HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

مسئلۂ قیادت

اجتماعی کام اداروں اور تنظیموں کے بغیر انجام نہیں دیے جا سکتے۔ ہمارے سماج میں بڑے اجتماعی کاموں کا آغاز، بالعموم کوئی بڑی شخصیت کرتی ہے۔بڑی شخصیت سے ہماری مراد اس شخصیت سے ہے جو اس کام کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کام کے حوالے سے اپنے گرد ایسے لوگ جمع کر سکتی ہےجو گامے درمے سخنے اس کے ساتھی بنیں۔ جو اخلاق و کردار کے اعتبار سے، سعی وجہد کے اعتبار سے اور اہداف و مقاصد کے اعتبار سے اقبال کے اس مصرعے کی تجسیم ہو:

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز

انسان کی یہ فطرت ہے کہ جہاں وہ کوئی کمال دیکھتا ہے، اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ یہ کمال کسی بھی نوعیت کا ہو، وہ انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کے لوگ جن کو اپنے ساتھ وابستہ کرتے ہیں، وہ ان کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کی زلف گرہ گیر ان لوگوں کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیتی ہے کہ انھیں صرف وہ دکھتا ہے جو ان کے اس رہنما کو دکھائی دیتا ہے۔ انھیں صرف وہی درست لگتا ہے جسے ان کا یہ رہنما درست قرار دے، یہاں تک کہ ان کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک جو ان کے رہنما کے ساتھ وابستہ ہے، وہی دانا و بینا ہے اورحق پرست ہے، اور جو ان کے رہنما کے ساتھ متفق نہیں ہے، وہ عقل و دانش سے محروم ہے اور نتیجۃً حق سے محروم ہے۔

اوپر ہم نے جس بڑی شخصیت کو بیان کرنے کی سعی کی ہے، اسے باری تعالیٰ نے ان صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کا وہ حامل ہے۔ اسے ذات حق نے اپنی نصرت و تائید سے کامیابی کی منزلیں طے کرائی ہیں، لیکن اس کی یہ بڑائی اور یہ کامیابیاں اسے اس زعم میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ وہ ناگزیر ہے۔ اسی کی دانش و بینش عقدہ کشا ہے۔ اسی کی سعی و جہد منزل رسا ہے۔ کسی اور نے اس کی جگہ لے لی تو وہ قافلے کو جادۂ مستقیم سے ہٹا کر فنا کے گھاٹ جااتارے گا۔ یہ صورت معاملہ مزید عمیق ہو جاتی ہے جب اس رہنما کے گرد ایسے لوگ جمع ہوجاتے ہیں جو اس معاملے میں بھی اس رہنما کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔

قیادت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے گرد باصلاحیت لوگ جمع ہونے دے۔ باصلاحیت لوگ کبھی بھی کسی قیادت کے اس طرح ہم نوا نہیں ہوتے کہ غث و سمین اور رطب و یابس میں فرق نہ کریں۔ اس طرح کی قیادت کے ساتھ ایسے لوگ لازماً جمع ہو جاتے ہیں کہ سیاہ و سفید ہر معاملے میں رہنما کی ہم نوائی کریں۔چنانچہ رہنما کے لیے یہ ایک بڑا امتحان بن جاتا ہے کہ وہ ان ہم نواؤں کی داد و تحسین کے شور میں کسی طوطی کی مدھر آوازپر کان دھرے۔ اس امتحان میں سرخرو ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ قائد حقائق کو معروضی انداز میں دیکھنے کے طریق کو کسی حال میں ترک نہ کرے۔ ذات سے جڑی تمنائیں، دنیاوی اہداف کو حاصل کرنے کا شدید جذبہ اور ان ہم نواؤں کی داد و تحسین اس لیڈر کو معروضی حقائق کو دیکھنے کی صلاحیت سے عاری بنا دیتی ہے۔ چنانچہ ناقدین اسے کبھی کوتاہ بین نظر آتے ہیں، کبھی حاسد اور سازشی دکھائی دیتے ہیں اور کبھی اقتدار اور مقام و مرتبہ کے حریص سجھائی دیتے ہیں۔ ستم بالاے ستم اس وقت ہوتا ہے، جب یہ ہم نوا بھی یہ تجزیہ پیش کرکے رہنما کے ہم زاد بن جاتے ہیں کہ خود وہ بھی انھی ناقدین کی کوتاہ بینی اور حسد و سازش کاہدف ہیں۔

