HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

رفقاے المورد کے نام

[ زیرنظر تحریراصلاً ایک خط پر مبنی ہے۔اِس کی عمومی اشاعت مطلوب نہیں تھی۔ تاہم حال میں اِسے دیکھ کر رفقاے المورد، خصوصاً برادرم محمد حسن الیاس(اکیڈمک ڈائریکٹر غامدی سنٹر، امریکا) نے کھلے دل سے قدر افزائی کرتے ہوئے اصرار فرمایاکہ اِسے ضرور شائع کیا جائے۔لہٰذا اب بعد از نظر ثانی اِسے رفقا و ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
راقم مختلف مکاتب فکر، مدارس، اسکول وکالج اورمتعدد نیشنل اور انٹرنیشنل،دونوں طرح کے اداروں اور افرادسے بہت قریبی طورپروابستہ رہا ہے۔تاہم،تجربات شاہد ہیں کہ اِن تمام مذہبی اورغیر مذہبی اداروں کے درمیان ’’المورد‘‘ وہ واحد ادارہ ہے جو علمی تنقید کے معاملے میں اب تک ایک استثنائی ادارہ ثابت ہواہے۔ یہاں نہ صرف بشاشت کے ساتھ تنقید سننے،بلکہ اپنے خلاف باتوں کی اشاعت اور اُس کی حوصلہ افزائی کا ایک استثنائی ماحول پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اپنے نقطۂ نظر پر اب تک کی گئی تمام علمی تنقیدات کو المورد نے خود باقاعدہ اپنے ذاتی ویب سائٹ پرشائع کردیا ہے۔ دوسرے متعدد تجربات کے علاوہ، زیر نظر تحریرخود اِس علمی اور اخلاقی طرز عمل کا ایک زندہ ثبوت ہے۔
 زیرنظر خط دیکھنے کے بعد المورد کے تمام احباب نے نہ صرف اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، بلکہ اِس پر نظر ثانی کرکے اِسے ایک خط کے بجاے اب ایک مستقل تحریر کی صورت دینے کا مشورہ دیا تاکہ اِس کی افادیت واضح ہو اور لوگ سنجیدگی کے ساتھ اِس پر توجہ دے سکیں۔ چنانچہ پہلے اِس کو علی حالہٖ ماہنامہ اشراق، امریکا کے صوتی اور تحریری، دونوں ایڈیشن (مئی ۲۰۲۴ء) میں شائع کیا گیا۔ البتہ، اب مزید اضافہ ونظر ثانی کے بعد دوبارہ اِس کو شائع کیا جارہاہے۔
یہ برترعلمی اور اخلاقی روایت المورد کے محترم بانی اور مربی استاذ جا وید احمد غامدی نے مسلسل خود اپنے قول اور عمل سے قائم فرمائی ہے۔یہ وہ عظیم عملی نمونہ ہے جسے لازماً ہمارے اداروں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اِس کے بغیرنہ کوئی منظم اور کارآمد ٹیم بن سکتی ہے،اور نہ مطلوب اندازمیں کبھی ایک کامیاب ادارے کو چلایا جاسکتا ہے۔ جس ادارے میں خوے دل نوازی اور قدردانی کا فقدان ہو اور جہاں کھلے ذہن کے ساتھ اپنے خلاف سننے اور اُس کی حوصلہ افزائی کا یہ مطلوب ماحول نہ ہو، وہاں صرف مفاد پرستانہ مزاج اور فکری جمود پیداہو گا، نہ کہ علمی اور اخلاقی ارتقا۔اِس نامطلوب صورت حال کے ذمہ دار دوسرے لوگ نہیں،بلکہ صرف اداروں کے ارباب حل وعقد ہیں۔ یہی لوگ خود شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے گرد اِس قسم کا دہرا ماحول پیدا کرتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھی یا بری روایت ہمیشہ بڑے لوگ قائم کرتے ہیں، نہ کہ چھوٹے لوگ۔                                                                                                                                                  محمدذکوان ندوی]

              

استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ شعر وادب، فلسفہ وشریعت، اِسرا ومعراج، حکمت و قانون، نکاح و طلاق، اصول و مبادی اور نظم کلام جیسے علمی موضوعات پر گفتگو بہت اہم اور قابل قدرہے۔ ہم جیسے طلبہ کو چاہیے کہ وہ اِسے گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور فکر فراہی پر مبنی اِس عظیم علمی روایت سے بھرپور انداز میں استفادہ کریں۔ علم دین سے دل چسپی رکھنے والے افرادکے لیے اِن مباحث کی تفہیم اور تحقیق کا کام، بلاشبہ ضروری ہے۔ فکری بصیرت اور علمی استعداد کی اِس ضرورت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم، عالمی سطح کے پورے ایک ادارے اور اُس کے تمام افراد کا مستقل طورپر صرف چندمخصوص موضوعات تک محدود ہوکر رہ جانا ہرگز کوئی صحت مند طرز عمل نہیں ہوسکتا۔یہ صورت حال اکثر علمی اور ذہنی ارتقاکے بجاے فکری جمود کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، کیونکہ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ       جہاں سارے لوگ ایک ہی انداز میں سوچتے ہوں، وہاں عموماً جو کچھ ہو تاہے، وہ ذہنی ارتقا نہیں، بلکہ صرف فکر ی اور ذہنی جمود ہواکرتاہے: 

    When everyone thinks alike, no one thinks very much.

گروہی عصبیت اور تحزب سے اجتناب

اِسی کے ساتھ، ہمارے لیے انتہائی حد تک ضروری ہے کہ ہم مسلسل اپنی اخلاقی روایت کے مطابق، اِسی طرح اپنے آپ کو تمام تعصبات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ استاذ جاوید احمد غامدی نے ایک قرآنی لفظ ’رِجْس‘ (یونس ۱۰: ۱۰۰) کی وضاحت کرتے ہوئے ایک بار راقم سے فرمایا تھا کہ      ’رِجس‘ کی بہت سی قسمیں ہیں۔ چنانچہ تعصب بھی ’رِجس‘ کی ایک قسم ہے۔ تعصب،علم کا ’رِجس‘ ہے۔ تعصب حصول علم کے لیے نہ صرف ایک رکاوٹ ہے، بلکہ اِس سے علم اپنی خالص اور بے آمیز صورت میں باقی نہیں رہتا۔ تعصب، علم کو آلودہ اور ذہن وفکر کو جامد بنا کر رکھ دیتا ہے۔

 ایک زوال یافتہ قوم، بلاشبہ اکثر اپنے بڑے لوگوں کو نگل جاتی ہے۔ایسے لوگوں کا نصف اول، عموماً افکار کا جنگل طے کرنے میں، اور نصف ثانی اِس قوم کے درمیان پھیلے ہوئے بے معنی مسائل ومبا حث کا دنگل لڑ نے میں گزرجاتاہے۔ تاہم فکری اور تجدیدی نوعیت کے کام کا عزم لے کر اٹھنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتخابی طریقہ (selective pattern) اختیار کریں تاکہ وقت اور توانائی کو متعین اہداف پر مرتکز رکھ کر مطلوب کام انجام دیاجا سکے۔

یہ ہمارا اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم بہر صورت تہ دل سے اپنے اساتذہ کا احترام کریں۔ تاہم بہتر ہوگا کہ اِن جلیل القدرعلما اور اساتذہ کے لیے ہم ’قبلہ و امام‘ جیسے تقدیسی پس منظر رکھنے والے القاب کے بجاے ’استاد‘ اور ’معلم‘ جیسے معزز علمی الفاظ کا استعمال کریں۔ہمیں اپنے درمیان القاب سازی کے اُس مبتدعانہ کلچر کو ہرگز فروغ نہیں دینا چاہیے جو صرف مابعد رسالت دور میں پیدا ہونے والاایک عجمی ظاہرہ ہے۔اِس قسم کا ظاہرہ بتدریج اِن جلیل القدرعلما اور اساتذہ کے لیے’بے خطا‘ (infallible) اور’برتراززندگی‘ (larger-than-life) جیسے غلوآمیز تصورات کی افزایش کا سبب بنے گا، جواخلاقی بلندی اور علمی ارتقا، دونوں کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس طرح جمود، تفرقہ اور گروہ بندی کا وہ نامطلوب ظاہرہ پیدا ہوگا جسے قرآن میں سخت معیوب قرار دیا گیا ہے (الروم ۳۰: ۳۱- ۳۲)۔

کام کا مطلوب معیار

المورد دینی موضوعات پرتحریر وتحقیق اور اُس کی نشرواشاعت پر مبنی ایک علمی اور دعوتی ادارہ ہے۔ اِس طرح کے اداروں سے وابستہ افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اِس حقیقت کا زندہ استحضار رکھیں کہ صرف ایمان واخلاق کی روح ہماری کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار ہے۔

