ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب تفسیری روایت کا جائز ہ ہم نے لیا۔یہ روایت سورۂ قیامہ میں جمع قرآن کے وعدے کو دوسرے معنی پہنانے کے لیے تراشی گئی تاکہ یہ مقدمہ پیش کیا جا سکے کہ قرآن کی جمع و تدوین کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ نہیں لیا تھا تاکہ قرآن مجید کی جمع و تدوین کو انسانی عمل قرار دے کر اس کے متن کو غیرمربوط قرار دیا جائے اور اس کے سیاق و سباق کو ناقابل حجت بنا دیا جائے۔مثلاً قرآن اگر صحابہ نے بعد میں جمع کیا ہے تو وہ الٰہی اور نبوی نگرانی سے محروم ہونے کی وجہ سے، اس تصدیق سے محروم ہو جائے گا جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں دی ہے۔ غرض قرآن کے موجودہ متن کے توقیفی مرتب ہونے کے تصور کو مجروح کرنے کے لیے ایک راستہ یہ اختیار کیا گیا کہ اللہ کا وعدۂ جمع و تدوین کے معنی بدل دیے جائیں، کہ وہ تو بس نبی کے دل میں حفظ کرانا ہے۔تو دوسری طرف قرآن کے جمع کرنے کی ایک تاریخ بھی مدون کی جائے کہ جس سے مصحف کے غیر محفوظ ہونے کا عیب لگایا جاسکے۔اب اس مضمون میں زیر بحث روایات سے یہ تاثر تاریخ میں رقم کردیا گیا کہ اس کی آیات تو دو دو صحابہ کی گواہی کی مرہون منت تھیں۔ نہ جانے کتنی آیات تلاش میں رہ گئیں، نہ جانے ستر صحابہ کے شہید ہو جانے کے نتیجے میں کتنی آیات یا سورتیں ضائع ہو گئی ہوں گی، اس لیے کہ دو آیتیں تو صرف ایک صحابی کے پاس سے ملیں، جن کے لیے بس انھی کی گواہی میسر تھی۔اسی بات کو پیش کرنے کے لیے جمع قرآن کی یہ روایات وضع (forge) کی گئیں۔ پھر انھیں مشہور کرنے کے لیے جگہ جگہ بیان کیا گیا تا کہ یہ نیا وضع کردہ تصور رائج ہو جائے۔
اس میں پہلا کام کون سا ہوا، پہلے یہ تاریخ لکھی گئی یا سورۂ قیامہ کی آیات کی تاویل پہلے کی گئی، یہ شاید بتانا مشکل ہو، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ یہ دونوں کام یکے بعد دیگرے ہوئے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے لیے ممد و معاون ہوں۔ سورۂ قیامہ کی آیات کے بہتر فہم اور اس پر اٹھنے والے وہ سوالات جو تاریخ جمع قرآن سے پیدا ہوتے ہیں، ان کے تسلی بخش جواب کے لیے ضروری ہے کہ جمع قرآن کی روایات کا جائزہ بھی لیا جائے۔ اس مقصد سے ہم اس مضمون میں جمع قرآن کی ایک روایت کو بھی شامل کررہے ہیں، گو یہ تفسیری روایت نہیں ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جمع قرآن سے متعلق ان روایات پر پہلے بھی کام ہوا ہے، اور آپ کو یہاں کچھ نکات ایسے ملیں گے جو مجھ سے پہلے بیان ہو گئے ہیں، میں نے انھیں، بلا حوالہ، یہاں اس مقصد سے بیان کردیا ہے کہ میرے نکات کے ساتھ ساتھ وہ سب نکات بھی میرے ہی پیرایۂ بیان میں یکجا ہو جائیں۔بعض بہت اہم نکات اس میں نئے ہیں، جن سے اس تحقیق کو تقویت ملے گی کہ قرآن عہد نبوی ہی میں مصحف کی صورت اختیار کر چکا تھا۔
ابو بکر صدیق ر ضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جمع قرآن سے متعلق یہ ایک روایت اتنی معروف ہے کہ ایک بڑی اکثریت نے جمع قرآن کی تاریخ اسی کی بنیاد پر رقم کی ہے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت زید رضی اللہ عنہم کے جمع قرآن کو بیان کرنے والی یہ روایت بخاری کے الفاظ میں یوں ہے:
عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ - وَكَانَ مِمَّنْ يَكْتُبُ الوَحْيَ - قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ اليَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِالنَّاسِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ فِي المَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ إِلَّا أَنْ تَجْمَعُوهُ، وَإِنِّي لَأَرَى أَنْ تَجْمَعَ القُرْآنَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ لِعُمَرَ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللّٰهُ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللّٰهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللّٰهُ لِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ.
قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لاَ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، وَلاَ نَتَّهِمُكَ، كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، فَوَ اللّٰهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلاَنِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللّٰهِ خَيْرٌ، فَلَمْ أَزَلْ أُرَاجِعُهُ حَتَّى شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرِي للَّذِي شَرَحَ اللّٰهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ وَالعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ، ﴿لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ﴾ (التوبه ۹: ۱۲۸) إِلَى آخِرِهِمَا.
وَكَانَتِ الصُّحُفُ الَّتِي جُمِعَ فِيهَا القُرْآنُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ. (بخاری، رقم ۴۶۷۹)
’’زہری، ابن سباق سے اور وہ حضرت زید بن ثابت،جن کا شمار کاتبین وحی میں ہوتا ہے، سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر نے جنگ یمامہ کے موقع پر مجھے بلابھیجا، جب کہ حضرت عمر بھی وہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ عمر نے آکرمجھے کہا ہے کہ یمامہ میں لوگوں کی شہادتیں بہت ہوئی ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ حفاظ کے لیے ایسی شہادتیں مختلف جنگوں پر مہلک ثابت ہوں، جس سے قرآن کابڑا حصہ ضائع ہوجائے، سواے اس کے کہ آپ اسے جمع کرلیں۔میری پختہ راے ہے کہ آپ، (اے ابو بکر)، اسے جمع کریں۔حضرت ابو بکر نے کہا: میں نے یہ جواب دیا کہ میں وہ کام کیسے کروں جسے نبی کریم نے نہیں کیا! مگر عمر نے کہا: بخدا یہ ایک بھلا کام ہے۔ پھر باربار مجھے آکر اصرار کیا ہے۔ اب اللہ نے میرا دل بھی اس بات کے لیے کھول دیا ہے۔ اب جو راے عمر کی تھی، وہی میری بھی ہے۔
زید کہتے ہیں کہ عمر وہاں خاموش بیٹھے تھے تو ابوبکر نے کہا: تم جوان اور سمجھ دار ہو اور تمھیں ہم تہمت سے پاک جانتے ہیں۔ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن لکھا بھی کرتے تھے، تو تم ڈھونڈ ڈھونڈکر قرآن جمع کرو۔ زید نے کہا: اللہ کی قسم ابو بکر مجھے یہ کام سونپتے کہ ایک پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں تو یہ مجھ پر اتنا گراں نہ ہوتا جتنا جمع قرآن کا کام مجھے گراں لگا، تو میں نے کہاکہ تم دونوں وہ کام کیسے کرسکتے ہو جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟
حضرت ابوبکر نے کہا: واللہ یہ کام اچھا ہے۔پھر میں نےباربار مراجعت کی، حتیٰ کہ اللہ نے وہ بات جو ابو بکر و عمر پرکھولی تھی، مجھ پر بھی کھول دی۔ پھر میں اٹھا اورقرآن کی تلاش میں لگ گیا، میں اسے چمڑے کے پارچوں، شانے کی ہڈیوں، کھجور کی شاخوں اور لوگوں کے حافظے سے تلاش کرکر کے جمع کرنے لگا، حتیٰ کہ یہ کام یوں انجام پایا کہ سورۂ توبہ کی آخری دو آیتیں :’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ‘ سے آخر تک خزیمہ یا ابو خزیمہ کے پاس سے ملیں۔
یہ جمع کردہ نسخے ابو بکر کی زندگی میں انھی کے پاس رہے، ان کے انتقال کے بعد عمر کے پاس رہے، پھر حفصہ بنت عمر کے پاس رہے(رضی اللہ عنہم اجمعین)۔‘‘
