منور ہوئے۔ حضرت لیلیٰ بھی آپ کے دست مبارک پر بیعت کر کے مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
رجب ۵/نبوی:حضرت عامر ،حضرت ابو سلمہ اور حضرت عثمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فریاد کی:یا رسول اللہ ، ہماری قوم نے ہمیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا: حبشہ کی طرف نکل جاؤ،وہاں ایسا با دشاہ ہے جس کے ہاں ظلم نہیں ہوتا، وہ سچائی کی سرزمین ہے۔چنانچہ حضرت لیلیٰ بنت ابوحثمہ اپنے شوہر حضرت عامر بن ربیعہ کے ساتھ حضرت عثمان بن عفان کی قیادت میں حبشہ جانے والے قافلے میں شامل ہوئیں جوبارہ اصحاب، حضرت عثمان،حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ،حضرت زبیر بن عوام، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت ابو سبرہ بن ابو رہم، حضرت حاطب بن عمرو، حضرت سہیل بن بیضا، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور چار صحابیات ،حضرت رقیہ بنت رسول اللہ (زوجہ حضرت عثمان )، حضرت سہلہ بنت سہیل(اہلیہ حضرت ابوحذیفہ )، حضرت ام سلمہ بنت ابو امیہ(زوجہ حضرت ابوسلمہ )،حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ (اہلیہ حضرت عامر ) پر مشتمل تھا۔ ابن جوزی نے حضرت عبداللہ بن بیضا کے نام کا اضافہ کیا ہے۔
حضرت عامر کے حلیف اور منہ بولے بھائی عمر بن خطاب میاں بیوی پر بہت سختی کرتے تھے۔انھیں معلوم ہوا کہ دونوں دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر مکہ سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں تو انھیں ملنے کے لیے آئے۔ حضرت لیلیٰ سفر حبشہ کے لیے اونٹنی پر سوار تھیں، عمرنے پوچھا:ام عبداللہ، کہاں جا رہی ہو؟ انھوں نے کہا:آپ نے ہمیں دین اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ایذائیں دیں، اس لیے ہم اللہ کی سرزمین میں جا رہے ہیں جہاں ہمیں اللہ کی بندگی کرنے پر تکلیف نہ دی جائے گی۔انھوں نے دعاکی: اللہ تمھارے ساتھ ہو، پھر چل دیے۔ اس اثنا میں ان کے شوہر حضرت عامر آ گئے۔حضرت لیلیٰ نے انھیں عمر کے لہجے میں اچانک آجانے والی نرمی کا بتایا۔حضرت عامر نے پوچھا: تمھیں ا مید ہے کہ عمر اسلام قبول کر لیں گے؟ کہا:ہاں۔حضرت عامر نے جو عمر کے سخت رویے سے نالاں تھے،جواب دیا: بخدا، وہ ایمان نہ لائیں گے جب تک ان کے والدخطاب کاگدھا مسلمان نہ ہو جائے (مستدرک حاکم، رقم ۶۸۹۵۔ المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۲۰۵۷۰)، اللہ کا کرنا ہوا کہ مہاجرین کو حبشہ گئے چند ہفتے گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور حضرت عمر ایمان لے آئے۔
رات کے پچھلے پہر نہایت راز داری کے ساتھ یہ قافلہ بحر احمر کی بندرگاہ شعیبہ پہنچا۔ خوش قسمتی سے یہاں دو تجارتی کشتیاں حبشہ جانے کے لیے تیار تھیں، نصف دینار کرایہ کے عوض عازمین ہجرت ان میں سوار ہو گئے۔ ’’طبقات ابن سعد‘‘ اور ’’تاریخ طبری‘‘ میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کرایہ تمام سواریوں کا تھا یا فی سواری نصف دینار طے ہوا تھا۔ مشرکین مکہ ان کا پیچھا کرتے کرتے بندرگاہ پہنچے، لیکن تب تک کشتیاں اللہ کے ان بندوں کو لیے کھلے سمندر میں حبشہ کی جانب رواں دواں ہوچکی تھیں۔ شعیبہ مکہ مکرمہ اور جدہ کے جنوب میں ساٹھ سےزیادہ میل کی مسافت پر واقع قدیم عرب کی مرکزی بندرگاہ تھی۔۲۶ھ میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان اہل مکہ کی درخواست پر خود تشریف لائے اور ساحل کا معاینہ کرنے کے بعد بندرگاہ جدہ منتقل کرنے کا حکم دیا۔ شعیبہ اس وقت بھی سعودی عرب کا اہم اقتصادی مرکز ہے۔ یہاں سمندری پانی کو صاف کرنے کا عرب دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ ہے اوریہاں پٹرول سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے۔
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ بیان کرتی ہیں:ہم حبشہ جانے کے لیے جمع تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: مصعب بن عمیر آج شب حبشہ کے لیے نکلنا چاہتا ہے، لیکن اس کی والدہ نے اسے روک لیا ہے۔آپ کے ارشاد پر حضرت مصعب نے ایک رات حضرت عامر بن ربیعہ کے ہاں گزاری اور اگلی رات چپکے سے ان کے قافلے میں شامل ہو گئے۔حضرت مصعب پیدل چل رہے تھے اور ان کے قدموں سے خون رس رہا تھا، حضرت عامر نے جو اونٹ پر سوار تھے، اپنی جوتیاں اتار کر ان کو دے دیں۔حضرت عامر اور حضرت لیلیٰ کے پاس پندرہ دینار تھے اور حضرت مصعب کےپاس کچھ نہ تھا۔اس روایت کے مطابق جو کشتی انھیں ملی یمن کے ساحل مور سے مکئی لاد کر لائی تھی، مکئی اتار کر وہ انھیں مور لے گئی،مور سے وہ حبشہ کی طرف روانہ ہوئے (الآحاد و المثانی،ابن ابی عاصم، رقم ۳۴۶۹)۔
