[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
۳۶ھ:حضرت عثمان کی شہادت کے وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری گورنرکوفہ تھے۔ حضرت علی نے انھیں خط لکھ کر کوفہ کے مسلمانوں سے اپنی بیعت لینے اور جنگ میں شامل ہونے کی تلقین کی۔ انھوں نے کہا: میں نے آپ کی امارت اس لیے برقراررکھی تھی کہ راہ حق میں میرے مددگار ہوں گے۔ حضرت ابوموسیٰ نے حواب دیا : اہل کو فہ سبھی آپ کے مطیع ہیں، اگرچہ کچھ لوگوں سے زبردستی بیعت لی گئی ہے۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے اپنی فوج مجتمع کی تو حضرت علی نے بھی اپنا لشکر تیار کرنا شروع کردیا۔ مدینہ کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا :ان لوگوں کا مقابلہ کرنے چلو جو تمھاری جماعت میں تفریق پیدا کر رہے ہیں۔ اپنا لشکرلے کر حضرت علی فید کے مقام پر پہنچے تھے کہ کوفہ سے عامر بن مطر کی آمد ہوئی۔ اس نے بتایا: اگر آپ صلح کا ارادہ رکھتے ہیں تو ابو موسیٰ یہی چاہتے ہیں اور اگر آپ قتال کرنا چاہتے ہیں تو ابو موسیٰ ساتھ نہ دیں گے۔ حضرت علی نے کہا:میں تو صرف اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔ بصرہ پہنچنے پر حضرت علی کے قاصدمحمد بن ابوبکر اور محمد بن عون حضرت ابوموسیٰ اشعری کے پاس آئے اور جنگ کے لیے نکلنے کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر کوفہ کے لوگوں سے کہا :اس جنگ میں پیچھے بیٹھ رہنا ہی آخرت کی راہ ہے، جب کہ جنگ کے لیے نکلنا دنیا کا راستہ ہو گا۔ دونوں محمد غصے میں آگئے اور حضرت ابوموسیٰ کو برا بھلا کہا۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا: عثمان کی بیعت کا قلادہ میری گردن میں ہے اور تمھارے صاحب علی کی گردن میں بھی۔ قتال اگر ضروری بھی ہے تو ہم تمام قاتلین عثمان سے نمٹنے کے بعد کسی سے جنگ کریں گے۔
حضرت علی نے حضرت عمار بن یاسر کو اہل کوفہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں اپنی فوج میں بھرتی پرآمادہ کریں۔ تب حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت ابومسعود انصاری ان سے ملنے آئے اور ان سے کہا:جب سے تم اسلا م لائے ہو، میں نے اس سے زیادہ بری بات نہیں دیکھی کہ تم قتال میں جلد بازی دکھا رہے ہو۔ حضرت عمار نے فوراً جواب دیا: جب سے تم مسلمان ہوئے ہو، میں نے اس سے زیادہ بری بات نہیں دیکھی کہ تم جہاد کرنے میں سستی کر رہے ہو۔ حضر ت ابو مسعود انصاری نے حضرت عمار اور حضرت ابوموسیٰ کو ایک نیا جوڑا پہنایا، پھر تینوں مسجد تشریف لے گئے(بخاری، رقم ۷۱۰۲)۔
حضرت علی نے اب اشترسے کہا:تم اور عبداللہ بن عباس جاؤ اور معاملہ سلجھاؤ۔ دونوں اصحاب حضرت ابوموسیٰ سے ملے اور کوفہ کے لوگوں کی مدد چاہی۔ حضرت ابوموسیٰ نے لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا:بلاشبہ، اصحاب رسول جو مختلف مقامات میں آپ کے ساتھ رہے اللہ و رسول کے احکام کو ا ن لوگوں سے بہترجانتے ہیں جو آپ کی صحبت میں نہیں رہے۔ تمھارا ہم پر حق ہے جو میں ادا کرنا چاہتا ہوں۔ تمھارے پاس خلافت کا دعویٰ لے کرجو شخص مدینہ سے آئے، اسے لوٹا دوتاوقتیکہ تمام اہل مدینہ ایک امر پر متفق نہ ہوجائیں۔ اس جنگ میں شامل ہو کر تکلیف نہ اٹھاؤ، کیونکہ یہ ایک خاموش فتنہ ہے، جس میں سویا ہوا بیدار رہنے والے سے، بیداربیٹھ رہنے والے سے، بیٹھ رہنے والا کھڑے سے اور کھڑا رہنے والا سوار سے بہتر ہے۔ تلواروں کو میان میں کرلو، نیزوں کے پھل اتار دو اورکمانوں کی تانت کاٹ ڈالو۔ گھروں سے چپکے رہو اور ابن آدم ہابیل کی طرح ہو جاؤ (ترمذی، رقم ۲۲۰۴۔ مسند احمد، رقم ۱۹۷۳۰)۔ مظلوم اورستم رسیدہ کوپناہ دو، حتیٰ کہ خلافت کے معاملے پر اتفاق ہو جائے اور یہ فتنہ ٹل جائے۔ حضرت ابوموسیٰ نے حضرت علی کے انتخاب کو جائز تسلیم کیا، تاہم اہل کوفہ کو اس خانہ جنگی میں غیر جانب دار رہنے کی تلقین کی۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت علی کو حضرت ابوموسیٰ کے جواب سے آگاہ کیا تو انھوں نے سلجھاؤ کے لیے حضرت حسن اور حضرت عمار بن یاسر کو بھیجا۔ دونوں کوفہ کی مسجد میں پہنچے، حضرت ابوموسیٰ حضرت حسن سے گلے ملے اور حضرت عمار سے مخاطب ہوئے: آپ نے اور لوگوں کے ساتھ مل کر امیرالمومنین عثمان سے دشمنی کی اورفاجروں میں شامل ہو گئے۔ اب حضرت حسن بولے:ابوموسیٰ، آپ لوگوں کو ہمار ی مدد سے کیوں روک ر ہے ہیں ؟ہمارا ارادہ تو لوگوں کی ا صلاح کرنا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ بولے:میرے ماں باپ آپ پر قربان، جس سے مشورہ کیاجاتا ہے، امین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو بھائی بھائی بنایا ہے اور ہمارے مال اور جانیں ایک دوسرے پر حرام کی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:’وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا‘، ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اور لعنت اس پر نازل ہوتی رہے گی اور اللہ نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘(النساء ۴: ۹۳)۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی سن رکھا ہے:’’جلد ایک فتنہ برپا ہو گا، جس میں بیٹھ رہنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا، کھڑا ہونے والا پیدل چلنے والے سے بہتر ہوگا اورپیدل چلنے والا سوار سے بہتر ہو گا‘‘ (ابوداؤد، رقم ۴۲۵۹۔ ترمذی، رقم ۲۱۹۴)۔ یہ سن کر حضرت عما ر غصے میں آ گئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم خاص تمھارے لیے ہی دیا ہو گا۔ مجمع میں شو ربرپا ہو گیا تو حضرت ابوموسیٰ نے لوگوں کو خاموش کرایا، منبر پر بیٹھے اور دوبارہ خطاب کر کے اپنا موقف دہرایا۔
عبد خیر خیوانی نے حضرت ابوموسیٰ سے پوچھا:جب آپ اسے فتنہ قراردیتے ہیں تو آپ یہ تو جانتے ہوں گے کہ اس فتنہ سے محفوظ کون رہے گا۔ اس وقت مسلمان چار جماعتوں میں منقسم ہیں۔ حضرت علی کوفہ میں، حضرات طلحہ و زبیر بصرہ میں، حضرت معاویہ شام میں برسر پیکار ہیں اور چوتھی جماعت حجاز میں ہے، جنگ کر کے مال غنیمت بٹور رہی ہے نہ کوئی دشمن اس سے قتال کر رہا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے جواب دیا: یہی لوگ سب سے بہتر ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ کوفہ کی جامع مسجد میں کھڑے ہو کر لوگوں کو جنگ میں شامل ہونے سے منع کر رہے تھے اور حضرت عمار ان سے تکرار کر رہے تھے کہ حضرت حسن نے انھیں منبر سے اترنے کو کہا۔ اس اثنا میں حضرت ابوموسیٰ کے غلام چلاتے ہوئے آئے کہ اشتر محل میں داخل ہو گیا ہے اور اس نے ہمیں مار پیٹ کر نکال دیا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ محل پہنچے تو اشتر نے گالی گلوچ کی اور انھیں بھی نکل جانے کو کہا۔ لوگ حضرت ابوموسیٰ کا سامان لوٹ رہے تھے، اشتر نے انھیں روکا۔ اس نے حضرت ابوموسیٰ کو شام تک کی مہلت دی اور محل میں رات گزارنے سے منع کر دیا۔ حضرت علی نے حضرت قرظہ بن کعب کوکوفہ کا گورنر مقرر کر دیا۔
