HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : کوکب شہزاد

اللہ تعالیٰ کی قربت کا تجربہ

یہ میری زندگی کے کچھ حقائق ہیں جنھیں میں بیان کرنا چاہتی ہوں۔ میرا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماراپروردگار جو ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کا خالق ہے، اس عظیم پروردگار نے ہمیں پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا، بلکہ وہ قدم قدم پر بالکل اسی طرح ہمارے ساتھ ہوتا ہے، جس طرح ایک ماں اپنے اس بچے کے ساتھ ہوتی ہے جس نے ابھی نیا نیا چلنا سیکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌﵧ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ.(البقرہ ۲: ۱۸۶)
’’اے محمد، جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہوں۔میں ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘

اس تحریر کو لکھنے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے اندر کے کچھ لوگ ، اگرچہ وہ کتنے ہی پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں، اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی کے لیے اور اپنی دعائیں قبول کرانے کے لیے ہمیں مزاروں پر جانا چاہیے۔یہ اللہ کے نیک بندے ہیں اور ان کی دعائیں اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتے، جب کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھے پکارو ، میں تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔مجھے کسی سفارش اور وسیلے کی ضرورت نہیں اور خاص طور پر جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، ان سے وسیلے کی درخواست کرنا اور ان کی قبروں پر آکر دعا کرنا شرک ہے، اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ.(النساء ۴: ۴۸)
’’بے شک، اللہ تعالیٰ اس چیز کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کا کسی کو شرک بنائے۔اس کے سوا جو چاہے گا، معاف کردے گا۔‘‘

آئیے، اب ہم ان واقعات کی طرف آتے ہیں جن میں میں نے اپنی مشکلات میں جب جب اللہ تعالیٰ کو پکارا، اس نے معجزاتی طور پر میری دعا قبول کی اور اس طرح قبول کی کہ میں حیران ہوگئی۔

الحمد للہ، میرا ایک بیٹا ہے۔ اس کا نام ابراہیم ہے۔جب وہ آ ٹھویں نویں کا طالب علم تھا۔اس نے ایک دن اپنے والد سے کہا کہ بابا، میں جب کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے چکر آتا ہے اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ہم نے لاہور کے ایک معروف ڈاکٹر سے وقت لیا اور اس کے چیک اپ کے لیے اسے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد ہمیں بتایا کہ خدا نخواستہ ابراہیم کو EPILEPSY، یعنی مرگی ہے۔یہ سن کر میرے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور شہزاد صاحب بھی بہت پریشان ہوئے۔ہم نے کسی دوسرے ڈاکٹر سے بھی راے لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بھی یہی بات کہی اور اس نے اس بیماری کی دوا بھی شروع کردی۔اس طرح کی دواؤں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ مریض سارا دن سویا رہتا ہے۔

میں جب ابراہیم کو اس حالت میں دیکھتی کہ وہ زیادہ تر وقت سویا رہتا تھا اور اسکول بھی نہیں جاسکتا تھا تو میرا دل خون کے آنسو روتا تھا۔اور اللہ تعالیٰ سے دل ہی دل میں یہ کہتی کہ اللہ تعالیٰ آپ نے مجھے ایک ہی اولاد دی ہے اور اس کو بھی ایسی بیماری دی ہے جس کا نام بھی کوئی ماں نہیں سن سکتی۔

شہزاد صاحب نے اپنی بہن سے بات کی جو کینیڈا میں رہتی ہے اور وہ psychologist  ہے۔

سعدیہ نے شہزاد صاحب سے کہا کہ آپ ابراہیم کا MRI کرا کر بھیجیں۔میں اپنی دوست عامرہ رانا سے  جو Encologist ہے، اس سے راے لیتی ہوں۔ وہ چونکہ ڈاکٹر ہے توہر فیلڈ کے ڈاکٹر اس کے واقف ہیں۔وہ سب سے مشورہ کرکے ہمیں بتا دے گی۔ ہمارے گھر کے قریب نیشنل ہسپتال ہے۔وہاں سے ہم نے MRI کے لیے وقت لیا۔مقررہ دن ہم ابراہیم کو لے کر نیشنل ہسپتال MRI کے لیے پہنچ گئے۔

 جتنی دیرMRI ہوتا رہا، میں اس عظیم بادشاہ ،رحمٰن اور رحیم اور قدرت رکھنے والےرب کے سامنے اپنی بے حیثیتی کا اعتراف کرتے ہوئے سجدے میں گری رہی۔میرے دماغ میں اور کچھ نہیں تھا، سواے اس کے کہ میں بالکل ذرۂ بے حیثیت ہوں اور بس سب کچھ تو ہی تو ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ حضرت زکریا کی دعا ’لَمْ اَكُنْۣ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا‘ پڑھتی جارہی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مولا میں تجھ کو پکار کر مایوس نہیں ہوا۔ 

