(۲/ مئی ۲۰۲۴ء کوجامعہ ہمدردمیں مدارس اسلامیہ اور عصر حاضر کے مطالبات پر منعقدہونے والے سیمینارکے لیے لکھا گیا)
موجودہ زمانے کا غالب طرزفکرجدیدیت یاماڈرنیٹی ہے،جس کا غلغلہ مغرب ومشرق ہرجگہ ہے اورجس کی یلغار سے مذہب،ثقافت اورتعلیم کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔جدیدیت نے جوچیلنج پیداکیے ہیں، وہ متعد د ہیں،ان کی جہتیں اورنو عیتیں مختلف ہیں۔مثال کے طورپر خدا،مذہب،شریعت،اخلاقی اقداراوران کے معیارات، سب اس کے چیلنجوں کی زدمیں ہیں۔
مدارس اسلامیہ جواسلا م کے قلعے سمجھے جاتے ہیں، مفروضہ یہ ہے کہ یہاں سے اسلام کے محققین پیدا ہوتے ہیں اوراسلام کی شر ح وترجمانی کا حق ان کے علاوہ کسی اورکونہیں دیا جا سکتا، کیونکہ وہ قرآن وسنت سے براہ راست واقف ہوتے ہیں، وغیرہ۔سوال یہ ہے کہ کیامدارس اسلامیہ جدیدیت کے چیلنجوں سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں ؟کیاوہاں کے اساتذہ اورطلبہ کوجدیدیت سے آشناکیاجاتاہے؟اورکیاوہ اس کے چیلنجوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں ؟ اگرنہیں تواس کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟اس مقالہ میں ان سوالوں اور ان سے متعلقہ مباحث کا جائزہ لیاجائے گا۔
’’ ویکیپیڈیا‘‘کے مطابق جدیدیت کی تعریف یہ ہے:
’’جدیدیت، ہیومینٹیز اور سوشل سائنسز کا ایک موضوع ہے، یہ ایک تاریخی دور بھی ہے اور خاص سماجی و ثقافتی اصولوں، رویوں اور طریقوں کا مجموعہ بھی، جو ۱۷ ویں صدی کی نئی سوچ اور عقلیت کے دور میں اور ۱۸ویں صدی کی روشن خیالی کے زمانے میں، یعنی نشاۃ ثانیہ کے بعد پیدا ہوا تھا۔‘‘ [1]
آپ کبھی ’جدیدیت‘ کا لفظ بولیں توجدیدلباس،نئے آلا ت ووسائل،بڑی بڑی عمارتیں اورروایت سے ہٹ کر نئے تصورات ذہن میں آتے ہیں، جب کہ مسلمان معاشروں میں جدیدیت سے مرادماڈرن لباس سے لے کرفلک بوس عمارتیں،سیکولر و مذہب بے زار خیالات، بلکہ بے حیائی و الحاد تک سب کو لے لیا جاتا ہے۔ جدیدیت کے محسوس مظاہر،نئے نئے فیشن اورزیادہ سے زیادہ کی ہوس، یعنی مادیت پرستی کوبجاطورپر اسلامی لٹریچرمیں تنقید کا نشانہ بھی خوب بنایا جاتا ہے، مگراس سے متعلق اصولی بحث خال خال ہی ملتی ہے۔
سولھویں صدی کے اوائل میں یورپ کے لوگوں نے ایک مختلف تہذیب کی بنیادڈالی تھی، جس کے لیے ان کو سائنسی مطالعات اورٹیکنالوجی کے لیے ترجمہ کے ذریعے سے یورپی زبانوں میں منتقل ہونے والے اسلامی و عربی منابع (کتب،علوم و ایجادات )سے بہت مدد ملی تھی۔ سولھویں اور سترھویں صدی میں وقوع پذیر ہونے والے اس سائنسی انقلاب نے ثابت کیا کہ کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کی وضاحت چند سائنسی قوانین کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس حقیقت کے ادراک نے کائنات کے بارے میں انسان کے تصورات کو یک دم تبدیل کر دیا۔ اس سائنسی انقلاب کے نتیجے میں کائنات ایک مشین کی طرح محسوس ہونے لگی، جس میں ہونے والا ہر واقعہ ایک دوسرے سے مربوط ہے۔
اِس تہذیب کی بنیادماضی کی زرعی معیشت کے بجاے مشینوں،کلوں،نئے علوم اورنئی ٹیکنیکس اورسرمایہ و ٹیکنالوجی پر تھی۔اِس تہذیب نے جوایک عمومی مغربی رویہ پیدا کیا، سادہ لفظوں میں وہی ماڈرنیٹی اورجدیدیت ہے، جواب پوری دنیاکا غالب طرزفکرہے۔اوراب صرف یورپ و امریکا تک محدددنہیں، ساری دنیامیں پھیل چکا ہے۔ہاں، فی زمانہ اس طرزفکرکا سب سے بڑا علم بردارامریکا ہے۔
