ہم نے سورۂ قیامہ ۷۵کی آیات: ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ. اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ. فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ. ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ‘کے معنی یہ متعین کیے ہیں:
قرآن کے لیے زبان کو حرکت نہ دوکہ اس کو جلدی پاؤ، یہ ہمارا کام ہے کہ قرآن کی جمع و تالیف اوراس کی قراءت کریں۔ لہٰذا، جب ہم قراءت کردیں تو بس اس کی اسی قراءت کی پیروی کرو۔ پھر یہ بھی ہمارا کام ہے کہ قرآن کو بیان کریں۔(۱۶ - ۱۹)[مقصود: یہ سب آپ کے نہیں، ہمارےدائرۂ اختیار کے کام ہیں، اس لیے آپ ان کے لیے زبان کو زحمت نہ دیجیے،یہ سب ہم اپنی صواب دید پر کریں گے۔]
یعنی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ قیامہ کے نزول کے وقت یہ مطالبہ کیا کہ قرآن جلد از جلد بیان ہواکرے تو آپ کو یہ کہہ کرروک دیا گیاکہ قرآن مجید کے اتارنے کا فیصلہ ہمارا ہوگا،آپ کے مطالبات پر نہیں اترے گا۔مطلب یہ کہ بیان قرآن ہمارے فیصلہ کے مطابق ہوگا کہ کب کیا اترنا ہے اور کیا نہیں۔ اس کے ساتھ مزید دو باتوں کے بارے میں بھی آپ کو حفظ ما تقدم کے طور پر آگاہ کیا گیا کہ قرآن سے متعلق یہ بھی آپ کے کام نہیں ہیں۔ ان میں سب اختیار اللہ ہی کا ہے: ایک قرآن کی جمع و تالیف اور دوسرے متن کی قراءت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم پر نہیں چھوڑی گئی یا آپ کے دائرۂ کار میں شامل نہیں ہے، یعنی جمع قرآن کے بارے میں تسلی سے زیادہ الہٰی اختیار کا بیان ہے کہ قرآن سے متعلق یہ تینوں کام اللہ کے دائرۂ عمل سے متعلق ہیں۔
میں نے ان آیات کی تفسیر میں اصلاً چارجگہ پر مختلف بات کہی ہے۔ ایک ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ‘،دوسرے ’اِنَّ عَلَيْنَا‘اور تیسرے ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا‘اور چوتھے ’بَيَانَهٗ‘ کے بارے میں۔باقی آیات یا ان کے اجزاسے متعلق پہلے بھی مفسرین یہی تفسیرکر چکے ہیں۔ مثلاً ’جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ‘ کو بالترتیب جمع و تدوین اورقراءت کے معنی میں لیناوغیرہ۔
معروف تفسیر میں مفسرین نے ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘کو تازہ اترے ہوئے متن قرآن کو بہ عجلت پڑھنے کے معنی میں لیا ہے۔ اس معروف راے کے تحت کلام کی تراکیب یوں ہو سکتی ہیں :
۱۔ ’لَا تُحَرِّكْ بِالقُرآنِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بحفظه‘: قرآن جلدی یاد کرنے کے لیے زبان کو قراءت کے لیے حرکت نہ دیجیے۔
یہ جملہ تو بامعنی ہے، اور نحوًا ممکن بھی ہے، مگر یہ قرآن کی دیگر نصوص اور تصریحات کے خلاف ہے، اس لیے کہ حفظ قرآن کے لیے آپ کو جلدی جلدی قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی، قرآن براہ راست آپ کے دل ہی پر اتررہا تھا(البقرہ۲: ۹۷)۔اس سے پہلے اترنے والی سورۂ اعلیٰ میں یہ وعدہ ہو چکا ہے کہ قرآن نہ آپ کو بھولےگا نہ ضائع ہوگا، اس لیے اس فکر کی ضرورت نہیں تھی کہ قرآن طاق نسیاں میں چلا جائے گا۔اس راے سےاگلی آیات کا مضمون بھی مطابقت نہیں رکھتا، یعنی ’لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ اور آیات۱۷ اور ۱۸۔اسی طرح اس راے کے لیے ’جَمْعَهٗ‘ کو اس کے معنی سے ہٹانا پڑا۔