حضرت ابوموسیٰ کے جانے کے بعد نویا بارہ ہزار مسلمان دجلہ اور خشکی کے راستے کوفہ سے نکلے اور ذی قار کے مقام پر پہنچ کر حضرت علی کی فوج میں شامل ہوئے۔
۳۷ھ:جنگ صفین میں حضرت عمرو بن العاص کو شکست و ہلاکت نظر آنے لگی توحضرت معاویہ سے کہا: میں آپ کو ایسا مشورہ دیتا ہوں جس سے ہماری جمعیت مضبوط ہو جائے گی اورجیش علی کا انتشار بڑھ جائے گا۔ ہم قرآن بلند کر کے نعرہ لگائیں کہ قرآن ہمارے ما بین جو فیصلہ کرے گا، ہم قبول کر لیں گے۔ اس پر ان میں اختلاف رونما ہو جائے گااور اگر انھوں نے متفق ہو کر ہماری پیشکش قبول کر لی تو جنگ ٹل جائے گی۔ چنانچہ جب جنگ زوروں پر تھی اور اہل شام ایک ٹیلے کی پناہ لیے ہوئے تھے، حضرت معاویہ نے ایک شخص کو مصحف دے کر حضرت علی کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا: ہمارے درمیان اﷲ کی کتاب حکم ہے۔ ادھر میدان جنگ میں شامیوں نے نیزوں پر قرآن بلند کیے توکچھ لوگ بول اٹھے:ہم کتاب اﷲ کو قبول کرتے ہیں۔ حضرت علی نے کہا:بندگان خدا، اپنا حق نہ چھوڑو، سچائی پر قائم رہواور دشمن سے جنگ جاری رکھو۔ انھوں نے قرآن ایک چال کے طورپر، دھوکا دینے کے لیے بلند کیے ہیں۔ حضرت علی کے کچھ ساتھیوں نے کہا:یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کتاب اﷲ کی طرف بلائے اور ہم انکار کر دیں۔ مسعر بن فدکی، زید بن حصین اور کچھ دوسرے لوگوں نے جو بعد میں خارجی بن گئے، حضرت علی کو دھمکی دی کہ کتاب اﷲ کی دعوت کو قبول کر لیں، ورنہ ہم آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو عفان کے بیٹے کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت علی نے کہا:اگر میری اطاعت کرنا چاہتے ہو توجنگ جاری رکھو۔ خارجیوں نے جواب دیا : یہ ہرگز نہیں ہوسکتا، آپ آدمی بھیج کر اشترکو محاذ سے واپس بلا لیں۔ اشتر بہت جزبز ہوا اور کہا:جب قرآن اٹھائے گئے تھے، میں سمجھ گیا تھا کہ اب نیا اختلاف اور نئی فرقہ بندی جنم لے گی۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اﷲ کی مدد سے ہمیں فتح مل رہی ہے اور ان لوگوں کا انجام برا ہونے والا ہے۔ مجھے گھوڑادوڑانے کی مہلت دو، مجھ میں فتح کی حرص پیدا ہو گئی ہے، لیکن سب بولے:ہم نے اپنے اور ان کے بیچ قرآن کو فیصل مان لیا ہے۔
صلح ہوجانے کے بعد حضرت اشعث بن قیس حضرت علی کے مشورے سے حضرت معاویہ سے ملے تو انھوں نے کہا: کتاب اﷲ کے فرمان کے مطابق ایک آدمی آپ مقرر کردیں اور ایک کا تعین ہم کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں کتاب اﷲ کے حکم کے عین مطابق نزاع کا فیصلہ کریں، جسے فریقین من و عن قبول کر لیں۔ حضرت اشعث ہاں کہہ کرحضرت علی کے پاس آئے تووہ بھی رضا مند ہو گئے۔ اہل شام نے حضرت عمرو بن العاص کا نام تجویز کیا۔ حضرت اشعث اور اس گروہ نے جس نے بعد میں خوارج کا نام پایاحضرت ابوموسیٰ اشعری کا نام پیش کیا۔ حضرت علی بولے:تم نے پہلے میری بات نہیں مانی، اب تو نافرمانی نہ کرو۔ میں ابوموسیٰ کو یہ ذمہ داری نہیں دینا چاہتا۔ حضرت اشعث، زید بن حصین اور مسعر بن فدکی نے کہا:ہم ابوموسیٰ کے علاوہ کسی پرراضی نہ ہوں گے، کیونکہ انھوں نے ہمیں ان جنگوں میں پڑنے سے خبردار کیاتھا۔ حضرت علی نے کہا:مجھے ان پر اعتماد نہیں، انھوں نے مجھے چھوڑ دیا اور لوگوں کوبہکا کر بھاگ گئے۔ میں تو یہ ذمہ داری ابن عباس کو دینا چاہتا ہوں۔ خارجیوں نے کہا:ابن عباس کا حکم بننا ایسا ہی ہے، جیسے آپ خود حکم بن جائیں۔ ہم ایسا آدمی چاہتے ہیں جس کا آپ سے اور معاویہ سے ایک سا تعلق ہو۔ حضرت علی نے اشتر کا نام لیا توکہنے لگے: اسی نے تو اس سرزمین میں آگ لگا دی ہے۔ حضرت علی نے پوچھا: تو تم ابوموسیٰ کے علاوہ کسی کو نہ مانوگے؟ ان کے ہاں کہنے پر فرمایا:جو جی میں آئے کرو۔ حضرت ابوموسیٰ جنگ سے الگ تھلگ وادی عرض میں مقیم تھے۔ اطلاع ملنے پر لشکر گاہ میں چلے آئے۔ حضرت احنف بن قیس نے کہا:تم انھی کو چاہتے ہو تو ان کی پشت کئی مردوں کے ساتھ مضبوط کر دو۔ حضرت علی نے حکم بنائے گئے دونوں اصحاب سے کہا:اگر تم کتاب اللہ کے موا فق فیصلہ نہ کرو گے یا کسی کی رورعایت کروگے تو تمھارا فیصلہ قبول نہ ہوگا۔
بدھ ۱۳/ صفر ۳۷ھ (۳۱/ جولائی ۶۵۷ء) حضرت عمرو بن العاص حضرت علی کے پاس معاہدہ تحریر کرنے آئے۔ بسملہ کے بعد لکھا گیا : اہل کوفہ کی طرف سے علی اور اہل شام کی طرف سے معاویہ باہم معاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اﷲ کے حکم اور اس کی کتاب کو مانیں گے، فاتحہ سے خاتمہ تک۔ عبداﷲ بن قیس (ابو موسیٰ )اور عمرو بن العاص، دونوں حکم کتاب اﷲمیں جو پائیں گے، اس پر عمل کریں گے اور جو کتاب میں موجود نہ ہوا، سنت عادلہ سے اس کی رہنمائی لیں گے جو انصاف پر مبنی ہے اور تفرقہ سے بچاتی ہے۔ ان کا فیصلہ امت کو اختلاف اور جنگ سے نکالے گا، ہر مسلمان ا ن سے تعاون کرے گا اوران کے معاہدے پرعمل کرنے کا پابند ہو گا۔ سب لوگ ہتھیار اتار دیں گے اور مامون ہوں گے۔ اس فیصلہ کی مدت رمضان تک ہو گی۔ حکمین نے فریقین سے اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان کی امان بھی طلب کی۔ حضرت اشعث بن قیس، حضرت عبداﷲ بن عباس، حضرت سعید بن قیس، حضرت حجر بن عدی، اورحضرت مالک بن کعب حضرت علی کے اورحضرت ابواعور، حضرت حبیب بن مسلمہ، حضرت عتبہ بن ابو سفیان، وائل بن علقمہ اور حضرت عبدالرحمٰن بن خالد حضرت معاویہ کے گواہوں میں شامل تھے۔ اشتر نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ طے ہوا کہ ماہ رمضان میں حضرت علی، دونوں ثالثوں سے اذرح یا دومۃ الجندل میں ملیں گے۔ حضرت علی نے کہا: صلح سے ہماری قوت جاتی رہی ہے، البتہ اقرار صلح کے بعد اس سے پھرنا ہرگز مناسب نہیں۔
۳۷ھ(۶۵۷ء):ماہ رمضان میں حکمین کا اجتماع طے تھا۔ حضرت علی نے چار سوافراد پر مشتمل وفد بھیجا جس میں شریح بن ہانی، حضرت عبداﷲ بن عباس اور حضرت ابوموسیٰ اشعری شامل تھے۔ حضرت معاویہ کی طرف سے بھی چار سو کا وفدحضرت عمرو بن العاص کی سربراہی میں پہنچا۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر اورحضرت مغیرہ بن شعبہ بھی ساتھ آئے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت ابوموسیٰ اشعری سے ملنے کے بعد پیشین گوئی کی کہ ثالث کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکیں گے۔ ثالث مل بیٹھے تو حضرت عمرو بن العاص نے ابتدا کرتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ سے پوچھا: کیا عثمان کو مظلومانہ طور پر شہید نہیں کیا گیا؟ حضرت ابوموسیٰ بولے: ہاں۔ اگلا سوال تھا:کیا معاویہ اور ان کی اولاد عثمان کے وارث نہیں ؟ حضرت ابوموسیٰ بولے : کیوں نہیں۔ اب حضرت عمرو بن العاص نے کہا: اﷲ کا فرمان ہے:’وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِﵧ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا‘، ’’اور جوشخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو، اس کے ولی کو ہم نے قصاص کا حق دیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے گی ‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳)۔ لہٰذا اس امر میں کوئی مانع نہیں کہ معاویہ کو عثمان کا جانشین بنادیا جائے، وہ سیاست اور کاروبار مملکت کو خوب سمجھتے ہیں، ام المومنین ام حبیبہ کے بھائی ہیں او ر کاتب وحی رہ چکے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ نے جواب دیا:میں یہ نہیں کر سکتاکہ معاویہ کو خلیفہ بنا دوں اور مہاجرین اولین کو چھوڑ دوں۔ شرف و فضل کا مقابلہ کرنا ہو توحضرت علی قریش کے بہترین شخص ہیں۔ حضرت عمرو نے کہا:آپ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں، اس لیے خود ہی کوئی حل تجویز کر دیں۔ حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عبداﷲ بن عمر اور حضرت عمرو نے اپنے بیٹے عبداﷲ کا نام تجویز کیا۔ حضرت عمرو نے حضرت عبداللہ بن عمر کو مال کثیر کے عوض خلافت سے دست بردار ہونے کی پیشکش کی تو وہ غصے میں آ گئے اور کہا: میں رشوت لینے کو تیار نہیں ہوں۔ حضرت عمرو اور حضرت ابوموسیٰ نے ایک دوسرے کے متبادل نام رد کردیے تو حضرت ابوموسیٰ بولے:علی اور معاویہ، دونوں خلافت چھوڑ دیں اور مسلمان باہمی مشورے سے نیا خلیفہ چن لیں۔ یہ جواب حضرت عمرو کی خواہش کے عین مطابق تھا، اس لیے فوراًلوگوں کو اکٹھا کر لیا اور حضرت ابوموسیٰ کو آگے کھڑا کر دیا۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا: ہم بالاتفاق علی و معاویہ، دونوں کو معزول کرتے ہیں، آپ خود اہل شخص کو خلیفہ چن لیں۔ اب حضرت عمرو بڑھے اور اعلان کیا: میں نے بھی ان کے خلیفہ کو ہٹایا، تاہم اپنے خلیفہ معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں، کیونکہ وہ عثمان کے ولی ہیں اور ان کا قصاص طلب کر رہے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ نے حضرت عمرو سے شکوہ کیاکہ ہمارا اتفاق علی و معاویہ، دونوں کو معزول کرنے پر ہوا تھا، آپ نے اس کے برعکس اعلان کر کے دھوکا کیا ہے۔ حضرت ابن عباس بولے: ابوموسیٰ، قصور آپ کا نہیں، ان لوگوں کا ہے جنھوں نے آپ کوحکم بنا یا۔ حضرت عمرو شام کو لوٹ گئے اورحضرت ابوموسیٰ نے شامیوں کے خوف سے مکہ کی راہ لی۔ حضرت ابوموسیٰ کہاکرتے تھے:مجھے ابن عباس نے عمرو کے فریب سے آگاہ کیا تھا، لیکن میں سمجھتا تھا کہ وہ امت کی خیرخواہی پر کسی شے کو ترجیح نہ دیں گے۔
غالی شیعہ حضرت ابوموسیٰ سے بغض رکھتے ہیں، کیونکہ وہ حضرت علی کی فوج میں شامل نہیں ہوئے اور تحکیم کے وقت انھوں نے حضرت علی و حضرت معاویہ، دونوں کو معزول کیا اور حضرت عبداللہ بن عمر کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیا۔