جدیدٹیکنالوجی نے نہ صرف انسانوں کے سوچنے کے طریقے بدلے،ان کے ذہن ومزاج بدل دیے، بلکہ سائنس کے غلط استعمال سے آلودگی پیدا کی اور نظام فطرت کوچیلنج کیا۔جدیدانسان جینیٹک تبدیلیاں پہلے حیوانوں میں اوراب انسانوں میں پیداکرنے کے لیے پرتول رہاہے۔
جدیدیت ایک نظریہ بھی ہے اور ایک رویہ بھی۔اِس کے پیداکردہ چیلنجوں میں سرفہرست ڈاروینی ارتقا کے ذریعے سے خداکے وجودکوچیلنج کرناہے،جس کے مطابق یہ کائنات آپ سے آپ کچھ نیچرل قوانین کے تحت نیچرل کیمیکلز کے تعامل سے پیداہوگئی اوراس میں زندگی کا وجودبھی خودبخودہوا۔لہٰذا دین وشریعت اور اخلاق اس کے نزدیک سب اضافی قرارپائے۔جدیدیت کے علم برداروں نے ڈاروینی ارتقا کواصل مان کرپوری انسانی تاریخ کی اسی کے مطابق توجیہ کی ہے۔موجودہ دورکے ایک مقبول عام مصنف یوال نواحراری نے اپنی کتابوں میں خاص طور پر خدا،مذہب اور تہذیب، سب کومائنس کرکے انسانوں کی تاریخ لکھی ہے۔[2] حراری خاص طورپر مذاہب کی ابراہیمی روایت کے خلاف ہے۔اُس کا استدلال ہے کہ ابراہیمی مذاہب دوسرے عقائد و مذاہب کے تئیں روادار نقطہ ٔنظرنہیں رکھتے، بلکہ اپنے سچے ہونے پراصرارکرتے ہیں،لہٰذا دنیامیں بین المذاہب ہم آہنگی اِن کے ذریعے سے ممکن نہیں ہے۔اِسی نکتہ کو ہندوستان کے سیکولرونان سیکولر ہر دو قسم کے ہندو دانش ور اپنی گفتگوؤں اور تحریروں میں شدومدسے دہراتے رہتے ہیں۔حراری نے اِس بات پر بڑازوردیاہے کہ ابراہیمی مذاہب کے برخلاف مشرکانہ مذاہب دوسرے مذاہب وافکارکے تئیں زیادہ فراخ دل ہوتے ہیں۔اِس خیال کو ہندو دانش وروں میں خوب پذیرائی ملی ہے۔اپنی کتاب’’Homo Sapian‘‘ میں وہ کہتاہے :
‘‘The insight of Polytheism is conducive to far-reaching religious tolerance.’’(P: 239)[3]
۱۔جدید کاسمولوجی، جوسائنس وٹیکنالوجی نے تشکیل دی ہے، اس نے مذہب کے روایتی موقف پر جوسوال کھڑے کردیے ہیں، ان پر غور و فکر کرتے ہوئے پہلااصولی مسئلہ یہ سامنے آتاہے کہ آج ارسطوکا وہ ورلڈ ویو جو سترہ صدیوں تک دنیاپر چھایارہا، مسترد ہوچکا ہے۔اس ورلڈویومیں زمین کائنات کامرکز تھی، وہ ساکن تھی، سورج اس کے گردچکرلگاتا تھا (پرانی ادبیات میں اسی لیے آسمان کو گردوں کہتے تھے)، کائنات ارضی کا مرکز توجہ، مخدوم اورامین انسان تھا۔ بعض لوگ اس کوخلافت ارضی سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔اس ورلڈ ویومیں اسلام کے حامی اور مخالف، دونوں ایک ہی پیج پر تھے،مگراب وہ افسانۂ پارینہ ہے۔
آج جوورلڈ ویو دنیا کو رول کررہاہے، وہ گلیلیو،ڈیکارتے،نیوٹن،ہبل اورآئن اسٹائن وغیرہ کے سائنسی نظریات اور تحقیقات پر مبنی ہے۔سائنسی انقلاب نے یہ سوچ پیدا کی کہ کائنات قوانین فطرت کے تحت چل رہی ہے، جن میں خدا بھی دخل نہیں دے سکتا۔ اس انقلاب نے خدا کے تصور کو ختم تو نہیں کیا، لیکن اب کائنات کے ارتقا کو سمجھنے میں خدا کی ضرورت نہیں رہی تھی۔اب یہ تصور کیا جا سکتا تھا کہ اس کائنات کے نظام کو سمجھنے میں خدا کی ضرورت نہیں، ظاہرہے کہ یہ راستہ الحاد کی طرف جاتا ہے۔