سورۂ قیامہ پہلی سورت نہیں تھی۔ اگر پہلی سورتوں میں یہ معمول تھا، تو پھر روکنے کے لیے الفاظ مناسب نہیں ہیں۔ اگرپہلی دفعہ آپ نے دوران وحی یاد کرنا شروع کیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟اگر یاد کرنا پڑتا ہی تھا، تو یہ سورہ بھی بعد میں یاد کرلیتے جیسے پہلی سورتیں آپ آج تک یاد کرتےرہے تھے۔ اسی طرح’’ زبان کو حرکت نہ دیجیے ‘‘اس بات کے کہنے کے لیے غیر مناسب الفاظ ہیں، کیونکہ یہ الفاظ ’’پڑھنے ‘‘کو روکنے سے زیادہ ’’منہ کھولنے/بات کرنے سے منع کرنے‘‘کے معنی ادا کرتے ہیں۔اگر وحی کے اترنے کا طریقہ یہ چلا آرہا تھا کہ جبریل سناتے، آپ دہراتے تو پھر بھی منع کرنے کایہ طریقہ صحیح نہیں۔ اس صورت میں کہنا چاہیے تھا کہ آج سے آپ ایسا نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ حرکت زبان سے منع کررہے ہیں،تو واضح ہواکہ یہ نزول وحی کے نظام mechanism کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔صرف آپ کی طرف سے کوئی اقدام ہوا تھا۔نظام وحی کی کوئی ضرورت ہوتی تو روکا نہ جاتا۔جس سے آپ سے آپ لازم آتا ہے کہ یہ پہلا اور آخری حرکت لسانی کا عمل تھا۔
۲۔ ’لَا تُحَرِّكْ بِالقُرآنِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِأخذهِ‘۔(یعنی وحی کی شدت سے نکلنے کو)جلدی اخذ کرنے کے لیے زبان کو قراءت کے لیے حرکت نہ دیجیے۔
یہ بھی جملہ تو بن گیا ہے، مگر اوپر پہلے نکتہ کے لیے بیان کردہ تمام اعتراضات اس پر بھی وارد ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ وحی کی تکلیف قرآن کی تصریحات کے خلاف ہے، حضرت موسیٰ، حضرت مریم، حضرت زکریا اور خود نبی کریم کی پہلی وحی کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے، کہیں کسی کی تکلیف کا کوئی ذکر نہیں۔ بلکہ سورۂ نجم (۵۳) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بیان کہ ’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰي‘(۱۷) اور ’مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰي. اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا يَرٰي ‘ (۱۱ - ۱۲) وغیرہ کسی ادنیٰ سی تکلیف کی بھی گنجایش نہیں چھوڑتے۔ پھر یہ کہ تکلیف کی وجہ سے جلدی کرنے کے لیے یہ جواب مناسب نہیں ہے۔اس صورت میں یہ جواب ہونا چاہیے تھا کہ یہ چند برس کا معاملہ ہے، وحی کا سلسلہ ختم ہوتے ہی یہ تکلیف جاتی رہے گی۔اسی طرح ہر آیت کی قراءت کرنے لگ جانا وحی کی تکلیف سے نکلنے کے لیے موزوں نہیں، کیونکہ اس سے تو مزید دیر ہوگی، جب کہ یہ نزول وحی کے نظام کی ضرورت نہیں تھی۔
۳۔ ’لَا تُحَرِّكْ بِالقُرآنِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بجبريل‘: جبریل سےآگے نکلنے (ان سے منازعت: کشاکش)کے لیے زبان کو قراءت کے لیے حرکت نہ دیجیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفیس، صابر اور متحمل طبیعت سے بعید ہے کہ آپ جبریل سے منازعت کرتے ہوں۔ اوپر بیان کردہ باقی اعتراضات بھی اس پر وارد ہوتے ہیں۔ عقلاً یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ یہ منازعت ہوتی کیسے ہوگی، یعنی منازعت کے لیے زبان ہلانے کی کیا صورت ہوگی۔مثلاً یہ کہ ابھی جبریل نے آدھی آیت پڑھی ہوتی تو آپ جلدی سے اسے پورا کرنے لگتے؟یا مثلاً آپ کہنے لگتے : اگلی آیت بتائیے! اگلی آیت بتائیے!(استغفراللہ)۔
میرے نقطۂ نظر کے لحاظ سے قرآن کے ایک طالب علم کو یہ تردد ہو سکتا ہے کہ اگر ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ ‘ سےمتن قرآن کو پڑھنا مراد نہیں تو پھر اس جملے میں ’بِهٖ‘ کا کیا مطلب ہے؟میں نے اسے اسی معنی میں لیا ہے، جس معنی میں سب لے رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ سب لوگ ’بِهٖ‘ کے جار مجرور کے مابین ’قرآن‘ یا ’قراءة‘ کا مصدرحذف مان رہے ہیں، یعنی ’لَا تُحَرِّكْ بِقراءتهِ لِسَانَكَ‘۔میں نے یہ محذوف ’لِتَعْجَلَ بِهِ‘ کی رعایت سے طلب یا مطالبہ کا لیا ہے، یعنی ’لَا تُحَرِّكْ بِمطالبتهِ لِسَانَكَ‘، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس محذوف کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا،لیکن سمجھانے کے لیے یہ کہہ رہا ہوں۔ اس لیے میں نے اوپر یہ ترجمہ کیا ہے: ’’ قرآن کے لیے زبان کو حرکت نہ دو کہ اسے جلدی پاؤ‘‘۔اس محذوف کو اگر کھول دیں تو ترجمہ یوں ہوگا:’’ مطالبۂ قرآن کے لیے زبان کو حرکت نہ دو کہ اسے جلدی پاؤ‘‘۔اردو محاورے میں ترجمہ کریں تو یوں ہوگا: ’’قرآن جلدی پانے کے لیے اس کی طلب میں زبان کو حرکت نہ دو‘‘۔یعنی حرکت لسانی قرآن کے حصول کی عجلت کے لیے ہے،اس لیے حصول کے موافق کوئی مصدرمقدر ماننا ہوگا، اور وہ طلب یا مطالبہ ہی ہوسکتا ہے، تیز تیز پڑھنا نہیں۔
’لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ کے بارے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے،’’جلدی طلب ‘‘کے معنی مسلم ہیں۔ مفسرین نے ’بِهٖ‘ کےجار مجرور کےمابین ’حفظ‘ یا ’أخذ‘ کو حذف مانا ہے، یعنی ’لِتَعْجَلَ بِأخذهِ/ بحفظه‘۔ میں نے اسے بس ’استعجال‘، یعنی ’’وقت سے پہلےطلب کرنا ‘‘ کہ چیز حین وقوع (due time) سے پہلے حاصل ہوجائے، کے معنی میں لیا ہے۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے بھی ’استعجال‘ کے معنی میں لیا ہے: ’كان جبريل عليه السلام ينزل بالقرآن، فيحرِّك به لسانه، يستعجل به، فقال: لا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ‘ (بحوالہ طبری)۔ حین وقوع سے پہلےطلب کی ایک مثال دیکھیے:ابو صخر الہذلی کا شعر ہے:
قَدْ كانَ صَرْمٌ في الْمَماتِ لَنا
فَعَجِلْتِ قبْلَ الْمَوْتِ بِالصَّرْمِ
’’ہماری جدائی موت پر ہونا ہی تھی، پر تم نے موت سے پہلے ہی جدائی اپنا لی۔‘‘ [35]
اس مثال سے واضح ہے کہ یہ صرف جھٹ پٹ کام کرنے کے معنی میں نہیں آتا۔ لہٰذا جب ہم نے ’لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ کے معنی ’’قرآن کی جلد طلب‘‘ کے سمجھے ہیں کہ حسب موقع قرآن جلد بیان ہوجائے، تو آپ سے آپ ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘ کے معنی تقاضا کرنےیا مطالبہ وحصول کے لیے حرکت ہی کے ہوں گے۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ پانی جلدی پانےکے لیے زبان کو حرکت نہ دو۔تو واضح ہے کہ زبان کی حرکت پانی مانگنے کے لیے ہو رہی ہے۔
’اِنَّ عَلَيْنَا‘ کے معنی کیا ہیں؟ یہ دوسرا مقام ہے، جہاں ہم نے عمومی تفسیر سے مختلف راے دی ہے۔ ہماری راے دو پہلوؤں سے مختلف ہے:
ایک یہ کہ چونکہ ’اِنَّ عَلَيْنَا‘ والے جملے ’لَا تُحَرِّكْ ‘ کی نہی کا سبب بتار ہے ہیں[36] کہ اللہ تعالیٰ نے حرکت لسانی سے کیوں منع کیا، یعنی آپ کو بولنے سے کیوں روکا گیا؟اس لیے لازم ہے کہ آیت ۱۶ میں جس چیز پر بولنےسے روکا گیا ہے، اگلی تینو ں چیزوں: ’جَمْعَهُ‘، ’قُرْآنَهُ‘ اور ’بَيَانَهُ‘ میں سے کم از کم ایک ایسی ہوگی جس کے لیے زبان کو حرکت دی گئی تھی، وگرنہ نہی اور اس کی تعلیل میں رشتۂ تعلیل قائم نہیں ہوگا۔ان تین میں سے ہم نے حرکت زبان کا سبب جس چیز کو قراردیا ہے، وہ آگے چل کر واضح ہوگا۔
دوسرے یہ کہ ’اِنَّ عَلَيْنَا‘ یہاں ’اِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى‘ (اللیل ۹۲: ۱۲) کے معنی میں نہیں آیا کہ اللہ تعالیٰ محض اپنی ذمہ داری بتا رہے ہیں،بلکہ یہ ’فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ‘ (الرعد ۱۳: ۴۰)میں ’وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ‘ کے معنی میں آیا ہے،یعنی ابلاغ آپ کا کام ہے اور حساب ہمارا۔مراد یہ کہ حساب آپ کے دائرے کی چیز نہیں ہے۔اس آیت میں بھی بس یہی مطلب ہے کہ آپ اس پر زبان کو زحمت نہ دیں، یہ ہمارا کام ہے، آپ کانہیں۔