مجرد تحریروتحقیق کرنا، خطابت کے جوہر دکھانا، صوتی اور بصری پروگرام بنانا، کتب اور رسائل کا کاغذی دفتر تیار کرنا اور مضامینِ نو کا انبار لگادینا ہرگز کوئی دینی عمل نہیں۔مقبول دینی عمل (المائدہ  ۵: ۲۷) وہی ہے جس میں تقویٰ واخلاص کارفرما ہو، جس سے خود آدمی کے اندر خوف خدا (المومنون ۲۳: ۶۰۔ الدہر ۷۶: ۱۰) کا جذبہ بیدار ہو اور اُس کی اپنی شخصیت کے اندر ربانیت (آل عمران ۳: ۷۹) اور تزکیۂ نفس کا عمل جاری ہوسکے۔

ایمان واخلاق کوئی الگ چیز نہیں، اِس سے مراد وہی چیز ہے جسے قرآن میں باربار ایمان اورعمل صالح کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے، یعنی خداے برتر کی ذات وصفات پرسچا یقین اور اِسی یقین واذعان کے مطابق،عملاً اپنی پوری زندگی کی تعمیروتشکیل۔

اِس حقیقت پر عمل پیرا ہوئے بغیر،تحریر وتحقیق کی حیثیت محض ایک ایسے سیکولر کام کی ہوگی جس کی توفیق اِس دنیا میں کبھی ایک غیر دینی شخص کو بھی مل جاتی ہے (وإنَّ اللّٰهَ لَیُؤَیِّدُ هذا الدِّینَ بالرَّجُلِ الفاجِرِ. بخاری، رقم  ۶۶۰۶۔ مسلم، رقم  ۱۱۱)۔

اِس طرح کا ایک کام اُس وقت تک دینی عمل کا مصداق اور تزکیۂ نفس کا محرک نہیں بن سکتا، جب تک وہ ایمان واخلاق کے تقاضوں کو بیداراور اُس پر قائم کرنے کا ذریعہ ثابت نہ ہو۔

اِس روح کے بغیردعوت،تعلیم اورتحریر وتحقیق جیسے یہ تمام مظاہرصرف حبط اعمال (ہود  ۱۱: ۱۶) کا مصداق بن کررہ جائیں گے، خداوند ذوالجلال کے نزدیک اُن کی حیثیت ایک پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتی۔اِس اصل محرک کے بغیرعمل کی ابدی میزان میں اِن بے روح سرگرمیوں اور سیاہ وبے نورلکیروں کا ہرگز نہ کوئی وزن و تاثر ہوسکتا ہے، اور نہ ہی یہ مظاہررضاے الہٰی اور رحمت وبخشش کا سبب بن سکتے ہیں۔

اِس کے برعکس،ایمان واخلاق اور صدق واخلاص کے ساتھ کیا جانے والا عمل تزکیۂ نفس اور رضاے الہٰی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ یہی تزکیہ واخلاص ہماری صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور ہرحال میں ہمیں ایک بنیانِ مرصوص (الصف ۶۱:  ۴) کی طرح متحد ہوکر محض اللہ کی رضا، انسانیت کی بھلائی اور اُس کی ابدی فلاح و بہبود کے لیے تعلیم و دعوت اورعلم وتحقیق کے مطلوب کاموں کا پاکیزہ اور طاقت ور حوصلہ عطا کرے گا۔

علم اور معلومات کا فرق

خداکے دین میں،علم سے مراد مجردتعلیم ودعوت،تحریر وتحقیق اور صرف معلومات کا دفتر ہرگز نہیں، بلکہ علم سے مراد ایمان واخلاق کے تقاضوں کی تعمیل ہے۔قرآن میں ایسے ہی لوگوں کو اہل علم اور اہل عقل (الزمر ۳۹: ۹) قرار دیاگیاہے جو ایمان و اخلاق اور خشیت (فاطر ۳۵: ۲۸) کے اِن اوصاف سے بہرہ ور ہوں۔

