HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

نسخ القرآن بالسنۃ: امام شافعی کے موقف پر اصولیین کے معارضات (۲)

نسخ القرآن بالسنۃ: امام شافعی کے موقف پر اصولیین کے معارضات (۱)


نسخ اور تخصیص کی مماثلت

شافعی اصولیین کی ایک جماعت نے امام شافعی کے موقف پر ایک معارضہ یہ پیش کیا ہے کہ نسخ اور تخصیص میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، اس لیے جس بنیاد پر امام شافعی حدیث سے قرآن کی تخصیص کا جواز مانتے ہیں، اسی بنیاد پر نسخ کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے اور دونوں میں فرق کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کی تفصیل یہ حضرات یوں کرتے ہیں کہ جیسے تخصیص کا کام اصل حکم میں موجود ایک احتمال کو واضح کرنا ہوتا ہے، اسی طرح نسخ بھی حکم سے متعلق ابتدا سے موجود ایک امکان ہی کو واضح کرتا ہے۔ وہ یہ کہ جب تک وحی کے نزول کا سلسلہ جاری تھا، بیش تر شرعی احکام سے متعلق یہ امکان موجود تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں اگر کسی حدیث میں قرآن کے کسی حکم کو جزوی یا کلی طور پر تبدیل کیا جائے تو تخصیص کی طرح اس کی نوعیت بھی پہلے سے موجود ایک امکان کو واضح کرنے کی ہوتی ہے، اس لیے حدیث میں اگر قرآن کے حکم کی تخصیص وارد ہو سکتی ہے تو نسخ اور تغییر کا وارد ہونا بھی بالکل درست اور جائز ہے۔

امام الحرمین ا ن حضرات کے استدلال کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

أن النسخ في حكم البيان لمعنى اللفظ والمكلفون قبل وروده لا يقطعون بتناول اللفظ الأول جميع الأزمان على التنصيص وإنما يتناولها ظاهرًا معرضًا للتأويل فالنسخ عندهم تخصيص اللفظ بالزمان كما أن ما يسمى تخصيصًا هو إزالة ظاهر العموم في المسميات. (البرہان ۲ / ۲۴۷)
’’نسخ کی حیثیت کلام کی مراد ہی کو واضح کرنے کی ہوتی ہے۔ ناسخ کے وارد ہونے سے پہلے مکلفین یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلا حکم تصریحاً‌ ہمیشہ واجب العمل رہے گا۔ حکم کے ہمیشہ باقی رہنے پر کلام کی دلالت ظاہری ہوتی ہے، جس میں تاویل کا احتمال ہوتا ہے۔ چنانچہ ان حضرات کے نزدیک نسخ کا مطلب یہ ہے کہ حکم کو خاص زمانے تک محدود کر دیا جائے، جیسا کہ تخصیص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلام کا ظاہری عموم جن افراد کو شامل ہوتا ہے، اس کو ختم کر (کے بعض افراد تک محدود کر) دیا جائے۔“

معمولی غور سے و اضح ہو جاتا ہے کہ یہ معارضہ قیاس مع الفارق کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس میں موجود مغالطے کو سمجھنے کے لیے تخصیص سے متعلق حنفی اور شافعی اصولیین کے اصولی اختلاف کو پیش نظر رکھنا خاص طور پر ضروری ہے۔ حنفی اصولیین کے نزدیک اگر کلام ظاہراً‌ عموم پر دلالت کر رہا ہو اور متکلم اس کلام کے ساتھ متصلاً کوئی تخصیص بیان نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ متکلم کی مراد عموم ہی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد اگر زمانی وقفے سے اس حکم کے متعلق کوئی تخصیص بیان کی جائے تو اس کو نوعیت کے لحاظ سے بیان نہیں، بلکہ نسخ تصور کیا جائے گا۔ اس کے برعکس، شافعی اصولیین کے نزدیک تخصیص کا اصل حکم کے ساتھ متصلاً‌ بیان ہونا ضروری نہیں، بلکہ اگر کچھ وقفے کے بعد بھی تخصیص وارد ہو تو اسے نسخ نہیں کہا جائے گا، بلکہ متکلم کی مراد کی وضاحت ہی مانا جائے گا، جو حکم دیتے وقت متکلم کے ذہن میں موجود تھی۔

اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے، بعض شافعی اصولیین کے اس استدلال کا داخلی تضاد بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ تخصیص اور نسخ نوعیت کے لحاظ سے ایک جیسی چیزیں ہیں۔ اگر یہ استدلال حنفی اصولیین پیش کریں تو وہ ان کے تصور کے لحاظ سے بالکل قابل فہم ہے، کیونکہ وہ تخصیص کو اصولاً‌ نسخ ہی کی ایک صورت مانتے ہیں۔ تاہم شوافع کے اصولی نقطۂ نظر سے یہ استدلال کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ تخصیص میں حکم سے متعلق جس احتمال کی وضاحت کی جاتی ہے، اس کا تعلق حکم کو واجب الاتباع مان کر اس پر عمل کرنے سے ہوتا ہے، یعنی تخصیص کا بنیادی مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ حکم فی نفسہٖ محکم اور واجب الاتباع ہے، لیکن فلاں اور فلاں صورتوں میں اس کا اطلاق نہ کیا جانا بھی شارع کی مراد ہے، اس لیے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکم پر عمل کیا جائے۔ اس کے برعکس، نسخ جس امکان کی وضاحت کرتا ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ نسخ یہ بیان نہیں کرتا کہ سابقہ حکم پر عمل کرتے ہوئے فلاں فلاں پہلوؤں کی رعایت شارع کو مطلوب ہے، بلکہ یہ واضح کرتا ہے کہ پہلے جو حکم دیا گیا تھا، اس کے بعض اجزا یا پورے حکم کو اب شارع ایک نئے حکم کے ذریعے سے تبدیل کرنا چاہتا ہے اور مکلفین اب سابقہ حکم کے بجاے اس نئی ہدایت پر عمل کے مکلف ہیں۔

