HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

اچھے اعمال والے غیر مسلم

[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی سوال و جواب]

سوال: اچھے اعمال والے غیرمسلموں کے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ ہو گا؟

جواب: قرآن مجید نے ایک واضح جواب دے دیا ہے کہ اس دنیا میں لوگ تین طرح کے ہیں:

ایک وہ لوگ ہیں جن تک کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی۔ نہ صرف ان تک نہیں پہنچی، بلکہ ان کے آبا واجداد کو بھی کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ان سے اتنا ہی حساب لوں گا جتنا علم میں نے ان کی پیدایش کے ساتھ ان کے اندر ودیعت کر دیا ہے۔ یعنی انسان اندھا اور بہرا پیدا نہیں ہوا، بلکہ وہ اخلاقی شعور اور ذات خداوندی کا شعور لے کر پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے سورۂ اعراف (۷) کی آیات ۱۷۲-۱۷۴ میں اس کو موضوع بنا کر بتایا ہے کہ ایسے بہت سے لوگ قیامت میں اٹھیں گے جو کہیں گے کہ اے پروردگار، ہم تک تو کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی، ہمارے تو آبا واجداد کو بھی کسی پیغمبر نے اپنا پیغام نہیں پہنچایا تو ہمیں کس بات کی سزا ہے؟ تو ان سے کہا جائے گا کہ وہ جو عہد میں نے تم سے لیا تھا اور وہ تمھارے اندر موجود ہے، میں اس کی بنیاد پر تمھارا مواخذہ کر رہا ہوں۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جن تک پیغمبروں کی دعوت پہنچ گئی۔ ان کے بارے میں بتا دیا گیا ہے کہ جو پیغمبروں کی تعلیم ان کو ملی ہے، اس کی بنا پر وہ جواب دہ ہوں گے، اس لیے کہ ان تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچ گیا۔

تیسرے وہ لوگ ہیں جن تک آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ گئی، ان پر حق واضح ہو گیا، ان کو معلوم ہو گیا کہ یہ خدا کی بات ہے اور انھوں نے اس کا اقرار کیا یا انکار کیا۔ ان سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کی بنیاد پر لوگوں کو الگ الگ کر دیا ہے۔ جب آپ ’غیرمسلم‘ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے ابھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سے یہ سوال ہو گا کہ انھوں نے آپ کو کیوں نہیں مانا؟ وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم پر یہ حق تو واضح ہو گیا تھا اورہمیں معلوم تو ہو گیا تھا کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں، مگر ہم نے جانتے بوجھتے انکار کر دیا تو پھر تو وہ بڑے مجرم ہیں۔ اگر کوئی آدمی کہتا ہے کہ مجھے تو بات پہنچی ہی نہیں، میری تو سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا، مجھے تو مسلمانوں کو دیکھ کر  یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ کوئی قابل تقلید لوگ نہیں ہیں۔ یہ وہ عذر ہیں جنھیں ان کا پروردگار چاہے گا تو قبول کر لے گا۔ قرآن نے جو اصول بتایا ہے، وہ یہ ہے کہ جس کے پاس جتنا علم ہے، اس کے لحاظ سے اللہ اس کے ساتھ معاملہ کرے گا۔

لہٰذا غیرمسلموں کے ساتھ بھی اسی اصول کے مطابق معاملہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہماری اقسام(categories) کے مطابق معاملہ نہیں کریں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو اصول بنائے ہیں، انھی کے مطابق معاملہ کریں گے۔[1]

ـــــــــــــــ


غیر مسلم کو مسجد میں عبادت کی اجازت

سوال: کیا غیرمسلموں کو مساجد میں عبادت کی اجازت دی جا سکتی ہے؟

جواب: کسی غیر مسلم کو شرک کے لیے تو مسجد نہیں دی جا سکتی، کیونکہ مسجد توحید اور اللہ کی عبادت کی جگہ ہے۔ ایک مسیحی یا یہودی اللہ کی عبادت اپنے طریقے پر کرنا چاہتا ہے تو وہ مسجد میں کر سکتا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا، یعنی اللہ کی عبادت اپنے طریقے پر۔ ہم مسلمان اللہ کی عبادت کرتے ہیں، جس طرح ہمارا نماز پڑھنے کا ایک طریقہ ہے، اسی طرح ان کا بھی ایک طریقہ ہے۔ چنانچہ اگر غیرمسلم مسجد میں آ کر صلیب گاڑ دیں یا سیدہ مریم علیہا السلام کی تصویر رکھ دیں تو اس کے لیے ان سے معذرت کی جائے گی اور انھیں مسجد نہیں دی جائے گی، کیونکہ ہمارے ہاں شرک کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ لیکن ہر شخص کو اپنے طریقے کےمطابق اللہ کی عبادت اور اس کی بندگی کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اگر وہ عبادت مسجد میں کرنا چاہیں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں اس کی اجازت دی ہے (الطبقات الکبریٰ ۱/ ۳۵۷)۔ [2]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B