۴۰ھ(۶۶۰ء)حضرت معاویہ کے کمانڈربسر بن ارطاۃ نے مدینہ پر چڑھائی کی اور وہاں کے گھروں کو مسمار کیاتو حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابوایوب انصاری شہر نبی سے نکل آئے، بسر نے اس کے بعد مکہ کا رخ کیا تو حضرت ابو موسیٰ جان بچانے کے لیے یمن چلے آئے، پھر ان کو وہاں کے علوی عامل حضرت عبیداللہ بن عباس سے اندیشہ ہوا تو کوفہ لوٹ آئے۔ جنگ صفین کے بعد انھوں نے ملکی سیاست میں کوئی حصہ نہ لیا، کوفہ میں مقیم رہے جہاں انھوں نے مسجد کے پاس گھر بنایا اور اسی میں وفات پائی۔
حضرت معاویہ حضرت ابوموسیٰ کو شام کا گورنربنانا چاہتے تھے۔ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ کو اپنے ہاتھ سے خط لکھا کہ عمرو بن العاص کی طرح میری بیعت کر لو، میں تمھارے ایک بیٹے کو بصرہ، دوسرے کو کوفہ کا عامل بنا دوں گا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور خط لکھا :میں اس پیشکش کو قبول کر کے اپنے رب کو کیا جواب دوں گا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے حضرت معاویہ کی بیعت کر لی اور حضرت معاویہ نے ان کو پانچ سال کے روکے ہوئے وظائف دے دیے۔ ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعری حضرت معاویہ سے ملنے گئے، ان کے سر پر سیاہ عربی ٹوپی تھی۔ انھوں نے یا امین اللہ، کہہ کر حضرت معاویہ کو سلام کیا۔ رخصت ہوئے تو حضرت معاویہ نے کہا:بڈھا اس لیے آیا تھا کہ میں اسے کوئی منصب دے دوں، واللہ، میں ہرگز ایسا کرنے والا نہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری نے ۲ ۵ھ (، ۴۲ھ، ۴۴ھ، ۵۰ھ یا۵۵ھ )میں کوفہ سے دو میل دور واقع ثویّہ کے مقام پر یا مکہ میں وفات پائی۔ ان کی عمر ستر برس سے اوپر ہوئی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری کی وفات کا وقت آیا تو اپنے بیٹوں کو بلا کر وصیت کی: جب میں مروں تو میری وجہ سے کسی کو تکلیف مت دینا، میرا جنازہ لے کر جلدی جلدی چلنا، رونا دھونا نہ دھونی دینا(ابن ماجہ، رقم ۱۴۸۷)۔ میری قبر گہری کھودنا، اس پر پختہ تعمیر نہ کرنا۔ ان پر غشی طاری ہوئی تو ان کی بیوی حضرت ام عبداللہ واویلا کرنے لگیں، کچھ افاقہ ہوا تو وہ بولے: کیا تم نے رسول اللہ کا ارشاد نہیں سن رکھا؟انھوں نے ہاں کہا،پھر خاموش ہو گئیں۔ آپ کا فرمان ہے: وہ ہم میں سے نہیں، جس نے سر منڈایا، اول فول بکا یا کپڑے پھاڑے (ابوداؤد، رقم ۳۱۳۰۔ نسائی، رقم ۱۸۶۴۔ ابن ماجہ، رقم ۱۵۸۶۔ احمد، رقم ۱۹۵۴۷)۔ بیوی کو وصیت کی:مجھے قمیص سمیت غسل دینا، بعد میں قمیص کو اتار دینا یا کاٹ دینا۔ حضرت ابوموسیٰ کو شدید درد ہوا اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ ان کا سر گھر کی ایک خاتون (ان کی اہلیہ صفیہ بنت دمون یا ابودومہ) کی گود میں تھا، ذرا ہوش میں آئے تو کہا:میں ہر اس چیز سے بری الذمہ ہوں جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار براء ت کیا۔ آپ چیخنے والی، بال مونڈنے والی اورگریبان پھاڑنے والی ماتم کناں سے بے زار تھے (بخاری، رقم ۱۲۹۶۔ مسلم، رقم ۲۸۷۔ احمد، رقم ۱۹۵۳۵ )۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