نوعیت کے اس واضح فرق ہی کے پیش نظر اصولیین یہ مانتے ہیں کہ حکم کی تخصیص کے مختلف پہلو تو عقلی یا لفظی یا قیاسی دلالتوں کی روشنی میں مجتہدین بھی واضح کر سکتے ہیں، لیکن حکم میں جزوی یا کلی نسخ کے لیے شارع کی طرف سے نئی ہدایت کا وارد ہونا ضروری ہے۔ شارع کے علاوہ کوئی اور، حتیٰ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی حکم میں جزوی یا کلی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس تناظر میں یہ استدلال بہت ہی ناقص ہے کہ چونکہ تخصیص بھی حکم سے متعلق کچھ پہلو واضح کرتی ہے اور نسخ بھی ایک خاص پہلو کو واضح کرتا ہے، اس لیے اگر حدیث سے قرآن کی تخصیص کا جواز مانا جا رہا ہے تو نسخ کا جواز ماننے میں بھی کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ تخصیص کا جواز اس لیے مانا جاتا ہے کہ اس کی نوعیت ایک محکم حکم کی مراد کو واضح کرنے کی ہے، جو حدیث کے دائرۂ اختیار میں شامل ہے۔ نسخ، ایک محکم حکم کے کسی پہلو کو بیان نہیں کرتا، بلکہ یہ بتاتا ہے کہ یہ حکم اب محکم نہیں رہا، بلکہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دونوں کی نوعیت بالکل مختلف ہے اور ان کو کسی ایک پہلو میں اشتراک کی بنیاد پر ایک جیسا سمجھنا محض التباس ہے۔

امام الحرمین اس التباس کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

في كلام الفقهاء ما يدل على أن اللفظ الدال على الحكم الأول ظاهر في الأزمان معرض للتأويل تعرض الألفاظ العامة للتخصيص وهذا فيه إيهام لا حاجة إليه فإن اللفظ العام في وضعه ليس نصًا في استغراق المسميات وليس كذلك موجب اللفظ في تأبيد الحكم فإنا نجوز ورود النص في استغراق الزمان مطلقًا مع ورود الناسخ بعده وليس ذلك من جهة تأويل اللفظ في وضعه وإنما هو من جهة تقدير شرط مسكوت عنه وهو متضمن كل أمر يجوز تقدير نسخه.(البرہان ۲ /۲۴۹)
’’فقہا کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ سابقہ حکم کو بیان کرنے والے کلام کی دلالت زمانے پر ظاہری ہوتی ہے، (یعنی قطعی نہیں ہوتی) اور اس میں اسی طرح تاویل کا احتمال ہوتا ہے، جیسے عموم پر دلالت کرنے والے الفاظ تخصیص کا احتمال رکھتے ہیں۔ لیکن اس استدلال میں ایک غیر ضروری الجھاؤ ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ عموم پر دلالت کرنے والا کلام اپنی وضع کے لحاظ سے تمام افراد کے مراد ہونے پر نصاً‌ دلالت نہیں کرتا، (بلکہ محتمل ہوتا ہے)، جب کہ حکم کی ہمیشگی پر کلام کی دلالت کی نوعیت یہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم اس کا جواز مانتے ہیں کہ کسی حکم کے متعلق نص میں یہ تصریح کر دی جائے کہ اس پر تمام اوقات میں عمل لازم ہے، لیکن پھر اس کے بعد اس کا ناسخ بھی آ جائے۔ ناسخ کا وارد ہونا اس پہلو سے نہیں ہوتا کہ سابق کلام اپنی وضع میں اس کا احتمال رکھتا تھا، بلکہ اس پہلو سے ہوتا ہے کہ کلام کے ساتھ ایک خاموش مفروضہ موجود ہوتا ہے (کہ اس حکم کو بعد میں ختم کیا جا سکتا ہے) اور یہ ہر ایسے حکم کے ساتھ موجود ہوتا ہے جس کا منسوخ ہونا اصولاً‌ جائز ہو۔ “

حاصل یہ ہے کہ اس استدلال میں حکم سے متعلق دو بالکل الگ الگ نوعیت کے احتمالات کو ایک جیسا فرض کر کے ایک پر دوسرے کو قیاس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکم سے متعلق ایک احتمال عقلی ہے اور دوسرا احتمال کلام کے الفاظ کی دلالت سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ احتمال کہ یہ حکم شارع نے ہمیشہ کے لیے دیا ہے یا نہیں، ایک عقلی احتمال ہے، جس کے متعلق کلام کے الفاظ یا اس کو محیط قرائن سے کوئی اشارہ اخذ نہیں کیا جا سکتا اور نہ حکم سے شارع کی مراد سمجھنے کے لیے اس وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ حکم کسی خاص مدت کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، کلام کے عموم سے متعلق یہ احتمال کہ اس میں تمام افراد یا تمام صورتیں متکلم کی مراد ہیں یا نہیں، کلام کے الفاظ میں اس طرح شامل ہوتا ہے کہ متکلم کی طرف سے اس کی وضاحت کا وارد ہونا نہ صرف متوقع ہوتا ہے، بلکہ بسا اوقات حکم پر عمل کے لیے ایسی وضاحت ضروری ہوتی ہے۔ اس واضح اور بنیادی فرق کی روشنی میں ایک احتمال کو دوسرے احتمال پر قیاس کرنا واضح طور پر قیاس مع الفارق ہے۔

