HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۳۴)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

عہد علوی

حلیہ

حضرت ابوموسیٰ اشعری دبلے تھے۔ ان کا قدچھوٹا اور پیٹ بڑا تھا۔ ڈ اڑھی کے بال کم تھے۔

ازواج و اولاد

حضرت فضل بن عباس کی اکلوتی بیٹی حضرت ام کلثوم کی شادی پہلے حضرت حسن سے ہوئی، ان سے علیحدگی کے بعد وہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی زوجیت میں آئیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا موسیٰ ہوا، جس سے حضرت ابوموسیٰ کنیت کرتے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ کے انتقال کے بعد ان کا بیاہ عمران بن طلحہ سے ہوا۔ انھوں نے طلاق دے دی تو وہ حضرت ابوموسیٰ کے گھر واپس آ گئیں۔ وہیں ان کی وفات ہوئی اور کوفہ میں سپردخاک ہوئیں۔ حضرت ابوموسیٰ کی دوسری ازواج کا علم نہیں۔

ابوبکر، محمد، ابوبردہ عامر، ابراہیم، موسیٰ اور عبداللہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے چھ بیٹوں کے نام ہیں (جمہرۃ انساب العرب۳۹۷)۔ ان کے ہاں پہلے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجو ر چبا کر کھانے کو دی اور برکت کی دعا فرمائی (بخاری، رقم ۵۴۶۷۔ مسلم، رقم ۵۶۱۵۔ احمد، رقم ۱۹۵۷۰)۔

 حضرت ابوموسیٰ اشعری کی اولاد بصرہ و کوفہ میں آباد ہوئی۔ ابوبردہ عامر بن ابوموسیٰ کوفے کے اولیں قاضیوں میں سے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ کے پوتے بلال بن ابوبردہ بھی قاضی بصرہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ ابوبردہ کی ساتویں نسل میں سے بنو بلج اندلس میں مقیم ہوئے۔ ابن حزم کہتے ہیں :اندلس میں اشعریوں کا گھرریّہ کے نام سے مشہور تھا۔ ابوبردہ کے ایک پرپوتے یحییٰ بن برید محدث ہوئے، جن سے امام مسلم نے حدیث روایت کی۔

 حضرت ابو موسیٰ اشعری کی نویں پشت میں ابو الحسن علی بن اسمٰعیل اشعری مشہور ہوئے۔ ان کا سن پیدایش ۲۶۰ھ اور سن وفات۳۲۴ھ (یا ۳۳۰ھ) تھا۔ اپنے سوتیلے والد ابوعلی جبائی کی پرورش میں رہنے کی وجہ سے چالیس برس مسلک اعتزال کے زبرست مؤید رہے۔ پھر توبہ کر کے اشعری مذہب کی بنا رکھی۔ اہل سنت کے اس مذہب کے مبلغین میں امام غزالی کا نام سر فہرست ہے۔

حسن تلاوت

حضرت ابوموسیٰ خوش الحانی سے قرآن تلاوت کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قرآت سنی تو ارشاد فرمایا: یقیناً عبداللہ بن قیس اشعری کو داؤد علیہ السلام کی خوب صورت آوازوں میں سے ایک خوب صورت آواز عطا کی گئی ہے(بخاری، رقم ۵۰۴۸۔ مسلم، رقم ۱۸۵۱۔ ترمذی، رقم ۳۸۵۵۔ نسائی، رقم ۱۰۲۱۔ ابن ماجہ، رقم ۱۳۴۱۔ احمد، رقم ۸۸۲۰)۔ اصل میں ’مزمار‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں: بانسری، سریلا گیت مجازاً مراد لیا گیا ہے۔

