وہ روایت(بخاری، رقم۴۶۷۹) جو ہم نے اوپر لکھی ہے،اس کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی حفاظت یا جمع کا کوئی کام نہیں کیا، حضرت زیدنے قرآن جگہ جگہ سے اکٹھا کرکے ایک جان گسل محنت کے بعد یہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔یہ بات دیگر روایات سے غلط ثابت ہوتی ہے۔حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کی تالیف، یعنی اسےجمع کرتے تھے:
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ القُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ. (ترمذی، رقم ۳۹۵۴)
’’زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کاغذ یا چمڑے کے پارچوں سے قرآن کی تالیف (غالباً جلد بندی) کیاکرتے تھے۔‘‘
تاليف کے معنی بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے معنی ایک چیز کو باہم جوڑ دیے جانے یا اکٹھا کیے جانےکے ہیں۔یہ لفظ جمع کے مقابلے میں ترتیب و تدوین کی طرف زیادہ غلبہ رکھتا ہے۔ ترمذی کی یہ روایت جو تصور بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں، صحابہ رضوان اللہ علیہم قرآن کو اوراق یا چمڑے کے پارچوں پر لکھ کر انھیں باہم جوڑ دیا کرتے تھے۔مثلاً سورۂ فاتحہ کےبعد سورۂ بقرہ کے پارچے ترتیب سے جوڑ دیے گئے تھے۔ گویا عہد نبوی میں پورا قرآن تالیف ہو چکا تھا،جسے ابو بکر و عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے جمع و تدوین کی ضرورت نہیں تھی۔عہد نبوی کے بعدخلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، جمع قرآن کا یہ فسانہ محض داستان سازی ہے۔ عہد نبوی میں جمع قرآن کی یہ بات مزید ان باتوں سے محکم ہوتی ہے جو کاتبین وحی سے متعلق کتب میں وارد ہیں کہ آپ نے کاتبین وحی سے قرآن لکھایا تھا۔
کیا یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ زید بن ثابت ہی قرآن کی تالیف پارچوں سے کررہے ہیں، اور وہی بخاری(رقم۴۶۷۹) کی مندرجہ بالا روایت میں اس سارے کام کا انکار کررہے ہیں، اور مزید انوکھی بات یہ فرما رہے ہیں کہ قرآن کو جمع کرنے کے لیے انھیں، نہ جانے کس کس چیز سے قرآن جمع کرنا پڑا!جب کہ وہ خود قرآن کی تالیف کرچکے تھے۔اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عہد نبوی میں یہ کام ہوا، اس دوسری جگہ فرما رہے ہیں کہ وہ کام کیسے کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔
یہ صحیح روایات سے معلوم ہے کہ جنگ یمامہ سے بہت پہلے، عہد نبوی ہی میں چار انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن جمع کرلیا ہوا تھا:
حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: مَنْ جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنَ الْأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُكْنَى أَبَا زَيْدٍ.(مسلم، رقم ۲۴۶۵)
’’قتادہ نے ہمیں بتایا کہ میں نے انس بن مالک سے کہا کہ عہد نبوی میں کتنے لوگوں نے قرآن جمع کرلیا تھا؟ تو انھوں نے کہا کہ چار لوگوں نے۔ سب کے سب انصاری تھے: اُبی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ایک اور انصاری جن کی کنیت ابوزید ہے۔‘‘
حیرت کی بات ہے کہ مسلم کی اس روایت (رقم ۲۴۶۵)کے مطابق ایک طرف زید بن ثابت عہد نبوی ہی میں اپنا قرآن جمع کرچکے ہیں، اور دوسری طرف بخاری (رقم ۴۶۷۹) کی شروع میں نقل کی گئی روایت میں وہ حضرات ابو بکر وعمر کو کہہ رہے ہیں کہ تم دونوں وہ کام کیسے کرسکتے ہو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ دونوں روایتوں میں موجود زید بن ثابت اگر ایک ہی ہیں، اورانھیں ہم ابو بکر و عمر کا معتمد جامع قرآن مانتے ہیں تو یہ تضاد بیانی کیسی ہے؟ معاملہ سواے اس کے کچھ نہیں کہ بخاری(رقم ۴۶۷۹) کی روایت موضوع ہے، جو قرآن کی حقانیت کو مجروح کرنے کے لیے تراشی گئی ہے،یعنی اگر نبی کریم نے قرآن تالیف کرایا تھا، اور اسے ہڈیوں وغیرہ کے بجاے چمڑے کے پارچوں میں جمع کرلیا گیا تھا،اور چار انصاری صحابہ میں سے خود زید بن ثابت نے قرآن جمع کرلیا ہوا تھا تو بخاری کی یہ روایت داستان طرازی کےسوا اورکیا ہے؟
جمع قرآن کی ایک اور روایت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی کتب میں آئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی اپنا ایک نسخہ تیار کررکھا تھا۔ وہ روایت کچھ یوں ہے:
عن ابن شهاب عن سالم وخارجة: أن أبا بكر الصديق كان قد جمع القرآن في قراطيس، وكان قد سأل زيد بن ثابت النظر في ذلك فأبى، حتى استعان عليه بعمر، ففعل.(کتاب المصاحف ۹)
’’ابن شہاب، سالم اور خارجہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابو بکر صدیق نے قرآن قراطیس (صفحات) میں جمع کرلیا تھا، اور زید بن ثابت سے تقاضا کیا کہ وہ اسے ایک نظر چیک کرلیں، لیکن وہ یہ ذمہ داری لینے سے اس وقت تک انکار کرتے رہے جب تک کہ حضرت عمر نے ساتھ نہ دیا۔حضرت عمر کے ساتھ دینے پر انھوں نے یہ کام کردیا۔‘‘
یہ روایت اور پہلے مذکور بخاری کی روایت (رقم ۴۶۷۹) باہم ٹکراتی ہیں،اس لیے کہ اگر حضرت عمر کا تجویزکردہ جمع قرآن کا کام پہلے ہوا ہے تو اس کام کی ضرورت نہیں تھی، اور اگر ابو بکر صدیق نے یہ کام پہلے کرلیا تھا تو حضر ت عمر کو تسلی دیتے کہ میں یہ کام کرچکا ہوں۔اسی طرح جو کام آپ کر چکے تھے تواس کے بارے میں یہ جملہ کیسے بول سکتے تھے کہ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، وہ میں کیسے کرسکتا ہوں؟ یا تو یہ دونوں روایتیں مختلف مواقع پر تراشی گئی ہیں یا یہی اصل واقعہ ہے،جسے جنگ یمامہ کے ساتھ جوڑ کر، اپنی طرف سے اضافہ اور تبدیلیاں کرکے ایک نئی داستان تراش لی گئی تھی۔ قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نعوذ باللہ تہمتیں تراشنے والوں نے ایک ہوشیاری دکھائی کہ بعض سچے واقعات میں اس طرح کے ادراجات [28]کیے کہ اصل واقعہ پس پشت ہو کررہ گیا اور اس کی بگڑی ہوئی صورت پراپیگنڈا کی وجہ سے مقبول ہو گئی۔یہ کام وضع حدیث کے مقابلے میں زیادہ آسان اور موثر تھا کہ ایک سچی بنیاد اس قصے کو فراہم ہو جاتی تھی۔اصل واقعہ جسے بگاڑ کر مذکورہ بالا قصہ وضع کیا گیا ہوتا، اسے کم بیان کرتے اور جو نیا تراشا ہوا واقعہ ہوتا، اس کی دھوم مچا دیتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ رفتہ رفتہ وہی واقعہ صحیح سمجھا جانے لگتا تھا۔
اس روایت سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ حضرت ابو بکر نے اپنے لیے ایک نسخہ قراطیس میں لکھا تھا، جس کی تصحیح (proof reading) کے لیے، انھوں نے زید اور عمر رضی اللہ عنہم سے مدد لی، اس سادہ واقعے کے تینوں کردار لیے گئے، اور بنیادی واقعہ بدلا گیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کیا تھا، لیکن جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت کے بعد نہیں، بلکہ اس سے پہلے۔ حضرت عمر کی تجویز پر اور زید بن ثابت کی جد وجہد سے قرآن جمع ہونا،یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جمع قرآن کی روایت میں دوسرا ادراج تھا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قراطیس میں جمع قرآن کی اس روایت میں بھی ایک ادراج نقل ہوا ہے: ’فكانت تلك الكتب عند أبي بكر حتى توفي، ثم عند عمر حتى توفي، ثم عند حفصة زوج النبي صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فأرسل إليها عثمان فأبت أن تدفعها إليه، حتى عاهدها ليردنها إليها، فبعثت بها إليه، فنسخ منها عثمان هذه المصاحف، ثم ردها إليها، فلم تزل عندها حتى أرسل مروان فأخذها فحرقها‘ (کتاب المصاحف۹)۔بظاہر یہ بات غلط ہے، اس لیے کہ جب مروان خلیفہ بنا (۶۸۴ء تا ۶۸۵ء)تو اس وقت سیدہ حفصہ دنیا میں نہیں تھیں، آپ ۶۶۵ء میں وفات پا چکی تھیں، اس لیے یہ معلوم نہیں ہے کہ اس وقت یہ نسخے کس کے پاس تھے اور مروان نے کہاں سے لیے ؟ اور مروان نے کون سے نسخے جلائے تھے؟ غالباً، یہ اصل واقعہ میں پہلا پہلا ادراج تھا۔جس میں بس مصحف کی خود ساختہ تاریخ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ بعد میں اصل واقعہ بھی بخاری کی اس روایت (رقم ۴۶۷۹)کی وضع کردہ صورت اختیار کر گیا۔
ایک تنبیہ:یہ یاد رکھیے کہ وہ روایات شہرت پا لیتی ہیں جو یا تو روزانہ کے قول و عمل سے متعلق ہوں یا وہ روایات جنھیں کچھ لوگ اپنے مقاصد کے لیے propagate کریں۔ بخاری کی زیر بحث روایت(رقم ۴۶۷۹)، قرآن مجید، نبی کریم، ازواج مطہرات اور خلفاے راشدین کے خلاف شکست خوردہ قوموں اور اسلام دشمنوں کی scandalization کا حصہ بنی ہے، اس لیے اسے زیادہ مشہور کیا گیا تاکہ لوگوں کاقرآن پر اعتماد کم ہو۔لہٰذا ہر دور میں ثبوت قرآن کی قدر و منزلت کو گرانے کے لیے ان روایتوں کو استعمال کیا گیا ہے۔