بیان اور نسخ : حنفی اصولیین کا استدلال

حنفی علماے اصول کا یہ نقطۂ نظر رہا ہے کہ سنت، قرآن کے احکام کی توضیح وتبیین کی طرح قرآن کے حکم میں تبدیلی، یعنی نسخ کو بھی بیان کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں سنت اور قرآن، دونوں کے وحی پر مبنی ہونے کا نکتہ حنفی اصولیین بھی ذکر کرتے ہیں، جس پر ہم سابقہ سطور میں تفصیلاً‌ کلام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس نکتے کے اثبات کے لیے ان کی طرف سے سورۂ نحل (۱۶) کی آیت ۴۴ کو بھی بناے استدلال بنایا گیا ہے، جس میں قرآن مجید کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : ’وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ (ہم نے یہ ذکر تمھاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کرو جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے)۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تبیین‘ کے مفہوم میں حکم کی توضیح، تخصیص اور تبدیلی سمیت ہر قسم کی وضاحت شامل ہے، اس لیے اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سنت میں، قرآن کے کسی حکم کا منسوخ ہونا بھی وارد ہو سکتا ہے۔ امام ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:

والدليل على جوازه قول اللّٰه تعالىٰ: ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾، والنسخ بيان مدة الحكم الذي كان في توهمنا بقاؤه على حسب ما تقدم وصفنا له، فانتظم قوله ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ سائر وجوه البيان، فلما كان النسخ ضربًا من البيان وجب أن تستوعبه الآية. فإن قال قائل: المراد به إظهار ما أنزل وتبليغه، قيل له: هذا أحد ما تناوله اللفظ، ولم ينف غيره من سائر ضروب البيان، ألا ترى أنه قد دل على جواز تخصيصه بالسنة إذا كان ضربًا من البيان، ولم يكن استعمال اللفظ على الأمر بإظهارہ وترك كتمانه مانعًا من دخول بيان التخصيص تحته، كذلك بيان مدة الحكم الذي هو النسخ واجب أن يتناوله اللفظ.(الفصول فی الاصول ۲/ ۳۴۵)
’’اس کے جواز کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کرو جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے“ ۔نسخ بھی ایسے حکم کی مدت بیان کرنے کو کہتے ہیں جس کے متعلق ہمارا گمان یہ تھا کہ وہ برقرار ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد حکم سے متعلق ہر قسم کی وضاحت کو شامل ہے۔ چونکہ نسخ بھی بیان کی ایک صورت ہے، اس لیے لازم ہے کہ آیت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہو۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس آیت سے مراد اللہ کے نازل کردہ احکام کا اعلان اور تبلیغ ہے تو جواب میں اس سے کہا جائے گا کہ یہ تو بیان کی صرف ایک صورت ہے، اس کے مراد ہونے سے باقی صورتوں کی نفی نہیں ہوتی۔ دیکھتے نہیں کہ یہ آیت سنت کے ذریعے سے قرآن کی تخصیص کے جواز پر دلالت کرتی ہے، جب اس کی نوعیت بیان اور وضاحت کی ہو۔ جب کلام اللہ کے اظہار اور عدم کتمان پر دلالت کرنا اس سے مانع نہیں کہ بیان کے مفہوم میں تخصیص بھی داخل ہو تو اسی طرح حکم کی مدت کو بیان کرنا بھی، جس کو نسخ کہتے ہیں، لازماً‌ اس کے مفہوم میں شامل ہے۔“

جصاص کی مذکورہ تفسیر کی روشنی میں آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے پیغمبر، ہم نے آپ پر قرآن اس لیے اتارا ہے تاکہ آپ اس کے الفاظ کو لوگوں کے سامنے بیان بھی کریں، اس کے احکام میں سے جو محتاج وضاحت ہوں، ان کی وضاحت بھی کریں اور اس کا جو حکم منسوخ ہو جائے، اس کے منسوخ ہونے کی اطلاع بھی لوگوں تک پہنچا دیں۔ استدلال کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ تمام صورتیں چونکہ حکم کے کسی نہ کسی پہلو کو واضح کرنے کی ہیں، اس لیے یہ سب اس آیت میں لفظ تبیین کا مصداق ہیں۔

ہمارے نزدیک اس استدلال کا بنیادی نقص یہ ہے کہ اس میں لفظ ’بیان‘ کے مفہوم اور استعمال میں لغوی لحاظ سے جو ایک وسعت ہو سکتی ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بھی لازماً‌ اسی وسیع مفہوم میں بیان کی گئی ہے۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ آیت جس سیاق وسباق میں آئی ہے اور اس میں فعل تبیین کو جس اسلوب میں استعمال کیا گیا ہے، وہ بیان کے کس مفہوم کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔

 مفسرین کے ہاں یہاں لفظ ’تبیین‘ کے مفہوم کے حوالے سے دو بنیادی رجحان دکھائی دیتے ہیں:

مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے مذکورہ آیت میں تبیین کو اظہار اور تشہیر کے معنی میں لیا ہے، جو ’ کتمان‘ کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ آپ پر کتاب اس لیے نازل کی گئی ہے کہ آپ اسے لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں اور اس میں جو بھی احکام اور تعلیمات مذکور ہیں، وہ لوگوں تک پہنچائیں۔ ان حضرات کے نقطۂ نظر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں قرآن کے احکام کی توضیح وتفصیل وارد ہونا اپنی جگہ درست ہے، لیکن اس آیت کا مدعا اس کو بیان کرنا نہیں، بلکہ رسول اللہ کی اس ذمہ داری کو بیان کرنا ہے کہ آپ اللہ کے نازل کردہ احکام کی تبلیغ واعلان کے پابند ہیں۔