حضرت بریدہ کہتے ہیں :ایک رات میں مسجد نبوی سے نکلاتو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازے پر کھڑے تھے اور اندر ایک نمازی تلاوت کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی طرف رجوع رکھنے والا مومن ہے، اسے داؤد علیہ السلام کی سریلی آوازوں میں سے سریلا پن عطا کیا گیا ہے۔ حضرت بریدہ نے جاکر دیکھا تو وہ حضرت ابو موسیٰ اشعری تھے (احمد، رقم ۹۸۰۶۔ الطبقات الکبریٰ، رقم۳۶۷۔ ابن عساکر، رقم ۴۶۹)۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ نماز میں اللہ کی توحیدبیان کرکے دعا کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اس نے اللہ کو اس کے اسم اعظم کے ساتھ پکارا ہے، اس اسم کے ساتھ مانگا جائے تو عطا کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جائے تو مقبول ہوتی ہے(ابن عساکر، رقم ۴۷۲)۔ آپ نے فرمایا: کاش، تم مجھے دیکھ لیتے، رات کو میں انہماک سے تمھاری قراءت سن رہا تھا (مسلم، رقم ۱۸۵۲)۔ میں چاہتا ہوں کہ کل بھی تمھاری قراءت۔ آپ نے فرمایا:میں اشعری رفقا کی آوازیں قرآن پڑھنے سے پہچان لیتا ہوں، جب وہ رات کو آتے ہیں اور رات کو ا ن کی تلاوت قرآن سن کران کی جاے قیام جان لیتا ہوں، اگرچہ میں نے دن کے وقت ا ن کی قیام گاہوں کونہیں دیکھا ہوتا(بخاری، رقم ۴۲۳۲۔ مسلم، رقم ۶۴۰۷)۔ ان کے شاگرد ابوعثمان نہدی کہتے ہیں: حضرت ابوموسیٰ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے، مجھے کسی مجیرے، باجے یا گانے کی آوازان کی قراءت سے زیادہ بھلی نہیں لگی۔ ایک رات حضرت ابوموسیٰ اپنے گھر میں تہجدپڑھنے کھڑے ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ وہاں سے گزرے اورا ن کی شیریں قراءت سننے لگے۔ صبح ہوئی اور آپ نے انھیں بتایا تو بولے:اگر مجھے معلوم ہوتا تومیں آپ کو مزید شوق دلاتا(مستدرک حاکم، رقم ۵۹۶۶۔ ابن عساکر، رقم  ۴۷۷)۔ ایسی ہی روایت دوسری ازواج مطہرات کے بارے میں بھی مروی ہے (ابن سعد۔ ابن عساکر، رقم ۴۸۱)۔ حضرت عمر حضرت ابوموسیٰ اشعری کو دیکھ کر کہتے : ابوموسیٰ، تو نے ہم میں اپنے رب کی طرف رغبت پیدا کر د ی ہے، ہمیں ذکر سناؤ، چنانچہ حضرت ابوموسیٰ ان کے سامنے تلاوت کرتے۔ عہد اموی میں حضرت ابوموسیٰ اشعری کا قیام دمشق کے ایک شہر میں ہوا، حضرت معاویہ رات کو تہجد میں ان کی قراءت سننے کے لیے آتے۔

حضرت ابوموسیٰ اصحاب قراءت عشر کا ایک بنیادی ستون ہیں۔ عراق میں ان کی قراءت مروج تھی۔

اتباع سنت

حضرت ابوموسیٰ اشعری نے ایک پورا دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں گزارا، آپ کے معمولات کا مشاہدہ کیا اورآپ کے فرمان بجا لائے(بخاری، رقم ۳۷۷۶)۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری نے مکہ ومدینہ کے مابین عشا کی قصر نماز دورکعتیں ادا کیں، پھروتر کی ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورۂ نساء کی سو آیات تلاوت کیں۔ پھر کہا:میں نے کوئی کوتاہی نہیں کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر اپنا قدم رکھوں اور وہی تلاوت کروں جو آپ نے فرمائی تھی(نسائی، رقم ۱۷۲۹۔ احمد، رقم ۱۹۶۷۰)۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حالت احرام اور حالت صوم میں حجامہ کرانا ثابت ہے(بخاری، رقم ۱۹۳۸)۔ جمہور صحابہ بھی روزے کی حالت میں پچھنا لگوا لیتے تھے۔ تاہم حضرت انس بن مالک اس لیے پسند نہ کرتے کہ اس سے روزہ دار کو کم زوری ہو سکتی ہے(بخاری، رقم ۱۹۴۰)۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری اورحضرت عبداللہ بن عمر رمضان میں  رات کے وقت حجامہ کراتے(ترمذی، رقم ۷۷۴)۔