ایک بات اور یاد رکھیے کہ بخاری کی مذکورہ بالا روایت(رقم ۴۶۷۹) حدیث نہیں ہے، محض ایک حکایت ہے، جسے حدیث کی کتب میں درج کرکے حدیث کا درجہ دینے کی سعی کی گئی، جو صحیح بخاری کی مقبولیت کے باعث معتبر حدیث کا درجہ پا گئی۔اب بخاری کے ساتھ امت کی عقیدت اس پر ناقدانہ غور سے روکتی ہے۔اس کانقد اب قول رسول کے انکار کے مترادف سمجھا جائے گا، حالاں کہ اس میں کوئی بات نہیں ہے، جس کی وجہ سے اسے حدیث قرار دیا جائے۔[29]
یہ بات بھی روایات سے ثابت ہوتی ہے کہ جبریل علیہ السلام ہر سال نازل شدہ قرآن کو اعتکاف کے دنوں میں دہراتے تھے۔یہ دہرانا، بہرحال کسی نہ کسی ترتیب میں واقع ہوتا ہوگا۔نزولی بھی ہو تب بھی، کوئی ایک ترتیب سے سنایا جانا ایک فطری امر ہےکہ جس کے بعد سننے والے اور سنانے والے، دونوں کو معلوم ہو کہ پورا قرآن دہرالیا گیا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات والے سال میں یہ کام دو دفعہ ہوا، گویا یہ آخری دہرائی جسے عرضۂ اخیرہ [30]
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کے دوران میں جبریل علیہ السلام نے قرآن مجید دو دفعہ آپ کو سنایا اور آپ نے جبریل علیہ السلام کو سنایا۔ظاہر ہے، دو دفعہ قرآن کا سنایا جانا کسی نہ کسی ترتیب میں تو ہوگا۔ یوں قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حافظہ میں جمع کردیا گیا تھا۔ لہذا، یہ بات بھی بعید از قیاس ہے کہ اگر قرآن کو ترتیب نہیں دینا تھا، جمع بھی نہیں کرنا تھا، اور نبی کریم نے اسے بے ترتیب ہی چھوڑ کر جانا تھا، تو اس سالانہ اہتمام کی ضرورت ہی کیا تھی؟ لہٰذا بخاری کی زیر بحث روایت (رقم ۴۶۷۹) اس اہتمام سے بھی ٹکراتی ہے۔
عہد نبوی ہی میں امت میں بے شمار حفاظ تھے۔خود خلفاے راشدین حافظ تھے۔کسی مضمون یا کتاب کا حافظ ہونےکے لیے ضروری ہے کہ اس کی کوئی ترتیب ہو، وگرنہ حفظ کرنا ہی ناممکن ہے۔اگر مجھے یہ جاننا ہو کہ آپ کو فلاں مضمون پورا یاد ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ میرا اور آپ کا مضمون یکساں متن اور اس کی ایک ہی ترتیب ہو۔حفظ کا عمل یقیناً، ایک دوسرے کو سنا کر پرکھا جاتا ہے کہ مجھے قرآن صحیح طرح یاد ہو گیا کہ نہیں، اس لیے کسی دوسرے کو پورے قرآن کا حافظ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے پاس ایک ہی متن اور وہ متن ایک ہی ترتیب سے ہو۔
خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدمیں جب قرآن تراویح میں سنایا جاتا ہو گا تو اختلاف ترتیب پر بحث تو ہو سکتی تھی، لیکن ایسا کوئی جھگڑا ریکارڈ پر نہیں ہے، جس سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام صحابہ کے پاس ایک ہی متن اور ایک ہی ترتیب میں تھا۔
روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عہد نبوی میں قرآن کا ایک نہیں، بلکہ متعدد مصحف یا نسخے وجود میں آچکے تھے۔ مثلاً ایک روایت میں یہ بات یوں بیان ہوئی ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُسَافِرُوا بِالْقُرْآنِ، فَإِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُو».(مسلم، رقم ۱۸۶۹)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر میں قرآن ساتھ نہ لیا کرو، کیونکہ میں اندیشہ رکھتا ہوں کہ دشمن اسے پالے (اور اپنے مذموم مقاصد پورے کرلے)۔‘‘[31]
اس روایت سے واضح ہے کہ جس دور میں یہ بات کہی گئی ہے، قرآن مکتوب حالت میں موجود تھا، وگرنہ قرآن کو ساتھ لے جانے کے کوئی معنی سمجھ میں نہیں آتے:
إنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ، وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ نَاسٍ مِنْ ثَقِيفٍ، فَدَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا لَهُ: احْفَظْ عَلَيْنَا مَتَاعَنَا - أَوْ رِكَابَنَا - فَقَالَ: عَلَى أَنَّكُمْ إِذَا خَرَجْتُمِ انْتَظَرْتُمُونِي حَتَّى أَخْرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ مُصْحَفًا كَانَ عِنْدَهُ، فَأَعْطَانِيهِ وَاسْتَعْمَلَنِي عَلَيْهِمْ، وَجَعَلَنِي إِمَامَهُمْ وَأَنَا أَصْغَرُهُمْ.(المعجم الکبیر ، رقم ۸۳۹۳)