مفسرین کا دوسرا گروہ یہاں تبیین کو قرآن کے احکام کی توضیح وتشریح کے معنی میں لیتا ہے، جو اجمال کی تفصیل، عموم کی تخصیص اور اطلاق کی تقیید وغیرہ کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ گویا تبیین کا مفہوم یہ ہے کہ حکم اگر کسی پہلو سے محتاج وضاحت ہو تو اس خاص پہلو کی وضاحت کر دی جائے۔ مفسرین کا یہ گروہ تبیین کی براہ راست اور مقصود دلالت کو اسی پہلو سے بیان کرتا ہے، جب کہ ’ما نزل اللّٰه‘ کے ابلاغ وتشہیر کا مفہوم یہاں مراد نہیں لیتا۔

ابن عطیہ نے ان دونوں تفسیری آرا کا ذکر یوں کیا ہے:

وقوله ﴿لِتُبَيِّنَ يحتمل أن يريد لتبين بسردك نص القرآن ما نزل، ويحتمل أن يريد لتبين بتفسيرك المجمل، وشرحك ما أشكل مما نزل، فيدخل في هذا ما بينته السنة من أمر الشريعة، وهذا قول مجاهد(المحرر الوجیز ۳ / ۳۹۵)
’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن کے جو الفاظ نازل ہوں، آپ وہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں، اور یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اس کے مجمل کی تفسیر اور مشکل مقامات کی توضیح کر دیں۔ اس دوسری تفسیر کی رو سے، سنت نے جو شریعت کے احکام بیان کیے ہیں، وہ بھی تبیین کا مصداق ہیں۔ یہ مجاہد کی راے ہے۔“

علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

﴿لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ﴾ كافة ويدخل فيهم أهل مكة دخولًا أوليًا ﴿مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ في ذلك الذكر من الأحكام والشرائع وغير ذلك من أحوال القرون المهلكة ... على وجه التفصيل بيانًا شافيًا ... وعن مجاهد أن المراد بهذا التبيين تفسير المجمل وشرح ما أشكل إذا هما المحتاجان للتبيين، وأما النص والظاهر فلا يحتاجان إليه.(روح المعانی ۷ / ۳۸۹)
’’’لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ اہل مکہ سمیت تمام لوگوں کے سامنے وہ احکام اور شرائع اور گذشتہ ہلاک شدہ قوموں کے احوال جو قرآن میں نازل ہوئے ہیں، پوری تفصیل کے ساتھ واضح انداز میں بیان کر دیں۔ مجاہد سے منقول ہے کہ اس تبیین سے مراد مجمل احکام کی تفسیر اور مشکل مقامات کی توضیح ہے، کیونکہ مجمل اور مشکل ہی وضاحت کے محتاج ہوتے ہیں۔ جو کلام نص اور ظاہر کی نوعیت کا ہو، اس کو تبیین کی ضرورت نہیں ہوتی۔“

بعض مفسرین کے ہاں تبیین کے یہ دونوں معنی بہ یک وقت مراد لینے کا بھی رجحان نظر آتا ہے۔ مثلاً‌ امام طبری سورۂ نحل کی زیربحث آیت کی تفسیر میں تبیین کا معنی لوگوں تک کلام الٰہی کو پہنچانا بیان کرتے ہیں، تاہم تفسیر کے مقدمے میں قرآن کے قابل وضاحت احکام کی تشریح وتفصیل کو بھی تبیین کا مصداق قرار دیتے ہیں (تفسیر الطبری ۱ / ۷۴)۔ غالباً‌ طبری کا زاویۂ نظر یہ ہے کہ آیت کے خاص سیاق کے لحاظ سے تو تبیین کا مفہوم ابلاغ و اظہار ہے، لیکن چونکہ قرآن کے احکام کی تبیین وتشریح کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بھی ایک مسلم حقیقت ہے، اس لیے توسعاً‌ اس کو بھی اس آیت کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس آیت کی تفسیر کے حوالے سے حنفی اہل علم کے زاویۂ نظر کا مطالعہ بھی یہاں دل چسپ ہوگا۔ اس ضمن میں حنفی اصولیین کے کلام میں مختلف رجحانات ملتے ہیں اور وہ مختلف سیاقات میں سورۂ نحل کی آیت میں بیان کو مختلف معانی پر محمول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ بعض مباحث میں ان کا انداز فکر یہ ہے کہ زیربحث آیت تبیین سے مراد قرآن کے احکام کا اظہار اور اعلان ہے، جب کہ توضیح وتفصیل کا پہلو یہاں مراد نہیں۔ اس کی تائید میں وہ یہ قرینہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمام لوگوں کے لیے ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ کی تبیین کا ذکر کیا ہے، جس کا مطلب قرآن کو لوگوں تک پہنچا دینا ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ احکام کی تشریح وتفصیل جو احادیث میں وارد ہوئی ہے، وہ تمام لوگوں سے متعلق نہیں اور سب لوگوں تک اس کا ابلاغ بھی نہیں کیا گیا۔ مثلاً‌ سرخسی لکھتے ہیں:

وقد كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مأمورًا بالبيان للناس، قال تعالىٰ: ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾، وقد علمنا أنه بين للكل ومن وقع له العلم ببيانه أقر ومن لم يقع له العلم أصر ولو كان البيان عبارة عن العلم الواقع للمبين لما كان هو متممًا للبيان في حق الناس كلهم.(اصول السرخسی ۲ / ۲۷)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے پر مامور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کرو جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے قرآن کو سب کے لیے بیان کیا اور جن کو آپ کے اس اظہار وتبلیغ کا علم ہوا، انھوں نے اقرار کیا اور جن کو نہیں ہوا، انھوں نے (اپنے کفر پر) اصرار کیا۔ اگر بیان کا مطلب وہ علم ہوتا جو مخاطبین کو حاصل ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے حق میں اس کو بیان کرنے والا قرار نہ دیا جا سکتا، (جب کہ آیت کا اسلوب یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ بیان سب لوگوں سے متعلق ہو)۔ “