ایک بارحضرت عمر نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو بلایا۔ وہ ملنے کے لیے گئے اورتین بار داخلے کی اجازت مانگی، اجازت نہ ملی تو لوٹ آئے۔ حضرت عمر نے(فارغ ہونے کے بعد)کہا: میں نے عبداللہ بن قیس کی آواز سنی تھی، انھیں بلاؤ۔ انھیں واپس بلایا گیا تو پوچھا:آپ لوٹ کیوں گئے؟ انھوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:تم میں سے کوئی تین بار اندر داخل ہونے کی اجازت مانگے اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس آجائے(بخاری، رقم ۶۲۴۵، ۷۳۵۳۔ مسلم، رقم ۵۶۲۶۔ ابوداؤد، رقم ۵۱۸۰۔ ترمذی، رقم ۲۶۹۰۔ ابن ماجہ، رقم ۳۷۰۶۔ احمد، رقم ۱۱۰۲۹)۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے جرابوں اور جوتیوں پر مسح کیا(ابن ماجہ، رقم ۵۶۰)۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے ساتھ بنو اشعر کے دو آدمی تھے؛ ایک دائیں طرف، ایک بائیں طرف۔ آپ مسواک کر رہے تھے۔ اشعریوں نے عہدے کی درخواست کی تو آپ نے تنبیہ کی : عبداللہ بن قیس، یہ کیا؟انھوں نے عذر پیش کیا:اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، انھوں نے مجھے اپنے د ل کی بات نہیں بتائی۔ آپ نے فرمایا: جو عامل بننے کی خواہش کرے، اسے ہم ہرگز عامل نہیں بناتے، کیونکہ ہمارے نزدیک عہدے کا طالب سب سے بڑا خائن ہوتا ہے۔ البتہ ابو موسیٰ عبداللہ، تم عامل بن کر یمن جاؤ۔ پھر ان کے پیچھے آپ نے حضرت معاذ بن جبل کوبھی عامل مقرر کرکے وہاں بھیج دیا (بخاری، رقم ۶۹۲۳۔ مسلم، رقم ۴۷۱۸۔ ابو داؤد، رقم ۲۹۳۰، ۴۳۵۴۔ نسائی، رقم ۴۔ احمد، رقم ۱۹۶۶۶)۔

 ابو عطیہ اور مسروق نے حضرت عائشہ سے سوال کیا:اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک روزہ جلد کھول لیتاہے اور نماز بھی جلد پڑھ لیتا ہے اور دوسرا روزہ دیر سے افطار کرتا ہے اور نمازبھی موخر کر دیتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پوچھا: جلد افطار کرنے والا اور جلد نماز پڑھنے والاکون ہے؟ بتایا:عبداللہ بن مسعود۔ انھوں نے بتایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے کیا کرتے تھے۔ راوی حدیث کہتے ہیں : نماز و افطار میں تاخیر کرنے والے حضرت ابوموسیٰ اشعری تھے(مسلم، رقم ۲۵۵۶۔ ترمذی، رقم ۷۰۲۔ نسائی، رقم ۲۱۶۳۔ احمد، رقم ۲۴۲۱۲)۔

