HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

رسول اللہ کی سرگذشت

آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے عرب کے ایک چھوٹے سے شہر میں، جس کا نام مکہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ آپ کا نام احمد رکھا گیا، لیکن بعد میں آپ اپنے دادا کے دیے ہوئے لقب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معروف ہوئے۔

ہمیں معلوم ہے کہ اس زمانے میں مکہ کا شہر اہل عرب کے لیے ایک مذہبی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس زمانے کی عالمی طاقتوں کی اس علاقے سے دل چسپی نہ ہونے کے برابر تھی، اس لیے کہ یہ علاقہ قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی کوئی کشش نہیں رکھتا تھا اور نہ حجاز اور اس کے قرب و جوار میں کوئی بڑی تہذیب پروان چڑھی تھی کہ دنیا اس کی طرف راغب ہوتی۔ عرب قبائل کی اکثریت صحرائی علاقوں میں آباد تھی اور کچھ قبائل کا پیشہ ہی لوٹ مار تھا۔ اس ماحول کی وجہ سے عرب ایک الگ دنیا تھی۔ مزید یہ کہ عرب ایک جزیرہ نما ہے۔ اس کے تین اطراف میں سمندر ہے۔ چنانچہ وہ ایک الگ تھلک علاقہ بن جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہ صرف عرب ہی تھے جو ایک طرف ایران اور دوسری طرف روم کی سلطنت میں تجارت کی غرض سے آتے جاتے تھے۔اسی طرح وہ سمندری راستوں سے بھی تجارت کرتے تھے۔ اس کے باعث برصغیر سے لے کر براعظم افریقہ تک ربط کا ایک ذریعہ تھے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے منصب پر سرفراز کیا تو قبل از اسلام کا زمانہ ’زمانۂ جاہلیت‘ کے نام سے موسوم ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلام سے پہلے عرب بالکل کوئی حیوانوں کا ریوڑ تھے۔ اس سے مراد یہ تھی کہ عرب خالص حق سے محروم تھے۔ عرب بطور خاص مکہ کے باشندے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی پیدا کی ہوئی روایت کے حامل تھے۔ البتہ اس میں انھوں نے غلط عقائد اور بدعات شامل کرکے اس کی اصل ہیئت تبدیل کر دی تھی۔ اس گم راہی نے انھیں العلم سے دور کر دیا تھا۔ اس طرح حق سے محرومی، یعنی ’جاہلیت‘ ان کا ذہن و قلب اور تہذیب و ثقافت بن گئی تھی۔

العلم اور الحق سے دوری اور شرک و بدعات کی گم راہی نے انھیں راہ مستقیم سے ہٹا دیا تھا۔ اخلاق و کردار کے اعتبار سے بھی ان کے اندر بہت سی پستیاں تھیں۔اس کے باوجود عرب قوم کچھ اچھی اقدار اور کچھ مثبت روایات کی حامل بھی تھی۔ عرب کے سخت حالات کی وجہ سے عربوں میں سختیوں کا سامنا کرنے کی اچھی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی۔ بہادری، جنگ جوئی، استقامت اور جہد مسلسل ان کے کردار کا حصہ تھی۔ قبائلی نظام کے باعث حمیت، حمایت اور اپنوں کے لیے جاں نثاری ان کا روزمرہ تھا۔ ان کی اعلیٰ اخلاق کی قدر شناسی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے آپ کے اعلیٰ کردار کے باعث صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔ جب ان خوبیوں کے ساتھ اسلام کی حقانیت ان کے علم وعمل کی رہنما بنی تو عرب ایک معمولی قوم سے اٹھی اور دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہو گئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب چالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں منصب نبوت سے سرفراز فرمایا۔ ان کو حق کا علم بردار بنا دیا۔ ان کو یہ ذمہ داری دےدی کہ جو حق عطا کیا گیا ہے، اس کا ابلاغ پوری شان کے ساتھ اپنی قوم کو کر دیں۔ آپ اپنی سمجھ داری، تجربہ کاری اور اپنے اعلیٰ کردار کی وجہ سے معاشرے کے ایک معزز فرد تھے۔اگرچہ مکے کی اجتماعی ہیئت میں آپ کے قبیلے بنی ہاشم کو بھی ایک ذمہ داری حاصل تھی، لیکن سیاسی اثر و رسوخ کے اعتبارسے آپ کا قبیلہ بڑی حیثیت کا حامل نہیں تھا۔