’’عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ، ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ لوگ نبی کریم سے ملنے آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور عثمان سے کہا کہ ہمارے سامان یا سواریوں کی حفاظت کرو۔ تو عثمان نے ان سے کہا کہ اس شرط پر کہ (پھر میں بھی نبی کریم سے ملوں گا) اور تم میرا اس وقت تک انتظار کرو گے جب تک کہ میں نبی کریم (سے مل کر) باہر نہ آجاؤں! لہٰذا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے اندر گیا تو میں نے آپ سے آپ کے پاس موجود ایک مصحف مانگا تو آپ نے وہ مصحف مجھے عطا کردیا، پھر آپ نے مجھے ان لوگوں پر عامل اور امام مقرر کیا، حالاں کہ میں ان سب سے چھوٹا تھا۔‘‘
واضح رہے کہ عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ طائف کے عامل مقرر ہوئے تھے (اسد الغابہ)۔طائف بنوثقیف کے ایمان لانے پر ۸ ھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمل داری میں شامل ہوا تھا، عثمان بن ابو العاص کو اسی وقت عامل بنایا گیا تھا۔ یہ روایت بتارہی ہے کہ ۸ ھ اور اس کےبعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکھا ہوا نسخہ موجود تھا، بلکہ روایت پر اگر دھیان دیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس متعدد مصاحف تھے، جن میں سے ایک انھیں دیا گیا، اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ چالیس کاتبین وحی سے آٹھ برس میں لکھوایا ہوا واحد نسخہ ایک آدمی کے حوالے کردیا جاتا۔اس طرح کے نسخے تیار کرنے کی تصدیق حضرت زید کی اس روایت سے ہوتی ہے:
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ القُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ. (ترمذی، رقم ۳۹۵۴)
’’زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاغذ یاچمڑے کے پارچوں سے قرآن کی تالیف (غالباً جلد بندی) کیاکرتے تھے۔‘‘
میں نے اوپر، قرآن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تاکہ روایت پسند دوست ایک روایت کا دوسری روایات کی روشنی میں جائزہ لے سکیں، اور اس لیے بھی کہ جب ہم لوگ قرآن سے استدلال کرتے ہیں تو ایک نہایت بودا سا تبصرہ کردیا جاتا ہے کہ یہ تو عقل سے تفسیر کرتے ہیں۔اب آئیے، قرآن سے باتوں کو سمجھتے ہیں:
مدینہ تو بہت بعد کی بات ہے، مکہ ہی میں قرآن مجید میں آیات یوں ترتیب پا چکی تھیں کہ سورتوں نے اپنی شکل اختیار کرلی ہوئی تھی۔مثلاً سورۂ یونس میں قرآن جیسی ایک سورہ بنانے کا چیلنج دیا گیا ہے:
اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ. (یونس ۱۰: ۳۸)
’’کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم نے قرآن خود گھڑ لیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ، اور اللہ کے سوا جس جس کو مدد کے لیے بلانا چاہتے ہو تو بلالو۔‘‘
اسی طرح سورۂ ہود میں ایسا ہی چیلنج دس سورتوں کے لکھ لانے کا دیا گیا ہے: ’فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ‘ (ہود ۱۱: ۱۳)۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سورتیں مکہ ہی میں وجود پذیر ہو چکی تھیں۔سورتیں آیات کی ایک ترتیب پانے اور جمع ہونے کا واضح ثبوت ہیں۔اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ قرآن ساتھ ساتھ ہی جمع ہونا شروع ہو گیا تھا، بلکہ یہ بات بھی بعض آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ پوری پوری سورتیں بھی نازل ہوتی تھیں۔ مثلاً :
وَاِذَا مَا٘ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖ٘ اِيْمَانًاﵐ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّهُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ.(التوبہ ۹: ۱۲۴)
’’جب بھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اس سورت نے کس کس کا ایما ن بڑھایا ہے؟ ہاں جو ایمان والے ہیں، تو واقعی اس نے ان کا ایمان بڑھایا ہے، اور وہی اس سے خوش بھی ہوئے ہیں۔‘‘
اس لیے بخاری کی روایت کا یہ تصور بالکل غلط ہے کہ قرآن منتشر الآیات تھا، بلکہ سچ یہ ہے کہ مکہ ہی سے اس کی جمع و تدوین خود اللہ تعالیٰ کروا رہے تھے، اورقرآن سورتوں کی صورت میں ترتیب پا رہا تھا۔ دراصل قرآن پہلے ہی لوح محفوظ میں ایک ترتیب سے تھا:
وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ. اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ. وَاِنَّهٗ فِيْ٘ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ.(الزخرف ۴۳: ۲- ۴)