اس ورلڈ ویوکے مطابق زمین سورج کے گردگھومتی ہے،سورج اوردوسرے ستارے وسیارے اپنے اپنے محور پر گردش میں ہیں۔ انسان کوکوئی خاص پوزیشن، (مثلاً اسلامی ادبیا ت میں خلیفہ فی الارض اور اشرف المخلوقات ہونا) اس زمین پر حاصل نہیں۔ بلینوں کہکشانوں پر محیط اس کائنا ت میں خودزمین ایک نقطہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ارتقا اوراب بگ ہسٹری کے تصورات نے مذہب کے نظریۂ تخلیق اورانسان کی خصوصیت و اشرفیت کوختم کرکے رکھ دیاہے۔اس میں انسان کو’An Animal of no significance‘ کہا جاتا ہے جوکہ حراری کی کتاب ’’Homo Sapian‘‘ کا پہلا باب ہے۔بگ بینگ یانیچرل ارتقا پر مبنی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہ اس کائنات کا کوئی مقصدہے اورنہ انسان کی تخلیق کا کوئی مقصدہے۔یہ کائنا ت ومافیہاسب نیچرکے اندھے قوانین کے تحت وجودمیں آئی اورانھی قوانین کے تحت اپنے آپ بے مقصدختم بھی ہوجائے گی۔ایسے میں خدا کا وجود، حشر نشر، آخرت وغیرہ کے تصورات سب غیرسائنٹیفک تصورات قرارپاتے ہیں۔
۲۔مذہب انسان کی جوتاریخ اورکہانی بتاتاہے، وہ پانچ چھ ہزارسال سے پیچھے نہیں جاتی، جب کہ بگ بینگ اور نیچرل ارتقا پر مبنی تاریخ عظیم بتاتی ہے کہ کائنا ت کی عمر قریباً تیرہ ارب سال ہے۔اس کے مطابق ہماری زمین سات ارب سال پہلے بنی اوراس پر زندگی کا وجودپانی میں تقریباً چار ارب سال پہلے ہوا۔زندگی نے مختلف ارتقائی منازل سے گزر کر بلینوں سال پہلے حیوانی قالب اختیارکیا۔ارلی انسان اورنیندرتھیل وجودمیں آئے، لاکھوں سال کے گزرنے اورنیچرل سلیکشن سے گزرتے ہوئے وہ ہنٹنگ گیدرنگ کے مرحلہ میں پہنچا۔ایک لاکھ نوے ہزارسال ہنٹنگ اورگیدرنگ کے مرحلہ میں رہنے کے بعدوہ آئس ایج اوراس کے بعدحجری زمانہ سے گزر کر زراعت کے دورمیں داخل ہوااورایک متمدن معاشرہ کی بنیادپڑی۔یہ مرحلہ بھی ختم ہوااورزراعت کے بعدموجودہ صنعتی معاشرہ وجودمیں آیا۔ [4]
تاریخ عظیم کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ بایولوجی کے اعتبارسے مردوعورت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔مختلف معاشروں میں ہم جوفرق ان دونوں میں دیکھتے آئے ہیں، وہ اصل میں کلچرل موثرات کی وجہ سے ہے، اس کی کوئی حقیقی وجہ نہیں۔’’Homo Sapian‘‘کے مصنف کا کہناہے کہ ’’انسانی سماج میں مردکے وظائف، عورت کے وظائف اور اس سے بھی آگے بڑھ کرانسانی جسم کے مختلف اعضا کے بامقصدوظائف کا تصوران نیچرل ہے۔ وہ اصل میں مسیحی تھیولوجی سے آیاہے، ورنہ بایولوجیکلی کسی چیز کا کوئی مقصد اور ہدف نہیں ہوتا۔ مردقوام ہے اور عورت گھرکی ملکہ ہے وغیرہ تصورات اصل میں انسانی Imagination کے ساختہ ہیں ‘‘۔[5] وہ کہتے ہیں کہ انسان بنیادی طورپر چیزوں کو imagine کرتاہے۔چنانچہ یہ انسانی کلچر،ثقافت وتہذیب،مذہب و روحانیت، اخلاقی احساس وغیرہ، یہ سب اس کی imagination کا نتیجہ ہیں اورایک mythہیں،ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔[6] یہ کاسمولوجی کہتی ہے کہ تاریخ blindly سفرکرتی ہے اوراس کائنات اوراس پر زندگی کا کوئی مقصد نہیں،ایک دن یہ یونہی Blindly ختم بھی ہوجائے گی۔ناظرین دیکھ رہے ہیں کہ یہ جوبیانیہ ہے یہ اپنے اندر مذہب، وجودباری تعالیٰ وغیرہ کے کتنے بڑے چیلنج رکھتاہے اورہماری اس فتنہ سے مقابلہ کی تیاری کیسی ہونی چاہیے، یہ کسی پر مخفی نہیں۔
