HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

مذہبی داستانیں اور سائنس

معاذ بن نور

 

[جناب جاوید احمد غامدی کی ویڈیوز کی ٹرانسکرپشن پر مبنی سوال و جواب]

سوال: آرکیولوجی کے مطابق مختلف نسلوں کے انسان تیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھے، لیکن مذہبی تاریخ کے مطابق سیدنا آدم دس ہزار سال پہلے تشریف لائے تو مذہبی داستانوں اور سائنس میں جب کوئی تصادم ہو تو کس کو فالو کرنا چاہیے؟

جواب: پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ جو کہا جاتا ہے عام طور پر کہ حضرت آدم علیہ السلام دس ہزار سال یا سات ہزار سال پہلے تشریف لائے، یہ کسی الہامی کتاب کا بیان نہیں ہے، یعنی نہ یہ تورات میں ہے، نہ زبور میں ہے، نہ انجیل میں ہے، نہ انبیا کے صحائف میں ہے۔ یہ جیوش ہسٹری میں ہے۔پہلی بات تو یہ جاننا ہے کہ یہ اپنی ذات ہی میں ایک انسانی انفارمیشن ہے، جو قدیم زمانے کے لوگوں نے دی ہے۔ چنانچہ کتاب پیدایش جو بائیبل کی ہے، اس میں حضرت آدم اور ان کے بعد کے لوگوں کا جو شجرہ بیان کیا گیا ہے، اس سے یہ اندازہ لوگوں نے لگایا ہے کہ سات ہزار سال یا دس ہزار سال کی بات کہی جا رہی ہے۔ یہ ہسٹری ہے۔ یہ کسی الہامی کتاب کا، کسی اللہ تعالیٰ کی کتاب کا یا کسی پیغمبر کا بیان نہیں۔ یہ انسانی بیان ہے۔ انسانی بیان جتنے بھی ہوتے ہیں، ان کو ہمیشہ علم کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان میں غلطی ثابت ہو جاتی ہے، اس کی اصلاح کر لی جاتی ہے۔ لوگ جو چیز بائیبل میں لکھی ہوئی دیکھتے ہیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ الہام ہے، ایسا نہیں ہے۔ بائیبل ہسٹری ایک الگ چیز ہے اور اس میں الہامی کتابیں بالکل الگ چیز ہیں، یعنی وہ اس کا حصہ ہے، لیکن ساری کی ساری بائیبل الہامی کتاب نہیں ہے ۔اس میں بہت بڑا حصہ جیوش ہسٹری کا ہے ۔بنی اسرائیل کی تاریخ جو اپنے علم کے مطابق انسان بیان کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں ہمارے ہاں تاریخ کی بہت سی کتابیں ہیں، ان میں ایسی ایسی گپیں لکھی ہوتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ تھوڑی سی اپنی معلومات بھی بہتر کر لیجیے۔ صورت حال اب تیس ہزار سال پہ نہیں رہی ہے۔ اس سے پہلے یہ خیال تھا، لیکن اب تو یہ مانا جا رہا ہے کہ تین لاکھ سال تک کم و بیش انسانی وجود کے آثار مل گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کچھ اور فوسلز مل جائیں تو آپ اس سے بھی آگے جا چکےہوں، کیونکہ کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے سے اور اسی طرح جینیاتی علوم کے مطالعے سے اب کافی حد تک ہم اس کو متعین کر لیتے ہیں کہ کیا صورت حال ہے۔ تو ایک تو یہ چیز ہے کہ بات تیس ہزار سے بھی کچھ آگے جا رہی ہے۔

اس کے بعد یہ دیکھیے کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ہم نے جب انسان کو بنانے کا فیصلہ کیا تو پہلے مرحلے میں کیا طریقہ اختیار کیا ۔یہ اب میں اپنا فہم اور اپنی انڈرسٹینڈنگ بیان کر رہا ہوں۔ اللہ کی کتاب میں جگہ جگہ اس کو واضح کیا گیا ہے اور سب سے جامع بیان سورۂ سجدہ میں ہے۔ اس میں بالکل ترتیب سے اللہ تعالیٰ نے یہ پوری بات بیان کر دی ہے۔

فرمایا ہے کہ جب ہم نے انسان کو بنانے کا فیصلہ کیا تو جو پروسس اس وقت ہوتا ہے، بچے پیدا ہوتے ہیں نا ہمارے ہاں؟ کیا پروسس ہوتا ہے؟ اسی مٹی کے اجزا ہم سبزیوں، گوشت اور دوسری چیزوں کی صورت میں اپنے اندر ڈالتے ہیں، اندر ایک فیکٹری ہے، جس میں جا کے وہ پروسس ہوتے ہیں، اس کے بعد ایک بیضہ اور ایک قطرۂ آب تیار ہو جاتا ہے اور ابتدا ہو جاتی ہے اس سے انسان کی، ان کے ملاپ سے بچہ بننا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے سامنے بنتا ہے، یعنی اجزا بھی موجود ہیں جو اندر ڈالے جاتے ہیں، پروسس کرنے کا سسٹم بھی سامنے موجود ہے جس میں یہ سب کچھ ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد جیتا جاگتا انسان بن کے سامنے آجاتا ہے۔

