[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
ہمارے بچپن میں ہمیں یہی بتایا جاتا تھا اور اپنی نصاب کی کتابوں میں بھی ہم نے یہی پڑها کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں جاتے تھے اور وہاں کئی کئی دن غور کرتے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیسے کروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے سخت بے زار تھے کہ ان کی قوم بتوں کی عبادت کرتی تھی۔وہ اللہ تعالیٰ کو وحدهٗ لا شریک نہیں مانتے تھے۔انھوں نے خانۂ کعبہ میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے ۔ ہر ایک بت اپنے قبیلے کی نمایندگی کرتا تھا۔ عربوں نے فرشتوں کی مورتیاں بنا کر خانۂ کعبہ میں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ہم اگر ان کی عبادت کریں گے تو یہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضورہماری سفارش کریں گی۔
ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تشریف فرما تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر بولے ’اِقْرَأ‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بولے: ’ما أنا بقارئ‘۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے دو تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کو دبایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے لگ گئے۔جب حضرت جبریل واپس چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو کہنے لگے: ’زملوني ، زملوني‘ (مجھے چادر اوڑھا دو،مجھے چادر اوڑھا دو)۔ حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر اوڑھا دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ سے فرمانے لگے کہ مجھے جان کا اندیشہ ہے اور پورا واقعہ حضرت خدیجہ کو بتایا۔
حضرت خدیجہ نے جب پورا واقعہ سنا تو فرمانے لگیں کہ آپ بہترین انسان ہیں ، غریبوں کی مدد کرتے ہیں، یتیموں کا آسرا ہیں،بیماروں کی عیادت فرماتے ہیں ،صادق اور امین ہیں ۔آپ کا رب آپ کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ حضرت خدیجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کسی قریبی رشتہ دار، جن کا نام ورقہ بن نوفل تھا، کےپاس لے گئیں۔ جب ورقہ بن نوفل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکها اور کچھ سوال وجواب کیے تو حضرت خدیجہ سے کہنے لگے کہ یہ وہی ناموس ہے جس کا ذکر تورات میں ہے۔یہ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔کاش، میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ کو ہجرت کرنے پر مجبور کردے گی۔
اس کے علاوه صحیح بخاری میں ہے کہ:
عن عروة بن الزبیر عن عائشة أم المؤمنین أنها قالت: أول ما بدئ به رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم من الوحي الرؤیا الصالحة في النوم فكان لا يری رؤيًا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراءٍ فيتحنث فيه وهو التعبد الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلی أهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلی خديجة فيتزود لمثلها حتی جاءه الحق وهو في غار حراءٍ فجاءه الملك فقال: اقرأ، قال: «ما أنا بقارئٍ» قال: «فأخذني فغطني حتي بلغ مني الجهد ثم أرسلني» فقال: اقرأ، قلت: «ما أنا بقارئٍ، فأخذني فغطني الثانية حتی بلغ مني الجهد ثم أرسلني» فقال: اقرأ، فقلت: «ما أنا بقارئٍ، فأخذني فغطني الثالثة ثم أرسلني» فقال: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ﴾، فرجع بها رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم يرجف فؤاده فدخل علی خديجة بنت خويلدٍ رضي اللّٰه عنھا فقال: «زملوني، زملوني» فزملوه حتی ذهب عنه الروع فقال لخديجة وأخبرها الخبر: «لقد خشيت علی نفسي» فقالت خديجة: كلا واللّٰه ما يخزيك اللّٰه أبدًا إنك لتصل الرحم وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضيف وتعين علی نوائب الحق فانطلقت به خديجة حتی أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزی بن عم خديجة وكان امرأ تنصر في الجاهلية وكان يكتب الكتاب العبراني فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء اللّٰه أن يكتب وكان شيخًا كبيرًا قد عمي فقالت له خديجة: يا بن عم، اسمع من بن أخيك، فقال له ورقة: يا بن أخي، ماذا تری؟ فأخبره رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم خبر ما رأی، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل اللّٰه علی موسی يا ليتني فيها جذعًا ليتني أكون حيًا إذ يخرجك قومك، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم: «أو مخرجي هم»؟ قال: نعم، لم يأت رجلٌ قط بمثل ما جئت به إلا عودي وإن يدركني يومك أنصرك نصرًا مؤزرًا ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحي.(بخاری، رقم ۳)
