بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ٣٦ وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِعَزِيْزٍ ذِي انْتِقَامٍ ٣٧
(تم اِن سے کیوں ڈرو، اے پیغمبر)؟ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟ یہ تم کو اُن سے ڈراتے ہیں جو اِنھوں نے اُس کے سوا بنا رکھے ہیں۔[48] (اِن کی پروا نہ کرو، اِنھیں خدا نے گم راہی میں ڈال دیا ہے) اور جنھیں خدا (اپنے قانون کے مطابق[49]) گم راہی میں ڈال دے، اُنھیں پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے اور جنھیں خدا ہدایت بخشے، اُنھیں کوئی گم راہ کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ (اِس لیے کیوں ڈرو)؟ کیا اللہ زبردست اور انتقام لینے والا نہیں ہے؟[50] ۳۶- ۳۷
وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ قُلْ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِيَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖ٘ اَوْ اَرَادَنِيْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ قُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ ٣٨
اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔[51] کہو، پھر تم نے سوچا ہے کہ اگراللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اللہ کے سوا جن دیویوں کو تم پکارتے ہو، کیا یہ اُس کی پہنچائی ہوئی تکلیف کو دور کر سکتی ہیں؟ یا اللہ مجھ پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کیا یہ اُس کے فضل کو روکنے والی ہو سکتی ہیں؟ کہہ دو، میرے لیے اللہ کافی ہے، بھروسا کرنے والے اُسی پر بھروسا کرتے ہیں۔۳۸
قُلْ يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰي مَكَانَتِكُمْ اِنِّيْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ٣٩ مَنْ يَّاْتِيْهِ عَذَابٌ يُّخْزِيْهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ ٤٠
کہہ دو کہ میری قوم کے لوگو، تم اپنے طریقے پر کام کرو، میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا۔[52] پھر جلد تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اُس کو رسوا کر دیتا ہے اور کس پر وہ عذاب نازل ہوتا ہے جو ٹک کے رہ جاتا ہے۔[53]۳۹- ۴۰
اِنَّا٘ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ فَمَنِ اهْتَدٰي فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا٘ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيْلٍ ٤١
(تم پر اِن کو سمجھانے ہی کی ذمہ داری ہے، اے پیغمبر)۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے یہ کتاب ہم نے تم پر حق کے ساتھ اتاری ہے۔ لہٰذا جو ہدایت پائے گا، وہ اپنے لیے پائے گا اور جو گم راہی اختیار کرے گا تو اُس کی گم راہی کا وبال بھی اُسی پر ہو گا۔ تم اِن پر کوئی ذمہ دار نہیں بنائے گئے ہو۔۴۱
اَللّٰهُ يَتَوَفَّي الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰي عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰ٘ي اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ٤٢
حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی جانیں قبض کرتا ہے ، جب اُن کی موت کا وقت آجاتا ہے اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی، اُنھیں بھی نیند کی حالت میں اِسی طرح قبض کر لیتا ہے۔پھر جن کی موت کا فیصلہ کر چکا، اُن کو روک لیتا ہے اور جو باقی ہیں، اُنھیں ایک مقرر وقت تک کے لیے رہا کر دیتا ہے۔ اِس میں، یقیناً اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔[54]۴۲
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَآءَ قُلْ اَوَلَوْ كَانُوْا لَا يَمْلِكُوْنَ شَيْـًٔا وَّلَا يَعْقِلُوْنَ ٤٣ قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ٤٤ وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ٘ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ٤٥ قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ٤٦