MRI مکمّل ہوگیا۔اس کی C Dکینیڈا بھیجی گئی۔ڈاکٹر عامرہ رانا نے اس MRI کو پڑھ کر ہمیں بتایا کہ یہ رپورٹ بالکل صحیح ہے۔ابراہیم کو الحمد للہ کوئی بیماری نہیں۔ عامرہ رانا کی یہ بات سن کر میرا وجود خوشی سے لرزنے لگا۔اے پروردگار، میں تیرا کیسے شکر ادا کروں۔میرے پاس تو وہ الفاظ ہی نہیں جو تیرے شایان شان ہوں۔میرے دل میں یہ احساس تھا کہ اے پرودگار، کون کہتا ہے کہ تجھ سے رابطہ پیدا کرنے کے لیے کسی سفارش کی ضرورت ہے۔تو تو میری ہر پکار کو سنتا ہے۔میں سجدۂ شکر ادا کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس کے دربار میں گر گئی۔ یہ اس عظیم پروردگار کا مجھ پر سب سے بڑا احسان تھا ۔یہ اس پروردگار کی ایسی عنایت تھی جس کا احساس ایک ماں ہی کو ہوتا ہے۔آج میرا بیٹا ابراہیم الحمد لله اپنی تعلیم مكمل کرکے زندگی کی دوڑ میں شامل ہوچکا ہے۔

ابراہیم سے متعلق ایک اور واقعہ میرے ذہن پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ گیا۔ جسے یاد کر کے میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ تو بس میرے دائیں بائیں ہی ہے۔ایک بہت ہی عجیب واقعہ ہوا۔اس واقعہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اپنے بندوں کے لیے اس کی قبولیت پر اعتماد نے میرے یقین اور اعتماد کو اتنا بڑھا دیا کہ اب میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ اللہ تعالیٰ میری دعا کو رد کریں گے یا دعا کی قبولیت کے لیےمجھے کسی اور کے دروازے کو کھٹکھٹانا پڑے گا۔میری دعا کی قبولیت میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق دیر ہوسکتی ہے، لیکن دعا کی شنوائی ضرور ہوگی۔

ابراہیم سے متعلق کچھ اور بھی واقعات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر میرا اعتماد اور یقین بہت بڑھ گیا۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ ہمیں نظر تو نہیں آتا، مگر کائنات کا چپہ چپہ اس کے وجودکی گواہی دیتا ہے۔میرا وجود، میری زندگی، یہ زمین ،یہ آسمان، بارش، دھوپ، یہ پہاڑ ، یہ ندی نالے ، یہ سمندر ،یہ سورج چاند ستارے ، ان سب کے اندر نظم و ضبط اس اللہ کے وجود پر گواہی دیتا ہے۔کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ایک گھر کسی مالک کے بغیر نہیں چلتا تو اتنی بڑی کائنات جس کا بہت معمولی سا حصہ ہمارے علم میں ہے، وہ کسی ہستی کے بغیر کیسے چل سکتی ہے۔

ہوا کچھ ایسے کہ میرے بیٹے کے اسکول میں ٹینس کے ٹورنا منٹ ہو رہے تھے۔ٹینس ہمارے گھر کا پسندیدہ کھیل ہے۔ابراہیم کو بھی یہ کھیل بہت پسند ہے۔ابراہیم نے اس ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ماشاء اللہ وہ میچ جیتتے جیتتے فائنل میں پہنچ گیا۔فائنل میچ دیکھنے کے لیے اسکول کی انتظامیہ نے دونوں بچوں کے ماں باپ کو بھی بلایا تھا۔جو لڑکا ابراہیم کے مدمقابل تھا وہ گذشہ پانچ سالوں سے ٹینس کا چمپئن تھا۔اگر وہ یہ میچ جیت لیتا تو ایچیسن کالج میں یہ ایک ریکارڈ ہوتا۔وہ لڑکا اپنے قد کاٹھ میں ابراہیم سے بہت لمبا اور چوڑا تھا۔شہزاد نے اسے دیکھتے ہی اپنی راے دے دی کہ ابراہیم اس سے کبھی بھی نہیں جیت سکتا۔ میرا طریقہ ہے کہ میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھتی ہوں۔ مجھے منفی سوچ بالکل پسند نہیں۔ مجھے شہزاد کا یہ تبصرہ بالکل پسند نہ آیا۔میں نے شہزاد سے کہا کہ آپ مجھے میچ کی صورت حال بتاتے جائیں۔