۳۔تیسرا مسئلہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی کاپیداکردہ یہ ہے کہ آج جینیٹک انجیئنرنگ کے ذریعے سے، یعنی انسانی جینوم کو کنٹرول کرنے کے پروگرواموں کے ذریعے سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اپنے من پسندانسان پیدا کیے جاسکیں۔ کلوننگ کا عمل جوشروع میں ڈولی نامی بھیڑپر کیاگیااوراس کا ہم زاد پیدا کیا گیا تھا، اب بات اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اورپیڑپودوں،سبزیوں اوراناجوں سے گزرکراب حریم انسانی اس کی زدمیں آیا چاہتا ہے۔
جاپان میں مردوں کی آخری رسومات ایک روبوٹ انجام دے رہاہے،جرمنی میں چرچ کے اندرایک روبوٹ پادری کلیسائی مذہبی فرائض انجام دے رہا ہے۔ AIیعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس[7] کے ذریعے سے روبوٹ اب محض مشینی آلا ت نہ رہ کرانسانی ذہن وشعورکے حامل بھی ہوں گے اوروہ دن دورنہیں جب ہمارے امام و مؤذن روبوٹ ہواکریں گے۔دنیامیں مصنوعی ذہانت کا چرچاہے، جس سے بڑے بڑے کام لیے جارہے ہیں اور یہ ہر یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہے۔ترجمہ کے میدان میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہورہاہے۔کبھی فلموں میں اور فکشن میں روبوٹک بیویوں کی بات آیاکرتی تھی، مگراب تووہ سچائی بن کرانسانوں کے سامنے آنے والی ہے۔ سفاک اسرائیل فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے AI کااستعمال خوب کررہاہے۔توسوال دینیات اوراہل مدارس کے سامنے یہ ہوگاکہ روایتی معاشرتی احکام اِن نئے قسم کے اورانوکھی نوعیت کے انسانوں پر کس طرح لاگوہوں گے ؟ کیاوہ سرے سے شریعت کے مخاطب بھی رہ جائیں گے یا نہیں ؟یاان کے لیے کوئی اورہی فقہ ڈویلپ کی جائے گی ؟
۴۔جدیدیت نے ایک بڑاچیلنج سائنٹزم کا پیداکیا،جس میں سائنس کواٹھاکرمذہب کی جگہ دے دی گئی۔ انیسویں صدی میں اِس طرزکا بول بالا رہا۔ بیسویں صدی میں اِس پر خودمغرب میں بھی شدیدتنقیدیں ہوئیں۔ تاہم ڈاکٹرمحمداجمل کہتے ہیں کہ:
’’بیسویں صدی میں فلسفہ ٔمادیت سے بے زاری توپیداہوئی، لیکن اس کا تدارک اس طرح نہیں کیاگیاکہ لوگ اصل دین کی طرف لوٹیں، بلکہ اِس طرح کہ نت نئے خداؤں کی صنعت فروغ پاگئی۔ایسے ایسے فلسفے تعمیر کیے گئے جوبظاہرمذہبی معلوم ہوتے تھے، لیکن تحقیق کرنے پران کی بنیادبھی مادیت ہی نکلتی تھی۔برگساں ہو یا ولیم جمیز، ونگسٹائن ہو یا آئن اسٹائن سب کے سب درحقیقت مادیت کے پرستار تھے، لیکن انھوں نے نقاب روحانیت یامذہب کے اوڑھ رکھے تھے۔‘‘ [8]
ٹیکنالوجی کی نئی نئی ترقیوں نے اِس طرزفکرکودنیابھرمیں غالب کررکھاہے۔سائنٹزم کا دعویٰ ہے کہ سائنس کے پاس انسان کے ہرمسئلہ کا حل ہے، یہاں تک کہ موت کا حل بھی ڈھونڈنے کی کوشش جاری ہے۔ سائنس دان ایسے منصوبوں پر کام کررہے ہیں جن میں موت پر قابوپالیاجائے گایاکم ازکم انسان کی عمرکا دورانیہ مخصوص ڈرگز کے ذریعے سے ناقابل یقین حد تک بڑھالیاجائے گا۔اب کاریں،فریج وغیرہ آنکھوں کے اشاروں پرکام کریں گی۔ اس کے علاوہ انسان کے جسم پر ڈرگز کی حکمرانی ہوگی۔جینوم پراجیکٹ کے ذریعے سے مخصوص جین لے کرخاص قسم کے مطلوبہ انسان پیداکرنے کی تیاری ہورہی ہے۔انسان فطری غذاپر زندگی نہیں گزارے گا،بلکہ اب مصنوعی غذائیں Artificial food اور Synthetic food کا عادی ہوگا۔
