باب ۱۱
امین احسن لاہو ر میں ایک کرایے کی کوٹھی میں اقامت پذیر تھے۔ دوسرے اخراجات بھی بہت زیادہ تھے۔ شہری زندگی کے رکھ رکھاؤ پر بھی بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ بڑے بیٹے ابوصالح کی وفات سے گھر کی مالی ذمہ داریاں بھی ا ن کے ناتواں کندھوں پر آن پڑ ی تھیں۔پھر ان کی بیماری کے اخراجات نے انھیں خاصا مقروض کردیا تھا۔ ان کی معاشی حالت پہلے بھی مستحکم نہ تھی۔پھر وہ معاش کو اہمیت دینے کے بالکل قائل نہیں تھے۔قرآن مجید کی رو سے ان کا ایمان تھا کہ آدمی کوفکر صرف اپنا فرض ادا کرنے کی ہونی چاہیے۔ اگر وہ اخلاص کے ساتھ اس میں منہمک ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کی کفالت کی ایسی راہیں خود کھول دے گا جواس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں گی۔اگر اس راہ میں کچھ آزمایشیں پیش آتی ہیں تو ان کا مقصد انسان کی تربیت کرنا ہوتا ہے۔
امین احسن کی دوسری اہلیہ محترمہ کے والدچودھر ی عبدالرحمٰن جالندھر کے قریب ایک گاؤں راہوں کے ایک بڑے زمین دار تھے۔تقسیم ہندکے بعد چو دھری صاحب کوبدلے میں مختلف مقامات پر زمین الاٹ کی گئی۔ امین احسن کی گزر اوقات اس زمین کی پید اوار سے ہوتی تھی جو ان کی اہلیہ کے حصے میں آئی تھی،مگر اس کی آمدنی بھی اخراجات کی مقابلے میں کم تھی۔امین احسن کے عزیز دوست سردار محمد اجمل خان لغاری نے یہ زمین اشتمال اراضی کے ذریعے سے یکجا کرادی تو اس کا انتظام آسان ہوگیا۔پہلے زمین پر کاشت اور پیداوار پرذاتی توجہ نہ ہوتی۔ یہ معاملات منشی کی زیر نگرانی ہوتے، جس کی وجہ سے یافت کم رہتی۔ اس کے باوجود امین احسن نے کہاکہ لاہور میں گزارا نہیں ہوتا، لہٰذا گھر پرغور ہوا کہ کیوں نہ اسی زمین پر رہایش اختیار کرلی جائے، مگر امین احسن سوچتے تھے کہ اس منتقلی سے ایک تو لاہور میں قرآن کی تدریس کا کام بالکل معطل ہوجائے گا، اور دوسرے یہ کہ وہ اہلیہ کی زمین پر انحصار کرکے اپنی ذمہ داری بیگم صاحبہ کو منتقل کرنے والے کہلائیں گے۔وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے۔شیخ سلطان احمد سے مشورہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ آپ کا ذاتی اور خانگی معاملہ ہے، اس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ امین احسن کا خیال تھاکہ اس طرح میں نان و نفقہ کی ذمہ داری اپنی اہلیہ کے اوپرڈالنے والابن جاؤں گا۔شیخ سلطان صاحب نے اس کے خلاف دلیل دیتے ہوئے کہا کہ آپ وہاں فارغ تونہیں بیٹھیں گے۔ آپ زمین داری کے تمام معاملات خود سنبھالیں گے۔اس طرح منشیوں کے تقرر کی ضرورت نہیں رہے گی۔کاشت کی منصوبہ بندی اور نگرانی آپ خود کریں گے۔اس میں آپ کا وقت اور محنت صرف ہوگی۔ آپ اس کا معاوضہ پانے کے حق دار ہوں گے۔پھر زمین سے جویافت ہوگی، اس میں آپ کا ذاتی حصہ اچھا خاصا ہو گا۔یوں آپ اہلیہ سے نان و نفقہ پانے کے الزام سے بری ہوں گے۔یہ دلائل سننے کے بعدامین احسن مطمئن ہوگئے۔