(اِس کے باوجود)، کیا اِنھوں نے اللہ کے مقابل میں دوسروں کو سفارشی بنا رکھا ہے؟ اِن سے کہو، اگرچہ وہ کچھ اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ کچھ عقل وشعور رکھتے ہوں؟ کہو کہ سفارش تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔[55] زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اُسی کی ہے۔ پھر تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (یہ اِسی حماقت کا نتیجہ ہے کہ) جب اکیلے خدا کا ذکر کیاجائے تو جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے(کہ اُس میں خدا کی بے لاگ عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی)، اُن کے دل کڑھتے ہیں[56] اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو فوراً خوش ہو جاتے ہیں۔[57] (اِن کا معاملہ اب اللہ کے حوالے کرو اور) کہو کہ اے اللہ، زمین اور آسمانوں کے پیدا کرنے والے، غائب و حاضر کے جاننے والے، اپنے بندوں کے درمیان تو ہی اُس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ ۴۳- ۴۶
وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ ٤٧ وَبَدَا لَهُمْ سَيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ٤٨
(یہ اِس وقت نہیں مان رہے، لیکن) اِ ن ظالموں[58] کے پاس اگر وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اُس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی تو برے عذاب سے بچنے کے لیے یہ (بغیر کسی تردد کے) روز قیامت اُس کو فدیے میں دینا چاہیں گے۔ لیکن اللہ کی طرف سے اِنھیں وہ معاملہ پیش آئے گا، جس کا یہ گمان بھی نہیں رکھتے تھے۔[59] اِن کے اعمال کے برے نتیجے اِن کے سامنے آ جائیں گے اور اِنھیں وہی چیز گھیر لے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے تھے۔۴۷- ۴۸
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ اِنَّمَا٘ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٤٩ قَدْ قَالَهَا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَا٘ اَغْنٰي عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ٥٠ فَاَصَابَهُمْ سَيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَالَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰ٘ؤُلَآءِ سَيُصِيْبُهُمْ سَيِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِيْنَ ٥١ اَوَلَمْ يَعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٥٢
سو انسان (کا معاملہ بھی عجیب ہے، اُس) کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے، پھر جب اُس پر ہم اپنی طرف سے فضل فرماتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے میرے علم کی وجہ سے ملا ہے۔ ہرگز نہیں، بلکہ یہ ایک آزمایش ہے، لیکن اِن کے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔[60] اِن سے پہلے والوں نے بھی یہی بات کہی تھی تو جو کچھ وہ کماتے رہے، اُن کے کچھ بھی کام نہیں آیا اور اُن کے اعمال کے برے نتیجے اُن کے سامنے آگئے۔ اِن لوگوں میں سے بھی، جنھوں نے اپنی جان پر ظلم ڈھایا ہے، اُن کے اعمال کے برے نتیجے ، عنقریب اُن کے سامنے آجائیں گے اور یہ خدا کو ہرا نہیں سکیں گے۔ کیا اِن کو معلوم نہیں کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے، رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اِس میں اُن لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں[61] ہیں جو ایمان لانا چاہتے ہوں۔[62] ۴۹- ۵۲
[48]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت توحید کے جواب میں مشرکین آپ کو ڈراتے تھے کہ ہمارے معبودوں کا انکار کرتے ہو تو یاد رکھو، ایک دن یہ تمھیں برباد کرکے رکھ دیں گے۔ یہ اِنھی ڈراووں کی طرف اشارہ ہے۔
[49]۔ یعنی اِس قانون کے مطابق کہ اللہ اُنھی کو گم راہ کرتا ہے جو خود گم راہی اختیار کرتے اور کوئی اصلاح قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
[50]۔ یعنی اُن لوگوں سے جو اُس کے حقوق پر ڈاکا ڈالتے اور اُس کے بندوں پرظلم کرتے ہیں۔
[51]۔ یہ سوال اِس لیے کیا ہے کہ مخاطبین جس تضاد فکر میں مبتلا ہیں ، اُس کی طرف توجہ دلائی جائے۔
[52]۔ اِس جملے میں ’عَلٰي مَكَانَتِيْ‘کے الفاظ ’اِنِّيْ عَامِلٌ‘کے بعد محذوف ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنی خو نہیں چھوڑتے تو میں بھی اپنی دعوت سے باز آنے والا نہیں ہوں۔ میرے پروردگار نے جو کام میرے سپرد کیا ہے، میں اُس کو کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ خدا اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔
[53]۔ یہ اُس عذاب کا حوالہ ہے جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں اُن کی قوموں پر آتا ہے۔ اِس کی صفات یہی ہیں کہ یہ مستکبرین کو رسوا کر دیتا ہے اور آتا ہے تو اُس وقت تک ڈیرے ڈالے رہتا ہے، جب تک پیغمبر کے مخالفین کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ نہیں دیتا۔
[54]۔ مطلب یہ ہے کہ موت اور زندگی ، سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ اِن کے معبودوں کا اِس میں کوئی دخل نہیں ہے کہ آدمی اُن سے اندیشہ ناک ہو۔ مرنے کے بعد جو زندگی شروع ہو گی، وہ بھی اللہ کے حکم سے شروع ہو گی۔ وہ ہر روز صبح و شام لوگوں کو اُس کا مشاہدہ کراتا ہے۔ چنانچہ سوتے ہیں تو گویا موت کو دیکھتے ہیں اور سو کر اٹھتے ہیں تو بعث و نشر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ موت اور موت کے بعد اٹھنے کا یہ ریہرسل ہر شخص کے سامنے ہو رہا ہے، بشرطیکہ وہ دیکھنے والی آنکھیں رکھتا ہو۔ اہل ایمان کو اِسی عبرت نگاہی کے لیے تلقین کی گئی ہے کہ سو کر اٹھیں تو دعا کریں کہ ’الحمد للّٰه الذي أحیانا بعد ما أماتنا و إلیه النشور‘۔*
[55]۔ چنانچہ قرآن میں تصریح ہے کہ یہ اگر ہوئی تو اللہ کے اذن سے ہو گی اور اُنھی کے لیے ہو گی جن کے لیے اللہ اجازت دے گا اور اِس میں وہی بات کہی جائے گی جو بالکل حق ہو گی۔ خدا کے سامنے کسی کے لیے بے انصافی کی کوئی بات کہنے کی گنجایش نہیں ہے۔
[56]۔ اِس لیے کہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اُنھیں پھر نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
[57]۔ اِس لیے کہ اِس سے یہ توقع پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کے یہ معبود اپنی سفارش سے اُنھیں بچا لیں گے۔
[58]۔ یعنی جنھوں نے خدا کے شریک ٹھیرا کر اپنی جان پر ظلم ڈھایا ہے۔
[59]۔ یعنی یہ معلوم ہو گا کہ خدا جتنا بڑا کریم ہے، اتنا ہی بڑا عادل اور منتقم و قہار بھی ہے۔
[60]۔ یعنی اِس حقیقت کو نہیں جانتے کہ رزق و فضل انسان کے علم و اختیار سے نہیں، بلکہ اللہ کی حکمت اور مشیت سے حاصل ہوتا ہے اور اِسی حکمت و مشیت کے تحت وہ کسی کو زیادہ دے کر اُس کے شکر کو جانچتا ہے اور کسی کو کم دے کر اُس کے صبر کا امتحان کرتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...وہی جس کو چاہتا ہے، زیادہ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، کم دیتا ہے۔ کتنے ہیں جو بغیر سعی و تدبیر کے چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر اِس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور کتنے ہیں جو رات دن دنیا ہی کی فکر میں سر کھپاتے ہیں اور دنیا کمانے کا علم بھی رکھتے ہیں، لیکن پاتے اتنا ہی ہیں جتنا اللہ نے اُن کی تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ یہ مشاہدہ بھی آئے دن اِس دنیا میں ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص آج کروڑ پتی یا ارب پتی، بلکہ تخت و تاج کا مالک ہے اور دوسرے دن وہ بالکل دیوالیہ یا کسی جیل کی کوٹھڑی میں بند ہے۔ اِن کھلے ہوئے مشاہدات کے باوجود اگر کوئی شخص اپنے مال و جاہ کے متعلق ’اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ‘ کے گھمنڈ میں مبتلا ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ اُس کی عقل میں کچھ فتور ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۶۰۰)
[61]۔ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ کائنات کی بادشاہی خدا ہی کے اختیار میں ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اُس نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے اور اِس امتحان کا نتیجہ لازماً نکلنا ہے۔ چنانچہ قیامت آ کر رہے گی ۔ یہ خدا کے عدل اور اُس کے علم و حکمت کا تقاضا ہے۔
[62]۔ اصل الفاظ ہیں:’لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ‘۔ اِن میں فعل، ہمارے نزدیک، ارادۂ فعل کے معنی میں ہے۔ چنانچہ ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔
ـــــــــــــــــ
* بخاری، رقم ۶۳۱۶۔ مسلم، رقم ۶۸۸۷۔ ’’شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہم کو موت کے بعد پھر زندگی عطا فرمائی اور ایک دن لوٹنا بھی اُسی کی طرف ہے۔‘‘
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