 قرآن مجید نے یہ بتایا کہ یہ جو پروسس اس وقت ہم مٹی کے اجزا سے کرتے ہیں، یعنی غذا کی صورت میں وہی اجزا کھلاتے ہیں اور کرتے ہیں، یہ ہم نے قرنوں پہلے زمین کے پیٹ میں کیا اور جس طرح اب آپ دیکھتے ہیں کہ بعض جانوروں کے ہاں بچہ پیٹ میں پرورش پا کر باہر آتا ہے اور بعض کے ہاں وہ پہلے egg بن کے باہر آ جاتا ہے، پھر اس میں پرورش پا تا ہے تو قرآن مجید نے جو مختلف صورتیں بیان کی ہیں، اس میں یہ مترشح ہوتا ہے کہ جس وقت وہ پروسس شروع ہوا تو یہ سمندروں کے کنارے کی دلدل سے شروع ہوا جس کو قرآن ’طين‘  کہتا ہے، یعنی دلدلی مٹی سے اور جب پروسس شروع ہوا تو وہ خشک ہوکے بالکل egg کی صورت اختیار کر گئی، یعنی ’صلصال كالفخار‘ ہو گئی۔ اور پھر کتنا وقت لگا؟ اب نو مہینے لگتے ہیں، ہو سکتا ہے اس وقت سالوں لگے ہوں۔ اس egg کے ٹوٹنے کے نتیجے میں جیسے چوزے باہر آ جاتے ہیں، اسی طرح انسان بننے شروع ہوئے۔ یہ جو انسان بنے یہ کون تھے ؟یہ انسان نہیں تھے۔ان کا جو وجود ہے وہ انسانی تھا، لیکن یہ اصلاً انسانی حیوان تھے۔ ان کے اندر انسانی شخصیت نہیں تھی۔ انسانی شخصیت کیا ہے؟ عقلی شعور، اخلاقی شعور، ایستھیٹک سینس۔ یہ جانور تھے اس سے ملتی جلتی صورت کے، لیکن یہ حیوانی انسان تھے۔ ابھی انسانی شرف نہیں تھا۔

 پھر قرآن مجید کہتا ہے کہ ہم نے انھیں بنایا تو ان کے اندر اپنی نسل خود پیدا کرنے کی صلاحیت رکھ دی۔ یہ نسلیں پیدا ہونے کا عمل جاری رہا، پھر کسی موقع کے اوپر ان میں سے کسی دو کا انتخاب کر کے ہم نے ان کو انسانی شخصیت دی۔ یعنی انسانی شخصیت مٹی سے نہیں پیدا ہوئی، وہ نفخ روح سے آئی ہے۔ وہ انسانی شخصیت جب ہم نے دی تو وہ آدم و حوا تھے۔

 اب ظاہر ہے کہ اس پس منظر میں اگر آپ دیکھیں تو آدم و حوا اور ہیں اور ہماری شکل و صورت کے (حیوانی) انسان بالکل اور ہو جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ ماضی میں تین لاکھ سال نہیں تیس لاکھ سال تک مل جائیں۔ وہ ایک پورا پروسس ہے جس کو قرآن نے بیان کیا ہے۔

اب قرآن کے اپنے الفاظ میں سنیے:

بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ.(السجدہ ۳۲: ۷)
’’ہم نے دلدلی زمین سے کیچڑ سے انسان کو پیدا کرنے کی ابتدا کی تھی۔‘‘

 پھر کہا ہے:

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ. (السجدہ ۳۲: ۸)
’’پھر ہم نے جو مخلوق بنائی، اس میں ایک پانی کے قطرے سے اپنی نسل خود پیدا کرنے کی صلاحیت رکھ دی۔‘‘

مزید سنیے، ابھی وہ انسان نہیں بنا۔’ ثُمَّ سَوَّاهُ‘ پھر ہم نے اس کو اختلاط سے بنانا سنوارنا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ پوری طرح سنور کر موجودہ شکل میں آ گیا ۔  جب وہ آ گیا تو پھر ’نَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ‘ پھر اس میں ہم نے اپنی روح پھونکی اور پھر وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا۔

انسان کی پیدایش کی تاریخ قرآن کی نظر میں یہ ہے۔ تو اس تاریخ کے مطابق تو اگر انسان کی عمر آپ سائنسی طور پر ستر لاکھ سال بھی دریافت کر لیں گے تو اس قرآن کے بیان کے بالکل مطابق ہوگی، کوئی فرق نہیں واقع ہوگا۔[1]

ـــــــــــــــــــــــــ

۱-https://www.facebook.com/share/v/ZSSQu9TDhWEQ2DD2/?mibextid=oFDknk

B