HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

طلب حاجت یا ذکر و مناجات

 اِس تحریر میں ایک عام غلط فہمی کا ازالہ ہمارے پیش نظر ہے۔وہ یہ کہ دعا کا مطلب صرف ’مانگنا ‘ اورخدا سے مادی حاجات طلب کرنا نہیں، بلکہ خدا سے ’مانگنے ‘ اوراُس سے اپنی مادی حاجات طلب کرنے کا یہ پہلو دعا کا صرف ایک پہلو ہے، وہی دعا کا اصل اور مقصود ہرگز نہیں۔

اپنی حقیقت کے اعتبارسے، دعااصلاً دل کی پکار اور عاجزی کے اظہار کا نام ہے۔دعا عجزواحتیاج ، ذکروشکر، توبہ وانابت اور خداوند ذوالجلال کے سامنے اظہار فقر و اعتراف تذلل سے عبارت ہے۔یہ ایک بندے کا اپنے خالق و مالک کو اپنی طرف متوجہ کرنا،پروردگار عالم سے مانگنا، مناجات کرنا اوراُس سے مانگ کرراضی بہ رضا اور شاد کام و بامراد ہوجا نا ہے۔

قرآن اور سیرت رسول کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دعا اظہار بندگی بھی ہے اور اظہار احتیاج بھی۔دعا معروف معنوں میں، صرف ’’مانگنا‘‘نہیں،بلکہ یہ اپنے پروردگارکی یادومناجات، توبہ و انابت، ذکر و شکر اور اُس کے سامنے اپنے عجزواحتیاج کے اظہار پرمشتمل وہ عظیم عمل ہے جس کو ’عبادت‘ کہاگیا ہے۔ چنانچہ ارشاد رسول ہے: ’الدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادةُ‘(احمد، رقم ۱۸۳۵۲)،یعنی سچی دعا کوئی سادہ اور رسمی چیز نہیں، بلکہ یہ عبدیت کی روح اور بندگی کا جوہر ہے۔

مذکورہ ارشاد رسول میں ’عبادت‘ کا لفظ معروف مذہبی مراسم (نمازو روزہ وقربانی وحج )کے عام معنی میں نہیں، بلکہ ’ عبودیت اور بندگی ‘کے اصل لغوی مفہوم میں ہے ۔چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ’اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ. وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ٘ اَسْتَجِبْ لَكُمْﵧ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ‘ (المومن ۴۰:  ۵۹-  ۶۰)، یعنی یہ بالکل ایک قطعی حقیقت ہے کہ قیامت آ کر رہے گی، اِس میں کوئی شک نہیں، مگر اکثر لوگ اِس حقیقت پر یقین نہیں رکھتے۔(اِس کی وجہ اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ اپنے کبر کی بنا پر خدا کی بندگی سے گریزاں ہیں)۔ اور تمھارے پروردگار کا یہ ارشاد ہے کہ تم مجھے پکارو، میں تمھاری دعاا ور التجا قبول کروں گا۔اِس کے باوجود جو لوگ کبر و غرور کی بنا پر میری بندگی سے سرتابی کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلیل ا ورراندہ و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

قرآن کی یہ آیت واضح طورپر بتارہی ہے کہ یہاں ’عبادت‘اُسی حقیقت کی ایک بلیغ تعبیر ہے جس کو ’دعا‘کہا جاتا ہے۔یہ دعادل کی پکار،رب العٰلمین کی یادومناجات ، توبہ وانابت، ذکروشکراور اُس کے سامنے اپنے عجزواحتیاج کے اظہار کا نام ہے۔اظہار عجزواحتیاج کی اِسی حالت اور ذکروشکر کی اِسی کیفیت کو ’عبادت‘ قرار دیا گیا ہے۔یہی ’عباد ت‘ جن وانس کی تخلیق کا اصل مقصود ہے۔

چند نبوی اور قرآنی مثالیں

ذیل میں درج چندنبوی اور قرآنی دعاؤں سے اِس حقیقت کابخوبی طورپر ادراک کیا جاسکے گا، خصوصاً نماز کے دوران میں کی جانے والی دعائیں اِس بات کی نمایاں ترین مثالیں ہیں:

رَبِّ اَوْزِعْنِيْ٘ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْ٘ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ.(النمل ۲۷ :۱۹)
’’ اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اُس فضل کا شکر اداکرسکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا ہے اور ایسے اچھے کام کروں جو تجھے پسند ہوں اورمحض اپنی رحمت سے، تو مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما لے۔‘‘
رَبِّ اِنِّيْ لِمَا٘ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ. (القصص ۲۸ :۲۴)
’’پروردگار، اِس وقت جو بھی خیر تو میری طرف اتار دے، میں اُس کا انتہائی محتاج ہوں۔‘‘
لا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَحْدَہُ لَا شَرِیْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.(بخاری، رقم  ۳۲۹۳)
’’اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ تنہا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اقتدار اُسی کا ہے ، حمد بھی اُسی کے لیے ہے، اورتنہا اُسی کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے۔‘‘
اللّٰهمّ ما أصْبَحَ بِيْ مِنْ نعمةٍ، أو بأحدٍ مِنْ خَلْقِك، فَمِنْك وَحْدَكَ، لا شَریْك لك، فلك الحَمْدُ ولكَ الشُّکْرُ. (ابوداؤد، رقم ۳۷۰۵)
’’اے اللہ، میں نے یا تیری کسی بھی مخلوق نے جن نعمتوں کے ساتھ صبح کی ہے ، وہ سب تیری ہی عطا کردہ ہیں۔ تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ تو ہی ہر طرح کی حمد و تعریف کا مستحق ہے، اور تمام تر شکر و سپاس صرف تجھی کو سزاوار ہے۔‘‘
رَبِّ اجْعَلْنيْ لَكَ شَکّارًا، لكَ ذَكّارًا، لكَ رَهّابًا، لكَ مِطْواعًا، لكَ مُخْبِتًا، إلیكَ أوّاهًا مُّنِیْبًا. (ترمذی، رقم  ۱۵۵۳)
’’اے میرے رب، تو مجھے اپنا بہت شکر گزار، بہت ذکر کرنے والا ، بہت ڈرنے والا ، بہت زیادہ اطاعت کرنے والا، انتہائی عاجزی و فروتنی کرنے والا، اور اپنے سامنے اظہار درماندگی کرنے اور اپنی طرف بہ کثرت رجوع ہو نے والا انسان بنا دے۔‘‘
اللّٰهمّ ربنا لك الحمد، مِلْءَ السمواتِ والأرضِ، ومِلْءَ ما شِئْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ، أهلُ الثناءِ والْمَجْدِ، أحَقُّ ما قالَ العبدُ، وَکُلُّنا لك عَبْدٌ، اللّٰهمّ لا مانِعَ لِمَا أعطیتَ، ولا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا یَنْفَعُ ذا الْجَدِّ مِنكَ الْجَدُّ.(ابوداؤد، رقم ۷۴۸)
’’اے اللہ، ہمارے آقا و پروردگار،تعریف صرف تیرے ہی لیے ہے، اتنی کہ جس سے آسمان و  زمین سب بھر جائیں اور اِس کے بعد جو تو چاہے، وہ بھی بھر جائے ۔ اے بزرگی اور تعریف کے مالک، تو ہی اُس ثنا و شکر کا مستحق ہے جو بندے تیرے حضور پیش کریں، اور ہم سب تیرے بندے ہیں۔ اے اللہ، جو کچھ تو عطا فرمائے، اُسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیزکو تونہ دے، اُسے کوئی دینے والا نہیں۔ تیری گرفت سے بچنے کے لیے کسی کی عظمت و مرتبت اُسے ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔‘‘
سُبْحَانَ الذيْ تَعَطَّفَ الْعِزَّ وقالَ بِه سُبحان الذي لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَکَرَّمَ بِه، سُبْحان الذي لا ینبغي التّسبیحُ إلّا له، سُبْحان ذِي الفضلِ والنِّعَمِ، سُبْحانَ ذِي الْمَجْدِ وَالْكَرَمِ، سُبْحانَ ذِي الْجَلالِ والإِکْرَامِ.(ترمذی، رقم ۹۱۴۳)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے عزت کو اپنا لبادہ، اور عزت ہی کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا، پاک ہے وہ ذات جس نے مجد و شرف کو اپنا لباس بنایا اور مکرم و مشرف ہوا، پاک ہے وہ ذات جس کے سوا کسی اور کے لیے تسبیح وستایش سزاوار نہیں، پاک ہے فضل اور نعمتوں والاخدا ، پاک ہے مجد و کرم والی ذات، پاک ہے عظمت و بزرگی والا پروردگار۔‘‘