اصحاب رسول کی تکریم

حضرت ابوموسیٰ اشعری بتاتے ہیں :میں مدینہ کے ایک باغ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، جس سے مٹی میں پانی سینچ رہے تھے۔ ایک شخص آیا اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ آپ نے فرمایا:کھول کر آنے دو اور اسے جنت میں داخل ہونے کی بشارت دو۔ یہ ابوبکر تھے، بشارت سن کر انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر ایک اور شخص آیا اور دروازہ کھولنے کی درخواست کی۔ آپ کے ارشاد پر میں نے دروازہ کھولا اور داخلہ جنت کی خوش خبری سنائی۔ تبھی عمر داخل ہوئے اور خوش خبری سن کر اللہ کی حمد بیان کی۔ اب تیسرا شخص آیا اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ آپ نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھولو اور اسے اس مصیبت پر جنت میں جانے کی بشارت دو جو اس پر آنے والی ہے۔ یہ عثمان تھے، میں نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا۔ انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اورکہا:وہی مددگارہے(بخاری، رقم ۳۶۹۳، ۶۲۱۶۔ مسلم، رقم ۶۲۱۲۔ ترمذی، رقم ۳۷۱۰۔ احمد، رقم ۱۹۶۴۳)۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں :ہم اصحاب رسول کو کوئی حدیث سمجھنے میں دشواری ہوتی تو ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے پوچھتے اور ہمیں ان کے ہاں مکمل علم حاصل ہو جاتا (ترمذی، رقم ۳۸۸۳)۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑ پر تشریف فرما ہیں اور حضرت عمر کو اشارہ کرکے بلا رہے ہیں۔ انھوں نے اس کی تعبیر کی کہ حضرت عمر کا انتقال ہو جائے گا۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری سے بیٹی، پوتی اور بہن کی وراثت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ بیٹی کے لیے نصف اور بہن کے لیے بھی نصف ہے۔ ابن مسعود کے پاس چلے جاؤ، وہ بھی میری موافقت کریں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودسے سوال کیا گیا تو جواب دیا: میں توگم راہ ہو جاؤں گا، اگر ایسا فتویٰ دوں۔ میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ بیٹی کو نصف ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ دیا جائے گا، اس طرح دو تہائی پورے ہو جائیں گے۔ جو باقی بچے گا، بہن کو دے دیا جائے گا۔ سائلین نے حضرت ابوموسیٰ کو حضرت عبداللہ بن مسعود کا فتویٰ بتایا تو انھوں نے کہا: جب تک علم کا یہ سمندرتم میں موجود ہے، مجھ سے مسائل نہ پوچھاکرو(بخاری، رقم ۶۷۳۶۔ ابوداؤد، رقم ۲۸۹۰۔ ترمذی، رقم ۲۰۹۳)

 حضرت ابوموسیٰ کے گھر ایک مجلس میں حضرت ابومسعود انصاری نے کہا:میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد عبداللہ بن مسعود سے بڑا عالم چھوڑاہے۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا:یہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے تھے جب ہم موجود نہ ہوتے تھے اور انھیں آپ کے گھر میں اس وقت داخلے کی اجازت ہوتی تھی جب ہماراجانا ممنوع ہوتا تھا(مسلم، رقم ۶۳۳۰)

 تقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی

حضرت ابوموسیٰ سخت گرمی میں روزہ رکھتے۔ وہ زاہد و عابد اور علم وعمل کے جامع تھے۔ انھیں دنیا سے کوئی رغبت نہ تھی۔

حضرت ابوموسیٰ نے فرمایا:میں ایک تاریک کوٹھری میں نہاتا ہوں، جب سے مسلمان ہوا ہوں، اپنے رب سے حیا کرتے ہوئے اپنی پیٹھ جھکا لیتا ہوں اور سیدھا کھڑا نہیں ہوتا۔ انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ بغیر تہ بند باندھے پانی میں کھڑے ہو جاتے ہیں تو کہا: میں مر جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، مر جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، مر جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر بھی ایسا کرنا پسند نہ کروں۔

ایک بار کہا: ناک کا مردار کی بو سے سڑ نا اجنبی عورت کی خوشبو سے معطر ہونے سے بہترہے۔

حضرت ابوموسیٰ اور زیاد بن سمیہ حضرت عمر سے ملنے آئے۔ انھوں نے زیادکے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اعتراض کیا۔ اس پر حضرت ابوموسیٰ نے کہا:میری انگوٹھی تو لوہے کی ہے۔ حضرت عمر نے کہا:یہ اور بھی براہے۔ جس کو انگوٹھی کا شوق ہو، چاندی کی انگوٹھی پہنے۔

حضرت ابوموسیٰ کو پتا چلا کہ لوگ اس وجہ سے جمعہ پڑھنے نہیں آتے کہ ان کے پاس عمدہ کپڑے نہیں ہیں تو انھوں نے ایک عبا پہن کر باہر نکلنا شروع کر دیا۔