زندگی کے اس موڑ پر امین احسن کیسے حالات سے دوچار تھے، ان کے خطوط سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لاہور سے ۲۳/دسمبر ۱۹۶۰ء کو سردار محمد اجمل خان لغاری صاحب کے نام لکھتے ہیں :
’’عنا یت نا مہ مو صو ل ہو ا۔میں نے یہ فیصلہ تو اس وجہ سے کیا ہے کہ اب اس کے سوا کو ئی شکل با عزت گزارے کی نظر نہیں آئی۔ اور یہ بھی ابھی اس شر ط کے سا تھ مشرو ط ہے کہ زمین پر سر چھپا نے کے لئے کو ئی جھو نپڑا بن جا ئے۔ آج کل میں اسی چکر میں ہو ں۔دعا کیجئے کہ میرا یہ ارادہ پورا ہو مجھے تو قع ہے کہ محمود صاحب (مو لا نا کے برادر نسبتی فضل الرحمٰن محمود صا حب مراد ہیں اس وقت تک مو لا نا کی اہلیہ کی زمین ان کے سا تھ مشترک تھی۔ مدیر) نے زمین اگر بغیر کسی جھگڑے کے علیحدہ کر دی تو میں دوسر ی مشکلا ت پر قا بو پالوں گا، مجھے اپنی زندگی کے اس مو ڑ پر جو میں بڑھا پے میں کر نے پر مجبور ہوا ہوں اللہ تعا لیٰ کے بعد سب سے زیا دہ سہا را پا نے کی جس سے توقع ہے وہ آپ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے مشوروں سے میرا حو صلہ بڑھا تے رہیں گے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۷۸)
لاہورسے ۲۲/اگست ۱۹۶۷ء کو بنام محمود احمد لودھی صاحب لکھا:
’’اب میں اکتوبرتک لا ہور چھوڑ کر رقبے پر منتقل ہو نے کی اسکیم بنا ر ہا ہوں۔ پیش نظر مصارف کی تخفیف ہے۔ ابھی یہ ارادہ چند دو ستوں تک راز ہے اور وہ بھی اس پر مطمئن نہیں ہیں لیکن میں اس کو ذا تی پہلو سے مفید بلکہ ضرور ی سمجھتا ہوں۔ توقع ہے کہ اس سے مصارف میں تخفیف ہوگی۔ قر ض میں اضا فے کا سلسلہ رک جائے گا اور ادائے قر ض کے لئے کچھ پس انداز ہو سکے گا۔ علمی اور تعلیمی مقاصد ضرور متا ثر ہو ں گے لیکن تفسیر کا کام امید ہے جا ری رہ سکے گا۔ اب اس عمر میں ذہنی سکو ن ضرور ی ہے جو بحا لت ِمو جو دہ میسر نہیں۔ لا ہور اچھی جگہ ہے مگر میر ے جیسے شخص کے لئے اس کا رکھ رکھا ؤگراں بلکہ نا قا بل بر داشت ہے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۱۳)
لاہو ر سے ۲۰ / جون۱۹۶۳ء کو سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام بیان کرتے ہیں :
’’آپ مجھے دیہا ت اور دیہا تی زندگی سے نہ ڈرائیے میں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ خا لص دیہا ت میں بسر کیا ہے اور بڑی غریبا نہ زندگی گزاری ہے۔ اب بھی گو میں لا ہور میں رہتا ہوں لیکن ایک با لکل طا لب علما نہ زندگی رکھتا ہوں۔ بس مشکل یہ ہے کہ میر ی علمی زندگی کے تقا ضے مجھے لاہور کے قیا م پر مجبور کر تے ہیں اور معا شی ضروریا ت ٹبی بھیکو (مو لا نا کے گا وّں رحما ن آباد کا پرا نا نام۔مدیر ) سے باندھے ہو ئے ہیں کشمکش یہ ہے کہ نہ پیٹ کو لپیٹ سکتا نہ روح کو کچل سکتا۔ اب دیکھئے رب کر یم میر ے لئے اس کشمکش سے عہد ہ بر آمد ہو نے کی کیا را ہ نکا لتے ہیں۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۸۱)
لاہو ر سے ۲۳ /جنوری ۱۹۷۳ء کو بنام ڈاکٹر عبد اللطیف خان لکھا:
’’اب میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ لا ہور چھوڑ کر ایک دیہا ت میں چلا جاؤں۔ وہاں میر ی بیو ی کا ایک مختصر رقبہ زمین ہے۔اس پر ایک جھونپڑا بنا کر بقیہ زندگی وہیں گزارنے اورجب تک قو ت سا تھ دے تفسیر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور میں اب میر ی دلچسپی کی کو ئی چیز نہیں رہی۔ ڈا کٹر اسرار صا حب کی معیت میں جوکا م شروع کیا تھا اس کو انھوں نے با لکل تلپٹ کر کے اپنا ذاتی کا م بنا لیا ہے اور نہ میں ان کو سمجھا نے میں کامیا ب ہو سکا اور نہ میرے دوسرے ثقہ اور ذی علم احبا ب اس میں کا میا ب ہو سکے۔ اس وجہ سے ہم سب نے اس سے علیحدگی اختیا رکر لی۔
میں لا ہور میں اسی کا م کی خا طر اٹکا ہو ا تھا ورنہ یہاں کی کثیر المصا رف زندگی میرے تحمل سے با ہر تھی۔ چنانچہ میں قر ض دار بھی ہو گیا۔ یہاں میر ی کو ئی ذا تی آمدنی نہیں ہے۔ میر ی کتابیں بھی میرے لیے کسی دنیوی منفعت کا ذریعہ نہیں بنیں اور اب توڈا کٹر صا حب ان پر اس طر ح مسلط ہو نے کی کو شش کر رہے ہیں کہ مستقبل میں بھی ان سے مجھے کسی فا ئدے کی امید نہیں۔ میرا گزارہ یا تو زمین کی آمدنی سے ہو رہا تھا یا آپ مدد فرما تے تھے۔ زمین کی آمدنی بس اتنی ہے کہ زمین پر رہ کر تو اس سے روٹی کھا سکتا ہوں لیکن لا ہور شہر کے مصارف اس سے پورے نہیں ہو سکتے۔ اس وجہ سے اب میر ے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ وہیں چلا جا ؤں۔ وہاں امید ہے کہ تفسیر کا کا م زیا دہ اطمینا ن سے کر سکو ں گا۔ یہاں بہت سا وقت لو گوں سے ملنے جلنے میں بھی صرف ہو جا تا ہے۔
میر ی کتا بوں کے چھپنے کا معا ملہ اب با لکل مجہول ہو گیا۔ میرے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ میں ان کو چھپوا سکوں اور ڈا کٹر صا حب پر مجھے اعتما د نہیں رہا۔ اس وجہ سے اب اس معا ملے کو خدا کے حوالے کر تا ہوں۔اگر اس کی مر ضی ہو گی تو ان کے چھپنے کی کو ئی صورت پیدا ہو جا ئے گی ورنہ اپنے رب کے فیصلہ پر را ضی ہو ں۔ البتہ لکھنا میر ی ذمہ داری ہے اور یہ کا م میں آخر دم تک ان شا ء اللہ کر تا رہوں گا چو نکہ آپ اس کا م کے سب سے بڑے معا ون اور قدردا ن ہیں اس وجہ سے آپ کو آگا ہ کر نا ضروری ہو ا۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۸۰)
بیگم امین احسن صاحبہ کی زمین ضلع شیخوپورہ کے قصبے خانقاہ ڈوگراں سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔ گاؤں کی آبادی بہت مختصر تھی۔ امین احسن نے اس کا نام اپنے سسر کے حوالے سے رحمٰن آباد رکھا۔ گاؤں شہری سہولتوں سے بالکل محروم تھا۔ بجلی نہیں تھی۔مکانات کچے تھے۔گلیوں میں گائیں بھینسیں بندھی ہوتی تھیں۔ جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے ہوتے تھے۔ مکھیوں اور مچھروں کی بھر مار تھی۔آبادی ان پڑھ تھی۔ امین احسن کی علمیت کی قدر کرنے والا کوئی نہ تھا۔اس کے باوجود امین احسن کو دیہی زند گی سے بے حد انس تھا۔ انھوں نے زمینوں کی دیکھ بھال بڑی جاں فشانی سے کی۔ان کا معمول یہ تھا کہ نماز فجر اور پھر نماز عصر کے بعد رقبے پر جاتے۔ کاشت کی نگرانی کرتے۔ کسانو ں کو برسرموقع ہدایات دیتے۔ایک ایک بوٹے پر توجہ دیتے۔ نہری پانی ملنے کی باری اگر رات کے وقت ہوتی تو رات کواٹھ کر رقبہ پر جاتے۔گاؤں کی زمین کینو کے لیے موزوں پائی تو بڑے اہتمام سے کینو کے د و باغ لگوائے۔یہ محنت اور منصوبہ بندی باثمر ہوئی۔ زمین کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا۔