اللّٰهمّ لك الحمْدُ أنتَ قَیِّمُ السمٰواتِ والأرضِ ومَنْ فیهنّ، ولك الحمدُ، لك مُلك السمٰواتِ والأرضِ، ومَن فیهنّ ولك الحمدُ أنتَ نُورُ السمٰواتِ والأرضِ، ولك الحمدُ أنتَ الحقُّ، ووَعْدُك الْحقّ، ولِقاؤُك حقٌّ، وقولُك حقٌّ، والجنةُ حقٌّ، والنارُ حقٌّ، والنبیون حقٌّ، ومحمّدٌ صلی اللّٰه علیه وسلم حقٌّ، والسّاعةُ حقٌّ. اللّٰهُمّ لك أسْلمْتُ، وبِكَ آمنْتُ، وعلیك توکّلتُ، وإلیك أنَبْتُ، وبِكَ خاصَمْتُ، وإلیكَ حاکَمْتُ، فاغْفِرْ ليْ مَا قدّمْتُ وما أخّرْتُ، وما أسْرَرْتُ وما أعْلَنْتُ. أنْتَ الْمُقَدِّمُ وأنتَ الْمُؤَخِّرُ، لا إلٰهَ إلّا أنتَ، وَلا إله غیرُك، وَلا حَوْلَ وَلا قوةَ إلّا باللّٰه.(بخاری، رقم  ۱۱۲۰)
’’خدایا، ہر طرح کی تعریف بس تجھی کو زیبا ہے، تو زمین و آسمان اور اُس میں آباد تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے، اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے۔ زمین و آسمان اور اُن کے درمیان آباد تمام مخلوقات پر صرف تیرا ہی اقتدار قائم ہے، اور تعریف تیرے ہی لیے ہے۔تو آسمان اور زمین کا نور ہے، اور تعریف بس تجھی کو زیبا ہے۔ تو سچا، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی، تیرا فرمان سچا، جنت سچ ، دوزخ سچ ، انبیا سچے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور قیامت کا واقع ہونا سب بالکل سچ و برحق ہے۔خدایا، میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں، تجھی پر بھروسا ہے، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں، تیرے ہی عطا کردہ دلائل کے ذریعے سے مقابلہ کرتا اور تجھی کواپنا حکم بناتا ہوں۔ پس جو خطائیں اِس سے پہلے مجھ سے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی،اُن سب کو معاف فرما، خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ بے شک، کسی کو آگے بڑھانے اورکسی کو پیچھے کرنے والا بس تو ہی ہے۔ معبود صرف تو ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تیرے سوا کسی کو نہ کوئی طاقت حاصل ہے، اور نہ کوئی قدرت۔‘‘
اللّٰھمّ إني أعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأعُوذُبِكَ مِنْكَ، لاَ أحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْكَ، أنْتَ کَمَا أثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِكَ.(مسلم، رقم  ۱۰۹۰)
’’اے اللہ، تیر ی ناراضی سے ڈرتے ہوئے میں تیری رضا کا طلب گارہوں، اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے میں تیری عطا و بخشش کی پناہ چاہتا ہوں۔ پروردگار،میں تجھ سے بس تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔ میرے لیے ممکن نہیں کہ میں تیری حمد و ثنا کا حق ادا کرسکوں۔ بس تیری شان اُسی طرح اور تو ویسا ہی ہے، جیسا کہ تو نے خود اپنا وصف بیان فرمایا ہے۔‘‘
سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِہِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِهِ.(مسلم، رقم ۳۱۹۶)
’’ اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اُس کی خوبیوں کے ساتھ، اُس کی مخلوقات کے ا عداد، اُس کی رضا مندی، اُس کے عرش کے وزن اور اُس کے کلمات کی سیاہی کے برابر،یعنی بے انتہا اور لامحدود تعریف و تسبیح، (اِس لیے کہ تیری عظمت وکبریائی کے کلمات اِس قدر لامحدودہیں کہ اگر سارا سمندر روشنائی ہو، تو وہ ختم ہو جائے گا ، مگر تیرے کلمات کبھی ختم نہ ہوں گے)۔‘‘

[داوَن گیرے، ۱۰/ اپریل  ۲۰۲۳ء]

ـــــــــــــــــــــــــ

B