یہ ہم کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس لیے کہ ’لَا تُحَرِّكْ ‘ کے بعد ’اِنَّ عَلَيْنَا ‘ کا تقابل یہی معنی دے گا، خواہ کوئی بھی تفسیر کرلیں۔ مثلاً جلد جلدیاد کرنے کے لیے زبان کو زحمت نہ دیجیے، یادکرانا ہمارے ذمے ہے۔تو مطلب یہی ہوا کہ یاد کرنے کا اہتمام آپ کا نہیں، ہماراکام ہے، اس لیے آپ یاد نہ کریں۔ میں اس معنی پر صرف ایک پہلو ( shade) کا اضافہ کررہا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ یہاں دائرۂ عمل یا دائرۂ اختیار کی بات ہورہی ہے۔اس کے لیےایک قرینہ ’لَا تُحَرِّكْ ‘اور ’اِنَّ عَلَيْنَا ‘ کا تقابل ہے، جیسےمحولہ بالا سورۂ رعد کی آیت ۴۰ میں ہے، اور دوسرا قرینہ ’فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ‘ کے الفاظ ہیں، یعنی یہ جملہ یہ بتا رہا ہے کہ قرآن کے متن کی قراءت کا تعین آپ کے فہم پر نہیں چھوڑا گیا ہے، آپ کو محض پیروی کرنا ہے۔سو واضح ہوا کہ یہاں جو امور زیر بحث ہیں، وہ نبی کریم کی صواب دید پر نہیں چھوڑے گئے۔ اگر روایات کے اثر سے نکل کر دیکھا جائے تو ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘ کے الفاظ کا چناؤ، یعنی’’ زبان نہ ہلائیے‘‘ اور پھر اس کے ساتھ ’بِهٖ‘ کا جار مجرور کہ ’’اس پر ‘‘یا ’’اس کے لیے زبان نہ ہلائیے‘‘ بھی اس کی تائید کرتا ہے۔
’قُرْاٰنَهُ‘ کو بھی ہم نے اس کے معروف معنی میں لیا ہے، یعنی پڑھنا۔لیکن عہد حاضر میں بعض لوگوں نے اس سےسبع قراءت میں جو قراءت کے معنی ہیں، اس معنی میں اسے نہیں لیا۔ہم نے واضح کیا ہے کہ پڑھنا قراءت ہی ہے۔ خاص طور پر عربی زبان، جس میں نحو اعراب پر منحصر ہو، اور الفاظ کےاملا میں حروف علت حذف کردیے جاتے ہوں،وہاں قراءت، یعنی محض پڑھ دینے کا مطلب لفظ کا تلفظ وحرکات اور اعراب بول دینے سے الفاظ کا نحوی محل بیان ہوتا ہے۔ لہٰذا، جب کوئی عبارت پڑھے گا تو یہ سب متعین ہوتا چلا جائے گا۔اس لیے یہ آیت حتمی حجت ہے کہ اس وعدۂ قراءت کی تکمیل کے بعد ایک ہی قراءت ہے، جس کی پیروی کی جائے گی۔یہ وعدہ ہر سال کے عرضات اور عرضۂ اخیرہ کے ذریعے سے پورا کیا گیا تھا۔
’جَمْعَهُ‘ کے بارے میں بھی ایک نکتہ یہاں بیان کرنا ضروری ہے۔’قُرْاٰنَهُ‘ کے الفاظ کے زیر اثر ہم نے ’جَمْعَهُ‘ کے معنی کا تعین بھی کیا ہے۔معروف تفسیر میں اسے دل میں جمع کرنے یا یاد کرنے کے معنی میں لیا گیا ہے۔ ’قُرْاٰنَهُ‘ کے سیاق میں ہونے کی وجہ سے اس کو صرف دل میں حفظ اورجمع کرنے کے معنی میں نہیں لیا جاسکتا، اس لیے کہ دل میں حفظ ہونا قراءت کو شامل ہوتا ہے، یعنی جب ہمیں کوئی چیز یاد ہوگی تو اعراب و حرکات اور تلفظ کے ساتھ یاد ہوگی۔اس لیے دل میں ’’جمع کرانے‘‘ کے بعد قراءت کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔لہٰذا لازم ہے کہ ’جَمْعَهُ‘ کوتحریری صورت میں مانا جائے، کیونکہ تحریر ہی میں عربی جیسی زبان میں قراءت کی ضرورت ہوتی ہے[37]۔
’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا‘کے معنی بھی وہی ہیں، جو ’اِنَّ عَلَيْنَا‘کے بارے میں ہم نے عرض کیے ہیں۔ صرف ’ثُمَّ‘ کے بارے میں میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ اپنے عطف کے اعتبار سے تشریک فی الحکم کے لیے آیا ہے، یعنی ’بَيَانَهٗ‘ کو بھی ’جَمْعَهٗ‘ اور ’قُرْاٰنَهٗ‘ کی طرح اللہ نے اپنے دائرۂ اختیار میں شامل کرنے کے لیے ’ثُمَّ‘ سے عطف کیا ہے۔ جس سے ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا‘قرینہ بن گیا ہے اس بات کا کہ آپ نے حرکت لسانی سے جو مطالبہ کیا تھا، وہ ’بَيَانَهٗ‘ (بیان قرآن) تھا یا اس سے متعلق کوئی چیز۔ یہ پورا جملہ ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ ‘یہاں ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘کے جواب میں ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےمطالبہ کی نشان دہی کررہا ہے۔ میں نے اس جملے کے اس پہلو کو سمجھانے کے لیے ایک تمثیل پیش کی تھی۔ اس میں خط کشیدہ جملے ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘ اور ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا‘کے ہم محل ہے:
’’کوئی بیٹا اپنی شادی کی جلدی کے لیے ماں سے کہے کہ آپ کل فلاں کے گھر جائیے، اور میرے لیے رشتہ دیکھیے۔ ماں آگے سے جواب دے کہ یہ بات نہ کرو، یہ ہمارا کام ہے کہ ہم سب اسباب مہیا کریں،تمھار ی شادی کرائیں، تو جب ہم شادی کرادیں تو تم اسے نبھاؤ گے، اگر ماں یہاں رک جائے تو تب بھی بچے کو پورا جواب ہو گیا ہے، لیکن بیٹے کے مطالبہ والی بات کو شامل کرتے ہوئے وہ یہ کہے کہ پھر یہ بھی ہمارا کام ہے کہ کہیں رشتہ دیکھنے جائیں۔‘‘ (اشراق، مئی ۲۰۲۴ء، ص: ۳۹)
اس تمثیل سے ایک یہ واضح کرنا پیش نظر ہے کہ آپ کا مطالبہ ’بَيَانَهٗ‘ سے متعلق تھا، اس لیے اس کے ساتھ ’ثُمَّ‘ لگایا گیا ہے،جیسے اس تمثیل میں ’’پھر یہ بھی ہمارا کام ہے‘‘ میں ’’پھر ‘‘استعمال کیا گیا ہے، وگرنہ آیت میں اس ’ثُمَّ‘ کا محل سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ اگر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے جواب میں نہیں آیا تو یہ ’ثُمَّ‘ یہاں ’بَيَانَهٗ‘ کے اس زائد از پروگرام ہونے کے معنی دے گا جو خدا کے پیش نظر نہیں تھا، مگر آپ کے مطالبہ کی وجہ سے ضرورت سامنے آنے پر قرآن سے متعلق پروگرام میں شامل کیا گیا۔یا یہ آپ کے مطالبہ کی تردیدکے معنی دے گا کہ آپ کا مطالبہ ایسا تھا کہ جس میں قرآن کا بیان طلب کیا گیا تھا۔ جیسے مذکورہ تمثیل میں رشتہ دیکھنے کا مطالبہ لڑکے کا تھا، جسے ’’ پھر یہ بھی ہمارا کام ہے ‘‘ کے الفاظ سے رد کیا گیا ہے۔اسی تمثیل کے تناظر میں سورۂ قیامہ کی آیات پر بھی غور کریں تو بات صاف ہو جائے گی۔یہاں میں نے ’بَيَانَهٗ‘ سے متعلق آیت سولہ میں یہ پہلو بریکٹس میں کھول دیا ہے تاکہ میرا مدعا پانے میں آسانی ہو:
’’قرآن کے لیے زبان کو حرکت نہ دو کہ يہ چاہتے ہوئے كہ قرآن جلدی ]بیان کیا جائے[ (۱۶)، یہ ہمارا کام ہے کہ قرآن کی جمع و تالیف اوراس کی قراءت کریں(۱۷)۔ لہٰذا جب ہم قراءت کردیں تو بس اس کی اسی قراءت کی پیروكرو۔ (۱۸) پھر یہ بھی ہمارا کام ہے کہ قرآن کو بیان کریں(۱۹)‘‘
دوسرے اس تمثیل سے یہ واضح کرنا پیش نظر ہے کہ ’جَمْعَهُ‘ اور ’قُرْآنَهُ‘ کا بیان ’بَيَانَهُ‘پر مقدم کیوں ہوا ہے،اور ان کے ذکر کا موقع کیسے بنا ہے۔
’بَيَانَهُ‘کے معنی تیسرا مقام ہے، جہاں ہم نے معروف تفسیر سے اختلاف کیا ہے، اور یہ سب سے نازک مقام ہے۔ ’بَيَانَهُ‘ کو ’’شرح و وضاحت کرنے‘‘ کے معنی میں لیا گیا ہے۔ ہم قدیم عربی میں اس کے استعمالات کے مطالعہ کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’بيان‘ ’’واضح کہنے‘‘کے معنی میں توآتا ہے،لیکن ’’کسی قول، عبارت، کلام یا آیت کی شرح کرنے‘‘ کے معنی میں نہیں۔ یہ بالکل مؤلد معنی ہیں، جو بعد میں پیدا ہوئے[38]۔ بیان کے قدیم عربی میں معنی ’بلاغ‘کے ہیں، یعنی بتانے، کہہ دینے، آگاہ کرنے، واشگاف کہنے، انکشاف کرنے، خبر دینے، ثبوت دینے اور فیصلہ کن بات کہنےکے۔وضاحت کرنےکے معنی میں جب یہ آتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو بات کہی جا رہی ہو،وہ ابہام یا خفاسے پاک ہو،معنی شعر در بطن شاعروالی صورت نہ ہو، واضح ہو[39] یعنی کلام بلیغ اور فصیح ہو، بات کھلی اور صاف ہو، مدعا پر صحیح صحیح دلالت کررہی ہو، فیصلہ کن ہو۔بات واضح کرنے اور شرح کرنے میں واضح، مگرنازک فرق گڈ مڈ نہیں ہونا چاہیے۔غرض ’بيان‘ اس وضاحت کے معنی میں نہیں آتا جسے ہم تفسیر،تشریح یا اجمال کی تفصیل کہتے ہیں۔ سورۂ قیامہ میں بھی یہ کہنے، بیان کرنے اور خبر دینے کے معنی میں ہے، شرح آیات کے معنی میں نہیں۔یہاں اس کا مفعول بہ صرف قرآن ہے، یعنی قرآن کو بیان کرنا بھی اللہ کا کام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ قرآن کب اور کتنا اتارنا ہے،آیات کی صورت میں کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا ہے، کتنا کہنا ہے اور کس کو کہنا ہے، کس موقع پر کہنا ہے، اور کن الفاظ میں کہنا ہے،یہ سب اللہ کا کام ہے، آپ کے مطالبات کا اس میں دخل نہیں ہے،اس لیے اس کو جلدی طلب کرنے کا مطالبہ نہ کریں۔ اسی بات کو یہاں ’لَا تُحَرِّكْ ... ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