۵۔انسانی زندگی میں مختلف جذبا ت کی بڑی اہمیت ہے اوربہت سے دینی احکام بھی انھی جذبات، مثلاًمحبت و الفت، رحم ومہربانی،نفرت وکراہیت،غصہ وحسدوغیرہ کی بنیادپر وجودمیں آتے ہیں۔انسانی تہذیب ان کی بنیاد پر ترقی کرتی ہے،سماجی رشتے ان سے بنتے بگڑتے ہیں۔اب ڈرگز اور دواؤں کے ذریعے سے ان کے جذبات کوختم کرنے،ان کو کنٹرول کرنے یاان کوبدل دینے کی بات کی جارہی ہے۔[9] حتیٰ کہ ایک بڑاپراجیکٹ انسانی جین پر تحقیق کے ذریعے سے اس امکان کوڈھونڈنے کی کوشش کررہاہے کہ موت کاخاتمہ انسان کی زندگی سے کیاجاسکتاہے یا نہیں۔ یا انسان کی زندگی کا دورانیہ بڑھا دیا جائے اور وہ ہمیشہ جوان رہے، اُسے کوئی مرض لاحق نہ ہو وغیرہ۔[10] اگر ایسا کسی بھی درجہ میں ہوجاتاہے تو اس سے روایتی فقہی احکام پر کیااثرپڑے گا؟ کیا ان چیزوں کوتغییرخلق اللہ کی قبیل سے سمجھاجائے گایانہیں ؟
ہمارے علما گذشتہ سوسال سے بھی زیادہ عرصہ سے تصویرکے مسئلہ سے الجھے ہوئے ہیں کہ آیافوٹومیں کسی شے کی حقیقت خودآجاتی ہے یااس کا عکس آتاہے ؟تصویراگرسرکٹی ہوتوجائزہوگی یا نہیں ؟ڈیجیٹل کیمرے سے لیے گئے فوٹوپر حدیث میں آئی وعیدکا اطلاق ہوگا یا نہیں وغیرہ۔سوال یہ ہے کہ اب سائنس وٹیکنالوجی جس دنیا کو سامنے لارہے ہیں، اس میں ہمارے یہ فقہی قواعدوضوابط کچھ کام دیں گے ؟فی الحال کیتھولک چرچ کی مخالفت کی وجہ سے اورکچھ اوراسباب سے بعض ملکوں میں سائنس کوکچھ پابند کیا گیا ہے اور اس کی تحقیقات پر کچھ قدغنیں عائدکی گئی ہیں، مگرتابکے ؟جب یہ جن بوتل سے باہر آئے گاتونطشے نے توGod is dead کہہ دیا تھا، مستقبل قریب کا انسان فرعون کی زبان میں کہے گاکہ ’’میں پیداکرتاہوں اورمارتاہوں، اس لیے میں ہی خدا ہوں‘‘۔ یعنی سائنس دان ہی ’أنا ربكم الأعلٰي‘ کا نعرہ مارے گا۔حراری نے مستقبل قریب کے اِسی انسان کو Homo Deus (دیوتا انسان)سے تعبیرکیاہے۔
یہ ہیں نئی کاسمولوجی کے وہ پہلوجوارتقااورنیچرل ہسٹری کی بنیادپرمذہب کے بالمقابل کائنات کے آغاز و ارتقا اور زندگی کی تخلیق کا نیابیانیہ ہمارے سامنے لارہاہے۔یہ اپنے اندرمذہب کے لیے کتنے خطرے لیے ہوئے ہے، ہماری معروضات سے یہ بات کسی حدتک سامنے آجاتی ہے۔اب اہل مذہب اوراہل مدارس کوسوچنایہ ہے کہ اس خطرے سے مقابلہ کی کیاتیاری ان کے پاس ہے ؟وہ اپنے طلبہ کواِن چیلنجوں کے بارے میں بتارہے ہیں یا نہیں؟ بظاہر توجواب نفی میں ہی ہے۔
۶۔ٹیکنالوجی کی یہ حیرت انگیزترقیاں ایسی ہیں کہ اِن کے سہارے اب سائنس پرست مذہب کا بطلان ثابت کررہے ہیں۔غرض جدیدیت یاماڈرنیٹی نے جوچیلنج پیداکیے ہیں، وہ بڑھتے ہی جارہے ہیں اوران کی حشر سامانیوں کا سامنااہل مذہب نہیں کرپارہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج الحاددورجدیدکا نیامذہب بن چکاہے۔یہ درست ہے کہ ساری دنیامیں مذہب وروحانیت کی طرف لوگوں کا دوبارہ رجحان بڑھا ہے، مگرساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ آج دنیا میں جتنے بڑے پیمانہ پر لامذہب،لاادری،اورملحدین موجودہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔آج کے الحاد کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی اور نئی کاسمولوجی کے پیداکردہ سوالات و اشکالات ہیں۔ وہ Reason اور استدلال سے لیس ہے۔[11] جس کا جواب دینے اورمقابلہ کرنے کے لیے مذہبی تنظیموں،علمااوراہل مدارس کو ماڈرنیٹی اور اس کے چیلنجوں کوسنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔آج جگہ جگہ ایکس مسلم (مرتدین )نظرآرہے ہیں، جو اپنے یوٹیوب چینلوں اورویب سائٹوں کے ذریعے سے دین ومذہب، خصوصاًاسلام پر حملہ آورہیں اوران کے دلائل بھی زیادہ تروہی ہیں جودہریے اورلامذہب استعمال کرتے ہیں۔جن میں ابن وراق اورایان ہرسی علی کی تحریریں بہت زہرآلودہوتی ہیں۔