آپ کے کار نبوت نے مکہ کی بستی کو حق کے رد وقبول کے جدال میں مبتلا کر دیا۔ آپ نے شہر مکہ کے بنیادی عقیدے شرک کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کے حق میں موجود استدلال کو بودا ثابت کردیااور اس کے لیے بہت دل آویز اسلوب میں بہت مؤثر دلائل پیش کر دیے۔ معاشرے میں رائج بدعات اور حلت و حرمت میں دین ابراہیم سے انحرافات کی نشان دہی کی اور ان کا ناحق ہونا واضح کیا۔ اسی طرح آپ نے معاشرے میں موجود اخلاقی برائیوں کو چھوڑنے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنانے کی دعوت دی۔ جو آپ کے ساتھ وابستہ ہوا، وہ اس کا نمونہ نظر آتا تھا۔ آپ جہاں خود اخلاق و کردار کی معجز نما شخصیت رکھتے تھے، وہاں آپ پر جو کلام اترا، وہ شکوۂ ارشاد، حسن بیان، دل آویزغنا اور سکوت طاری کر دینے والے استدلال کا مرقع تھا۔ ان سب عوامل نے اہل مکہ کے قصر فکر وعمل کی فصیلیں لرزہ براندام کر دیں۔

جب آپ کی دعوت عین حق تھی، اس کے نتائج بھی انتہائی شان دار تھے، جس بستی میں آپ یہ کام کر رہے تھے اس کو دو پیغمبروں ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام نے آباد کیا تھا، اس بستی میں بسنے والے انھی کی اولاد تھے،پھر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ یہ لوگ آگے بڑھ کر آپ پر ایمان لاتے اور دل وجان سے پیروکار بن جاتے، لیکن ہوا اس کے برعکس۔اس بستی کے بڑے حصے نے اس دعوت کی مخالفت کی۔اصل میں دو ہزار سال کے لمبے سفر نے انھیں فی الواقع مشرک بنا دیا تھا۔ اللہ کے ساتھ شرکا موجود ہیں، یہ عقیدہ ان کے لیے ’حق‘ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا، اس لیے ان کی طرف سے جو مزاحمت ہوئی، وہ بہت شدید تھی۔ جس طرح ہر سماج کی مذہبی اور سیاسی قیادت اس سماج کے عقائد و رسوم اور تہذیب و ثقافت کی محافظ بنی ہوتی ہے اور اپنی سیادت کے تسلسل اور اپنے ذاتی اقتدار کے لیے حسب ضرورت اس کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے، یہی معاملہ مکہ کی مذہبی اور سیاسی قیادت کا تھا۔ اس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے خلاف اپنے آبا کے مذہب کی حفاظت کا نعرہ بلند کیا۔ جس طرح آج ہم دیکھتے ہیں کہ اختلافی بات کو استدلال کی میزان میں تولنے کے بجاے اس کا مقابلہ مختلف اندیشوں کے نعرے لگا کر، شخصیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرکے اور تشدد و اذیت رسانی کے طریقے اختیار کر کے کیا جاتا ہے، یہی طریق کار عربوں نے اختیار کیا۔اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لیے بہت ہی مشکل حالات پیدا ہو گئے۔