امین احسن رقبے پر آنے جانے سے تفسیری مشکلات حل کرنے کاکام بھی لیتے تھے۔جو کچھ انھوں نے لکھنا ہوتا تھا،اس کااسلوب متعین کرنے کے لیے وہ سیر کاوقت بڑا موزوں خیال کرتے تھے۔سورۂ کہف میں ہے کہ ایک باغ والے کا باغ درختوں سے گھراہواتھااور بیچ بیچ میں کاشت کی جاتی تھی،امین احسن نے ایک ایسا ہی اپنا باغ بنایا۔زمین کے ارد گرد شیشم کے درخت لگوائے، درمیان میں کینو کے پودے اور ان کے بیچ کی زمین میں کاشت کی جاتی تھی۔ امین احسن باغ میں داخل ہوتے تو پڑھتے ’ماشاء اللّٰه لا قوة إلا باللّٰه‘ (جو کچھ اللہ نے چاہا، عطا فرما یا، اللہ کے بغیر ہماری کوئی طاقت نہیں )۔یوں اپنی عبودیت اور ممنونیت کا اقراراور اظہار کرتے۔
گاؤ ں جانے کا ایک فائدہ یہ ہواکہ شہر ی مصروفیات سے چھٹکارہ مل گیا۔ تفسیر کاکام تیزی سے ہونے لگا۔ امین احسن نماز فجر کے بعدرقبے کا چکر لگا کر واپس آتے، ناشتہ کرتے اور گاؤں سے متصل واقع دیہی کونسل کی عمارت میں چلے جاتے۔وہاں کسی شیشم کے درخت کے نیچے بیٹھ کر تفسیر لکھتے۔یہ تفسیر اس غور و فکر کانتیجہ ہوتی جو انھوں نے سحری کے وقت کیا ہوتا تھا۔قیلولہ کے بعد اگلی آیات پر غور کرتے۔عصر کی سیر کے دوران میں ان کے نکات پرغور کرتے۔ بعض اوقات آیات کانظم یا کسی مضمون کو ادا کرنے کا اسلوب سمجھ میں نہ آتاتوکئی روز تک غورو فکر جاری رہتا اور لکھنے کی نوبت نہ آتی۔
حلقۂ تدبر قرآن کے رفقا مہینے میں ایک بار ضرور حاضر ہوتے۔امین احسن اس دوران میں پیش آنے والی مشکلات کاتذکرہ کرتے۔ کوئی بات تحقیق طلب ہوتی تو خالد مسعود صاحب کو اس پر کام کرنے کی ہدایت کرتے۔ کئی با ر ایسا بھی ہوتا کہ خالد صاحب کو اپنا نقطۂ نظرلکھ کر پیش کرنے کو کہتے۔ جب خالد صاحب اپنی سوچ کے مطابق تفسیر لکھ کر دیتے تو امین احسن خوش ہو کر کہتے کہ تم نے بات کو ٹھیک سمجھا، اس سے مسئلہ حل ہوگیا۔
امین احسن کی اسی زندگی کے بارے میں جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں :
’’یہ تفسیر لاہور میں بھی لکھی گئی اور برسوں لاہور سے باہر خانقاہ ڈوگراں کے پاس ایک دور افتادہ گاؤں رحمٰن آباد میں سرسے اور شیشم کے درختوں کے نیچے بھی زیر تسوید رہی، جہاں نہ بجلی تھی، نہ پنکھا اور نہ تصنیف و تالیف کے لیے کوئی دوسری سہولت۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ مسودہ پسینے سے بھیگ رہا ہے، لیکن مصنف کا قلم اسی طرح رواں دواں ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ ــــــ بہریک گل زحمت ِ صد خارمی باید کشید ــــــ قرآن کی مشکلوں کو حل کرنے اور اس سے متعلق اپنے نتائج فکر کو سپرد قلم کرنے میں وہ دنیا کی ہر مشقت اٹھانے کے لیے تیار ہو جاتے تھے:
طالباں را خستگی در راہ نیست
عشق خود راہ ست و ہم خود منزل ست‘‘ [1]
(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری۱۹۹۸ء، ص۱۴)
امین احسن کے شاگردوں کے علاوہ ان کے احباب اور بعض اہل علم بھی کبھی کبھار انھیں ملنے کے لیے گاؤں میں جایا کرتے تھے۔خالدصاحب جب ملنے کے لیے جاتے تو امین احسن ایسے مہمانوں کا تذکرہ کرتے۔ امین احسن اکرام ضیف کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ جب بھی کوئی مہمان آتا تو وہ بے حد خوش ہوتے اور تواضع میں کو ئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔
امین احسن گاؤں کی مسجد میں جمعہ بھی پڑھاتے تھے۔ ان کا خطبہ مخاطبین کے عین مطابق ہوتا تھا۔وہ کسانوں کویہ پیغام دیتے کہ ان کے لیے اپنے رب کو یاد رکھنا بے حد آسان ہے،کیو نکہ ایک کسان بیج ڈالنے سے لے کر فصل اٹھانے تک برابر اللہ تعالیٰ ہی سے امید رکھنے والا ہوتا ہے۔اس لیے اگر کسان اس حقیقت کوفی الواقع دل میں جگہ دے لیں تووہ اللہ کے ہاں بڑا مرتبہ پاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ امین احسن وہاں کے جھگڑے نمٹانے میں بھی دل چسپی لیتے تھے۔وہ غریبوں کابڑا ساتھ دیتے تھے۔
گاؤں میں امین احسن کیسے کیسے حالات سے گزرتے تھے، ان کے خطوط بیان کرتے ہیں۔ سردار محمد اجمل خان لغاری صاحب کے نام لکھتے ہیں :
’’ایک مر بعہ کی خود کا شت شر وع کرا دی ہے۔ پیش نظریہ ہے کہ اپنی معا شی مشکلا ت میں کچھ سہو لت کی را ہ نکالو ں۔ یہ سہو لت تو جب پیدا ہو گی تب ہوگی، اور معلو م نہیں پیدا بھی ہو گی یا نہیں لیکن ایک نسیہ کے پیچھے خا صی نقد مشکلا ت میں اپنے آپ کو پھنسا لیا ہے۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعا لیٰ اس مخمصہ سے نکا لے اور اٹھا یا ہو ا قدم واپس نہ لینا پڑے۔ میر ی نیت بخیر ہے۔ چا ہتا ہوں کہ دو روٹی آسا نی سے ملتی رہے تا کہ میں اپنی تفسیر لکھ سکوں۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۸۰)
سردار محمد اجمل خان لغاری صاحب کے نام ہی ایک اور خط :
’’میں کل رقبہ پر سے واپس آیا ہو ں۔ وہا ں مجھے ایک مو قع دیکھنے کے لیے کھال (چھوٹی نہر کی شاخ جو کھیتوں میں پائی جاتی ہے) کی اونچی مینڈپر سے گزرنا پڑا۔ را ستہ با لکل نا ہموار تھا۔ اس وجہ سے میر اجو تا پھسلا اور میں کھا ل کے اندر جا پڑا۔ میر ی با ئیں کہنی کا جوڑ اپنی جگہ سے سرک گیا۔ جوڑوہیں کے ایک آدمی نے بٹھا یا لیکن شا ئد اچھی طرح بیٹھا نہیں۔ اس وجہ سے ابھی تکلیف دور نہیں ہو ئی ہے۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعا لیٰ اس تکلیف کو دور کر ے اور اس کو گناہوں کا کفا رہ بنا ئے۔ ‘‘
(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۷۹)
رحمٰن آبادسے ۲۳ / مئی ۱۹۷۹ء کو بنام محمد احسن خا ن :
’’اس میں شبہ نہیں کہ ان دنوں گندم کی صفائی ہورہی ہے جس کی فکر ہمہ وقت ذہن پر سوار رہتی ہے لیکن اس کے باوجودہورہے ہیں تو خط بھی لکھا جاسکتا تھا۔بہرحال اس کوتاہی کی معافی چاہتا ہوں۔
