HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

دین فطرت

اللہ تعالیٰ نے جس مخلوق کو اُس کے جن خصائص کے ساتھ پیدا کیا ہے، وہی اُس کی فطرت ہے۔ انسان کی خلقت میں اِن خصائص کا ظہور اُس کے جبلی داعیات، جذبات و احساسات اور اُس کے اضطراری علم کی صورت میں ہوتا ہے۔ اِن کے لیے جو چیز سب سے بڑے محرک کا کردار ادا کرتی ہے، وہ انسان کے اندر ظاہر و باطن میں حسن و قبح کا شعور ہے۔ یہ جیسے ہی بیدار ہو جاتا ہے، اشیا اور افعال، دونوں پر اپنا حکم لگانا شروع کر دیتا ہے۔ انسان کے خالق نے یہ حکم اُس کی پیدایش کے ساتھ ہی اُس کے اندر الہام کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ بھی اُسی علم کا حصہ ہے، جسے ہم نے اوپر اضطراری علم سے تعبیر کیا ہے۔ نطق و بیان کی صلاحیت اِس کے بعد اِس کے لیے الفاظ کا پیرہن تیار کرتی ہے۔ یہ الہام خود انسان سے متعلق جن چیزوں پر حکم لگاتا ہے، وہ اصلاً تین ہی ہیں:

ایک، بدن کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ طہارت اور نجاست کے مابین فرق کا شعور ہے۔

دوسرے، خورو نوش کی چیزوں کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ اُن کے طیبات و خبائث کے مابین فرق کا شعور ہے۔

تیسرے، نیت، ارادے اور اعمال کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ معروف اور منکر کے مابین فرق کا شعور ہے۔

انسان وارفتۂ حسن ہے، اور اِن سب چیزوں کا حسن جہاں اپنے منتہاے کمال پر ظاہر ہوگا، وہ فردوس بریں ہے۔ چنانچہ انسان کا نصب العین بھی وہی ہے، اور اُس کے لیے وہ محبت کے غیر معمولی جذبات اور اُس کو پالینے کی شدید خواہش کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں اُس کی تمام جد و جہد کا مقصود بھی ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اِس کو کسی نہ کسی درجے میں اپنے لیے فردوس بنا لینے میں کامیاب ہو جائے۔ وہ اِسی مقصد سے جیتا، اِسی کے لیے مرتا، اِسی کے لیے رہنماؤں کے بت تراشتا، اُن کی پرستش کرتا، اُن کے دکھائے ہوئے خوابوں کو حقیقت بنا دینے کے لیے جان و مال کی قربانی پیش کرتا اور آنے والے زمانوں میں کبھی اساطیر اور کبھی علم کے تراشیدہ مسیحاؤں کا منتظر رہتا ہے۔ پھر یہی نہیں، اِس سے آگے وہ اپنی اِس جد و جہد کے حق میں فلسفے بھی ایجاد کرڈالتا ہے۔

اللہ کے نبی انسان کو دنیا پرستی کے اِسی رویے پر متنبہ کر دینے اور اِس کے پیدا کیے ہوئے حجابات کو اٹھا کر حسن فردوس کا جلوہ اُس کو کسی حد تک اُس کی اِسی زندگی میں دکھا دینے کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں۔ دین حق اِسی حسن کا سراپا اور اِس کے منتہاے کمال پر اِس کو پالینے کی دعوت ہے۔ چنانچہ فردوس میں داخل ہونے سے پہلے اُس کے ماحول سے ہم آہنگ ہو جانے کے لیے وہ اپنی اِس دعوت میں جن چیزوں کو اختیار کر لینے کی ہدایت کرتا ہے، وہ بھی اصلاً تین ہی ہیں :

ایک، تطہیر بدن۔

دوسرے، تطہیر خورو نوش۔

اور تیسرے، خلق اور خالق،دونوں کے ساتھ انسان کے تعلقات و روابط کی تطہیر۔ اِسے ہم مختصر طریقے پر تطہیر اخلاق سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

ارشاد فرمایا ہے :

مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ، وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ، لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ. (المائدہ ۵: ۶)
’’اللہ تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا، لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمھیں پاکیزہ بنائے، اور چاہتا ہے کہ اپنی نعمت تم پر تمام کرے تاکہ تم اُس کے شکرگزار ہو۔‘‘

اِسی طرح فرمایا ہے:

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ، يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ، وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ.(الاعراف ۷: ۱۵۷)
 ’’ (اپنی رحمت میں اُن لوگوں کے حق میں لکھ رکھوں گا) جو اِس نبی امی رسول کی پیروی کریں گے، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اُنھیں بھلائی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام ٹھیراتا ہے اور اُن کے اوپر سے اُن کے وہ بوجھ اُتارتا اور بندشیں دور کرتاہے۔ جو اب تک اُن پر رہی ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جو قانون و حکمت دین حق کی حیثیت سے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے نازل کیا ہے، وہ اِنھی تین چیزوں کی تفصیلات اور اِن کے لوازم و مقتضیات کا بیان ہے۔ اِس کو ہم دین فطرت اِسی لحاظ سے کہتے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے، فرمایا ہے:

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا، فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا، لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ، ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ، وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ.(الروم ۳۰: ۳۰)
 ’’سو ایک خدا کے ہو کر تم اپنا رخ اب اُس کے دین کی طرف کیے رہو۔ تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو، (اے پیغمبر)، جس پر اُس نے لوگوں کو پید اکیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی اِس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘

ـــــــــــــــــــــــــ

B