ہر طرح کا تشدد روا رکھا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور منصب نبوت کو مشکوک بنانے کے لیے طرح طرح کے جھوٹ گھڑے گئے۔ استہزا اور استخفاف کے لیے ہر پستی میں اترے۔غرض یہ کہ مکہ کی قیادت نے حق کی طرف متوجہ ہونے والوں کی راہ مسدود کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اس کے باوجود حق شناسوں نے اپنی حق شناسی کی ذمہ داری پوری کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لائےاور آپ کی تعلیمات کو بھی اپنی زندگی بنا لیا۔حالات کی سنگینی کے باعث آپ کے بہت سے اصحاب کو عرب سے باہر ایک مسیحی ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔

مکہ کا شاید ہی کوئی گھر ہو جس کا کوئی فرد مسلمان نہ ہوا ہو۔ گویا مکہ کی بستی اچھی طرح بِلو لی گئی ہے۔ مکھن چھاچھ سے جدا ہو گیا ہے۔ہر فرد کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ دعوت کیا ہے، اس کا استدلال کیا ہے، اس پر کیا اعتراضات کیے جارہے ہیں اور ان کے کیا جواب دیے گئے ہیں۔یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ یہ دعوت جس رفتار سے مکہ اور مکہ سے باہر موجود حق پرستوں کو سمیٹتی چلی جارہی ہے، اس سے قرآن کا یہ اعلان حقیقت بن جائے گا کہ اس دعوت کے منکرین کا انجام مغلوبیت اور رسوائی ہے۔ چنانچہ اہل مکہ نے انتہائی رویہ اختیار کر لیا اور انتہائی اقدامات اٹھانے کے فیصلے کر لیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کار دعوت کے لیے ایک مستقر کی ضرورت تھی، یعنی کوئی عرب علاقہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو قبول کرے اور قریش کے آلام سے حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائے۔ اسی مقصد سے آپ نے طائف کا سفر بھی کیا تھا۔ حج کے موقعے پر بھی آپ نے اس غرض سے ملاقاتیں کیں۔ مدینہ کے دو بڑے قبائل اوس و خزرج سے ملاقات بہت نتیجہ خیز ہوئی۔ ان قبائل کی سیادت نے اسلام قبول کر لیا۔ اور ان کی کوششوں سے سال ڈیڑھ سال ہی میں مدینے میں اتنی تعداد میں لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہو گئے کہ یثرب کی بستی رسول اور ان کے ساتھیوں کی میزبانی کے قابل ہو گئی۔ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ گیر کی حیثیت سے نہیں، ایک مقتدا اورپیشوا کی حیثیت سے آنا تھا۔