ابوبکر الجصاص لکھتےہیں:

أن قوله تعالىٰ ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ إنما يقتضي المنزل بعينه والمنزل مبين، وإنما أراد إظهاره وترك كتمانه، ولا دلالة فيه على أنه أراد بيان الخصوص.(الفصول فی الاصول ۲ / ۵۳)
’’اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب بعینہٖ اس چیز کو بیان کرنا ہے جو نازل کی گئی ہے، یعنی نازل کردہ چیز ہی بیان کی جائے گی۔ مراد یہ ہے کہ اس کا اعلان اور تشہیر کی جائے اور اس کو چھپایا نہ جائے۔ اس آیت میں اس بات پر کوئی دلالت موجود نہیں کہ اس سے مراد (کتاب اللہ کے عموم کا) خصوص بیان کرنا ہے۔ “

عبد العزیز البخاری لکھتے ہیں:

حمل البيان على التبليغ أولى من حمله على بيان المراد تفاديًا عن لزوم الإجمال والتخصيص في ما أنزل لأن التبليغ عام فيه بخلاف بيان المراد لاختصاصه ببعضه كالعام والمجمل والمطلق والمنسوخ. (کشف الاسرار ۳ / ۱۸۵)
’’یہاں بیان کو تبلیغ کے معنی میں لینا اس سے بہتر ہے کہ اس کو مراد کی وضاحت پر محمول کیا جائے جس کی وجہ سے ’ما أنزل‘ کو ان آیات تک محدود کرنا لازم آئے، جن میں اجمال پایا جاتا ہو یا تخصیص مراد ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغ کا تعلق تو پورے قرآن سے ہے، جب کہ بیان مراد قرآن کی کچھ آیات سے ہی متعلق ہو سکتی ہے جو عام، مجمل، مطلق یا منسوخ ہوں۔“

مذکورہ تفسیر میں حنفی اصولیین یہ قرار دے رہے ہیں کہ اسلوب کے لحاظ سے آیت کے الفاظ کو بہ یک وقت ان دونوں مفاہیم پر محمول نہیں کیا جا سکتا، بلکہ موقع کلام اور ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ کے عموم کے قرینے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اظہار وابلاغ پر ہی محمول کرنا درست ہے۔

کچھ دیگر مباحث میں حنفی اہل علم کا دوسرا رجحان یہ سامنے آتا ہے کہ اس آیت میں تبیین کو امکانی طور پر تشریح وتوضیح کے مفہوم میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں :

لا يخلو قوله تعالىٰ ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ من أحد وجهين: إما أن يكون المراد به إظهاره وترك كتمانه، فيتناول جميع القرآن ما افتقر منه إلى بيان، وما لم يفتقر، فيكون بمعنى قوله تعالىٰ: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ؟ أو أن يكون المراد منه ما احتاج منه إلى بيان الرسول دون غيره.(الفصول فی الاصول ۲ /۳۳۴)
’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دو میں سے ایک احتمال رکھتا ہے: یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ کلام الٰہی کا اظہار اور اعلان کیا جائے اور اس کو چھپایا نہ جائے۔ اس صورت میں یہ پورے قرآن سے متعلق ہوگا، چاہے قرآن کا کوئی حصہ محتاج وضاحت ہو یا نہ ہو۔ گویا اس آیت کا وہی مفہوم ہوگا جو اس آیت کا ہے کہ ’’اے رسول، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، اس کو لوگوں تک پہنچا دو۔“ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہ مخصوص آیات ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وضاحت کی محتاج ہیں، ان کے علاوہ باقی قرآن مراد نہیں ہوگا۔“

ایک اور بحث میں جصاص لکھتے ہیں:

ويدل عليه قوله تعالىٰ: ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ، قد حوت هذه الآية ثلاثة معان: أحدها: ما نزل اللّٰه تعالىٰ مسطورًا والآخر بيان الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم لما يحتاج منه إلى البيان والثالث التفكر فيما ليس بمنصوص عليه وحمله على المنصوص.(الفصول فی الاصول ۴ / ۳۱)
’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’’تاکہ تم لوگوں کے لیے اس چیز کی وضاحت کرو جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے اور تاکہ وہ غور وفکر کریں“ تین چیزوں پر دلالت کرتا ہے: ایک وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا اور جو لکھا ہوا ہے۔ دوسرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان امور کی وضاحت جو محتاج وضاحت ہیں۔ اور تیسرا ان چیزوں پر غور کرکے جو نص میں بیان نہیں ہوئیں، انھیں ان امور پر محمول کرنا جن کا حکم نص میں بیان کیا گیا ہے۔“

ایک اور مقام پر بھی یہی اسلوب ہے:

أن ما كان منه ظاهر المعنى غير محتاج إلى بيان الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم كذلك ما بين اللّٰه تخصيصه مما يحتاج إلى بيان فليس بيانه موكولًا إلى النبي عليه السلام وأيضًا يحتمل أن يكون معنى قوله تعالىٰ ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ﴾ لتبلغه إياهم وتظهره ولا تكتمه. (الفصول فی الاصول ۱ / ۱۴۲)
’’قرآن کے وہ احکام جن کا معنی بالکل واضح ہو، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وضاحت کے محتاج نہیں۔ اسی طرح جن احکام کی تخصیص خود اللہ تعالیٰ نے واضح کر دی، ان کی وضاحت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد نہیں کی گئی۔ (چنانچہ اس آیت کا تعلق انھی احکام سے ہے جن کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہو)۔ اس کے علاوہ یہ بھی احتمال ہے کہ ’لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ‘ کا معنی یہ ہو کہ تم اس قرآن کو لوگوں تک پہنچا دو اور ان کے سامنے اس کا اعلان کرو اور اس کو چھپاؤ نہیں۔“