چنانچہ صرف اُنھی لوگوں کو اہل علم (القصص ۲۸: ۸۰) تسلیم کیا گیا ہے جو دنیوی زینت، شہرت و وجاہت، مادی منفعت، زر وزمین کی بہتات، اورعہدہ ومنصب جیسی عارضی چیزوں کے مقابلے میں، ہمیشہ ایمان،عمل صالح اور صدق واخلاص جیسی ابدی چیزوں کو ترجیح دیں اور لوجہ اللہ، صبر وعزیمت کے ساتھ تاعمر اِسی راستے پر گام زن رہنے کی جدوجہدجاری رکھیں۔

نئی پیش رفت کی ضرورت

موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ دیگر متعلق صلاحیتوں کے حامل افراد مروجہ اور مخصوص قسم کے نظریاتی موضوعات پر کام کے ساتھ ساتھ، انسانیت کو درپیش اُن دوسرے علمی، فکری اور عملی امور کو بھی اپنے کام اور تحقیق کا موضوع بنائیں جو اِس عہد نو، خصوصاًمابعد کورونا(Post-Corona)دور میں پوری انسانیت کے سامنے مزید شدت کے ساتھ ابھرکر آگئے ہیں۔

مثلاً موجودہ زمانے میں خود دوا اور بنیادی غذائی اشیا میں پیداکردہ عظیم فساد(GMOs)اور دیگر خلاف فطرت سرگرمیوں کی بنا پر ’تغییر خلق‘(النساء ۴: ۱۱۹) کا مہلک ترین چیلنج انسانیت کو درپیش ہے۔اِس کے ذریعے سے عملاً ہر سطح پر انسان کو غیر انسان بنائے جانے (dehumanization)کا عمل انتہائی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹرانس ہیومن ازم(trans-humanism)یاماوراے انسانیت دور میں اب باربار یہ کہا جارہا ہے کہ          بطور انسان غالباً یہ ہماری آخری صدی ہوگی۔

 مشہوربرطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ (وفات: ۲۰۱۸ء)نے اِس خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ          ’مشینی ذہانت‘ کایہ لامتناہی ارتقا خود انسانی نسل کے خاتمے کی قیمت پر ہوگا:

The development of full artificial intelligence could spell the end of the human race. [The Economic Times, March 14, 2018]

 ’تغییر خلق‘ کے اِن نامطلوب فسادات کے نتیجے میں نہ صرف مہلک بیماری اور عدم تغذیہ کا ناقابل تلافی بحران پیدا ہوگیا ہے، بلکہ اِس فساد کے ذریعے سے خود اُس جوہر فطرت اورروح آدمیت ہی کا خاتمہ کیا جارہا ہے جو وحی اوررسالت کی اصل مخاطب ہے۔ لہٰذا ہمیں غور کرنا چاہیے کہ جب خود انسان انسان نہ رہے، اُس وقت کوئی ربانی دعوت کس طرح موثرثابت ہوسکتی ہے؟ ایسی حالت میں، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ دوسرے مطلوب کاموں کے ساتھ، اِس وقت ہمارا اولین ترجیحی کام کیا ہونا چاہیے۔

ایسی حالت میں، صرف بال وناخن کے مسائل، تطہیر بدن کے احکام، ازدواجی عمل کے شرعی حدود، ڈاڑھی و  پردہ کے آداب اورخواجہ سراؤں کے حقوق جیسے مباحث کی مسلسل تکرار کے بجاے، ضرورت ہے کہ قرآنی رہنمائی کے تحت، انسانیت کو در پیش دوسرے بہت سے اہم علمی اور عملی مسائل کو اپنا موضوع بنایا جائے۔   مثلاً: صنفی انارکی، ازدواجی بحران، سرمایہ دارانہ جبر واستحصال، ماحولیاتی آلودگی، موسمی تبدیلی، گلوبل وارمنگ، مسکرات اور منشیات کا سرطانی پھیلاؤ اور تمام بنیادی اشیاے خور و نوش، حتیٰ کہ پانی اور ہوا جیسی عمومی اشیا کو مہلک کثافت اور کیمیائی فساد سے بچاکر پاکیزہ اور صحت بخش بنانے کا عملی حل، موبائل ایڈکشن، سوشل میڈیا سنامی، حقیقی دنیا کے بجاے مفروضہ دنیا (virtual world) کا چیلنج جس نے اصل معرکۂ حیات سے کاٹ کر آج کے ’ترقی یافتہ‘ آدمی کو غیر آدمی (dehumanised) بناکر رکھ دیا ہے۔ اِسی طرح حقیقی زندگی (real life) کے بجاے فرضی زندگی (reel life)کے عظیم بحران کا چیلنج، وغیرہ۔