’’قسم اس روشن کتاب کی(کہ یہ واضح ترین کتاب ہے)۔ ہم نے اِس کو عربی قرآن بنا کر اتارا ہے تا کہ تم اسےسمجھو سکو۔ اور بے شک، اصل کتاب میں یہ ہمارے پاس ہے، نہایت بلند اور حکمت سے لبریز۔‘‘
’اُمِّ الْكِتٰبِ‘ کے بجاے دو مقام پر ’لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ‘ اور ’كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ‘ کے الفاظ میں بھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے:
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ. فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ.(البروج ۸۵: ۲۱- ۲۲)
’’ بلکہ یہ بلند پایہ قرآن ہے، جو لوح محفوظ میں ہے۔‘‘
اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ. فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ.(الواقعہ ۵۶: ۷۷- ۷۸)
’’بلاشبہ، یہ ایک بلند مرتبہ قرآن ہے، ایک محفوظ کتاب میں۔‘‘
اسی یکجا اور پُر حکمت اور بلند پایہ کتاب کو اب ضرورت کے لحاظ سے بہ صورت اقتباسات (excerpts) نازل کیا جار ہاتھا، اس لیے نزول کےموقع پر جو اقتباس نازل ہوتا، اسے لوحی ترتیب(لوح محفوظ کی ترتیب) کے مطابق اس کی متعلقہ سورت میں درج کردیا جاتا تھا۔مثلاً قرآن مجید کی درج ذیل آیت دیکھیے کہ قرآن کو کس طرح اجزا میں نازل کیا گیا تھا۔ اس میں ’فَرَقْنٰهُ‘ کا لفظ بہت اہم ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک یکجا چیز کو حصوں میں بانٹا گیا ہے، یہ وہی لفظ ہے جو حضرت موسیٰ کے ہاتھوں دریا کو دو حصوں میں پھاڑنےکے لیے استعمال ہوا ہے: ’وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ‘ (البقرہ۲: ۵۰):
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۱۰۶)
’’اور اِس قرآن کو ہم نےجزو جزو کرکے اتارا ہےتا کہ تم ٹھیر ٹھیر کر اِسے لوگوں کو سناؤ اور ہم نے اِس کو خوب اہتمام اور توجہ کے ساتھ اتارا ہے۔‘‘
غرض یہ کہ یہ قرآن ایک وحدت تھی، جسے حصوں میں بانٹ کر بالاقساط اتارا گیا تھا۔ یہ آیت منکرین کے اِس طرح کے اعتراض کےجواب میں اتری تھی کہ قرآن اگر اللہ کا کلام ہوتا تو سارا قرآن یک دم تیار ہو جاتا، اور ایک ساتھ نازل ہوتا، لیکن لگتا ہے کہ یہ کلام اللہ نہیں ہے،بلکہ محمد بن عبداللہ حالات کے مطابق سوچ سوچ کر لکھتے ہیں اور جتنا تیار کر لیتے ہیں، اتنا ہمیں پیش کردیتے ہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوح محفوظ میں مکمل حالت میں موجود ہے، لیکن یہ چھوٹی ٹکڑیوں میں اس لیے نازل ہو رہاہے کہ لوگوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے سنایا جائے تاکہ وہ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ یہ پوری بات اس چیزکی طرف کنایہ تھی کہ قرآن تیار اور مکمل ہے۔ ماضی میں جو ہوا اور جو کچھ مستقبل میں ہونا ہے، سب کے حوالے سے جو لکھا جاتا تھا، وہ لکھا جاچکا ہے،[32] لیکن لوگوں کے قلب و اذہان میں اتارنے کے لیے قسطوں ہی میں اترے گا۔ مختصراً، یوں کہیے کہ قرآن کو یوں اتارنا، دراصل ایک مرتب کتاب میں سے مختلف مواقع پر اقتباس کرنے کے مترادف تھا۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی شدید حاجت ہوتی تھی کہ نئے حالات میں زیادہ سے زیادہ خدا کی رہنمائی حاصل رہے(طٰہٰ ۲۰: ۱۱۴ - ۱۱۵)، اسی طرح لوگوں کے مطالبات بھی تھے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا نازل کیوں ہوتا ہے(بنی اسرائیل ۱۷: ۱۰۶)،اور نبی کریم کو دوران نزول وحی یہ تمنا بھی ہوتی تھی کہ قرآن جلد از جلدنازل ہو جائے(القیامہ۷۵: ۱۶)۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب تقاضوں کے مقابل میں یہ جواب دیا کہ قرآن نے اپنی رفتار اور لکھے ہوئے وقت پر ہی نازل ہونا ہے(طٰہٰ ۲۰: ۱۱۴ - ۱۱۵۔ القیامہ ۷۵: ۱۸)، اور سکھا دیے جانے کے بعدآپ نہیں بھولیں گے(الاعلیٰ ۸۷: ۶)اور قرآن کا کوئی حصہ فراموش نہیں ہوگا، بلکہ اسے جمع بھی ہم کریں گے (القیامہ۷۵: ۱۷)اور مزید یہ کہ اس کی قراءت بھی ہم کرائیں گے(القیامہ۷۵: ۱۷) اور اس کا بیان بھی ہمارا کام ہے(القیامہ ۷۵: ۱۹)۔اس لیے آپ طلب قرآن میں جلدی نہ کریں(طٰہٰ ۲۰: ۱۱۴ ۔ القیامہ۷۵: ۱۶)۔
ان تمام جوابات میں دو جواب قرآن کے مستقبل کےبارے میں ہیں، جن میں قرآن کے بارے میں سارے الٰہی ارادوں کو بیان کیا گیا ہے۔ایک سورۂ اعلیٰ ہے اور دوسری سورۂ قیامہ ہے۔