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا اچھے خواب سے ہوئی جو صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتے۔ پھر آپ کے لیے تنہائی پسندیدہ بنا دی گئی۔ آپ غار حرا میں خلوت گزیں رہتے۔ وہاں وہ کئی کئی دن تحنث، یعنی عبادت میں مشغول رہتے۔ اس کے بعد وہ اپنےاہل خانہ کی طرف لوٹ جاتے۔وہ اپنے ساتھ وہاں قیام کے لیےکھانے پینے کا سامان لے جاتے اور واپس اپنی اہلیہ کی طرف مزید کھانا لینے کے لیے لوٹتے۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، یہاں تک کہ حق آپ پر نازل ہوا، جب کہ آپ غار حرا میں تھے۔ چنانچہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہا: پڑھو، آپ نے جواب دیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ نبی صلى الله علیہ وسلم نے مزید کہا: فرشتے نے مجھ کو پکڑا اور اس زور سے بھینچا کہ میں برداشت نہ کر سکا۔ سو اس نے مجھے ڈھیلا چھوڑ دیا اور پھر کہا: پڑھو، میں نے جواب دیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید کہا: فرشتے نے مجھ کو پکڑا اور اس زور سے بھینچا کہ میں برداشت نہ کر سکا تو اس نے مجھے ڈھیلا چھوڑ دیا اور پھر کہا: پڑھو، آپ نے جواب دیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر فرشتے نے مجھ کو تیسری مرتبہ پکڑا اور بھینچا اور چھوڑ دیا اور پھر کہا:’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ‘۔ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر واپس آ گئے، جب کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا۔ آپ خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور ان سے کہا: مجھے اوڑھادو، مجھے اوڑھادو تو انھوں نے آپ کو اوڑھادیا۔ جب ان کا خوف دور ہوا تو آپ نے خدیجہ سے گفتگو کا آغاز کیا اور انھیں جو کچھ پیش آیا، اس سے ان کو باخبر کیا اور کہا: مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ اس پر خدیجہ نے جواب دیا: ہرگز نہیں، خدا کی قسم، وہ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ قرابت مندوں کے حقوق کی پاس داری کرتے ہیں، کم زوروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محروموں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ بعد ازاں حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں۔ زمانۂ جاہلیت میں وہ نصرانی ہو گئے تھے۔ وہ عبرانی لکھنا جانتے تھے اور انجیل سے جو کچھ خدا چاہتا، لکھتے تھے۔ وہ اس وقت بہت عمر رسیدہ تھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ چنانچہ حضرت خدیجہ نے ان سے کہا: ذرا سنیے، یہ آپ کے بھانجے کیا کہتے ہیں۔ سو ورقہ نے کہا: بھانجے، تم نے کیا دیکھا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جو کچھ دیکھا تھا، اس سے باخبر کیا۔ ورقہ نے جواب میں کہا: یہ وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ کے پاس آیا کرتا تھا۔ کاش، میں ایک طاقت ور نوجوان ہوتا۔ کاش، میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمھاری قوم تم کو تمھارے شہر سے نکال دے گی۔ اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وه مجھے باہر نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا: ہاں۔ جب بھی کوئی شخص وه لے کر آیا جو تم لائے ہو، لوگ اس کے دشمن بن گئے ہیں۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں تمھاری خوب مدد کروں گا۔ پھر زیادہ دیرنہ گزری کہ ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی آپ کے پاس آنا بند ہوگئی۔‘‘
جب ہم مندرجہ بالا روایت پر غور کرتے ہیں تو اس میں ہمیں کچھ سقم نظر آتے ہیں۔
۱۔ اس روایت کو سب سے پہلے حضرت عائشہ سے مدنی دور میں نبوت کے چودھویں،پندرھویں سال روایت کیا گیا، حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے حضرت خدیجہ یا ورقہ بن نوفل سے کوئی روایت نہیں ہے۔ پندرہ سولہ سال تک کسی کا اس کا ذکر نہ کرنا کیا معیوب بات نہیں؟
۲۔ نبوت کے ابتدائی دور میں جلیل القدر صحابۂ کرام موجود تھے۔کسی نے اس بات کو نقل نہیں کیا کہ پہلی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرغار حرا میں نازل ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ گھبرا گئے۔
۳۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت منقطع ہے ۔اس کی لڑی سیدھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتی سب سےاہم اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی سورۂ نجم اور سورۂ تکویر کے خلاف ہے۔ سورۂ نجم میں ہے:
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰي. مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰي. وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰي. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰي. عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰي. ذُوْ مِرَّةٍﵧ فَاسْتَوٰي. وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰي. ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰي. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰي. فَاَوْحٰ٘ي اِلٰي عَبْدِهٖ مَا٘ اَوْحٰي. مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰي. اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا يَرٰي. وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰي. عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰي. عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰي. اِذْ يَغْشَي السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰي. مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰي. لَقَدْ رَاٰي مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰي. (۵۳: ۱- ۱۸)