میچ شروع ہوا۔ابراہیم سخت گھبرایا ہوا تھا۔بچپن سے ہی اسے ہارنا پسند نہیں تھا۔بہرحال میچ شروع ہوا۔وہ لڑکا بہت پراعتماد تھا۔وہ بہت اچھا کھیل رہا تھا۔شہزاد صاحب مستقل تبصرہ کیے جارہے تھے، جس سے مجھے سخت کوفت ہورہی تھی۔وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد مجھے ہلا کر کہتے کہ یہ بچہ بہت اچھا کھیل رہا ہے۔یہی جیتے گا، ابراہیم کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔میں تو بس اپنی دعاؤں میں مصروف تھی۔ مجھے ٹینس کی الف ب کا بھی پتا نہیں تھا۔ میچ کو تو میں دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔ بس دعا ہی کیے جارہی تھی کہ میرے اللہ ابراہیم کو جتادے۔ابراہیم شکست برداشت نہیں کر سکتا اور میں ابراہیم کو دکھی نہیں دیکھ سکتی۔ پہلا سیٹ ابراہیم ہار گیا۔میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا۔ ابراہیم سخت پریشان تھا۔ایک ماں اپنے بیٹے کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔ میری دعاؤں میں اضافہ ہوگیا۔

دوسرا سیٹ شروع ہوا۔وہ لڑکا بڑی مہارت کے ساتھ کھیل رہا تھا اور شہزاد کی کمنٹری بھی جاری تھی۔میں اپنے رب سے اور قریب ہوگئی اور کہنے لگی کہ میرے پروردگار مجھے اپنے بیٹے کی فتح چاہیے اور یہ کام آپ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ میچ ختم ہونے کے قریب تھا۔اب پوائنٹس برابر جارہے تھے۔ شہزاد ابراہیم کی ہار کو تسلیم کرچکے تھے، لیکن ایک ماں تسلیم نہیں کرسکتی تھی۔ اب ابراہیم کے پوائنٹس بڑھنے لگے ۔ مقابلہ سخت تھا۔ دونوں جیتنے کی کوشش کررہے تھے۔

پھر اچانک کیا ہواکہ کھیلتے کھیلتے یہ لڑکا گر گیا اور ایک شور سا بلند ہوا ’’اوہو‘‘ میں نے نظر اٹھا کر دیکھاکہ وہ لڑکا زمین پر گرا ہوا تھا اور کوچ اسے ہاتھ پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔اس لڑکے کا جو ابراہیم کے ساتھ میچ کھیل رہا تھا، اس کی ٹانگ کا مسل pull ہوگیا اور وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا۔وہ آگے میچ کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ابراہیم میچ جیت چکا تھا۔سابقہ چیمپئن کا شکست اور تکلیف سے برا حال تھا۔میں نے اپنے بچے کی فتح تو مانگی تھی، لیکن اس بچے کو تکلیف میں دیکھ کر میری ممتا کو بھی تکلیف ہوئی۔ اس لڑکےکے قریب جاکر اسے پیار کیا اور تسلی دی۔ اللہ کو پکارنا رایگاں نہیں جاتا ۔بس تھوری سی دیر ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس بندے کو مجھ پر کتنا اعتماد ہے اور اس کے دل میں کتنی کھوٹ ہے۔اپنے کسی مضمون میں میں ان شاء الله پیغمبروں کے واقعات بیان کروں گی جن سے معلوم ہوگا کہ انھوں نے بھی اپنی ہر مصیبت میں اللہ تعالیٰ کو پکارا اور اللہ نے ان کی مرادیں پوری کیں۔

اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد ہے کہ کبھی ہمت نہ ہاریں۔اپنے رب سے لو لگائیں۔ ہر موقع پر اسی کو پکاریں۔ دعا کی قبولیت کے لیے کسی قبر یا مزار پر نہ جائیں۔جلد یا بدیر آپ کی دعا ضرور قبول ہوگی۔اللہ تعالیٰ کو نہیں پسند کہ اس کے بندے اس کے علاوہ کسی اور کو پکاریں۔میری زندگی میں یہ واقعات کسی معجزے سے کم نہیں۔ کبھی کبھی دعا کی قبولیت میں دیر ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ آزمانا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ میرے اوپر اعتماد رکھتا ہے؟

اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات میں سے دو صفات ’’ سمیع‘‘ اور ’’ بصیر‘‘ ہیں، یعنی وہ اپنے بندوں کو دیکھ بھی رہا ہے اور ان کی باتیں اور دعائیں سن بھی رہا ہے۔

عیسائی مذہب میں یہ تصور پایا حاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کرنے کے لیے اپنے عرش پر جا بیٹھا، لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ۔وہ پوری توجہ کے ساتھ اپنی کائنات کے امور سلطنت سنبھال رہا ہے۔سورۂ بقرہ میں ہے:

اَللّٰهُ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ٘ اِلَّا بِاِذْنِهٖ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖ٘ اِلَّا بِمَا شَآءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَا يَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ.(۲: ۲۵۵)
’’(اُس دن معاملہ صرف اللہ سے ہو گا)۔ اللہ، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زندہ اور سب کو قائم رکھنے والا۔ نہ اُس کو اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور میں کسی کی سفارش کرے۔ لوگوں کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے واقف ہے اور وہ اُس کے علم میں سے کسی چیز کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔  اُس کی بادشاہی زمین اور آسمانوں پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی حفاظت اُس پر ذرا بھی گراں نہیں ہوتی، اور وہ بلند ہے، بڑی عظمت والا ہے۔‘‘

ـــــــــــــــــــــــــ

B