مذکورہ اقتباسات میں ایک تو یہ نکتہ نمایاں ہے کہ جصاص کے نزدیک تبیین کے ان دونوں معنوں میں سے کوئی ایک معنی علیٰ سبیل البدل مراد ہو سکتا ہے، یعنی وہ دونوں کے بہ یک وقت مراد ہونے پر اصرار نہیں کر رہے۔ دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ وہ بیان کے مفہوم کو حکم کے ایسے پہلوؤں کی وضاحت تک محدود رکھ رہے ہیں جو محتاج وضاحت ہوں، جب کہ حکم میں تبدیلی اور نسخ کو بیان کے مفہوم میں شامل نہیں کر رہے۔ یہ نکتہ ایک بحث میں سرخسی نے زیادہ وضاحت سے بیان کیا ہے، چنانچہ جمع بین الاختین کی ممانعت اور پھوپھی اور بھتیجی کے ساتھ بہ یک وقت نکاحت کی ممانعت کے باہمی تعلق کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الحديث صحيح مقبول والعمل به واجب فلكونه مشهورًا نقول يجوز نسخ الكتاب به عندنا أو نقول هذا مبين لما ذكر في الكتاب وليس بناسخ، لأن الحل في الكتاب مقيد بشرط مبهم هو قوله تعالىٰ ﴿اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ﴾، وهذا الشرط مبهم فالحديث ورد لبيان ما هو مبهم في الكتاب، ورسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعث مبينًا، قال اللّٰه تعالىٰ ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ(المبسوط ۴ /  ۱۹۵)
’’یہ حدیث صحیح اور مقبول ہے اور اس پر عمل واجب ہے اور اس کے مشہور ہونے کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اس سے کتاب اللہ کے حکم کو منسوخ کرنا جائز ہے۔ یا پھر ہم یہ کہیں گے کہ یہ حدیث کتاب اللہ کے حکم کی وضاحت کر رہی ہے، اس کو منسوخ نہیں کر رہی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کتاب اللہ میں عورتوں کے حلال ہونے کا حکم ایک مبہم شرط کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اپنے مال دے کر خواتین سے نکاح کرو، دراں حالیکہ پاک دامنی اختیار کرنے والے ہو اور شہوت رانی کرنے والے نہ ہو۔ اب یہ شرط مبہم ہے، اس لیے حدیث کتاب اللہ کے ایک مبہم حکم کی وضاحت کر رہی ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قرآن کے احکام کی وضاحت کے لیے ہی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘۔“

سرخسی کے کلام سے واضح ہے کہ اگرچہ وہ دیگر دلائل سے حدیث میں قرآن کا ناسخ وارد ہونے کو درست مانتے ہیں، لیکن زیربحث آیت میں ’تبیین‘ کا لفظ نسخ کو شامل نہیں ہے، بلکہ اس کا اطلاق کسی مبہم حکم کی توضیح پر ہی ہو سکتا ہے۔

مذکورہ تفصیل کو پیش نظر رکھا جائے تو جصاص کے مذکورہ اقتباس میں بیان کردہ استدلال کی غلطی کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے، جس میں وہ بہ یک وقت اظہار وابلاغ، تشریح وتوضیح اور نسخ کے تینوں مفاہیم کو ’لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ‘ کا مصداق قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ محض لفظ کی لغوی وسعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کہ چونکہ بیان کی تعبیر فلاں اور فلاں مفہوم کے لیے بھی آ سکتی ہے، اس لیے وہ سب پہلو اس خاص آیت میں بھی لازماً‌ مراد ہیں، زبان وبیان کے لحاظ سے ایک غلط استدلال ہے۔

ہماری راے میں موقع کلام کے لحاظ سے تبیین یہاں اظہار وابلاغ ہی کے معنی میں ہے اور اس کے واضح قرائن موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جصاص اور عبد العزیز بخاری کے حوالے سے ایک قرینہ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ بیان کو تبلیغ و اعلان کے معنی میں لینا اس سے بہتر ہے کہ اسلوب کلام مجموعی طور پر پورے ’ما أنزل إلیھم‘ کی تبیین پر دلالت کر رہا ہے جو اعلان اور تبلیغ ہی ہو سکتی ہے۔ اگر اس کو شرح ووضاحت پر محمول کیا جائے تو ’ما أنزل‘ کا مفہوم ان بعض آیات تک محدود ہو جائے گا جن میں کسی پہلو سے وضاحت کی ضرورت ہو۔ یوں اسلوب کلام اور موقع کلام، دونوں کے لحاظ سے یہاں تبیین کو قرآن کے بعض قابل وضاحت احکام کی تشریح و توضیح پر محمول کرنا موزوں نہیں ہے۔

سرخسی کے حوالے سے ایک اور قرینہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں سب لوگوں کے لیے ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ کی تبیین کا ذکر کیا ہے، جس کا مطلب قرآن کو لوگوں تک پہنچا دینا ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ احکام کی تشریح و تفصیل جو احادیث میں وارد ہوئی ہے، وہ تمام لوگوں سے متعلق نہیں اور سب لوگوں تک اس کا ابلاغ بھی نہیں کیا گیا۔

تاہم سیاق کلام سے قطع نظر کر لیا جائے تو لفظ تبیین کی حد تک تشریح وتوضیح کو بھی توسعاً‌ اس کے مفہوم میں شامل مانا جا سکتا ہے، کیونکہ جو چیز فی نفسہٖ ایک حقیقت کے طور پر مسلم ہو، اس کو توسعاً‌ قرآن کے الفاظ کی دلالت میں شامل کر لینے کی گنجایش ہوتی ہے۔ البتہ توسع کا یہ اسلوب انھی چیزوں کے متعلق قابل قبول ہو سکتا ہے جو فی نفسہٖ اختلافی اور قابل بحث نہ ہوں۔ جہاں نسخ القرآن بالسنۃ جیسے نزاعی نکتے کا اثبات پیش نظر ہو، وہاں اس قسم کے مبنی بر توسع استدلالات کافی نہیں ہو سکتے، جیسا کہ جصاص نے زیر بحث آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔

تبیین کے مفہوم میں نسخ کا پہلو شامل نہ ہونے کا ایک مضبوط قرینہ یہ ہے کہ لفظ ’تبیین‘ جس طرح براہ راست ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ کی طرف متعدی ہو کر آیا ہے، اس میں حکم کی توضیح وتشریح کا مفہوم مراد لینے کی گنجایش تو عربیت کی رو سے نکلتی ہے، لیکن حکم کے نسخ کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب کسی طرح بھی موزوں نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نسخ سابقہ حکم کی وضاحت نہیں کرتا، بلکہ سابقہ حکم کے متعلق شارع کے نئے ارادے کو بیان کرتا ہے۔ چنانچہ عربیت کے لحاظ سے کسی حکم کے نسخ کو بیان کرنے کے لیے ’نسخ اللّٰه ما أنزل‘ یا ’بدل اللّٰه ما أنزل‘ کی تعبیر تو درست ہوگی، لیکن ’بین اللّٰه ما أنزل‘ کی تعبیر قطعی طور پر غیر موزوں ہوگی۔

پھر یہ کہ یہاں تبیین کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں، بلکہ پیغمبر کی طرف کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تبیین میں پیغمبر کے اس علم وفہم اور بصیرت کا دخل ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے، مراد الٰہی کی وضاحت پیغمبر اس خداداد علم وفہم کی روشنی میں بھی کر سکتا ہے، اور ہر وضاحت کا پیغمبر کو وحی سے بتایا جانا ضروری نہیں۔ اس کے برعکس، حکم الٰہی میں تبدیلی سے متعلق یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اپنے علم وفہم یا بصیرت کی بنیا د پر ایسا نہیں کر سکتا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے حکم میں کوئی تبدیلی نہ کر دے۔

جو اہل علم نسخ القرآن بالسنۃ کے عدم جواز کے قائل ہیں، ان کے نقطۂ نظر سے یہاں تبیین کے مفہوم میں نسخ کو شامل ماننے میں ایک مزید مانع یہ ہے کہ حکم کی تبیین کی وہ صورتیں جو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اختیار کر سکتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ سب کی سب قرآن سے باہر پیغمبر پر نازل کردہ وحی میں بھی اختیار کی جائیں۔ ان حضرات کے نزدیک دیگر دلائل سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی حکم میں تبدیلی اپنی کتاب میں ہی بیان کرتے ہیں، اس لیے محض یہ نکتہ کہ تبیین کا اطلاق اللہ تعالیٰ نے بعض مثالوں میں نسخ پر بھی کیا ہے، ازخود یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ قرآن کے علاوہ نازل کی جانے والی وحی میں بھی یہ صورت پائی جا سکتی ہے۔

آیت تبیین سے استدلال کی کم زوری کے یہ وہ تمام پہلو ہیں جن کو قاضی ابو زید الدبوسی اور سرخسی جیسے حنفی اہل علم نے بھی محسوس کیا اور اس سے ہٹ کر ایک دوسرا انداز استدلال اختیار کرنے کی ضرورت سمجھی ہے۔ یہ حضرات لفظ ’تبیین‘ کے مصداق میں نسخ کو شامل کرنے کے بجاے ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ کے مصداق سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سنت میں قرآن کا ناسخ وارد ہو سکتا ہے۔ اس کی تفصیل ان کے نزدیک یوں ہے کہ آیت میں ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ کا مصداق ’الذکر ‘، یعنی قرآن نہیں، بلکہ قرآن کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جانے والی وحی ہے۔ گویا مراد یہ ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے تا کہ آپ اس کے علاوہ نازل کی جانے والی وحی کو لوگوں کے سامنے بیان کریں، جس میں کتاب اللہ کے احکام کی مختلف پہلوؤں سے توضیح کی گئی ہے اور اس کے بعض احکام کا منسوخ ہونا بیان کیا گیا ہے۔

سرخسی لکھتے ہیں:

ثم الحجة لإثبات جواز نسخ الكتاب بالسنة قوله تعالىٰ: ﴿وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ فإن المراد بيان حكم غير متلو في الكتاب مكان حكم آخر وهو متلو على وجه يتبين به مدة بقاء الحكم الأول وثبوت حكم الثاني، والنسخ ليس إلا هذا، والدليل على أن المراد هذا لا ما توهمه الخصم في بيان الحكم المنزل في الكتاب أنه قال تعالىٰ: ﴿مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ ولو كان المراد الكتاب لقال ما نزل إليك كما قال تعالىٰ: ﴿بَلِّغْ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ﴾ والمنزل إلى الناس الحكم الذي أمروا باعتقاده والعمل به، وذلك يكون تارة بوحي متلو وتارة بوحي غير متلو وهو ما يكون مسموعًا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مما يقال إنه سنته، فقد ثبت بالنص أنه كان لا يقول ذلك إلا بالوحي، قال تعالىٰ: ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰي. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰي.(اصول السرخسی ۲ / ۷۲)
’’پھر سنت سے کتاب اللہ کا نسخ جائز ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ’’ہم نے تم پر قرآن کو نازل کیا ہے تاکہ لوگوں کی طرف جو وحی نازل کی جائے، تم اس کو لوگوں کے سامنے بیان کر دو۔ “ یہاں ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ سے مراد یہ ہے کہ جو حکم قرآن میں اتارا گیا ہو، اس کی جگہ جو دوسرا حکم دیا جائے اور وہ قرآن کے متن کا حصہ نہ ہو، اس کو اس طرح لوگوں کے سامنے بیان کر دو کہ انھیں پہلے حکم کی مدت کا ختم ہو جانا اور اس کی جگہ دوسرے حکم کا آنا معلوم ہو جائے۔ نسخ کا مفہوم یہی ہوتا ہے۔ آیت کا مفہوم یہی ہے جو بیان کیا گیا، اور وہ مفہوم مراد نہیں جو مخالفین بیان کرتے ہیں، یعنی یہ کہ قرآن ہی میں نازل کردہ احکام لوگوں کے سامنے بیان کر دیے جائیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ’’جو ان کی طرف نازل کیا جائے“۔ اگر کتاب اللہ کے احکام مراد ہوتے تو یوں کہا جاتا کہ ’’جو تمھاری طرف نازل کیا جائے“، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ ’’جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے، اسے لوگوں تک پہنچا دو۔“ لوگوں کی طرف نازل کی جانے والی چیز وہ احکام ہیں جن پر اعتقاد رکھنے اور عمل کرنے پر لوگوں کو مامور کیا گیا ہے۔ یہ کبھی تلاوت کی جانے والی وحی ہوتی ہے اور کبھی ایسی وحی جس کی تلاوت نہ کی جاتی ہو، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنی گئی ہو، یعنی جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کہا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تصریح سے ثابت ہے کہ آپ وحی کی بنیاد پر ہی حکم دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور پیغمبر اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا۔ یہ تو بس وحی ہوتی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ “

یہی استدلال قاضی ابو زید الدبوسی اور ’’اصول البزدوی‘‘ کے شارح السغناقی نے پیش کیا ہے (تقویم الادلۃ ۲۴۲۔ الکافی شرح اصول البزدوی)۔

اس تاویل میں جو بدیہی تکلف ہے، وہ ایک تو اسی سے واضح ہے کہ خود سرخسی نے اس بحث کے علاوہ دوسرے مقامات پر آیت کا جو مفہوم بیان کیا ہے (جن کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے)، اس میں ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ کا مصداق قرآن ہی کو مانا گیا ہے۔ بالفرض سرخسی کی ذکر کردہ تاویل کو مان لیا جائے تو بھی اس سے سنت میں قرآن کا ناسخ وارد ہونے کا جواز کسی بھی طرح ثابت نہیں ہوتا۔ اگر ’مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ‘ سے قرآن کے علاوہ نازل ہونے والی وحی ہی مراد ہے تو یقیناً‌ اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی، لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اس وحی میں قرآن کا ناسخ بھی وارد ہو سکتا ہے؟ اگر کسی الگ دلیل سے ثابت ہو کہ قرآن کا ناسخ سنت میں بھی آ سکتا ہے تو پھر زیربحث آیت کا حوالہ دینے کی ضرورت ہی نہیں، لیکن اگر کسی الگ دلیل سے یہ ثابت نہ ہو تو اس آیت میں کوئی دور کا اشارہ بھی اس طرف موجود نہیں کہ قرآن کے علاوہ جو وحی آپ پر نازل کی جائے گی، اس میں قرآن کا ناسخ بھی ہو سکتا ہے۔ یوں اس تاویل کی حیثیت بھی محض ایک تکلف سے زیادہ نہیں بنتی۔

اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ حنفی اصولیین نے آیت نحل کے الفاظ میں تبیین کو وسیع تر مفہوم پر محمول کر کے اس سے نسخ القرآن بالسنۃ کا جواز اخذ کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ زبان وبیان اور عقل وقیاس کے لحاظ سے بے حد محل نظر ہے اور حنفی اہل علم کے استدلال کے داخلی تضادات خود ان کے اپنے کلام سے بالکل نمایاں ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔

امام شافعی کے موقف پر علماے اصول کے بیان کردہ تینوں اصولی معارضات کی کم زوری واضح ہو جانے کے بعد بنیادی طور پر وہی معارضہ باقی رہ جاتا ہے جس کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے، یعنی یہ کہ سنت میں وارد بہت سے احکام جن میں قرآن کے حکم کی تخصیص یا زیادت پائی جاتی ہے، اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ انھیں نسخ قرار دینا ہی زیادہ معقول اور قرین قیاس ہے۔ یہ نقطۂ نظر اولاً‌ حنفی اصولیین نے اختیار کیا تھا جسے بعض اطلاقی مثالوں میں مضبوط محسوس کرتے ہوئے شافعی اصولیین نے بھی قبول کر لیا اور یوں اصول فقہ کی روایت میں نسخ القرآن بالسنۃ کے جواز کا موقف عمومی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اسی تناظر میں فراہی مکتب فکر میں ان خاص اطلاقی مثالوں کی تفہیم وتوجیہ پر ہی اصل توجہ مرکوز کی گئی ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ زبان وبیان اور فہم کلام کے کن اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ تمام مثالیں توضیح مدعا ہی کے دائرے میں آتی ہیں، ان کو نسخ اور تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

’’میزان“ میں اس سوال پر کلام کرتے ہوئے جناب جاوید احمد غامدی نے احادیث میں اس نوعیت کی مثالوں سے متعلق اپنا اصولی نقطۂ نظر یوں واضح کیا ہے:

’’حدیث سے قرآن کے نسخ اور اُس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ محض سوء فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔اِس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اِس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے،کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔قرآن کے بعض اسالیب اور بعض آیات کا موقع و محل جب لوگ نہیں سمجھ پائے تو اُن سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صحیح نوعیت بھی اُن پر واضح نہیں ہو سکی۔ “ (میزان۳۶)

اس ضمن میں فراہی مکتب فکر کے اہل علم کی بیان کردہ توجیہات کی تفصیل کے لیے ہماری کتاب ’’قرآن و سنت کاباہمی تعلق‘‘سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B