یہ دنیا امتحان کے لیے بنی ہے۔ اس امتحان کا ایک دائرہ اس وقت وجود پذیر ہوتا ہے جب ہم اپنی افتاد طبع کے تقاضے پورے کرنےکے لیے کارگہ حیات میں اترتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جب ہم اپنے وجود کے فروغ اور بقا ‏ کے لیے کوشاں ہوں۔ اپنے خاندان، اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے معاشرے کی ترقی و تحفظ ہمارا مشن ہو۔ اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور اپنے مذہب کا تواتر اور استحکام ہمارا مقصود ہو۔ کوئی بھی آدرش ہو ہماری انا، ہماری ستایش کی تمنا، مال و مقام کی صورت میں مساعی کا اجر، اہداف کو اپنی زندگی میں، اپنے ہاتھوں پالینے کی شدیدخواہش، اس طرح کی کئی بھوکیں ہیں جوکبھی نہاں خانۂ وجود میں، کبھی پوشاک کی طرح اور کبھی جبہ و دستار بن کر ہمارے وجو د کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ دنیا اس طرح نہیں بنائی گئی کہ ہماری مساعی امتحان کے اس نظام ہی کو نابود کر دیں۔ کوئی علمی کارنامہ تمام سوالات کا ہمیشہ کے لیے مسکت جواب دے دےاور حق یا سچ کو قبول نہ کرنے کا کوئی عذر ہی باقی نہ رہے۔ کوئی ایسا انقلاب برپا کر دیا جائے جو انسانوں کی تمام مشکلات کو تاابد حل کر دےاور ان کی معیشت، معاشرت، سیاست وغیرہ میں جاری ناانصافیاں اور ناہمواریاں بالکل عنقا ہو جائیں۔ امتحان ہی یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کی جبلتوں اور اپنے شعور کی فطرتوں کے زور پر سعی و جہد کریں اور یہ عمل کرتے ہوئے عدل و انصاف، حسن اخلاق اور حق پرستی کا دامن مضبوطی سے تھامے رہیں۔ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں کہ فرشتے باعزت طریقے سے پادشاہ ارض و سما کے حضور میں پیش کر دیں، لیکن جب ہم کسی بھی آدرش کو خدا کی نسبت کے بجاے اپنی نسبت سے کرنے لگتے ہیں تو اپنے اجر کو حیات اخروی کی جگہ حیات دنیوی تک محدود کرلیتے ہیں۔

دنیا میں جاری یہ اسکیم جب فراموش ہو جاتی ہےتو لیڈر ’الحق یدور معي‘، ’أنا ولا غیري‘اور ’خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس ‘ کی تصویر بن جاتا ہے۔فراموش ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں کہ کوئی مسلمان آخرت اور خدا کا منکر بن جاتا ہے یا آخرت اور خدا کاحوالہ اس کی زندگی سے بالکل غائب ہو جاتا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ کشاکش حیات میں اس طرح کھو جاتا ہے کہ مدار صرف اپنی تدبیر پر رہ جاتا ہے اور ہدف صرف دنیا کا کوئی حاصل۔