موجودہ مدارس اسلامیہ کا نصاب کم وبیش دوصدیوں پراناہے۔اس پورے عرصے میں دنیامیں فکروعمل کی سطح پر بڑی تبدیلیاں آئیں،بڑے بڑے انقلابا ت انسانوں کے فکر،طرززندگی اورعمل میں آئے، مگرمدارس نے شروع سے ہی اپنی کھڑکیاں بندکرلی تھیں، اس لیے ان کواِن میں سے کسی چیزکی بھی ہوا نہیں لگ سکی۔ایک آدھ استثنا کے ساتھ مدار س اسلامیہ آج بھی کم وبیش اسی رویہ پر قائم ہیں۔
علماے کرام اور اہل مدارس میں جدیدیت کو سمجھنے، اس کے چیلنج کو جاننے اور اس سے مکالمہ کرنے (engage) کرنے کی خواہش عموماً نہیں پائی گئی۔علما کی صفوں میں اُس کے بعض مظاہرکوسمجھنے اوران کے جواب کو کافی سمجھ لیاگیا۔اورایسے علما کوانگلیوں پر گناجاسکتاہے جنھوں نے سائنس اورماڈرنیٹی کوسنجیدگی سے لیا ہے۔ مثلاًسرسید احمد خان، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا شہاب الدین ندوی، عبدالباری ندوی اور مولانا وحید الدین خاں وغیرہ۔ جدیدیت کے سیاسی مظاہر و عمرانی تصورات پر مولانا مودودی نے زبردست تنقیدیں کی ہیں اوراس کے سائنسی کلامی پہلوؤں کا مطالعہ اور ان کا جواب مولانا وحید الدین خاں نے دیا ہے۔ [12]
ماڈرنیٹی، جدیدیت یامغربی فکرکے ردوقبول کے سلسلہ میں مسلمان اہل فکرمیں تین طرح کے موقف سامنے آئے:
۱۔مغربی فکرکوجوں کا توں قبول کرنایہ سرسیداوران کے رفقا کی راے تھی اوربدقسمتی سے مغربی فکرکے بہت سطحی وسرسری مطالعہ ومشاہدہ پرمبنی تھی۔
۲۔اس فکر کو قطعی طورپرمستردکرنایہ روایتی علما کا نقطۂ نظرتھا۔
۳۔تیسرا موقف ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ کے اصول پرمبنی تھااوریہ کم وبیش تما م اسلامی احیائی تحریکوں نے اپنایا اور بتدریج روایتی نقطہ ٔنظربھی اسی کی طرف مائل ہوتاچلاگیا۔
مگر مدارس کے نصابات کو عموماً اس سے دور ہی رکھا گیا ہے۔ اور آج بھی کم وبیش یہی فضا برقرار ہے۔ جو مدارس اپنے نصاب اورنصاب تعلیم میں بہت ماڈرن،روشن خیال اورمتحرک سمجھے جاتے ہیں، ان کے نصابات بھی جدیدیت کے بعض سطحی مظاہر کو چھو کر گزر جاتے ہیں، مثلاً ان میں معاشیات،نفسیات اورسیاسیات کا کچھ نہ کچھ تعارف کرا دیا جاتا ہے اورتھوڑی سی انگریزی پڑھادی جاتی ہے۔اللہ اللہ خیرصلا۔مدرسہ ڈسکورسزپروگرام نے، البتہ اِس سے خاصااعتنا کیاتھا اورمنتخب فضلاے مدارس کواسلامی کلامی روایت کے پہلوبہ پہلوجدیدیت اور اس کے چیلنجوں سے متعارف کرانے کی کوشش کی تھی۔[13]
جدیدیت پر اردومیں اسلامی نقطۂ نظرسے کچھ خاص نہیں لکھا گیا، البتہ اردوکے بڑے ادیب وناقدحسن عسکری نے (جن کا مغربی ادب انگریزی اورفرنچ کا گہرا مطالعہ تھا) ایک تعارفی کتاب ’’جدیدیت یا مغربی گم راہیوں کا ایک خاکہ‘‘ کے نام سے طلبہ ٔمدارس کے لیے لکھی تھی ۔[14]
یہ کتاب اصلاً ایک فرنچ مسلم کنورٹ رینے گینوں (عبد الواحد یحییٰ)کے مغرب پر ناقدانہ خیالات کی تلخیص تھی، اور دارالعلوم کراچی کواس کواپنے نصاب میں شامل کرنا تھا، مگرو ہ کی نہیں گئی۔یہ کتاب راقم کے مطالعہ میں آئی ہے۔اس میں دو کمیاں ہیں: ایک تو حوالوں سے معری ٰ ہے۔ دوسرے اس میں مغرب کے بارے میں انتہا پسندانہ موقف اپنایاگیاہے۔
جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے کہ مدارس اس مسئلہ سے اپنے طلبہ کوکیسے واقف کرائیں تواس کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جاسکتے ہیں :
۱۔مولاناوحیدالدین خاں کی منتخب کتب، مثلاً ’’علم جدیدکا چیلنج ‘‘ کامطالعہ طلبہ کے لیے لازمی کردیاجائے اور اس پر نمبرات دیے جائیں۔
۲۔جدیدیت پر تعارفی لٹریچرکا مطالعہ کرایا جائے، خاص کر منتہی درجات کے طلبہ سے ۔
۳۔اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر ماہرین سے مطالعے کرائے جائیں ۔
۴۔ انگریزی میں یا اردو میں اس موضوع پر متعلقہ کتب کے مخصوص ابواب کا مطالعہ کرایا جائے، مثلاً چارلس ٹیلرکی کتاب ’’The Secular Age‘‘ کی بعض فصلوں کا مطالعہ۔
۵۔اس موضوع پر مدرسہ ڈسکورسزکے بانیان اوراساتذہ کے صلاح ومشورہ سے مزیدتعارفی لٹریچر تیار کرایا جاسکتا ہے۔اس عمل کے لیے مدارس کے موجودہ درس نظامی (یادوسرے نصابات )میں فرسودہ مضامین اور کتب کی غیرضروری تکرارکوختم کرکے نصابی بوجھ کم کرکے گنجایش پیداکی جاسکتی ہے۔
یابڑے مدارس، مثلاً دارالعلوم دیوبند،دارالعلوم ندوۃ العلما،مدرسۃ الاصلاح،جامعۃ الفلاح اورجامعہ اشرفیہ و جامعہ سلفیہ وغیرہ میں الگ سے شعبے کھولے جاسکتے ہیں، جن میں یک سالہ کورس کے ذریعے سے افتاء،دورۂ حدیث اور تخصص و فضیلت کرچکے منتخب فضلا کومغربی فکر اور انگریزی زبان، سائنس اور جدید فلسفہ سے متعارف کرایا جائے۔
بقول حسن عسکری ۱۹۳۰ء کے قریب مولانااشرف علی تھانوی نے فرمایا تھا کہ ’’میری آنکھیں تویہ دیکھ رہی ہیں کہ اب اسلام کی حفاظت کرنے والے یورپ سے اٹھیں گے‘‘، [15] لیکن علما واہل مدارس نے ان کے قول پر کوئی توجہ نہیں کی۔نہ یورپ کے نئے انقلاب کوجاننے کی کوشش کی اورنہ اس سے مقابلے کی تیاری کی۔اسی طرح ’’تجدیدواحیاء دین ‘‘ میں مولانامودودی نے بھی تحریک شہیدین کی ناکامی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا ماتم کیا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’انھوں نے سب کچھ کیا، مگر اتنا نہیں کیا کہ ایک وفدبھیج کریہ پتا لگانے کی کوشش کرتے کہ اِس نئی تہذیب کی طاقت کا رازکیاہے‘‘۔[16] لیکن بعدمیں تحریک اسلامی نے بھی اِس ضروری کام پر کماحقہٗ توجہ نہیں دی۔
جس طرح مغرب میں اسلام اوراسلامی علو م کے مطالعہ وتحقیق کے لیے استشراق کو رواج دیا گیا،اُسی پیٹرن پر عالم اسلام میں مغرب کوسمجھنے اوراس کی فکرپر مطالعہ وتحقیق کے لیے استغراب (مطالعہ ٔغرب)کا سلسلہ قائم ہونا چاہیے تھا، جو افسوس کہ نہیں ہوسکااوراب بھی مسلم دنیامیں ایساکوئی ادارہ نہیں ہے جہاں اس موضوع پر کام کیا جاتا ہو۔ایساادارہ یاایسے افرادتیارکرناجواسلام کے عالم ہونے کے ساتھ ہی مغربی فکرکے بھی ماہر ہوں، وقت کی اولین ضرورت ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ ملاحظہ ہو:
‘‘Modernity, a topic in the humanities and social sciences, is both a historical period and the ensemble of particular socio-cultural norms, attitudes and practices that arose in the wake of the Renaissance—in the Age of Reason of 17th-century thought and the 18th-century Enlightenment.’’