سورۂ اعلیٰ میں لکھا ہے:
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰ٘ي. اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفٰي.(۸۷: ۶- ۷)
’’عنقریب اِس کو ہم پورا تمھیں پڑھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے، سواے جو اللہ چاہے۔ وہ اُس کو بھی جانتا ہے جو (اِس وقت تمھارے) سامنے ہے اور اُس کو بھی جو (تم سے) چھپا ہوا ہے۔‘‘
اس میں ’سَنُقْرِئُكَ‘ کا ’س‘، اہمیت رکھتا ہے، یہ مستقبل میں ہونے والے کام کو بیان کرتا ہے، اس لیے اس کے معنی یہ نہیں لیے جاسکتے کہ جو قرآن اب تک پڑھایا جاتا رہا، اس کی بات ہو رہی ہے،بلکہ ’س‘تقاضا کرتا ہے کہ یا توجستہ جستہ نازل ہونے کا عمل پورا ہونے پر نئے سرے سے پڑھا یا جائے گا یا پہلے جو کچھ پڑھایا جا رہا تھا وہ تو یاد نہیں کرایا جاتا تھا، مگر اب سے جو پڑھایا جائے گا، وہ نہیں بھولے گا۔دوسری صورت خلاف واقعہ ہے۔ اس لیے کہ قرآن سے معلوم ہے کہ سورۂ مزمل ہی کے زمانے سے آپ کو تہجد میں قرآن پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا (۷۳: ۴۔ بنی اسرائیل ۱۷: ۷۸ وغیرہ)۔ تواترات سے معلوم ہے کہ آپ نہ صرف تہجد، بلکہ تمام نمازوں میں قرآن پڑھتے تھے۔ قرآن میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اول روز ہی سے قرآن مجید آپ کے قلب پر نازل کیا گیا تھا (البقرہ ۲ : ۹۷۔الشعراء ۲۶: ۱۹۳- ۱۹۴)، ایسے نزول کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ نقش بر دل ہوجاتا تھا۔رہا یہاں سورۂ اعلیٰ میں بھول جانے کا بیان تو وہ خدا کی طرف سے بھلا دینے کے معنی میں ہے کہ اللہ ہی دل پر قائم نقش کو محو کردیں تو کردیں۔ اس پس منظر کے ساتھ سورۂ اعلیٰ کی آیت کو دیکھیں تو صاف معلوم ہو گا کہ ’سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰ٘ي‘میں اس قراءت کی طرف اشارہ ہے، جسے روایات میں عرضۂ اخیرہ کا نام دیا گیا ہے۔اورآیت کا سیاق و سباق بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے، اس لیے کہ وہاں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جلدی حصول قرآن کا ذکر ہے اور نہ آپ کے بھول جانے کے کسی تردد کا،بلکہ ایک پودے کے پھل پھول جانے کا ذکر ہے، جو قرآن کی صورت میں اللہ نے لگایا تھا(الاعلیٰ ۸۷: ۴- ۵)۔اس تفصیل سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ قرآن ساتھ ساتھ جمع ہوتا رہا، اور اسے ایک فائنل ورژن کی شکل میں آخری برسوں میں بھی پڑھایا گیا۔ مذکورہ بالا عامل طائف کی روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کام ۸ ھ میں پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔اسی جمع قرآن کو سورۂ قیامہ میں بھی خدا کے وعدہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ. فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ. ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ.(۷۵: ۱۷ - ۱۹)
’’قرآن کا جمع کرنا اور قراءت کرنا، سب ہماری ذمہ داری ہے۔ تو جب ہم اِس کی قراءت کردیں تو قرآن کی اُسی قراءت کی پیروی کرو۔ پھر اس کا بیان بھی ہمارے ہی ذمے ہے۔‘‘
اوپر مذکور بخاری کی روایت(رقم ۴۶۷۹) کی روشنی میں تفسیر ماثور کرنے والوں نے، اس آیت کے معنی کو بدل دیا، کیونکہ روایات کے مطابق جمع قرآن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، تو پھر اللہ کا تو یہ کام نہیں ہوگا نا!اس لیے اس آیت میں جو ’جَمْعَهٗ‘ کے الفاظ تھے، ان میں ’’حفظ‘‘ یا ’’دل میں جمع کرنے‘‘ کے معنی گھسیڑ دیے اور یہ تفسیر بعض صحابہ و تابعین سے منسوب کردی اور پھر لوگوں کو منع کرنا شروع کردیا کہ قرآن کے الفاظ کا اعتبار نہیں کرو، بلکہ روایات کی روشنی میں تفسیر قرآن کرو۔ ’جَمْعَهٗ‘ کے معنی کہیں بھی نہ حفظ کرنے کے ہیں، اور نہ دل میں جمع کرنے کے، نہ لغت میں نہ عربوں کے استعمال میں۔ لیکن تفسیر ماثور سے انحراف ناجائز تھا، اس لیے بڑے بڑے مفسر سر تسلیم خم کرتے گئے۔بخاری کی زیر نقد روایت(رقم ۴۶۷۹) قرآن کی اس آیت کے سرتاسر خلاف ہے۔ امت کامجمع علیہ قول یہی ہے کہ قرآن کے خلاف روایتوں کو قبول نہیں کیا جائے گا، اس لیے یہ خدمت حسنہ سرانجام دی گئی کہ آیت کے معنی ہی بدل دیے تا کہ آیت روایت کے خلاف نہ رہے اور روایت کو مان لیا جائے۔