ہر لیڈر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ساتھی دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو مشن کے ساتھی ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو لیڈر کے پرستار۔ ایک وہ جو جدوجہد کے ساتھی ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو نتائج سمیٹنے کے ساتھی۔ ایک وہ جو صحت عمل کو اصل سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جو نتائج ہر قیمت پر حاصل کرنے کو دانش قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک قسم ہر طرح کے حالات میں مخلص ہوتی ہے اور اپنا اخلاص دکھانے کی سعی کرتی دکھائی نہیں دیتی اور دوسری وہ جو برکات کی ساجھی ہوتی ہے اور مخلص ہونا دکھانے کے لیے طرح طرح کی مساعی کرتی ہے۔ ایک اصلاً حق کے لیے مخلص ہوتی ہےاور دوسری اصلاً فوائد کے لیے متحرک۔ اعلیٰ لیڈر شپ وہ ہو گی جو پہلی قسم کو اپنی حقیقی متاع قرار دے، سمجھے اور انھی کو ارباب حل و عقد بنائے رکھے اور دوسری قسم کو ان کے ساتھ جوڑ کررکھے۔

ایک مشکل ہر قیادت کو پیش آتی ہے۔ جدو جہد کا ایک نقشہ اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ جب کسی مشن کا آغاز ہوتا ہے تو ان اصولوں کی وضاحت کی جاتی ہے اور ان کو اپنانے نباہنےاور ان کی ہر قیمت ادا کرنے کے عزم بیان کیے جاتے ہیں، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ قیادت جب اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مگن ہوتی ہے تو مداہنت کے راستے پر چل پڑتی ہے، لیکن یہ ماننے کے بجاے کہ اس نے مقاصد کو پانے کے لیے راہ سدید سے گریز فلاں فلاں مصالح کو سامنے رکھ کر کیا ہے، وہ اس پر مصر ہو جاتی ہے کہ اس کا اقدام اعلیٰ اصولوں کے عین مطابق ہے اور تنقید کرنے والاکوتاہ بین ہے یا اپنی فلاں فلاں ناکامیوں کے باعث حسد اور بغض کی بیماری میں مبتلا ہے،حالاں کہ اصولاً ہونا یہ چاہیے کہ ناقد کا تجزیہ کرنے کے بجاے تنقید کے مشمولات کو معروضی انداز میں رد یا قبول کرنے کی راہ اپنائی جائے۔ یہ تجزیہ بھی ہونا چاہیے کہ جو مداہنت اختیار کی گئی ہے، اس میں پیش نظر مصالح ذاتی ہیں یا آفاقی، اس لیے کہ ذاتی مصالح ہوں تو یہ پستی اخلاق پر دال ہیں۔اعلیٰ اہداف بھی اس کے نتیجے میں ذاتی ہو جاتے ہیں اور نتائج کے اعتبار سے پستی کی طرف سفر شروع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں منصۂ شہود پر آنے والی قیادت کی اکثریت اسی طرح معیار مطلوب پر دکھائی نہیں دیتی۔ مستثنیٰ ہستیوں کو چھوڑ کر جن کی تعداد شاید ایک ہاتھ کی پوروں سے بھی کم ہو۔ مذہبی قیادت، دانش ور قیادت، سیاسی قیادت، خدمت کے کاموں کی قیادت غرض ہر میدان میں ہمیں اخلاقی اور اصولی انحطاط کا نقشہ نظر آتا ہے۔

دنیا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس آزادی کے اصول پر چل رہی ہے اور چلتی رہے گی کہ ہر انسان نیکی اور بدی میں آزاد ہے۔ برتر روی اور پست روی میں صاحب اختیار ہے۔ وہ چاہے آخرت کو ہدف بنائے چاہے دنیا کو، اس پر کوئی پابندی نہیں۔ اسی طرح اس دنیا کی ہر کامیابی اور ہر ناکامی اجل مسمیٰ کے لیے ہے۔ لہٰذا جسے اللہ نے اعلیٰ حکمت سے بہرہ مند کیا ہے، اس کا ہدف صرف آخرت ہوتی ہے اور آخرت کے رخ پر جینے والے کو کسی مداہنت کی ضرورت پیش نہیں آتی۔کسی پستی کو قبول کرنے کی اسے حاجت نہیں ہوتی۔ غرض عاجل سے وہ ڈھیر نہیں ہوتا۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B