نیزحسن عسکری :جدیدیت یامغربی گم راہیوں کا خاکہ،مشمولہ مجموعہ حسن عسکری انٹرنیٹ پربھی دستیاب ہے۔
[2]۔ یوال نو احراری اسرائیلی ینچرلسٹ مؤرخ اور ماہر مستقبلیات ہے۔ اس کی تین کتابیں مشہور ہیں:
‘‘ Homo Sapian’’, ‘‘Homo Deus’’ and ‘‘21 Lessons for 21 century ’’.
[3]۔ حالاں کہ یہ یُوال نواحرار ی اوراس کے مقلد دانش وروں کی بے بصیرتی ہے۔
وہ اپنے بیانات میں اِس بات کوبالکل نظراندازکرجاتے ہیں کہ ہندومذہب نے اپنے احیائی عہدمیں دوسرے مذاہب، خاص طورپر بودھ مت کے ساتھ کیساسلوک کیاتھاکہ اس کے نشانات تک مٹاکررکھ دیے۔ایک ہندوراجہ پشپامترانے ۸۰ہزارسے زائدبودھ استوپا (معابد)کوتباہ کردیاتھا۔
[4]۔ ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی،کائنات کا آغاز وارتقاء،ماہنامہ اشراق المورد لاہور، جنوری /فروری ۲۰۲۱ء۔
[5]۔ ملاحظہ ہو:An imagined order ص ۱۱۴۔
[6]۔ ایضاً صفحہ ۱۲۳۔
[7]۔ مصنوعی ذہانت کی سادہ تفہیم کے لیے دیکھیے :مصنوعی ذہانت اورتعلیمی ترقی،ڈاکٹرمحمدی شیخ، تہذیب الاخلاق، اپریل ۲۰۲۴ء، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔
[8]۔ مجموعۂ حسن عسکری، ص ۱۱۷۷،پیش لفظ۔
[9]۔ ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی،نئی کاسمولوجی کا چیلنج،ماہنامہ اشراق ہند اکتوبر ۲۰۱۹ءالمورد فاؤنڈیشن الہند۔
[10]۔ جینوم پراجیکٹ کے لیے دیکھیے ویکیپیڈیا:
‘‘Genome projects are scientific endeavours that ultimately aim to determine the complete genome sequence of an organism and to annotate protein-coding genes and other important genome-encoded features. The genome sequence of an organism includes the collective DNA sequences of each chromosome in the organism. ’’
[11]۔ ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی، جدید الحاد کا چیلنج، ماہنامہ رفیق منزل، اکتوبر۲۰۱۸ء اور رچرڈ ڈاکنز کی ویڈیوز یوٹیوب پر
https://www.youtube.com/watch?v=bdvoe0j4Hjw
[12]۔ ملاحظہ ہو: مولانا وحید الدین خاں، علم جدید کا چیلنج، مذہب اورسائنس، اسلام دور جدید کا خالق، عقلیات اسلام، کتاب معرفت اور کتاب حکمت وغیرہ۔
[13]۔ مدرسہ ڈسکورسز انڈیا ۲۰۱۶ء-۱۹ء تعارفی کتابچہ پس منظر اور اہداف،Contending Modernities N.D. EDU۔
Keugh School of Global Affaires University of Notre Dame۔یہ پروگرام پروفیسر ابراہیم موسیٰ نے شروع کیاتھاجوبیک وقت مشرقی ومغربی علوم کے جامع ممتاز اسکالرہیں اورنوٹرے ڈیم یونیورسٹی (امریکا ) میں اسلامیات کے پروفیسرہیں۔ اپنی ایکٹیوصورت میں تویہ پروگرام فی الحال معطل ہے، البتہ محاضرات کے ذریعے سے اس کا تسلسل باقی رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس لنک پر جائیں:
https://madrasadiscourses.org/
[14]۔ مجموعہ ٔحسن عسکری،ص ۱۱۷۸ ۔ عسکری اپنے مذہبی اورتنقیدی، دونوں ہی خیالات میں انتہاپسندتھے۔اس کے بعد ان سے متاثر ایک مکتب روایت پاکستان میں وجودمیں آیاہے، جس میں ناقدسلیم احمد اور ان کے شاگرد احمد جاوید، جاوید اکبر انصاری، عبد الوہاب سوری،خالد جامعی اور دین محمد جوہر خاص ہیں۔ انھوں نے جامعہ کراچی میں تفہیم مغرب کے عنوان سے کام کیاہے(جامعہ کراچی دارالتحقیق براے علم و دانش) مگراپروچ بہت جارحانہ اور انتہاپسندانہ محسوس ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں کاایک لنک یہ ہے:
http://kurfku.blogspot.in/?m=0
[15]۔ مجموعہ ٔحسن عسکری،ص ۱۱۷۲ ۔
[16]۔ دیکھیے: مولانا مودودی، تجدید و احیاء دین : اسلامک پبلیکیشنز لاہور، مئی ۱۹۹۹ء، ص ۱۲۵-۱۲۸۔