’’تارے گواہی دیتے ہیں، جب وہ گرتے ہیں کہ تمھارا رفیق نہ بھٹکا ہے، نہ بہکا ہے۔ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا، یہ (قرآن) تو ایک وحی ہے جو اُسے کی جاتی ہے۔ اُس کو ایک زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے جو بڑا صاحب کردار، بڑا صاحب حکمت ہے۔ چنانچہ وہ نمودار ہوا، اِس طرح کہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا۔پھر قریب ہوا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اُس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔پھر اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔ جو کچھ اُس نے دیکھا، وہ دل کا وہم نہ تھا۔ اب کیا تم اُس چیز پر اُس سے جھگڑتے ہو جو وہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے؟اور اُس نے ایک مرتبہ پھر اُسے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اترتے دیکھا ہے،جس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے، جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔اُس کی نگاہ نہ بہکی، نہ بے قابو ہوئی۔ اُس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں۔‘‘
سورۂ نجم کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر پہلی وحی کے نزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو کیفیت تھی، اسے بیان کیا ہے کہ حضرت جبریل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ان کی اصل شکل میں دیکھا۔ ’والنجم‘ میں ’و‘ قسم کا ہے، جو دعوے پر دلیل کے لیے آتا ہے،یعنی قرآن مجید کا بیان ہے کہ جب قرآن مجید کا نزول ہو رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے نزول کے تمام راستوں پر پہرے بہت شدید کر دیے تھے تاکہ کوئی شیطان یا جن اس کے نزول میں مداخلت نہ کرسکے۔جب کوئی شیطانی مخلوق آسمان کے قریب جاتی تو اسے ستارے اور شہاب ثاقب ٹوٹ کر پڑتے تھے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید ہر شر اور مداخلت سے پاک ہے اور اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے بڑا زبردست انتظام کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن مجید نے ’صَاحِبُكُمْ‘[1] کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی اے قریش کے لوگو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمھاری ہی قوم کے ایک فرد ہیں انھوں نے تمھارے اندر اپنا بچپن، لڑکپن ،اور جوانی گزاری ہے اور تم انھیں ’’ صادق ‘‘ اور ’’امین‘‘ کے نام سے جانتے ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف ان کی اصلاح کے لیے کوئی نبی یا رسول بھیجتے ہیں تو وہ اس قوم کا ہی بہترین انسان ہوتا ہے۔ وہ قوم کے باہر کا بندہ نہیں ہوتا۔ اس کا بچپن اور جوانی اس قوم کے اندر ہی گزرا ہوتا ہے۔ان کے ماحول اور روایات کا اسے پتا ہوتا ہے۔اس وجہ سے قرآن مجید نے دوسری جگہوں پر ان کے لیے ’اَخَاهُمْ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
جاوید احمد صاحب غامدی اس آیت کے بارے میں اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ میں لکھتے ہیں۔ لفظ ’صاحبکم‘ کے بعد دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: ایک ’ضَلَّ‘ اور دوسرا ’غَوٰی ‘ ۔’ضَلَّ‘ اس گم راہی کے لیے آتا ہے جب کوئی شخص راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑے اور ’غوی‘ کا تعلق اس گم راہی سے ہے جو انسان نفس کی اکساہٹ سے اور جان بوجھ کر اختیار کر لیتا ہے(۵ / ۶۳)۔
اس سے آگے کی آیات ہیں :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰي. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰي. عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰي. ذُوْ مِرَّةٍﵧ فَاسْتَوٰي. وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰي. ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰي. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰي. فَاَوْحٰ٘ي اِلٰي عَبْدِهٖ مَا٘ اَوْحٰي. مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰي. اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا يَرٰي. وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰي. عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰي. عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰي. اِذْ يَغْشَي السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰي. مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰي. لَقَدْ رَاٰي مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰي. (النجم ۵۳: ۳- ۱۸)
’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا، یہ (قرآن) تو ایک وحی ہے جو اُسے کی جاتی ہے۔ اُس کو ایک زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے جو بڑا صاحب کردار، بڑا صاحب حکمت ہے۔ چنانچہ وہ نمودار ہوا، اِس طرح کہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا۔پھر قریب ہوا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اُس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔پھر اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔ جو کچھ اُس نے دیکھا، وہ دل کا وہم نہ تھا۔ اب کیا تم اُس چیز پر اُس سے جھگڑتے ہو جو وہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے؟اور اُس نے ایک مرتبہ پھر اُسے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اترتے دیکھا ہے،جس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے، جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔اُس کی نگاہ نہ بہکی، نہ بے قابو ہوئی۔ اُس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں۔‘‘