یہاں کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ ’بَيَانَهُ‘ کے جو معنی تم لے رہے ہو:’’قرآن کو بیان کرنا‘‘، یعنی موقع بہ موقع اتارنا تو اس کے لیے کیا نزول اور وحی وغیرہ کے الفاظ زیادہ موزوں نہیں تھے؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ دونوں الفاظ وہ بات نہیں کہہ سکتے جو ’بَيَانَهُ‘ کہہ رہا ہے، یعنی: ’ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا نزولَهُ / وحيَه‘ کہا جاتا تو مطلب ہوتا:’’پھر نزول قرآن یا وحی بھی اللہ کا کام ہے‘‘۔ ان الفاظ سے تو مدعا ہی بدل جاتا ہے۔جو بات میں نے اوپر عرض کی ہے، وہ ان الفاظ سے ادا نہیں ہوتی۔’’قرآن کو بیان کرنے‘‘کے مدعا کے لیے ’بیان‘ سے بہتر کوئی لفظ نہیں تھا۔
بیان قرآن کی جلد ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شدت سے محسوس ہوتی تھی،اس لیے کہ آپ انذار قرآن کے ذریعے سے کرتے تھے(ق ۵۰: ۴۵)۔ دوسرے یہ کہ قرآن کی آیات قریش و اہل کتاب کے ساتھ چلتے ہوئےمباحث میں صحیح تر جواب دیتا،آپ اورمسلمانوں کی رہنمائی، ثبات قدم اوربشارت و تسلی کا سامان بنتا تھا(النحل ۱۶: ۱۰۲)۔قرآن کی اس ضرورت کے پیش نظر آپ جبریل کا انتظار کرتے رہتے(مریم ۱۹: ۶۴)۔
قرآن کی شرح و وضاحت کے اس مزعومہ وعدہ ــــــ جو ’ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ‘ سے سمجھا گیا ہے ــــــ کے معہودکی کوئی مثال قرآن میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کچھ مفسرین کو کہنا پڑا’’ یہ وضاحت ہم آپ، یعنی نبی کریم کے ذریعے سے ‘‘کریں گے، ان کے پیش نظر حدیث تھی، حالاں کہ کلام: ’اِنَّ عَلَيْنَا‘ اس کو قبول نہیں کرتا، اور حدیث میں پورا قرآن تو درکنار ان آیات کی شرح بھی موجود نہیں ہے،جن کے فہم میں اختلاف ہوا ہے۔ زمخشری جیسے مفسر کو یہ کہنا پڑا کہ جہاں اشکال ہوگا، وہاں وضاحت کی جائے گی، ان کے پیش نظر اس طرح کی آیات تھیں: ’كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ‘۔ حالاں کہ ان آیات کے تمام مقامات قرآن میں دیکھیے کہ ان میں سے ایک آیت بھی کسی آیت کی شرح نہیں ہے۔ محض بات کہہ دینے کے معنی میں ہے کہ یوں اللہ اپنی آیات تمھیں بیان کرتا ہے۔ مقصود ان آیات کا یہ ہے کہ اللہ اپنا حکم اپنے الفاظ میں بیان فرما رہے ہیں۔ ’يُبَيِّنُ ‘کے لفظ سے یہ بھی مقصود ہے کہ بتوں سے بات کرتے ہو تووہ جواب نہیں دیتے، مگر اب عہد نبوی میں اللہ تمھیں جواب دے رہے ہیں(البقرہ ۲: ۱۸۶)۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مشکل آیت کی پورے قرآن میں کبھی تشریح نہیں کی ہے۔ اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی، اس لیے نہ یہ اللہ کا وعدہ تھا اور نہ اسے پورا کرنے کی ضرورت تھی۔
کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ سورۂ نساء کی ایک آیت کی توضیح میں ایک آیت اتری تھی؟ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہاں ’يُبَيِّنُ‘ کے بعد آیت کا لفظ ہی نہیں آیا: ’يَسْتَفْتُوْنَكَ ... يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْاﵧ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ‘(۴: ۱۷۶)۔یعنی یہ بھی کسی آیت کی تبیین (شرح )نہیں ہے۔ سورۂ نساء کی آیت ۱۱- ۱۲ میں جو بات کہی گئی تھی، وہ اور تھی، مگر اس سے ایک اشارہ نکل رہا تھا کہ اولاد کی عدم موجودگی میں بہن بھائی حصہ دار ہوں گے۔ جن صحابہ نے اس اشارہ کو پا لیا انھوں نے اس کی تصدیق کے لیے اللہ کی راے طلب کی، اللہ نے اپنی راے ’يُبَيِّنُ‘ (صراحت سے بیان )کردی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ’يَسْتَفْتُوْنَكَ‘ (النساء ۴: ۱۷۶)
