موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ علمی، معاشی، سماجی، اخلاقی یا مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی شناخت کے بھی ہیں۔ کوئی بھی قوم اپنے ماضی سے جدا ہو کر نہ اپنی شناخت تشکیل دے سکتی ہے اور نہ ہی اس کی تکمیل کر سکتی ہے۔ علم کی علمیات ، معاش کی معاشیات، سماج کی سماجیات یا اخلاق کی اخلاقیات کی بنیاد اس سوال سے پھوٹتی ہے کہ انسان کیا ہے؟ سوال کی تشکیل میں کار فرما علمیات تہذیبی ہوتی ہے۔ اس کا جواب تہذیبی شناخت کو پس پشت ڈال کر دینا محال ہے۔ اپنی تہذیب کو جاننے کے جو ذرائع ہمیں میسر ہیں، ان میں سر فہرست تاریخ ہے، اسے شامل کیے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ تاریخ ہی ہماری تہذیبی شناخت کا سب سے مستند ذریعہ ہے۔ کوئی بھی تاریخی عمل اپنی تفہیم کے لیے اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کے پیچھے عہد بہ عہد فکری ارتقا کو سمجھیں۔ کسی بھی تہذیب کی فکر کو فلسفے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
اسی سے اسلامی فلسفے کی اصطلاح پھوٹتی ہے، تاہم کچھ اہل علم کا یہ خیال ہے کہ اسلامی فلسفہ کی اصطلاح قابل اصلاح ہے، اس کی وجہ وہ کچھ یو ں بیان کرتے ہیں:
‘‘“Islamic philosophy.” Those who prefer “Islamic philosophy” often argue that with very few exceptions the practitioners of falsafa were not ethnically Arabs but came from virtually all the different ethnic groups and countries that were under the control of Islam in the medieval period. Thus, calling this enterprise “Islamic philosophy” seems most fitting. In response, those who prefer “Arabic philosophy” note that a considerable amount of falsafa was not produced by Muslims but by Arabic-speaking Jews and Christians as well, and so the adjectives “Muslim” or “Islamic” to modify “philosophy” is not appropriate.” [1]
’’جو لوگ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ کی اصطلاح کو ترجیح دیتے ہیں، وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ فلسفہ کے ماہرین، چند استثنائی صورتوں کے علاوہ، نسلی طور پر عرب نہیں تھے، بلکہ وہ مختلف نسلی گروہوں اور ممالک سے تعلق رکھتے تھے جو قرون وسطیٰ کے دور میں اسلامی حکومت کے تحت تھے۔ لہٰذا اس علمی سرگرمی کو ’’اسلامی فلسفہ‘‘ کہنا زیادہ موزوں لگتا ہے۔ اس کے جواب میں، جو لوگ ’’عربی فلسفہ‘‘ کی اصطلاح کو ترجیح دیتے ہیں، وہ یہ نشان دہی کرتے ہیں کہ فلسفہ کا ایک بڑا حصہ صرف مسلمانوں نے ہی نہیں، بلکہ عربی بولنے والے یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی تخلیق کیا تھا، اس لیے ’’مسلم‘‘ یا ’’اسلامی‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال فلسفہ کی وضاحت کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘‘
تاہم، مسلمان مفکرین کے ہاں فلسفے کی تعریف یہ ہے کہ فلسفہ نام ہے تلاش حق کا اور فلسفی وہ ہے جو صداقت کی تلاش میں اپنی عقل پر انحصار کرے۔ لیکن ایک اور بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں جو مجموعی طور پر فکر و فلسفے کا کام ہو ا ہے، اس میں پہلے دین کو ماننا، پھر اس پر غور و فکر کرنا، اور موجودہ زمانے کے علم کے ساتھ اس کی مطابقت پیدا کرنے کی سعی ہوتی ہے، جسے اگر ہم عام مفہوم میں علم الکلام کہیں تو غلط نہ ہو گا۔ علامہ شبلی نعمانی علامہ شہرستانی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے علم الکلام کی وجۂ تسمیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’مسلمان مسائل عقاید میں جس مسئلے پر بہت مصر رہے، وہ کلام الٰہی کا مسئلہ تھا۔ یا اس وجہ سے چونکہ یہ علم فلسفہ کے مقابلہ میں ایجاد ہوا تھا، اس لیے فلسفے کی ایک شاخ (یعنی منطق) کا جو نام تھا وہی اس فن کا بھی نام رکھا گیا، کیونکہ منطق اور کلام مترادف اور ہم معنی الفاظ ہیں۔‘‘(علم الکلام اور الکلام ۳۴)
علامہ شبلی نے علم الکلام کی اس وجۂ تسمیہ کو درست قرار دیا ہے:
لیکن مسلمانوں کا کام یہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ انھوں نے یونایوں کے بہت نظریات چاہے وہ فلسفے میں ہوں یا منطق میں ان پر سیر حاصل تنقید بھی کی ہے اور اس میں اضافے بھی کیے ہیں۔ مسلم فلسفیوں کے ہاں جو اول مسائل تھے وہ کسی بھی فلسفیانہ روایت کی طرح ان کی اپنی تہذیب سے اٹھے ہوئے تھے، مثال کے طور پر ڈاکٹر عبد الخالق نے کچھ موضوعات کی طرف توجہ دلا کر مسلم فلسفے کی اصطلاح کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے جیسے کہ جبر و قدر، شخصی خدا کا تصور، شعور نبوت وغیرہ (مسلم فلسفہ ۱۸)۔
تاہم، راقم کے نزدیک مسلم فلاسفی کی جو اصطلاح عام طور پر رائج ہے، اس میں کچھ مسائل ہیں: ایک تو اس میں علم الکلام اور فلسفہ کی تفریق موجود نہیں، پھر اسلامی فلسفہ اور مسلم فلاسفی کا ابہام بھی اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ ان تمام سے بچنے کے لیے ہماری طالب علمانہ راے یہ ہے کہ ’علم الکلام‘ یا ’مسلم فلسفہ‘ یا ’اسلامی فلسفہ‘ کہنے کے بجاے اگر ہم ’’مسلم فکر کا فلسفیانہ ارتقا‘‘ کے عنوان سے اس ساری فکری تاریخ کا مطالعہ کریں تو زیادہ مناسب ہو گا۔
مسلم فلسفیوں کی فکر کیا ہے؟ اس کے ماخذ کیا ہیں؟ اس کی ترکیب کیا ہے؟ اس میں ارتقا کی نوعیت کیا ہے؟ ان تمام سوالات کا مطالعہ اسی عنوان ’’مسلم فکر کا فلسفیانہ ارتقا‘‘ کے تحت کیا جائے گا۔ کوشش ہو گی کہ پہلے مسلم فلسفی الکندی سے لے کر موجودہ مسلم مفکرین سید حسین نصر اور طارق رمضان تک دیکھیں کہ وہ کون کون سی شخصیات ہیں جنھوں نے مسلم فکر کے چراغ کو روشن کیے رکھا، ان کی فکر کا فلسفیانہ تعارف پیش کر دیا جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ مسلمانوں کے موجودہ دور میں اس فلسفیانہ تاریخ سے ہم کیا کشید کر سکتے ہیں اور کس طرح ہم اپنی تہذیبی شناخت کے مسئلے کو حل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ )Classical Arabic Philosophy An Anthology of Sources، Jon McGinnis and David C. Reisman،© 2007 by Hackett Publishing Company, Inc page xiv Preface)