اس روایت پر ذرا دھیان سے غور کریں تو یہ کسی طور سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔
۱۔ مثلاً پہلی بات جو ناقابل فہم ہے، وہ یہ ہے کہ ’فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ‘ [26]، ’’ کہ قرآن کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا‘‘۔یہ جملہ یہ تاثر دیتا ہے کہ پورے قرآن کے کوئی ایک صحابی بھی حافظ نہیں تھے۔کسی نے قرآن کا ایک حصہ یاد کر رکھا تھا تو کسی نے کوئی دوسرا۔ مثلاً کسی کو سورۂ بقرہ یاد تھی تو کسی کو آل عمران، تو یہ نہ ہو کہ شہادتوں کے بعد آل عمران والا حافظ ہی کوئی موجود نہ رہے، بعد میں ہمیں سورۂ آل عمران ملے ہی نہ! اس لیے حفاظ کے شہید ہو جانے سے اس بات کا امکان ہے کہ پورا قرآن موجود نہ رہے۔اس کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجائے۔یہ جملہ درایتاً بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ کتب میں صحابہ میں حفاظ کی بڑی تعداد بتائی گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ بات اس مسلک کی بنیاد رکھنے کے لیے تراشی گئی ہے کہ جس کے مطابق پورا قرآن محفوظ نہیں ہے۔
۲۔ دوسرا تاثر یہ جملہ یہ دیتا ہے کہ قرآن مجید پورا نہ صرف حافظے ہی میں نہیں تھا،بلکہ پورا لکھا ہوا بھی موجود نہیں تھا،اور اگر لکھا ہوا تھا بھی تو وہ ایک جگہ نہیں تھا۔یہ تاثر بھی غلط اور تاریخی اور قرآنی حقائق کے خلاف ہے، جیسا کہ آگے چل کر واضح ہوگا۔
۳۔ یہ جملہ بھی بہت مغالطہ آمیز ہے کہ ’كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘؟(میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرانجام نہیں دیا)؟ اس سے دو مغالطے پیدا کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ جمع اور حفاظت قرآن کا اہم ترین کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا۔دوسرے یہ کہ یہ کوئی بدعت نما اورناجائز کام ہے، جو امت کاپہلا جید ترین فقیہ خلیفہ کرنے کو آمادہ نہیں ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑی مشکل سے منانے میں کامیاب ہوئے۔یہ دونوں باتیں بھی حقیقت کے خلاف ہیں۔
۴۔ یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ حضرت ابو بکر جمع قرآن کے لیے ’فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ‘ کے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ ’تَتَبَّعْ‘ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی شروع سے آخر تک لگ کر کھوج کرنا ہوگی۔ ایسا نہیں کہ کہیں قرآن ایک جگہ دستیاب ہے تو تم بس اس کو جمع کردو، نہیں بلکہ دستیاب بھی کرو اور جمع بھی کرو۔ یہ تاثر روایت میں شروع ہی سے دیا گیا ہے کہ پورا قرآن کسی کو بھی حفظ نہیں ہے اور اب اس جملے سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ تحریر ی صورت میں بھی پورا قرآن ایک جگہ پر دستیاب نہیں ہے۔ اس تاثر کو حضرت زید کا یہ جملہ مزید پختہ کرتا ہے: ’فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ وَالعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ‘۔ گویا ایک جان کھپانے کا کام ہے، جو حضرت زید کے ذمہ لگایا جارہا ہے۔