حضرت ابوموسیٰ پیشاب کی نجاست کے بارے میں متشدد تھے۔ کہتے تھے :بنی اسرائیل جس کپڑے پر پیشاب لگ جاتا، کاٹ کر پھینک دیتے تھے۔ حضرت حذیفہ کہتے: کاش، وہ یہ کہنے سے باز آجائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو قوم کے کوڑا خانے پر آئے او ر کھڑے ہو کر پیشاب کیا(بخاری، رقم ۲۲۶۔ مسلم، رقم ۶۲۵)۔

 حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے تھے :مجھے اس میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا کہ شراب پی لوں یا ما سوا اللہ کی پوجا کر لوں (نسائی، رقم ۵۶۶۶)۔ البتہ وہ انگور کا رس طلا پی لیتے تھے جس کا دو تہائی پکانے سے اڑ جاتا ہے اورباقی رہ جانے والا ایک تہائی نشہ آور نہیں ہوتا (نسائی، رقم ۵۷۲۴)۔

بصرہ کی گورنری کے دوران میں حضر ت ابوموسیٰ نے گھرجانے کی تیاری کی۔ انھوں نے حضرت انس بن مالک کو سامان باندھنے کوکہا۔ ان کے جانے کا وقت ہوگیا، لیکن حضرت انس پوری تیاری نہ کر سکے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا:میں نے اپنے گھر والوں کو کہا تھا کہ اس دن نکل آؤں گا، میں نے ان سے جھوٹ بولا تو وہ مجھ سے جھوٹ بولیں گے، اگر میں نے ان سے خیانت کی تو مجھ سے خیانت کریں گے اور اگر میں نے ان سے وعدہ خلافی کی تو مجھ سے ایفاے عہد نہ کریں گے۔ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اپنا سامان ضرورت چھوڑ کر روانہ ہو گئے۔

 حضرت ابوموسیٰ کے پاس ایک چھوٹی شلوار(underwear)تھی، جسے وہ سترڈھانپنے کے لیے رات کے وقت تہ بند کے نیچے پہن لیتے۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں :ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلتے اور بارش آجاتی تو ہمارے اونی کپڑوں سے بھیڑوں کی بوآتی (ترمذی، رقم ۲۴۷۹۔ ابن ماجہ، رقم ۳۵۶۲۔ احمد، رقم ۱۹۷۵۷)۔

حضرت ابوموسیٰ نے ڈاک خانے میں اور مویشیوں کے باڑے میں نماز پڑھی، ان کے ایک طرف گوبرپڑا تھااور دوسری جانب جنگل تھا(بخاری، رقم ۶۶)۔

 حضرت ابو موسیٰ کی نصائح و ہدایات

حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا:قاضی کو اس وقت تک فیصلہ نہ کرنا چاہیے جب تک حق اس طرح نہ واضح ہو جائے، جس طرح رات دن سے الگ ہو جاتی ہے۔ حضرت عمر کو ان کے اس قول کا علم ہوا تو کہا:ابوموسیٰ نے سچ کہا۔

حضرت ابو موسیٰ نے بصرہ کی مسجد میں قرآن کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:جس کو اللہ نے علم دیا ہو، اس کی آگے تعلیم دے، یہ ہرگز نہ کہے:میں نہیں جانتا۔ خلاف حقیقت بات کرنے پر وہ دین سے خارج ہو جائے گا۔

 ایک مرتبہ وعظ کرتے ہوئے کہا:اے لوگو، رو لو، اگر نہیں رونا آتا تو رونی صورت بنا لو، اس لیے کہ دوزخی آنسو بہائیں گے اورجب آنسو خشک ہو جائیں گے تو خون ٹپکانا شروع کر دیں گے، اس مقدار میں کہ ان میں کشتیاں چلنے لگیں۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری نے اپنی بیٹیوں کو کہا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی کریں (بخاری، رقم ۱۰)۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری نے عامر بن عبد اللہ (عبد قیس)کو خط لکھا:السلام علیکم، اللہ واحدکی حمد بیان کرنے کے بعد، میں نے آپ کو ایک ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے ادا کرنے میں فرق آگیا ہے، اللہ سے ڈریں، والسلام۔