 کثیر لسانی اور کثیر الفنون صلاحیت کی ضرورت

اِس کام کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے اندرباقاعدہ طورپر کثیر لسانی اور کثیر الفنون صلاحیت (multilingual & multidisciplinary efficiency)پیدا کریں۔مثلاً قدیم مذہبی صحائف کی اصل زبانوں میں لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں سے، کسی ایک یاتمام سطحوں کی صلاحیت پیدا کی جائے  ــــــ عبرانی، ارامی، یونانی اورسنسکرت، وغیرہ؛ نیز عربی وفارسی کے ساتھ جرمن، ترکی، لاطینی، فرانسیسی اور انگریزی، وغیرہ۔ اِس سے اُن کا ذہنی افق مزید وسیع ہوگا اوروہ زیادہ گہرائی کے ساتھ متعدد فکری ابعاد اور مختلف علمی جہات سے واقعات کا بھرپور تجزیہ کر سکیں گے۔اِس ضروری استعداد کے بغیراِس زمانے میں، صرف مروجہ قسم کے محدود ذہنی اور علمی پس منظر کے سا تھ تجدیدواحیاے اسلام کا نازک کام مطلوب صورت میں انجام نہیں دیا جاسکتا۔

اِن ضروری’آلات‘ کے بغیرنہ تاریخ کی عمیق برما کاری (deep drilling) کا وہ عمل ممکن ہے جو اصل حقائق کو بے نقاب کرسکے، اورنہ چودہ صدیوں پر محیط عظیم فکری اورعلمی ملبے کے نیچے دفن بہت سے خزائن و باقیات تک رسائی ممکن نظر آتی ہے۔ اِس معاملے کی اہمیت کا شعور اگر بیدار ہوجائے تو اچھا ذہن اور قوت حافظہ رکھنے والے طلبہ کے اندر اِس قسم کی کثیر لسانی اور کثیر الفنون صلاحیت پیدا کرنا کوئی مستبعد شے نہیں۔ غالباً اِسی طرح کے بہت سے خزانوں کو دیکھ کر اقبال نے ایک صدی قبل یہ صدا لگائی تھی:

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے، سیپارہ

المورد کی استثنائی نوعیت

 الحمدللہ،اب تک المورد کے تحت کئی اسلامی موضوعات پر اہم ترین علمی اور تحقیقی کام کیا جاچکا ہے۔ اِس کام کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہوگا    کتاب وسنت۔ مرکزی تصور دین کے اِحیا و تجدیدکی عالمانہ جدوجہد۔ تاہم،  اب اِسی کے ساتھ ’لائف کوچنگ‘ (Life Coaching) کے اہم ترین عصری اور انسانی موضوعات پر بھی المورد کے احباب:جناب معز امجد،جواداحمد غامدی اورڈاکٹر شہزاد سلیم جیسے سنجیدہ اور علم دوست افراد کے ذریعے سے انتہائی قابل قدر کام انجام پارہاہے۔

 میرے علم کے مطابق، المورد ا پنے فکرومقاصد کے اعتبار سے، معروف معنوں میں نہ محض ایک روایتی قسم کا ادارہ ہے اورنہ اُس کے سنجیدہ اورذی علم وصا حب فکر احباب میری طرح صرف مدرسے کے فارغ التحصیل ایک مولوی۔ المورد اپنے نظم ومعیار، برتر اخلاقیات،ذوق جمال، اعلیٰ ادبی مذاق، علمی اور فکری وسعت، اور رفقاے کار کے جدید عصری اور اسلامی، دونوں پس منظر رکھنے کی بنا پر شاید دوسرے بہت سے اداروں کی بہ نسبت زیادہ اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنے پیش نظر دوسرے اہم مقاصد کی تکمیل کے ساتھ ساتھ، وقت کے حقیقی اور زندہ مسائل کو زیادہ بہتر طور پر ایڈریس کرے۔اِس طرح المورد کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ استاذ جاوید احمد غامدی کے اِس عظیم خواب کی تعبیر بن سکے:

اِس زمانے کو بھی دیں اور زمانہ کوئی

پھر اُٹھیں، ولولۂ علم و ہنر تازہ کریں!