نہ قرآن حفاظ کے پاس پورا ہے اور نہ کہیں پورا لکھا ہوا موجود ہے، بلکہ وہ کھویا گیا ہے اور اب اس کھوئے ہوئے قرآن کو ڈھونڈ نکالنا ہے، اور پھر اس کو محفوظ کرنا ہے۔ روایت کے آخر پر جا کر آپ کو یہ تاثر مزید پختہ ہوتا ہواملے گا کہ ’حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ‘ دو آیات تو ایسی تھیں کہ بس حضرت خزیمہ ہی کے پاس تھیں[27]، وہ نہ کسی اور کے پاس لکھی ہوئی موجود تھیں اور نہ کسی حافظ کے حافظے میں تھیں۔اس روایت کی فتنہ سامانی کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔
۵۔ ایک جملہ ’فَوَاللّٰهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ‘ بھی ہے، جو یہ تاثر قائم کرتا ہے کہ اس وقت قرآن کو جمع کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔پہاڑ کو اپنے مقام سے ہٹانا آسان تھا، مگر قرآن جمع کرنا نہایت مشکل تھا۔یہ بلا شبہ دینی ذمہ داری کا بوجھ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ حضرت زید یہ سمجھتے تھے کہ میرے اوپر قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری عائد ہوئی تو یہ نہ ہو کہ کوتاہی ہو جانے کی صورت میں کل قیامت کے دن پکڑا جاؤں، لیکن یہ مدعا ماننا اس لیے مشکل ہے کہ آگے روایت میں جو قرآن جمع کرنے کی تفصیل انھوں نے بتائی ہے، وہ جمع کرنے کی مشقت کی طرف ذہن کو لے جاتی ہے، نہ کہ احساس جواب دہی کی طرف۔ جمع قرآن کی مشقت بتاتے وقت انھوں نےفرمایا ہے کہ ’...فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ وَالعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ...‘ (تو میں قرآن کی طلب میں لگ گیا، میں نے اسے چمڑے کے پارچوں،شانے کی ہڈیوں، کھجور کی شاخوں اور لوگوں کے دلوں میں سے ڈھونڈ کر جمع کیا)۔ اس جملے پر ہم پہلے بات کرچکے ہیں،یہاں صرف اس لیے یہ جملہ اقتباس کررہا ہوں کہ یہ اوپر مذکور ’پہاڑ جیسے مشکل کام‘ کی توضیح بن رہی ہے۔اس جملے میں کلمات، مثلاً ’كلفني‘ اور ’أثقل‘ اور جملے کی بناوٹ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ عہد صحابہ کی زبان نہیں ہے،بلکہ فقہی عہد کی زبان ہے، اور فطری بول چال کی زبان بھی نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں جملے کے تمام وہ اجزا بھی بیان ہو گئے ہیں جو بول چال کی زبان میں نہیں ہوتے تھے۔ لیکن چلیے کوئی اسے روایت بالمعنیٰ کہہ کر درگذر کردے سکتا ہے۔
۶۔ حضرت ابو بکر صدیق کا یہ جملہ ’إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، وَلاَ نَتَّهِمُكَ‘ بھی دل چسپ ہے۔ مطلب یہ کہ قرآن کی جمع کرنے میں ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو جوان ہو، کیونکہ قرآن جگہ جگہ سے اکٹھا کرناتھا۔اس کے لیے بھاگ دوڑ کی ضرورت ہونی تھی، گھر گھر جانا تھا، ہر اینٹ روڑے کو الٹنا تھا، پھر جا کر قرآن جمع ہونا تھا۔