علم و فقا ہت

حضرت ابوموسیٰ نے اہل بصرہ کو فقہ اور قراءت کی تعلیم دی۔ حضرت علی سے حضرت ابوموسیٰ کی علمی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:وہ علم میں رنگے ہوئے تھے۔ شعبی کا قول ہے:علم د ین کی ابتدا چھ علما سے ہوئی، ان میں سے ایک حضرت ابوموسی ٰاشعری ہیں۔ مسروق کہتے ہیں :امت مسلمہ کے قاضی چار ہیں: عمر، علی، ابوموسیٰ اور زید بن ثابت۔ مسروق ہی کی دوسری روایت میں عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ابوالدردا اور ابی بن کعب کااضافہ کیاہے(مستدرک حاکم، رقم ۵۹۶۰)۔ شعبی کہتے ہیں :علم ان چھ اصحاب رسول سے اخذ کیا گیا ہے: حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ اشعری۔ ان کا علم ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے اور یہ ایک دوسرے سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ شعبی حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابوموسیٰ اورحضرت زید کو امت کے قاضی قرار دیتے ہیں۔ اسود بن یزید کہتے ہیں :میں نے کوفہ میں علی اورابو موسیٰ سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔ امام نسائی حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت عمران بن حصین کو بصرہ کے فقہا قرار دیتے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اہل بصرہ کو قراءت اور فقہ کی تعلیم دی۔ حطان بن عبداللہ رقاشی اور ابو رجا عطاردی قراءت میں ان کے شاگرد تھے۔

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابوموسیٰ شہ سواروں کے سردار ہیں (الطبقات الکبریٰ،رقم۳۶۷)۔

روایت حدیث

حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم، چاروں خلفاے راشدین، حضرت عائشہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب اور حضرت عمار بن یاسر سے روایت کی۔ ان سے روایت کرنے والے ہیں :ان کے بیٹے موسیٰ، ابراہیم، ابوبردہ، ابوبکر، ان کی اہلیہ حضرت ام عبداللہ، حضرت ابوسعیدخدری، حضرت انس بن مالک، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت طارق بن شہاب، حضرت بریدہ بن حصیب، حضرت اسامہ بن شریک، زید بن وہب، ابو عبدالرحمٰن نہدی، قیس بن ابوحازم، ابوالاسود دؤلی، سعید بن مسیب، زر بن حبیش، حسن بصری، اسود بن یزید، علقمہ بن قیس، ابو عثمان نہدی، ابووائل شقیق بن سلمہ، عمران بن حطان، اسید بن متشمس، ثابت بن قیس، ابو العالیہ، سعید بن جبیر، مرہ بن شراحیل الطیب، صفوان بن محرز، زہدم بن مضرب، عامر شعبی، ضحاک بن عبدالرحمٰن، ربعی بن حراشں، عبداللہ بن نافع، عبیدبن حنین، عبدالرحمٰن بن غنم، مسروق بن اوس اور ابوکنانہ۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری کے ایک ہم نشین نے ان کے بیٹے ابوبردہ کو نصیحت کی : تمھارے والد کے جانے کا وقت قریب ہے، ان کی روایات حدیث محفوظ نہ رہیں گی، تم لکھ لیا کرو۔ حضرت ابوموسیٰ کوان کی کتابت کا پتا چلاتوانھوں نے پانی لے کر تمام لکھا ہوا محو کر دیا اور کہا:تم احادیث کو اسی طرح ذہن نشین کرو جیسے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر حفظ کی ہوئی ہیں۔

حضرت ابوموسیٰ کی مسند میں تین سو ساٹھ احادیث ہیں۔ انچاس روایات بخاری و مسلم میں ہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، نسب قریش(مصعب زبیری)، تاریخ خلیفۃ بن خیاط(خلیفہ بن خیاط)، جمل من انساب الاشراف(بلاذری)، تاریخ الامم والملوک(طبری)، الجامع المسند الصحیح (بخاری، دارالسلام، ریاض)، جمہرۃ انساب العرب (ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، تاریخ دمشق الکبیر(ابن عساکر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ:L. Veccia Vaglieri)،  Wikipedia۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B