 بعض مرتبہ عالمی پلیٹ فارم پرروایتی اور فرسودہ وغیر متعلق قسم کے مباحث اورلا حاصل فنی قیل و قال کی تکرار مسلسل دیکھ کر اکثر یہ خیال آتا ہے کہ جن چیزوں پر فراہی سے لے کر غامدی تک کے جلیل القدر اہل علم مسلسل لکھتے اور بولتے رہے ہیں، جدید بحرانی حالات میں بھی اُنھی مباحث پر اکتفا کرکے صرف چند مخصوص موضوعات پر بحث وتمحیص شاید اپنے وقت اور توانائی کا زیادہ بہتر استعمال نہیں۔تاریخ کا فیصلہ ہرگز ہمارے متعلق وہ نہیں ہونا چاہیے جسے اقبال نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا:

کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو!

ہمیں شعوری طورپر اِ س ابدی حقیقت سے باخبررہنا چاہیے کہ ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی بہت سے پتھر الٹنا، بہت سی وادیاں طے کرنا اور بہت سی اُن دیواروں کا انہدام باقی ہے جو خدا اور اُس کے بندوں کے درمیان ایک مقدس ’ابدی چٹان‘ بن کر مسلسل طورپر حائل ہیں:

گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کارِ مغاں

ہزار بادۂ ناخوردہ، دررگ ِ تاک است!

اِس صورت حال کو دیکھ کر بسا اوقت دل چاہتا ہے کہ اِس قسم کے مخلص اور باصلاحیت احباب سے اقبال کی زبان میں،غالب کے اِن معذرت خواہانہ اشعار کے ساتھ، عرض کیا جائے کہ:

میں جو گستاخ ہوں، آئین غزل خوانی میں

یہ بھی تیرا ہی کرم، ذوق فزا ہوتا ہے

رکھیو غالب، مجھے اِس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے!

 شاعر حقیقت علامہ اقبال کی یہ نواے سروش ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

اے اہل نظر، ذوقِ نظر خوب ہے، لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا!

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا، وہ ہنر کیا!؟

آتی ہے دمِ صبح صدا عرش بریں سے

کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک!

کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقیق

ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک!

باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری

اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری!

مروجہ روایات کی حمالی

واقعات کا گہرا اور بے لاگ تجزیہ بتاتا ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد اٹھنے والے بہت سے عظیم مرتبہ اکابر ائمۂ فن واصول سے لے کر تادم تحریر، ہمارے اکثر افراد صرف مروجہ فنی، فقہی، کلامی، اصولی، اکتشافی اور رہبانی دنیا کے صحرا نورد اور’قرون مشہود لہا بالخیر‘ کے بعدجاری تکییف (conditioning) کے تحت قائم اِجماع و تواترکے اُس عظیم فکری اور مذہبی پشتارہ کی بے لوث ’حمالی‘ (الجمعہ ۶۲: ۵) پر ماموررہے ہیں جس کے بیش تر حصے کو اللہ اوررسول کا استناد حاصل نہیں۔جو شخص یا گروہ تاریخ کی حمالی کے اِس بوجھ اور بصیرت کش تکییف کی اِس سیاہ دھند سے آزاد ہوکر روشن ضمیری اور بلندنظری کے ساتھ سوچنے کا حوصلہ رکھتا ہو، تاریخ کی امامت اب اُسی کامقدر ہوگی:

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق

جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے!

موت کے آئنے میں تجھ کو دکھاکررخِ دوست

زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے!

تاریخ کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہمارے درمیان عام، متداول اور رائج احباری روایت پر مبنی اِس پشتارے کا تانابانا اکثر قرآنی اور نبوی منہاج کے بجاے ’لتتبعنّ سنن من کان قبلکم...‘ (بخاری، رقم ۳۴۵۴۔ مسلم، رقم ۲۶۶۹)اور ’لیأتینّ علی أمتي، ما أتی علی بني إسرائیل، حذوَ النعل بالنعل...‘ (ترمذی، رقم  ۲۶۴۱۔ مستدرک حاکم، رقم  ۴۴۴) جیسی عظیم پیغمبرانہ اور چشم کشا پیشین گوئی کے مطابق، قدیم مذہبی ’تہوید،تنصیر اور تمجیس‘ (...فأبواہ یهودانه، أو ینصرانه، أو یمجسانه. بخاری، رقم ۱۳۸۵) پر قائم رہاہے۔