کے الفاظ آئے ہیں،جس کے معنی’’طلب راے ‘‘کے ہوتے ہیں،’’ توضیح و تشریح ‘‘کے نہیں۔ غرض قرآن میں ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس کی تشریح و توضیح قرآن میں کی گئی ہو کہ کسی آیت کے معنی میں نعوذ باللہ اشکال ہو، اور اس اشکال کا ازالہ کیا گیا ہو۔
مزید یہ کہ کتاب مبین کی شان کے خلاف ہے کہ اس کا کوئی جملہ ایسا ہو، جس کی شرح کرنی پڑے، بلکہ یہ کہنا کتاب مبین کے تصور ہی کی نفی ہے، اور اس کے اولین مخاطب پر کج فہمی کی تہمت۔
آیات کی اس توضیح کے بعد ہم نے دو روایتوں کا تجزیہ کیا ہے۔یہ تجزیہ اس لیے کیا ہے کہ ہمارے خیال میں ایک طرف دو ر اول میں سورۂ قیامہ کی آیات میں جمع قرآن، یعنی ’جَمْعَهُ‘ کے معنی بدلنے کے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام ایک جھوٹی تفسیر منسوب کی گئی تاکہ جمع قرآن کے توقیفی[40]
ہونے کی نص مشتبہ المعنی ہو جائے، اور تفسیر ماثور کے تراشیدہ تقدس کی رو سے ’جَمْعَهُ‘ کے معنی حفظ کے لےلیے جائیں۔ دوسری طرف جمع قرآن کی ایک کہانی تراشی گئی تاکہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی تائید کریں اور اس باطل کو محکم کریں کہ قرآن اخبار آحاد ہی کی طرز پر صحابہ نے جمع کیا۔ سورۂ قیامہ میں جس ’جَمْعَهُ‘ کا وعدہ تھا، وہ حافظۂ نبوی میں ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی چلا گیا۔ جنگ یمامہ کے بعد جو قرآن جمع ہوا تھا، اس میں خدا اور رسول کی کوئی مداخلت و راے شامل نہیں تھی۔
ہم نے درایتًا ان روایتوں کے علل و عیوب، ان کے باہمی اور تاریخی تناقضات، نصوص قرآن سے ٹکراؤ وغیرہ بیان کرکے واضح کیا ہے کہ یہ روایتیں تراشیدہ ہیں۔لہٰذا ہم نے ان کی سند پر بحث نہیں کی، صرف اتنی بات لکھی ہے کہ یہ تمام روایات گو کتب حدیث میں وارد ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی حدیث نبوی نہیں ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[34]۔ میرے اس مضمون کی ماہیت کچھ ایسے تھی کہ میں قاری کو اپنے ساتھ ہم سفر بنا کر چل رہا تھا، جس میں نقطۂ نظر اور استدلال بتدریج ارتقا اور نفی واثبات کے تقابل سے گزر رہا تھا۔جس کی وجہ سے وہ یکجا بسیط ( sheer) انداز سےبیان نہیں ہوا تھا۔ مدیر ’’اشراق‘‘ جناب طالب محسن صاحب نے تجویز فرمایا ہے کہ مضمون میں بکھرے ہوئے، اس نقطۂ نظر کو مختصر طور پر بھی بیان کردیا جائے۔لب لباب کی سرخی کے تحت یہ سطوراسی تقاضے کو پورا کرنے کی سعی ہے۔خدا سے دعا ہے کہ اس سے مقصد پوراہو جائے۔اس طرف توجہ دلانے پر میں طالب صاحب کا شکرگزار ہوں۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہاں میں صرف سورۂ قیامہ کی چار آیات ۱۶ تا ۱۹ کے حوالے سے بات کررہا ہوں، روایات کا جو میں نے تجزیہ کیا ہے، ان کا خلاصہ خوف طوالت سے پیش نہیں کررہا ہوں۔اسی طرح استدلال بھی پورا یہاں بیان نہیں ہو سکے گا۔ان کےلیے قاری کو پورا مضمون پڑھنے کی زحمت اٹھانا ہی ہوگی۔
۳۵۔ اس شعر کی ترکیب سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱۴) کے اس جملے کو سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہے: ’وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰ٘ي اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ‘۔علامہ مرزوقی اس شعرکے معنی بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’فقال يعتب عليها: قد كان لنا في الموت قطيعة وافتراق، لكنك لم تصبري إلى حين وقوعه، ولم تنتظري نزوله، فتعجلت الصرم قبل الموت‘۔شاعر اموی دور کا ہے۔