اہل مکہ نے حق کی مخالفت کی۔ لوگوں کوحق سے دور رکھنے کا جرم کیا۔ اہل ایمان کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا، یہاں تک کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ وہ جرائم ہیں جنھیں اللہ کی زمین پر اللہ ہی کے مبعوث کیے ہوئے پیغامبر کی مخالفت میں کیا گيا۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ لوگ اللہ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی حکومت اس دنیا پر قائم ہے۔ یہ حکومت عادل اور حکیم شہنشاہ کی حکومت ہے۔ جس کے ساتھ کوئی مجبوری یا کم زوری لاحق نہیں ہے۔ اس کا اختیار بھی لامحدود اوربے عیب ہے اور اس کا علم بھی لا متناہی اور بےخطا ہے۔ وہ حق اور اہل حق کے ساتھ ہے۔ یہاں دنیا میں اس کے فیصلے پردۂ غیب کے اندر سے آتے ہیں، اس لیے ان کے بارے میں انسانوں کا فہم بسا اوقات اس کی اصل کو نہیں پا سکتا۔ لیکن اللہ کے پیمبر جب دنیا میں ہوتے ہیں تو اہل حق کے ساتھ اللہ کی معیت اور اہل باطل کے خلاف اللہ کے اقدامات بالکل مشہود ہو جاتے ہیں اور ان کے بارےمیں کوئی اور توجیہ ممکن نہیں رہتی۔جیسا کہ قوم ثمود کے پیمبر نے اپنے کار دعوت کے اختتام پر ایک ناقہ نام زد کردی۔ اگر منکرین اس کو نقصان پہنچائیں گے تو خدا کا عذاب نازل ہو جائے گا۔ جب انھوں نے اس ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں تو اللہ کا عذاب نازل ہو گیا۔ جو لوگ اس عذاب میں مبتلا ہوئے، ان کے لیے خدا کی عدالت ایک مشہود تجربہ تھی۔ جو اصحاب پیمبر اس سے محفوظ رہے، ان کے لیے بھی ان کا ایمان ایک حسی تجربے سے مؤکد ہو گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں جب اہل کفر نے آخری اقدام کا فیصلہ کیا اور اسے نافذ کرنے کے درپے ہوئے تو اللہ نے ہجرت کا حکم دے دیا۔اصحاب رسول کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ شہر نبی بننے والی بستی یثرب میں ہجرت کر جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس رات اپنے گھر سے نکلے اورمکہ چھوڑ گئے جب اہل مکہ نے آپ کو قتل کرنے کے لیے چند نوجوان مقرر کیے اور وہ آپ کے گھر کے اردگرد گھات لگائے ہوئے تھے۔اس طرح یثرب کو یہ اعزاز حاصل ہو گیا کہ وہ اللہ کے رسول کی اٹھائی ہوئی دعوت کا مرکز بنے۔اس بستی کو یہ مقام حاصل ہوا کہ اس کی سربراہی کسی قبائلی سردار کے بجاے سرور عالم کریں۔اس بستی کی قسمت چمکی اور وہ یثرب جیسے منفی نام کے بجاے مدینۃ النبی جیسے مقدس نام سے موسوم ہوگئی۔

لیکن اہل مکہ اپنی حق دشمنی سے باز نہیں آئے۔ انھوں نے مدینہ پر جنگیں مسلط کیں، مگر یہی جنگیں ان پر خدا کا کوڑا بن کر برسیں اور ان کی طاقت عرب کی سرزمین میں شکست و ریخت کا شکار ہوئی اور صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عرب کے سربراہ بن گئے۔ آپ کا دین تمام عرب کا دین بن گیا۔ مکہ جو شرک کا گڑھ بنا ہوا تھا، توحید کا مرکز بن گیا۔عرب جو دنیا کی قوموں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، اقوام عالم کے قائد بن گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سارے واقعے پر اظہار تشکر کے لیے فتح مکہ کے موقع پرکیا جامع بات کہی:

لا إله إلا اللّٰه وحدہ لا شریک له صدق و عده و نصر عبدہ و هزم الأحزاب وحدہ.(السیرۃ، ابن حبان ۱/ ۳۱۵)
’’اللہ یکتا ہی کار ساز و کار فرما ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کر دیا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور صرف اسی نے تمام لشکروں کو ہزیمت دی۔‘‘

یہ داستان اللہ کے نبی کی داستان ہے۔ یہ تاریخ کے صفحات پر روشن لفظوں میں درج ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو اعلانات آپ نے کیے تھے، وہ پادشاہ ارض و سما کی طرف سے آئے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو دعوت آپ نے اٹھائی تھی، وہ رحمٰن و رحیم کے حکم سے اٹھی تھی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ عادل بر حق ہے، اسی لیے اس نے حق کے مخالفین کی نقمت و فضیحت کو اور اہل حق کے غلبہ و رفعت کو یہاں مشہود بنا دیا تاکہ تمام انسان یہ یقین رکھیں کہ اس جہان فانی کی کہانی ایک جہان باقی پر منتج ہو گی۔ اہل خیر لازوال نعمتوں سے نوازے جائیں گے اور اہل شر خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اس بات پر مہر تصدیق ہے کہ اسلام ہی بارگاہ ایزدی سے جاری کیا گیا دین برحق ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B