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے ۔یہ قرآن تو ایک وحی ہے جو انھیں کی جاتی ہے۔ اس کو ایک قوتوں والے، یعنی ’’جبریل‘‘ نے تعلیم دی ہے، جو بڑا صاحب کردار اور بڑا صاحب حکمت ہے۔ چنانچہ جبریل پہلی وحی کے وقت اس طرح نمودار ہوا کہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا۔پھر وہ (محمد) کے قریب ہوا اور جھک پڑا، یہاں تک کے دو کمانوں کے برابریا اس سے کچھ کم فاصلہ ره گیا۔
مندرجہ بالا آیات میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت جبریل نبی کو وحی پہنچاتےہوئے ان کے اس قدر قریب ہوئے کہ ان دونوں کے بیچ دو کمانوں یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا تھا۔پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دیکھا وه ان کے دل کا وہم نہیں تھا۔
اور ایک مرتبہ اور بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سدرة المنتہیٰ کے پاس اترتے دیکھا۔اس کے پاس جنت الماوی ہے، جو کچھ سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ اس کی نگاہ نہ بہکی نہ بے قابو ہوئی۔ اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں۔
ان آیات میں بڑے واضح طریقے سے بتایا گیا ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت جبریل کو ان کی اصلی حالت میں دیکھا تو نہ آپ پریشان ہوئے،نہ گھبرائے، بلکہ پورے دل کے استحکام کے ساتھ حضرت جبریل سے ملے اور ان سے وحی وصول کی اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن جب ہم جب روایت کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبریل کو دیکھ کر بہت گھبرائے اور اس کیفیت میں حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور انھیں آکر کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہ انھیں ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں۔ ان آیات میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھتے، بلکہ ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی پر اعتماد اور یقین دل کے ساتھ حضرت جبریل کو ملتے ہیں۔
اسی طرح سورۂ تکویر میں فرمایا ہے:
فَلَا٘ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ. الْجَوَارِ الْكُنَّسِ. وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ. وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ. اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ. ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ. مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ. وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ. وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ. وَمَا هُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ. وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ. فَاَيْنَ تَذْهَبُوْنَ. اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ. لِمَنْ شَآءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَقِيْمَ. وَمَا تَشَآءُوْنَ اِلَّا٘ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ. (۸۱: ۱۵- ۲۹)
’’(یہ قرآن کی دعوت ہے، اِسے شیطانوں سے کیا تعلق)؟ اِس لیے، نہیں، (یہ کسی شیطان کا الہام نہیں ہے)۔ میں اُن تاروں کو گواہی میں پیش کرتا ہوں جو پلٹتے، چلتے، (شیطانوں پر آگ برساتے، پھر) چھپ جاتے ہیں، اور رات کو جب وہ پیچھے ہٹتی اور صبح کو جب وہ(اُس کے بوجھ سے نکل کر) سانس لیتی ہے کہ بے شک ،یہ ایک رسول کریم کا لایا ہوا کلام ہے، بہت صاحب قوت، عرش والے کے ہاں بہت بلند مرتبہ، اُس کا حکم وہاں مانا جاتا ہےاور وہ نہایت امین بھی ہے۔ اور (قریش کے لوگو)، تمھارا ساتھی کوئی دیوانہ بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے اِس رسول کریم کوبالکل کھلے افق پر دیکھا ہے ۔(تم جانتے ہو کہ) وہ غیب کی باتوں پر کبھی حریص نہیں رہا۔ (اِس لیے ہرگز نہیں)، یہ کسی شیطان رجیم کا الہام نہیں ہے۔سو تم کہاں کھوئے جاتے ہو؟ یہ تو دنیا والوں کے لیے ایک یاددہانی ہے، تم میں سے اُن کے لیے جو سیدھی راہ چلنا چاہیں۔ اور تم نہیں چاہتے، مگر یہ کہ اللہ، عالم کا پروردگار ہی (اپنے قانون کے مطابق) چاہے۔‘‘
اس سورہ میں بھی استدلال کا وہی طریقہ ہے جو سورۂ نجم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ہر شر اور ہر شریر مخلوق سے بچانے کے لیے قرآن مجید کے نزول کے راستوں پر پہرے انتہائی سخت کردیے ہیں اور اس بات کی تصدیق جن بھی کرتے ہیں، جنھوں نے مسجد جن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھاتے سنا کہ آج ہمیں معلوم ہوا کہ آسمان پر راستے اتنے شدید کیوں کردیے گئے تھے۔آسمانوں پر پہلے بھی شیطانوں کی دراندازی سے بچنے کے لیے پہرے ہوتے تھے، لیکن اب ہم جو نہی آسمان کے قریب پھٹکتے تو شہاب ثاقب کو اپنی تاک میں پاتے۔اب ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ دنیا والوں کی ہدایت کے لیے قرآن مجید کو اتار رہا تھا۔ اور اس سورہ میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل کو کھلے افق پر دیکھا اور جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی پہنچانے کا آغاز کیا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جس طرح وہ وحی کے راستوں کوہر شر سے محفوظ کرتا ہے، اسی طرح وہ وحی کو پہنچانے والے فرشتوں اور نبیوں کی بھی حفاظت کرتا ہے، اور اب قیامت تک اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ النجم ۵۳: ۲۔