بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰ٘ي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ٥٣ وَاَنِيْبُوْ٘ا اِلٰي رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ٥٤
اِن سے کہو کہ میرے بندو، جنھوں نے (میرے شریک ٹھیرا کر) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔[63] اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ تم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اُس کے فرماں بردار بن جاؤ، اِس سے پہلے کہ تم پر اُس کا عذاب آجائے۔[64] پھر تمھاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ ۵۳- ۵۴
وَاتَّبِعُوْ٘ا اَحْسَنَ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ٥٥ اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰي عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْۣبِ اللّٰهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ ٥٦ اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ٥٧ اَوْ تَقُوْلَ حِيْنَ تَرَي الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِيْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ٥٨ بَلٰي قَدْ جَآءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ٥٩
تم اُس بہترین چیز [65] کی پیروی کرو جو تم پر تمھارے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی ہے، اِس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تمھیں اُس کی خبر بھی نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو[66] کہ (بعد میں) کوئی کہے کہ ہاے افسوس، میری اُس کوتاہی پر جو مجھ سے خدا کے معاملے میں صادر ہوئی، اور حقیقت یہ ہے کہ میں تو مذاق ہی اڑاتا رہا۔ یا یہ کہے کہ اگر اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی اُس سے ڈرنے والوں میں ہوتا۔یا عذاب کو دیکھے تو کہے کہ کاش، مجھے دنیا میں پھر جانا ہو کہ میں بھی خوبی سے عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں! کیوں نہیں، (میں نے تو ہدایت بخشی تھی، چنانچہ) میری آیتیں تمھارے پاس آئی تھیں، پر تم نے اُنھیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور منکروں میں شامل رہے۔ ۵۵- ۵۹
وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَي الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَي اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًي لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ ٦٠ وَيُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ٦١ اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ ٦٢ لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ٦٣
(لوگو)، قیامت کے دن تم دیکھو گے کہ اُن کے چہرے سیاہ ہیں، جنھوں نے (خدا کے شریک ٹھیرا کر) خدا پر جھوٹ باندھا ہے۔ اِن تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا کیا جہنم میں نہ ہو گا؟[67] (اُس دن) اللہ اُن لوگوں کو اُن کے مامن میں[68] نجات عطا فرمائے گا جو اُس سے ڈرتے رہے۔ اُن کو نہ وہاں کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیزپر نگہبان ہے۔ زمین اور آسمانوں کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں۔ (اُس کے خزانوں سے کوئی دوسرا کسی کو کچھ نہیں دے سکتا، اِس لیے) جنھوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کر دیا ہے، وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ ۶۰- ۶۳
قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّيْ٘ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ ٦٤ وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ٦٥ بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ ٦٦
اِن سے کہو، نادانو، (یہ واضح حقائق ہیں)، کیا پھر بھی تم مجھے اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کے لیے کہتے ہو؟ دراں حالیکہ تمھاری طرف بھی، (اے پیغمبر)، یہ وحی بھیجی جا چکی ہے اور اُن کی طرف بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں کہ اگر تم شرک کرو گے تو تمھارا عمل اکارت ہو کر رہ جائے گا[69] اور تم ضرور خسارے میں پڑو گے۔ اِس لیے ہرگز شرک نہ کرو، بلکہ صرف اللہ کی بندگی کرو اور اُسی کے شکر گزار بندوں میں رہو۔[70] ۶۴- ۶۶
وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۣ بِيَمِيْنِهٖ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰي عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ٦٧ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰي فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ ٦٨ وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْٓءَ بِالنَّبِيّٖنَ وَالشُّهَدَآءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٦٩ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ ٧٠