اس وقت میری مشکل بھی کچھ اسی طرح کی ہے جس سے آپ دوچار ہیں۔انور صاحب سلمہٗ کو حکومت نے ژوب بھیج دیا۔وہ قریب ہوتے تھے تو زمین داری کی ذمہ داریوں میں ان کی مدد آسانی سے حاصل ہوجاتی تھی۔اب اس کاامکان نہیں رہا۔اب عملی نہ سہی لیکن قانونی ذمہ داری تمام ترتنہا مجھ پر ہے۔اہلیہ بوجہ علالت دو ہفتے سے لاہور میں ہیں۔یہاں میں تنہا ہوں۔منشی ہر مسئلہ میں میر ی رہنما ئی چا ہتا ہے اور میں فن زمین داری سے جتنا واقف ہو ں آپ اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ کتنی گندم رکھنی ہے ؟ کتنی بیچنی ہے؟ کس کس کو کتنی دینی ہے ؟ کو ن سی قسم کتنی بیج کے لیے محفو ظ کی جا ئے گی ؟ کو ن سی کھا نے کے لیے رکھی جا ئے گی ؟ ابھی ایک مائی بھو سے کی درخواست لے کر آئی تھی۔ نا ئن شا کی ہے کہ منشی نے اس کو گندم کم دی ہے۔ مزارعوں کا تقا ضا ہے کہ ان کی گندم بھی میں اپنی مشین سے صا ف کرادوں۔ نوکر وں کو اصرار ہے کہ اب ٹریکٹر خا لی ہو نا چا ہیے تا کہ پنیر ی لگانے اور دھا ن کے لیے زمین تیا ر کر نے کا کا م شرو ع ہو۔ وقت گزررہا ہے۔
پا کستا ن کی زرعی تر قی کا حا ل یہ ہے کہ یہاں تھر یشر کے جو پٹے بنتے ہیں، شا ئد کچے دھاگے یا مٹی سے بنتے ہیں کہ بلا مبا لغہ تین دن میں اس کے پر زے اڑ جا تے ہیں۔ اور ان کی قیمت سینکڑوں روپے ہو تی ہے۔ پچھلے سال جو پٹہ خریدا وہ تین دن میں تار تار ہو گیا۔ اس سا ل نیا خریدا اس کا جو حشر ہو ا اس کو کیا عرض کر وں !کل بھاری قیمت ادا کر کے نیا پٹہ منگوایا ہے اس پر مہر تو انگلینڈ کی ہے لیکن اصل کیا ہے اس کا اندازہ تجر بہ سے ہو گا۔ مو سم کا حا ل یہ ہے کہ ہر روز کچھ چھینٹے پڑجا تے ہیں جس سے صفا ئی کا کام ملتوی ہو جا تا ہے اور فکر بڑھ جا تی ہے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ ء ، ص ۰ ۸)
صحافی اور کالم نگار عطاء الرحمٰن نے لکھا:
’’۷۶۔۱۹۷۵ء میں مو لا نا اصلا حی تنگی ِحا لات کا شکا رہو کر اور مقروض حالت میں لا ہور سے ضلع شیخوپورہ میں واقع اپنے گاؤں رحمٰن آباد میں منتقل ہو نے پر مجبور ہو گئے۔ تب ان کی ایک آنکھ کا آپریشن ہو چکا تھا۔ گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ مو لا نا اصلاحی دن کا وقت کھیتی با ڑی کے کا مو ں میں گزارتے اور شا م کے دھندلکے میں لالٹین کی روشنی میں بیٹھ کر رات دیر گئے تک اپنی تفسیر مکمل کر نے میں مصروف رہتے۔آپ اندازہ لگا ئیے کہ بیسویں صدی کے ربع آخر میں جب چند میل کے فا صلے پر دنیا بھر کی سہو لتیں مو جو د تھیں قرآن مجید کا یہ بلند پایہ اسکالر خاموشی اور تنہائی کے عالم میں نامساعد معاشی حالات کی وجہ سے کمزور بصارت کے ساتھ لالٹین کی روشنی کی مدد سے آئندہ نسلوں کے لیے قرآن مجید کی ایک ایک آیت بلکہ ایک ایک لفظ پر اپنے عمر بھر کے فکر و تدبر کے نچوڑ کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے میں مگن رہتا۔ یہ و ہ دور تھا جب ہر وہ شخص جسے علامہ اقبال، مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی تحریریں پڑھ کر عہدحاضر کے اسلوب میں خطابت کا ملکہ حاصل ہو گیا تھا یا وہ چند قابل اشاعت سطریں لکھنے کے قابل ہوگیا، داعی انقلاب اسلامی بننے کے خواب دیکھ رہا تھا اور اس کے پاس چندوں کی ریل پیل تھی۔ وہ فراٹے بھرتی گاڑیوں سے لے کر ائیر کنڈیشنڈ کمروں تک کی سہولتوں سے متمتع ہو رہا تھا لیکن علوم ِقرآنی کی غواصی کرنے والا یہ درویش صفت اسکالر بے نیازی کے ساتھ صدیوں پرانے ماحول میں بیٹھ کر اکیسویں صدی کے ذہنی معیارات سے مطابقت رکھنے والی تفسیر قرآن لکھتا رہا۔ ۱۹۷۷میں برادرم ذوالقرنین اور میں مولانا سے ملنے کے لیے رحمٰن آباد گئے تو ان کے چہرے پر وہی رونق تھی اور آنکھوں میں وہی شوخی اور چمک۔...بہت محبت سے ملے۔ تواضع کی۔ کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور پھر اپنے کھیتو ں کی سیر کرانے کے لیے باہر لے گئے۔ ہم نے دو تین گھنٹے مولانا کے ساتھ گزارے۔ اس دوران میں انھوں نے ایک لفظ بھی اپنی تنگی ِحالات کے بارے میں نہ کہا۔نہ اس ماحول کا ذکر کیا جس میں وہ بڑھاپے کے ماہ و سال گزارنے اور علمی و تحقیقی کام کرنے پر مجبور تھے۔ البتہ اس بات پر بہت مسرور اور مطمئن تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اتنی مہلت دی ہے کہ وہ اپنی تفسیر مکمل کرسکیں اور استاد نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت جو امانت ان کی سپر د کی تھی، اسے کتابی شکل میں منتقل کرسکیں۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۴۴)
گاؤں میں امین احسن کی واحد پریشانی طبی سہولتوں کی کمی تھی۔اصل میں ان کی اہلیہ محترمہ شوگر کی مریضہ تھیں۔جب ان کی حالت خراب ہوتی تو امین احسن بہت پریشان ہو جاتے تھے۔ بالآخر یہی پریشانی انھیں ۸ برس بعد لا ہور واپس لے آئی۔۱۹۷۹ء میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔
لاہور آنے کے بعد امین احسن اپنی بیٹی محترمہ مریم صاحبہ کے گھر رہے۔ آپ کے داماد میجر محمد انور صاحب تھے۔محترم جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور خالد مسعود صاحب کے داماد نعیم احمد بلوچ صاحب بتاتے ہیں کہ میں اورمحمد احسن تہامی صاحب یہاں جایاکرتے تھے۔ کبھی لان میں بیٹھ جایا کرتے تھے اور کبھی کمرے میں۔ ہماری چائے کے ساتھ تواضع ہوتی تھی اور چائے کے سا تھ ضرور کچھ نہ کچھ ہوتا تھا۔پہلے ہم بے قاعدہ طریقے سے جاتے تھے، پھر ہم نے ایک دن طے کرلیا۔ اگرچہ ہم نے اس کا اعلان نہیں کیا تھا، اس کے باوجو د مولانا کو ہمارا انتظار رہتا تھا۔ایک دفعہ ہم نہیں گئے تو مولانا نے کسی سے کہا : وہ لوگ کہا ں گئے ؟ چڑیا ں اڑ گئیں ؟ہمیں اس بات کا علم ہوا تو بڑا فخر محسوس ہوا۔مولانا کہا کرتے تھے کہ میں اپنی بیٹی کے گھر رہتا ہوں۔ میں راجپوت ہوں۔ راجپوتوں کے ہاں یہ بڑی شرم کی بات ہے، لیکن یہ جاہلانہ بات ہے۔ مجھ پر اس کا کو ئی اثر نہیں ہے۔ اس وقت مریم صاحبہ کا بیٹا اسکول میں پڑھتا تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ ’’سچے طالبوں کو راہ میں تکان لاحق نہیں ہوتی، اس لیے کہ عشق راہ بھی ہے اور منزل بھی۔‘‘