قرآن کے الفاظ کی حاکمیت کو مان کر چلیں تو سورۂ قیامہ کی یہ آیات یہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نےقرآن کو جمع کرنے اور پھر قراءت کرکے پڑھا دینے کی ذمہ داری لی۔ اب جمع کرنا، اور اسی کی قراءت، دونوں خدا کی طرف سے ہوئے تھے، اس لیے لازم ہے کہ یہ دونوں کام عہد نبوی میں سرانجام پائیں۔[33]
قرآن کے مطابق قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے جمع کرایا تھا، اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لازماً اپنے عہد میں تحریر کرادیا تھا، جس کو حضرت زید نے یوں بیان کیا ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں قرآن کو پارچوں سے تالیف کیا کرتے تھے(ترمذی، رقم ۳۹۵۴)۔اس لیے قرآن اور بہت سی روایات سے یہ بات عیاں ہے کہ جمع قرآن کا فريضہ نبی کریم کے عہد مبارک میں انجام پا گیا تھا، مگرروم و فارس کے بعض دشمنان اسلام نے اس تصور کو توڑنے کی کوشش کی جو صدیوں کے بعد اس دو رخے اورپُرزور پراپیگنڈا سے بالآخر کامیاب ہو گئی: ایک من گھڑت روایات کے شیوع سے اور دوسرے قرآن کو تفسیر بالماثور کے حجاب اوڑھا کر، جس سے پھر قرآن کی دلالت کو مظنون کرکے قرآن کی حاکمیت کو ختم کرنےسے۔
سورۂ قیامہ کی درج بالا آیات کے علاوہ آیات میں بھی اللہ نے حفاظت قرآن کا ذمہ خود اٹھایا ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖﵧ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ.(حٰم السجدہ ۴۱: ۴۲)
’’اِس میں نہ باطل اِس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے اتاری گئی ہے جو لائق حمد دانا ہے۔‘‘
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قرآن مجید میں کوئی اضافہ یا تغیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس آیت کے مقدرات (implied meanings)کئی ہیں، مثلاً یہ کہ قرآن اس قدر محفوظ ہے کہ اس میں کوئی اپنی بات یا جملہ درج نہیں کرسکتا۔یہ متن قرآن کی حفاظت کا بیان ہے۔باطل کے لفظ سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ کلام کا دروبست اس قدر قوی ہے کہ اس میں اگر کلام کے دروبست کا خیال رکھا جائے تو باطل مفہوم مراد نہیں لیا جاسکتا۔یہ قرآنی مطالب کی حفاظت کا بیان ہے۔لہٰذا جس نے قرآن میں باطل داخل کرنا ہوتو وہ دو کام ہی کرسکے گا: ایک یہ کہ متن قرآن ہی کو مشکوک اور متعدد القراءۃ بنادیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس کی آیات و سورکو صحابہ کی جمع و تدوین قرار دے کر کلام کے اپنے دروبست سے اسے محروم کردیا جائے۔ لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر وہ تفسیر غلط قرار دی گئی جو قرآن کے اپنے کلام کی روشنی میں کی گئی۔ ہر اس تفسیر کو ممدوح قرار دیا گیا جو ان تراشیدہ روایتوں کی روشنی میں ہوئی۔کلام کو اس کے اپنے سیاق و سباق سے کاٹ دو، اور خارج سے ایک سیاق و سباق اسے عطا کردو، قرآن کے مطالب کو فراموش کردینے کے لیے بس یہی ایک سازش کامیاب ہوسکتی تھی۔چنانچہ یہ تین رخی سازش ہے جو تیار کی گئی:
۱۔ جمع و ترتیب:قرآن عہد ابو بکر رضی اللہ عنہ میں بالکل بکھرا ہوا تھا، اسے اکٹھا کرنے کا عمل اتنا مخدوش ہے کہ نہ جانے کتنی آیات ضائع ہوگئیں، دو صحابہ کی گواہی سے آیات لکھی گئیں، جو ایک ظنی ذریعہ ٔ ثبوت ہے۔ لہٰذا خود متن قرآن محفوظ نہیں ہے۔پھر اس کے متن کو پڑھنے میں بھی مسائل ہیں، مثلاً آیت وضو میں ’أرجلَكم‘ ہے یا ’أرجلِكم‘ ؟۔
۲۔قرآن کی جمع و ترتیب کا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، صحابہ نے کیا ہے۔ لہٰذا قرآن کی ترتیب وسیاق وسباق الہامی نہیں اجتہادی ہے۔
۳۔ اس صورت میں قرآن فہمی کے لیے ماثورات کی اہمیت بہت زیادہ ہے،اس لیے شان نزول اور آثار کی روشنی میں قرآن کو سمجھا جائے۔اس سے من مانے معنی قرآن میں داخل ہو سکیں گے۔ اس کی ایک عمدہ مثال یہی ’لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ‘کی تفسیری روایات ہیں، جن کا ہم اسی مضمون میں جائزہ لے چکے ہیں۔
پھر یہ آیت دیکھیے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ.(الحجر ۱۵: ۹)
یہ آیت یہ کہتی ہے کہ اضافہ و تغیر کے ساتھ ساتھ اس میں کمی بھی نہیں کی جاسکتی۔سورۂ قیامہ کی آیات جمع و قراءت یہ بتاتی ہے کہ جمع وترتیب اور قابل اتباع بنانے کا عمل خود اللہ کی نگرانی میں ہوگا۔یہ دونوں اللہ کے بیانات ہیں۔اگر جمع قرآن کی ان روایات کو مانا جائے تو وہ قرآن کے اس وعدۂ حفاظت کے خلاف تصویر پیش کرتی ہیں، اس لیے خلاف قرآن ہونے کے سبب سے قابل قبول نہیں ہیں۔