شوال۵ھ:قریش کے مسلمان ہونے کی افواہ سن کر حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ اورحضرت عامر بن ربیعہ مکہ لوٹ آئے۔مکہ میں داخل ہونے کے بعد قریش کاظلم و تشدد کا سلسلہ زیادہ شدت کے ساتھ پھر شروع ہو گیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باردگر حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت لیلیٰ اوران کے شوہر حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کی معیت میں دوبارہ حبشہ ہجرت کر گئے۔ چند سال حبشہ میں گزار کر میاں بیوی اور کئی اصحاب مکہ واپس آگئے۔
حبشہ سے دوسری بار واپس آنے پر بھی اہل ایمان کی زندگی دوبھر تھی۔صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی توآپ نے فرمایا:مجھے تمھارے دار ہجرت کی خبر دے دی گئی ہے، جو یثرب ہے،جو مکہ سے نکلنا چاہتا ہے، وہاں چلا جائے۔ چنانچہ صحابہ مل جل کر چوری چھپےوہاں جانےلگے۔حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد سب سے پہلے مدینہ پہنچے،ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ کی اپنی اہلیہ حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ کے ساتھ آمد ہوئی۔حضر ت لیلیٰ پہلی صحابیہ تھیں جو مدینہ وارد ہوئیں(مستدرک حاکم، رقم ۶۸۹۴)۔ حضرت عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں: میری والدہ سے پہلے کوئی بھی پردہ نشیں خاتون ہودے میں بیٹھ کر مدینہ نہیں آئیں۔ ہجرت کے اس تیسرے سفر میں، میں ان کے ساتھ تھا۔ دوسری روایت کے مطابق ام المومنین حضرت ام سلمہ نے سب سے پہلے مدینہ ہجرت کی۔حضرت عامر بن ربیعہ کہتے ہیں: ابوسلمہ کے بعد مدینہ میں مجھ سے پہلے کوئی مہاجر نہیں آیا اور لیلیٰ بنت ابو حثمہ سے پہلے کسی خاتون نے مدینہ ہجرت نہیں کی، یعنی حضرت ابوسلمہ پہلے مرد مہاجر اور حضرت لیلیٰ پہلی عورت مہاجرہ تھیں۔
پھر صحابہ جوق در جوق شہر ہجرت آنے لگے، حتیٰ کہ مکہ میں مریضوں اور ضعیفوں کے سو ا کوئی نہ رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو اپنے بستر پر سلا کر حضرت ابوبکر کے ہم راہ یکم ربیع ا لاول ۱۳؍ نبوی (۱۳ ؍ ستمبر ۶۲۲ء) کو مکہ سے روانہ ہوئے۔
حضرت لیلیٰ اور اُن کا خاندان سب سے پہلے مدینہ ہجرت کرنے والے چند مسلمانوں میں سے ایک تھا۔ جب انصار کو ان کے دو مرتبہ حبشہ ہجرت کا علم ہوا، تو اُن کے ساتھ نہایت عزت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔ حضرت عامر بن ربیعہ،حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ،حضرت سلمہ بن عبدالاسداور ان کے فوراًبعد مدینہ پہنچنے والے حضرت عبداللہ بن جحش اور حضرت ابو احمد بن جحش مدینہ کی مضافاتی بستی قبا میں جو قبیلہ بنو عمرو بن عوف کا مسکن تھا، حضرت مبشر بن عبدالمنذرکے ہاں مقیم ہوئے۔
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ شجاعت، جرأت اور عزیمت کا مثالی پیکر تھیں۔شادی کے بعد اپنے شوہر کے قدم بہ قدم ہر آزمایش میں پوری اُتریں۔ حضرت لیلیٰ اور اُن کے شوہر نے غزوۂ بدر سے غزوۂ تبوک تک، تمام غزوات میں بھرپور شرکت کی۔ حضرت عمر کے قبول اسلام میں جہاں اُن کی بہن فاطمہ بنت خطاب کا حصہ ہے، وہیں حضرت لیلیٰ بنت ابوحثمہ کی مسلسل کاوشیں بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتیں۔حضرت لیلیٰ کودو قبلوں، بیت المقدس اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عامر بتاتے ہیں:میں چھوٹا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں کھیلنے کے لیے باہر جانے لگا تھا کہ میری والدہ پکار یں :عبداللہ، آؤ میں تمھیں کچھ دوں۔آپ نےدریافت فرمایا:تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟انھوں نے بتایا:کھجور۔آپ نے فرمایا: اگر تم اسے کچھ نہ دیتی تو تمھارے ذمہ ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا (ابو داؤد، رقم ۴۴۹۱۔ احمد، رقم ۱۵۷۰۲۔السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۲۰۸۳۹)۔
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ کے ایک ہی بیٹے حضرت عبداللہ بن عامر کا ذکر ملتا ہے،انھی سے وہ کنیت کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہ کی شادی بھی بنو عدی میں ہوئی۔
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ سے کوئی روایت مروی نہیں۔
حضرت لیلیٰ بنت ابو حثمہ کاسن وفات معلوم نہیں۔
مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،انساب الاشراف)بلاذری)، الآحاد و المثانی (ابن ابی عاصم)،تاریخ الامم و الملوک(طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،Wikipedia۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