[36]۔ تقریباً تمام مفسرین کے ہاں ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ‘ نہی اور ’ ’اِنَّ عَلَيْنَا ‘سے لے کر آیت ۱۹کے اختتام تک نہی کی تعلیل ہے۔
[37] ۔مجھے اس آیت میں اس اہتمام کے ساتھ قراءت کے ذکر کی وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ متن قرآن میں عہد نبوی ہی میں اعراب لگانے کی کوئی صورت اختیار کی گئی ہوگی،لیکن کسی دعویٰ سے بیش تر لازم ہے کہ تحقیق سے ثابت کیا جائے۔ اس کے لیے اس زمانے کے مخطوطات کی تلاش کرنا ہوگی۔
[38] ۔یہ معنی دراصل سنت اور قرآن کے باہمی تعلق کی بحثوں سے پیدا ہوئے، جن میں آیت ’وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ (النحل ۱۶: ۴۴) کا لفظ ’تُبَيِّنَ‘ مشق ستم بنا۔اب اس کے لیے کچھ آیات کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔مثلاً ’قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِيَ‘ (البقرہ۲: ۶۸)۔اس میں ’يُبَيِّنْ‘ کو غیر واضح کو واضح کرنے کے معنی میں لیا گیا ہے، حالاں کہ ایسانہیں ہے، بنی اسرائیل نے صرف یہ کہا تھا کہ آپ گاے ذبح کرنے کا حکم دے رہے ہیں، تو اللہ سے کہیے کہ وہ بتائے کہ گاے کیسی ہو؟یہ بالکل ویسا ہی جملہ ہے، جیسا آگے گاے کے رنگ سے متعلق ہے: ’يُبَيِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا‘ (البقرہ۲: ۶۹)، یعنی پیچھے گاے کا کوئی رنگ مذکور نہیں ہے کہ جس کی توضیح مانگی گئی ہو۔ تو یہاں ان دونوں مقامات پر ’يُبَيِّنْ‘ صرف ’’بتانے ‘‘کے معنی میں ہے، مجمل کی تفصیل یا مشکل کی شرح کے معنی میں نہیں۔ وہ تو سب پوچھ رہے تھے کہ گاے کیسی ہو؟جوابات سے بھی یہی واضح ہے کہ وہ حضرت موسیٰ کے حکم یا گاے کی توضیح کے جملے نہیں تھے، جو بات پوچھی گئی، اس کے جواب میں ایک ایسی نئی بات بتائی گئی ہے جو نہ پہلے لفظوں میں تھی نہ ان کے مضمرات میں۔ویسے بھی جب حضرت موسیٰ نے ان سے کہا کہ گاے ذبح کریں تو یہ مجمل یا مبہم حکم نہیں تھا۔ یہود نے شرارت کی وجہ سے گاےسے متعلق یہ سوالات کیے تھے۔انھوں نے ’’خدا کی پسند ‘‘پوچھی تھی، گاےیا گاے کے ذبح کے حکم کی شرح نہیں۔ کلام عرب میں ایک بھی مثال ہمیں نہیں ملی جو کلام کی شرح کے معنی پر دلیل ہو۔ تمام اشعار خفا سے اظہار یا ابہام سے پاک ہونے کے معنی دیتے ہیں۔ضمرۃ بن ضمرہ نے نعمان بن منذر کے سامنے اپنے مرد حر ہونے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا: ’وإن نطق نطق ببيان‘، وہ جب بولتا ہے تو کھل کر صاف اور مستند بات کہتا ہے،یعنی وہ ڈھکے چھپے پیرائے میں بات نہیں کرتا، خواہ بادشاہ کے سامنے کھڑا ہو۔
[39] ۔ امرؤ القیس کو جب ا س کے باپ کے قتل کی اطلاع ملی، وہ حضر موت میں صیلع پہاڑ کی چوٹی پر دوستوں کے ساتھ تھا، یہ اطلاع اسے کیسے ملی اور اس نے اس خبر کو کیسے بیان کرنے کا کہا، وہ دیکھیے:
أتاني وأصحابي على رأس صيلع فقلت لعِجلي بعيد مآبه
فقال أبيت اللعن عمرو وكاهل حديث أطال النوم عني فأنعما
أَبِنْ لي وبَيِّن لي الحديث المجمجما أباحا حمى حجر فأصبح مسلما
ہماری دل چسپی دوسرے شعر سے ہے، باقی اشعار سیاق فراہم کرنے کے لیے لکھے ہیں، کہتا ہے’’میں نے عجلی سے کہا، جس کا پلٹنا بعید تھا، مجھے (خبر) بتاؤ، اور چھپی خبروں سے آگاہ کرو۔ پہلا ’ابن‘، ’أبان‘ سے فعل امر ہے، صرف بتانے کے معنی میں آیا ہے، اور دوسراتفعیل سے فعل امر ہے، جو ’مجمجما‘ کے مقابل میں ہے، وہ بھی’’ آگاہ کرو ‘‘کے معنی میں آیا ہے۔یہ اگر چہ ثلاثی مجر د کی مثالیں نہیں ہیں، لیکن ان سے اس لفظ کی حقیقت سمجھنے میں مدد ضرور ملے گی۔
[40]۔ علوم القرآن کی ایک اصطلاح، جس کے معنی ہیں: اللہ کی طرف سے ٹھیرایا ہوا یا مقرر کیا ہوا، یعنی قرآن کا جمع ہونا اور اس کی ترتیب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ توقیفی ہے۔