غرض یہ کہ تحت الاسباب، مگر تکوینی سطح پر قرآن کی حفاظت کی گئی ہے، اس لیے اس کے خلاف اٹھی ہوئی سازشیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔اس کا متن اور اس کی ایک قراءت عالم اسلام میں فروغ پا چکے ہیں۔انھیں تواتر نے اپنی تاریخ تعامل سے ثبوت فراہم کیا ہے، جس کی پیچھے صرف تاریخی تعامل ہی نہیں، خدا کی قدرت قاہرہ بھی کارفرما رہی ہے۔جس کی ایک جھلک آپ اس مضمون میں دیکھ سکے ہوں گے کہ گھڑی گئی روایات اپنے اندر کس قدر خطائیں رکھتی ہیں، جن کے سبب سے ہم آسانی سے پہچان سکتے ہیں کہ وہ گھڑی گئی ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[28]۔ یعنی اپنی طرف سے کوئی بات درج کردینا۔
[29]۔ اس جملے ’كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘ کے حوالے سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل بیان کیا گیا ہے،اس لیے حدیث کی تعریف کے مطابق یہ روایت حدیث کا درجہ پالیتی ہے،لیکن میں نے اوپر متعدد روایات سے واضح کیا ہے کہ نبی کریم نے قرآن جمع کیا ہے اور یہ مضمون اس کے خلاف ہے،اس لیے یہ اپنے مضمون کےلحاظ سے حدیث کہلانے کے لائق نہیں ہے۔
[30] ۔ آخری دفعہ پیش کیاجانا۔
[31] ۔ غالباً یہ بھی حفاظت قرآن کے پہلو سے آپ کا کوئی اندیشہ تھا کہ اگر قرآن کے نسخے دشمنوں کے ہاتھ میں آگئے تو وہ اسے تغیر و تبدل سے بگاڑ کر نہ رکھ دیں، اس لیے اس کے نسخے اس وقت تک دشمن کے ہاتھ نہیں لگنے چاہییں، جب تک کہ قرآن حفاظت یا تواتر کے دور میں داخل نہ ہو جائے۔بعد میں جیسا کہ اب تاریخ کا حصہ ہے کہ متن قرآن میں تغیر و تبدل ممکن نہیں ہوا تو قرآ ن پڑھنے (قراءت) میں تغیرات کی کوشش کی گئی۔ یہ فتنہ غالباً سیدنا عثمان کے عہد میں شروع ہوا، جسے انھوں نے پوری حکمت کے ساتھ کچل دیا تھا، لیکن تا حال اس کی باقیات موجود ہیں۔
[32]۔ہم نے یہ بات ام الکتاب کی وجہ سے کہی ہے۔ قرآن مجید میں ’ام الکتاب‘ کا تعارف یوں کرایا گیا ہے: ’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ. يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهٗ٘ اُمُّ الْكِتٰبِ. وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ‘ (الرعد ۱۳: ۳۸- ۴۰)، یعنی یہ وہ کتاب ہے جس میں سب کچھ لکھا ہوا ہے، اور یہ صرف اللہ کو حق ہے کہ وہ اس میں جو چاہے مٹائے اور جو چاہے لکھ دے۔اور اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہونا ہے۔
[33]۔ قابل اعتبار، روایت میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ابوبکر و عثمان رضی اللہ عنہما نے اس ترتیب کو بدلا تھا جو ترتیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی تھی۔ایک ضعیف روایت میں انفال اور توبہ کی ترتیب پرابن عباس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ سورۂ انفال اور توبہ کو میں نے بیان مضمون کی باہمی مناسبت کی وجہ سے اکٹھا کردیا ہے (ترمذی، رقم ۳۰۸۶۔ ابوداؤد، رقم ۷۸۶- ۷۸۷)۔ یہ روایت اپنے تمام طرق میں سندًاقابل احتجاج نہیں ہے، البتہ حاکم نے اپنی مستدرک (رقم ۲۸۷۵، ۳۲۷۲)میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن یہاں بھی یزید الفارسی وہی راوی ہے جو باقی طرق میں ہے، اس لیے یہ طریقہ بھی اسی حکم میں ہے۔اس کے متن میں بھی غرابت ہے اور سند میں بھی ضعف اور غرابت ہے کہ ہر طریقہ میں یزید الفارسی ہی راوی ہے۔متن کی غرابت یہ ہے کہ یہ روایت دو سورتوں کی ترتیب پر بحث سے شروع ہوتی ہے، مگر پھر اس میں بے جا اور بے موقع ایک بات گھسیڑ دی گئی ہے۔حالاں کہ انھی روایتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عثمان نے اسی نسخے سے نقول تیار کی تھیں، جو سیدہ حفصہ کے پاس عہد ابو بکر رضی اللہ عنہما سے چلا آرہاتھا۔تو حضرت عثمان کو تو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ یہ ترتیب میرا کام نہیں ہے، بلکہ مجھ سے پہلے یہ ترتیب دے دی گئی تھی۔سچی بات تو یہ ہے کہ حضرت عثمان کے جمع قرآن کی داستان بھی ایسی ہی ہے، جیسی اوپر ابو بکر کے جمع قرآن کی روایت ہے(بخاری، رقم۷۱۹۱)، جس پر ہمارا یہ مضمون آپ کے ہاتھ میں ہے۔