اِن لوگوں نے خدا کی قدر نہیں کی، جیسا کہ اُس کی قدر کرنے کا حق تھا (اور اُس کے شریک ٹھیرا دیے، ورنہ اُس کی عظمت کا عالم تو یہ ہے کہ) قیامت کے دن پوری زمین (گویا) اُس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اُس کے دہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک اور برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۔ (اُس دن ساری خدائی کا حال یہ ہو گا کہ) صور میں پھونکا جائے گا تو زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں، سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے، سواے اُن کے جنھیں اللہ چاہے۔[71] پھر اُس میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو دفعتاً وہ کھڑے ہو کردیکھنے لگیں گے[72] اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی[73] اور اعمال کی کتاب رکھ دی جائے گی اور گواہی کے لیے پیغمبر حاضر کیے جائیں گے اور وہ بھی جو گواہی کے منصب پر فائز کیے گئے[74] اور لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا ، اُن پر کوئی ظلم نہ ہو گا اور ہر شخص کو ، جو کچھ اُس نے کیا تھا، اُس کا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔[75] اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔[76] ۶۷- ۷۰
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِلٰي جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتّٰ٘ي اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا٘ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا قَالُوْا بَلٰي وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ٧١ قِيْلَ ادْخُلُوْ٘ا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاﵐ فَبِئْسَ مَثْوَي الْمُتَكَبِّرِيْنَ ٧٢
( اِس کے بعد توحید کی دعوت کا) انکار کرنے والے گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس پہنچیں گے تو اُس کے دروازے (اُن کے لیے) کھول دیے جائیں گے اور اُس کے داروغے اُن سے پوچھیں گے کہ کیا تمھارے پاس تمھی لوگوں میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمھارے پروردگار کی آیتیں تمھیں سناتے اور تمھارے اِس دن کی ملاقات سے تمھیں ڈراتے تھے؟ وہ جواب دیں گے: ہاں ، آئے تو سہی، مگر عذاب کی بات منکروں پر پوری ہو کے رہی۔[77] کہا جائے گا: جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، اُس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ سو تکبر کرنے والوں کا[78] یہ کیا ہی براٹھکانا ہے!۷۱- ۷۲
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَي الْجَنَّةِ زُمَرًاﵧ حَتّٰ٘ي اِذَا جَآءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ ٧٣ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَآءُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ ٧٤
اِس کے برخلاف جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے، وہ گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس پہنچیں گے اور اُس کے دروازے (اُن کے لیے) کھول دیے جائیں گے اور اُس کے پاسبان اُن سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، خوش رہو اور اِس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو جاؤ، اور وہ اُن کے جواب میں کہیں گے کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو اِس زمین کا وارث بنا دیا، اب ہم جنت میں، جہاں چاہیں، ٹھیریں،[79] تو یہ صلہ ہو گا اُن کا۔[80] سو عمل کرنے والوں[81] کا یہ کیا ہی اچھا صلہ ہے!۷۳- ۷۴
وَتَرَي الْمَلٰٓئِكَةَ حَآفِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٧٥
(اُس دن، جب زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو گی) اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش الہٰی کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں۔[82] اُس دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا اور (ہر طرف سے) صدا بلند ہو گی کہ شکر کا سزاوار اللہ ہے، جہانوں کا پروردگار! [83]۷۵
[63]۔ یعنی اُس سے مایوس ہو کر دوسروں کے سہارے نہ پکڑو ۔غلطی کا اعتراف کرکے توبہ کرو گے تو وہ بڑے سے بڑے گناہ کو بھی بخش دے گا۔
[64]۔ یہ اُسی عذاب کا ذکر ہے جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں لازماً آتا ہے۔
[65]۔ یعنی قرآن مجید کی، جو تحریف کے تمام شوائب سے پاک خدا کی آخری کتاب ہے اور نہایت منفرد اور دل نشیں اسلوب اور فصیح و بلیغ عربی زبان میں دین فطرت کے حقائق کو اتنے مختلف پہلوؤں سے واضح کرتی ہے کہ کوئی بلید سے بلید آدمی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی جگہ کوئی ابہام باقی رہ گیا ہے۔
[66]۔ اصل الفاظ ہیں:’اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰي‘۔اِن میں ’اَنْ‘سے پہلے مضاف عربیت کے قاعدے سے محذوف ہے۔ ترجمہ اُسی کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔
[67]۔ یعنی جہنم ہی میں ہونا چاہیے، ا ِس لیے کہ ایسے سرکش اگر جہنم کے سزاوار نہیں ہوں گے تو اور کون ہو گا؟
[68]۔ یعنی جنت میں، جہاں اُن کے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔
[69]۔ قرآن میں یہ بات جگہ جگہ واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کے ساتھ کسی عمل کو بھی قبول نہیں کرتا۔ و ہ صرف اپنے اُن بندوں کی نیکیاں قبول کرتا ہے جو تنہا اُسی کو پوجتے ہیں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتے۔
[70]۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ شرک کے بعد بندہ اپنے پروردگار کا شکرگزار نہیں رہتا، بلکہ اُس کی بندگی میں دوسروں کو شریک کرکے بالکل ناشکرا بن جاتا ہے۔
[71]۔ یہ غالباً اُن ملائکہ کی طرف اشارہ ہے جو عرش الہٰی کے ارد گرد خدا کی حمد و تسبیح میں مصروف ہوں گے۔ سورہ کے آخر میں اُن کا ذکر ہے۔
[72]۔ اوپر جو مضمون بیان ہوا ہے، یہ اُسی کی مزید توسیع ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ جس دن کی ہول ناکی کا یہ عالم ہے، اُس دن کس کی مجال ہے کہ خدا کے آگے ناز و تدلل کے ساتھ بڑھ کر کسی کی وکالت یا سفارش کر سکے اور جس خدا کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اُس کے ایک نفخۂ صور سے ساری خدائی بے ہوش اور پھر ساری خدائی بیدار ہو گی، کون ہے جو اُس کا ہم سر بننے کا مدعی ہوسکے!‘‘(تدبرقرآن۶/ ۶۱۱)
[73]۔ یعنی وہ زمین جو نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ قیامت کے دن وجود میں آئے گی اور ہمارے آفتاب کے بجاے اللہ کے نور سے روشن ہو گی جس سے محسوسات و مرئیات سے آگے تمام حقائق و معانی بھی روشنی میں آجائیں گے۔ قرآن میں جگہ جگہ اِس کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔
[74]۔ یعنی ذریت ابراہیم کے لوگ جو زمین پر نبیوں کی دعوت کے گواہ بنائے گئے۔ اُن کی نمایندگی، ظاہر ہے کہ اُن کے مجددین و مصلحین کریں گے۔ سورۂ حج (۲۲) کی آیت ۷۸ اور آل عمران (۳) کی آیت ۳۳ میں قرآن نے ذریت ابراہیم کے اِس منصب کی تصریح فرمائی ہے۔
[75]۔ یعنی کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی اور ہر ایک اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹے گا۔
[76]۔ یہ تمام تفصیل اِس لیے کی گئی ہے کہ مشرکین آنکھیں کھولیں کہ اصل حقیقت کیا ہے اور وہ کیا آرزوئیں لیے بیٹھے ہیں۔
[77]۔ یہ انتہائی حسرت کا جملہ ہے کہ خدا نے منکرین حق کے لیے روز ازل جس فیصلے کا اعلان کر دیا تھا، افسوس ہے کہ وہ نافذ ہو کے رہا۔
[78]۔ یہ اُنھی منکرین کی صفت ہے جن کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ اِس سے انکار کے سبب پر روشنی پڑتی ہے کہ یہ درحقیقت اُن کا تکبر ہی تھا جو انکار کا باعث بن گیا۔
[79]۔ یعنی پورے اختیار و اقتدار کے ساتھ جہاں چاہیں، فروکش ہو جائیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس سے معلوم ہوا کہ وہاں کسی کی خواہشوں اور ارادوں میں مزاحم ہونے والی کوئی چیز نہیں ہو گی۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جس کا اِس جہان میں کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کی حقیقت اُسی وقت سمجھ میں آئے گی، جب وہ نیا جہان نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ اور انسان اپنی نئی قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ظہور میں آئے گا اور یہ زمین سورج کے بجاے اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۶۱۵)
[80]۔ یہ جواب شرط ہے جو اصل میں حذف کر دیا گیا ہے۔
[81]۔ اوپر اِسی جگہ ’مُتَكَبِّرِيْن‘ کا لفظ ہے۔ اُس کے مقابل میں یہاں بظاہر ’خَاشِعِيْن‘یا ’مُتَّقِيْن‘ کا محل تھا، مگر قرآن نے اِن کی جگہ ’عٰمِلِيْن‘ کا لفظ استعمال کرکے یہ اشارہ کرنا چاہا ہے کہ جنت کے حصول کے لیے اصلی چیز عمل ہے۔ چنانچہ استاذ امام کے الفاظ میں، جو لوگ سفارشوں کے بل پر جنت کے خواب دیکھ رہے ہیں، وہ جنت الحمقا میں بس رہے ہیں۔
[82]۔ آیت ۶۷ سے آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک آئیے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت ’وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا‘سے متصل ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس میں جن فرشتوں کا ذکر ہے، وہ حاملین عرش اور اُن کے زمرے کے فرشتے ہیں۔ ’حَآفِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ‘کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
[83]۔ یعنی اہل ایمان بھی یہی کہیں گے اور حاملین عرش بھی اُن کے ہم نوا ہوں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو جو چیز سزاوار حمد و شکر بناتی ہے، وہ اُس کا عدل اور نیک و بد کے درمیان اُس کا فرق و امتیاز ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو یہ دنیا ایک اندھیر نگری ہے اور ایک اندھیرنگری کے خالق کو کوئی حمد و شکر کا سزاوار نہیں مان سکتا۔ قیامت کے دن جب اُس کے کامل عدل اور اُس کی کامل رحمت کا ظہور ہوگا، تب ہر ایک کا تردد دور ہو جائے گا اور ہر گوشے سے اُس کی حمد کا ترانہ بلند ہو گا۔ گویا جس صبح حمد کے لوگ انتظار میں تھے، وہ طلوع ہو گئی اور یہ جہان خدا کے نور سے جگمگا اٹھا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۶۱۶)
ـــــــــــــــــــــــــ