چناچہ اِس ’دین غریب‘ (إن ھذا الدین بدأ غریبًا، وسیعود غریبًا کما بدأ. تخریج العواصم والقواصم، شعیب الأرنؤوط۷/۳۰۹۔مسلم، رقم ۱۴۵)کا حال یہ ہے کہ اِس کا بڑا حصہ قرآنی اور نبوی فقہ ا ور ایمان وحکمت سے زیادہ،اِسی مذکورہ ’مذہبی پشتارہ‘ سے مستفاد اور اِنھی کھوٹے اور کم عیار جوہرات سے مالامال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس خرمن مستعار کی خاکستر میں اکثر نبوی فقہ و تفقہ (التوبہ ۹: ۱۲۲)، ایمان و اخلاق اور معرفت حق(المائدہ ۵: ۸۳) کے سوا،اورسب کچھ پایاجاتا ہے (فیه کلّ شيءٍ إلا الفقه والإیمان

 ہمارے اکثر متعربین و متغربین اور قدیم و جدید جامعات کے فارغین، اِسی زنداں کے اسیر اور اِسی مابعد عہد رسالت تکییف (Post- Prophetic Conditioning) پر قائم اُس شاکلے کی تقلید محض پر مجبور دکھائی دیتے ہیں جسے ’خلافت علیٰ منہاج النبوہ‘ (۶۳۲ء -۶۶۱ء)کے بعد ’دین فطرت‘ اور ’دین سماحت‘ (بعثتُ بالحنیفیة السمحة) کی جگہ ’اِصرواَغلال‘ (الاعراف ۷: ۱۵۷)پر مبنی ایک نئے احباری اور رہبانی ’مذہب‘ کے طورپر رائج کیاگیا۔ اقبال نے درست طورپر کہاتھا:

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں

نے جدت ِگفتار ہے، نے جدت ِکردار

یہ اِسی عظیم فساد کا نتیجہ تھا کہ علماے حق گم نام، مطعون اوراکثرغیرموثررہے اورہمارے درمیان اصل فیصلہ کن عامل و بنیاد کی حیثیت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بجاے عملاً صرف ’مذہبی‘ قیادت کو حاصل ہوگئی،اور ’ کتاب و سنت‘ دونوں بالآخر اُنھی کی تائید و تصویب پر منحصرہوکررہ گئے۔

چنانچہ عملاً یہ ہو اکہ مقتدیٰ اور میزان وفرقان کا وہ مقام جو صرف اللہ اور رسول کے لیے مخصو ص تھا، وہ ’مذہبی علماے اصول‘ کو عطا کردیا گیا۔دین اللہ میں اِس فساد کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصل ’قاعدہ‘ (کتاب و سنت) میں تحریف کا یہ عمل اِس معاملے میں گویااُس بدنام زمانہ ’القاعدہ‘ کے ہم معنی بن گیا جو عملاً ایک ایسی فکری دہشت گردی ثابت ہواجس کے نتیجے میں آزادانہ تحقیق کا دروازہ بند ہوگیا۔ چنانچہ اِس بحرانی صورت حال نے دین اللہ کے پورے ڈھانچے کو عملاً ڈائنامائٹ کرکے رکھ دیا۔

ظاہر ہے کہ جس نظام فکر میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بجاے ’احبار اور رہبان‘ (التوبہ ۹: ۳۱) دین اللہ کے لیے میزان اورفرقان بن کر’شارع اسلام‘ کے منصب پر فائز کردیے جائیں تو پھر اِس زمین و آسمان کے نیچے اِس سے بڑا فساد اور کیا ہو سکتا ہے: ’وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗ!؟(العنکبوت ۲۹: ۶۸)۔

چنانچہ شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ حال ہواکہ ہمارے اکثر ارباب علم با جبہ ودستار اِسی مابعد رسالت چھیڑے ہوئے سازپر رقص کناں، اِسی کے صغریٰ وکبریٰ کی تنقیح اوراِسی کے متعین کردہ منہج و خطوط کی بنیاد پر انتہائی سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ داد تحقیق دینے میں شب وروز مصروف رہے۔ تاہم اِس کے باوجود انسانیت عامہ اور ملت اسلامیہ کا قافلہ دن بدن ’هدٰي‘(البقرہ ۲: ۱۲۰) و صلاح کے بجاے ’هوٰي‘ (القصص ۲۸: ۵۰) و فساد کی طرف بڑھتارہا اور اِس طرح، بالفاظ قرآن، عملاً یہ ہوا کہ ’اصلاح‘ (البقرہ ۲: ۱۱) کے بجاے گویا صرف ’فی سبیل اللہ فساد‘ (البقرہ ۲: ۱۲) کا رول ہمارا مقدر بن کر رہ گیا۔

یہ تاریخ کا عجیب المیہ ہے کہ اب ہمارے اکثرادار ے اپنے مخصوص خول میں بند ہو کر عملاً صرف ایک قیمتی دارالاشاعت اور ایسے دار التراجم بن چکے ہیں،جہاں سے شائع ہونے والے لٹریچرکا بڑا حصہ، اپنی تمام ترافادیت کے باوجود، اصل علمی اور فکری سوالات کا جواب، انسانیت کے زخم کا مرہم، اُس کے درد کا درماں اور اُس کو درپیش مسائل کے حل وادراک سے یکسر خالی نظر آتاہے۔

چنانچہ اب یہاں ایسے لکھنے اور بولنے والوں کی کثرت ہے کہ ’’ابن مریم“ کے مقام پر فائز ہونے اور مسیحائی کا مقدس لبادہ اوڑھ لینے کے باوجود اُن کے پاس انسانیت کے درد کی کوئی دوا نہیں۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب نے شاید ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا:

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دو اکرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی

ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

چنانچہ ہمارے درمیان اب عملاً ایسی سرگرمیاں جاری ہیں جو محض قومی اور زوال یافتہ و بے روح مذہبی فکر و مراسم کی نمایندہ ہیں۔ اِن میں سے اکثر سرگرمیاں نہ انسان رخی (human-oriented) ہیں اور نہ اِن میں انسانیت عامہ کی بھلائی اور اُس کی فلاح کا کوئی سنجیدہ اور واقعی پروگرام نظرآتاہے۔

خلاصۂ کلام

اب حالات کا تقاضا اور وقت کی پکار یہی ہے کہ نبی امی علیہ السلام کے سچے امتیوں میں ایسے خالص اور مخلَص امیین(مابعد رسالت تکییف سے خالی افراد)اُٹھیں جو اِس خرمن مستعار کی خاکستر سے ایک نئی دنیا پیدا کریں، جو بے حسی اور مبتدعانہ روایت پرستی کا یہ طلسم توڑ کر دنیا کو علم، زندگی اور محبت کا تحفہ دے سکیں، جو اِس ’عالم ایجاد‘ میں ’صاحب ایجاد‘ بن کرکتاب وحکمت، عقل وفطرت اور پیغمبرانہ ہدایات پر مبنی’علم و ایمان‘ (الروم ۳۰: ۵۶) اور ’ربانیت وحسن اخلاق‘(بنی اسرائیل  ۱۷: ۲۳- ۳۹)کی وہ عالم گیر دعوت، صداے لاہوتی اور وہ ’نغمۂ جبرئیل آشوب‘ بلند کر سکیں جوصدیوں سے جاری اِس احباری تقدس اور اِس فکری جمود کے لیے ایک’ضرب کلیم‘ ثابت ہو اورجس سے عالم افکار میں ایک ایسا زلزلہ برپا ہو جس کا آج شاید زمین و آسمان کو سب سے زیادہ انتظار ہے۔یہ علمی، ایمانی،اخلاقی اور ربانی زلزلہ گویا صور اسرافیل سے پہلے ایک عظیم فکری بھونچال کے ہم معنی ہوگا:

دنیا کو ہے، اُس مہدیِ[*] برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار!

اِس سمع خراشی اورطویل جگر کاوی کے بعد اب آپ کا یہ ظلوم و جہول دوست حافظ شیرازی (وفات: ۱۳۹۰ء)کے اِس شعر کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتاہے:

بال بگشا و صفیر از شجر طوبی زن

حیف باشد چو تو مرغے کہ اسیر قفسی!

(لکھنؤ، ۱۵/ ستمبر ۲۰۲۰ء، نظر ثانی: اپریل ۲۰۲۴ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

[*] یہاں ’مہدی‘ کا لفظ معروف اصطلاحی مفہوم میں نہیں، بلکہ یہ اپنے وسیع تر معنوں میں ایک بلیغ ادبی تلمیح کی حیثیت سے استعمال کیاگیا ہے، یعنی مابعد رسالت تکییف سے خالی انسان۔

B