۷۔ حضرت زید بن ثابت کا یہ جملہ ’كَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘؟موقع کلام کے لحاظ سے غیر مناسب ہے، اس لیے کہ یہ بات ابو بکر رضی اللہ عنہ انھیں بتا چکے ہیں کہ میں نے بھی عمر سے یہی کہا تھا، اور یہ کہ حضرت عمر نے کیا جواب دیا تھا،اس جواب پر اپنا ردعمل اور اپنےقائل ہونے کی تفصیل بھی بتائی تھی۔اب یہ سوال کرنا بنتا نہیں ہے۔مزید یہ کہ حضرت ابوبکر نے ان کے اس بے محل سوال پر جو جواب دیا، وہ پھر وہی تھا جو حضرت عمر نے دیا تھا، نہ کوئی اضافہ اور نہ کوئی تبدیلی۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ پہلے نہ زید نے ابو بکر کی بات سنی اور نہ زید نے عمررضی اللہ عنہم کی بات سنی۔نہیں، ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اس لیے دہرائی گئی ہے کہ یہ تاثر پختہ کیا جائے کہ جمع قرآن نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اور نہ یہ کرنے کا کام تھا، اور نہ یہ کام کرنا چاہیے تھا، یہ نہ اللہ کا حکم تھا، نہ اللہ کے رسول کا قول یا عمل تھا۔ یہ تو بس ابو بکر و عمر کا اجتہاد تھا۔اور اجتہاد بھی ایسا کہ اطمینان کی وجہ صرف حضرت عمر کا اصرار اور بس یہ کہنا تھا کہ’’ یہ اچھا کام ہے‘‘۔ایسا اجتہاد نہیں تھا کہ سنتے ہی ابو بکر قائل ہوگئے ہوں اور سنتے ہی زید بن ثابت تیار ہو گئے ہوں۔ گویا ہر طرح سے ایک اجنبی بات تھی، جو تجویز کی جارہی تھی۔
۸۔ اس روایت کا یہ جملہ جو حضرت زید کے منہ میں ڈالا گیا ہے کہ ’فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ وَالعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ‘، یہ تاثر دیتا ہے کہ قرآن جمع شدہ نہیں تھا، بلکہ بکھرا ہوا تھا، اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کہاں سے ملے گا۔ یہ خیال نہ کیجیے کہ یہ صرف ’تَتَبَّعْتُ‘ سے مفہوم پیدا ہوا ہے، جیسا میں پہلے لکھ چکا ہوں، بلکہ یہ تاثر ’أجمع من‘ سے بھی پیدا ہوا ہے، یعنی مجھےقرآن ان ان چیزوں سے جمع کرنا پڑا۔اس پر ’صُدُورِ الرِّجَالِ‘ کا عطف یہ تاثر بھی دے دیتا ہے کہ کچھ مجھے ان لکھے ہوئے ٹکڑوں سے مل گیا اور کچھ مجھے لوگوں کے حافظے سے ملا۔گویا بکھرا ہوا، بے ترتیب قرآن مجھے تلاش بھی کرنا پڑا اور جمع بھی۔ مزید یہ کہ پورا قرآن نہ حافظے میں تھا نہ تحریر میں، بلکہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبین وحی سے لکھوایا، وہ بھی موجود نہیں تھا۔اس جملے ’فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ‘ کی ساخت بھی عجمی ہے، جس میں کام سے پہلے ہم اٹھنا بولتے ہیں کہ ’’میں اٹھا اور یہ کام کیا‘‘۔ عربی میں یہی اسلوب یوں ہوتا ہے: ’فَقُمْتُ بتتبع القرآن...‘۔
۹۔ یہ ’الرِّقَاعِ وَالأَكْتَافِ وَالعُسُبِ‘ والا جملہ ایک اوربات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس جملے کا خالق، یا تو کوئی چال چل رہا ہے یا وہ عربوں کے لکھنے لکھانے کے طریقے سے واقف ہی نہیں تھا۔ عربوں کے ہاں کھجور کی چھال، ہڈی اور پتھر کے ٹکڑوں(بخاری، رقم۷۱۹۱) پر لکھنے کا اس روایت کے سوا کوئی اور شاہد مجھے نہیں ملا۔ توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ یہ چیزیں لکھنے کے لیے استعمال ہی نہیں کرتے تھے تو انھوں نے قرآن ان چیزوں پر کیوں لکھا؟ مثلاً ان کے معلقات لکھ کر بیت اللہ میں لٹکانے کا ذکر ملتا ہے، تو وہ کس پر لکھے ہوئے تھے۔ کسی جگہ یہ نہیں ملتا کہ یہ چیزیں لکھنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ جاہلی شعرا کے ہاں اگر ذکر ملتا ہے تو وہ الرَّق کا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے دو شعر عرض کیے دیتا ہوں۔ پہلا طرفہ بن العبد کا اور دوسرا اخنس بن شہاب التغلبی کا ہے:
كسطور الرق رقشه
بالضحى مرقش بشمه
لاِبْنَةِ حِطَّانَ بنِ عَوْفٍ مَنازِلٌ
كما رَقَّشَ العُنْوانَ في الرّقّ كاتِبُ
قرآن مجید میں بھی سورۂ طور کی دوسری اور تیسری آیت میں اسی کا ذکر ہے: ’وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ. فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْر‘۔لگتا ہے کہ روایت تراشنے والے نے قرآن کو زیادہ سے زیادہ منتشردکھانے کے لیے ان چیزوں کا ذکر کیا ہے، اس لیے کہ کھجور کی چھال، پتھروں اور ہڈیوں کو باہم ملا کر کتاب کی شکل دینا مشکل تھا۔ ان کے ذکر سے روایت تراشنے والے نے ایک طرف یہ بات ثابت کی کہ کاتبین وحی اور صحابہ جو کچھ لکھتے رہے، اس کی نوعیت کیا تھی: بس ہڈیوں، چھالوں اور کھال کے پارچوں کا ایک منتشر ڈھیر۔ دوسری طرف یہ ثابت کیا کہ کتابی شکل دینا ممکن ہی نہیں تھا، اس لیے کہ جو اسباب میسر تھے، ان پر لکھے ہوئے قرآن کو کتابی شکل نہیں دی جاسکتی تھی۔ نبی کریم کے عہد میں بس یہی چیزیں میسر تھیں، انھی پر قرآن لکھا گیا، اس لیے کسی صورت جمع ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
حالاں کہ رق، سفید صفحہ نما نرم اور پتلی کھال جس پر عرب لکھتے تھے، کھال کو نرم اور ملائم بنا کر اسی مقصد سے تیار کیا جاتا تھا۔ اہل لغت اس کے یہ معنی بتاتے وقت لکھتے ہیں: ’جِلْدٌ رَقيقٌ يُكْتَبُ فيهِ‘، یعنی وہ پتلی کھال جس میں لکھا جاتا تھا۔روایت تراشنے والے نے اس ڈر سے کہ اس کی بات رد نہ ہو، ’رقاع‘ کا ذکر بھی کیا ہے، جس کے معنی کاغذ یا چمڑے کے ٹکڑے کے ہیں، جن پر لکھا جاتا تھا، لیکن اس نے اس کا ذکر بس ایسے کیا ہے کہ یہ بھی استعمال ہوا تھا۔ وہ اس سے بچنا چاہتا کہ یہ تاثر قائم نہ ہو کہ پورا قرآن رقاع پر لکھا گیا تھا۔اس نے ایسا اس لیے کیا کہ رقاع یا رق کو سی کر کتاب کی شکل دینا ممکن تھا۔تو اگر وہ کھال کے ساتھ پتھروں اورکھجور کی چھال وغیرہ کا ذکر نہ کرتا تو ڈھونڈنے، ترتیب دینے اور جمع کرنے کا مقدمہ ہی قائم نہیں ہونا تھا۔پھر یہ سوال سامنے کا تھا کہ جب لکھا ہی چمڑے پر گیا تھا تو سلائی سے کتابی شکل ہی تو دینا تھی۔تو کیا زید بن ثابت کی جوانی اورتہمت سے براءت صرف سلائی کے لیے استعمال ہونی تھی!
۱۰۔ یہ جملہ تو قیامت خیز ہے۔ راوی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت زید نے کہا: ’حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ، إِلَى آخِرِهِمَا‘۔ سور ۂ توبہ کی آخری دو آیتیں ’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ‘سے آخر تک خزیمہ یا ابو خزیمہ کے پاس سے ملیں۔ گویا یہ دو آیات بس ایک ہی شخص کے پاس ملیں، یعنی اگر حضرت خزیمہ زندہ نہ ہوتے تو قرآن ان دو آیات سے تو آج محروم ہوتا(العیاذ باللہ)۔مطلب یہ کہ میری تلاش کی مشکل کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہو کہ ایک ایک آیت تلاش کرنے میں، میں نے کتنی جد وجہد کی ہوگی، اور قرآن کے ضائع ہو جانے کے خطرے کی سنگینی کا اندازہ بھی تم لگا سکتے کہ ان دو آیات کی حفاظت تو بس ایک آدمی پر منحصر تھی۔ یہ جملہ ایک کنایہ ہے، اس بات سے بھی کہ نہ جانے کتنی آیات اب قرآن میں نہیں ہیں جو سورۂ توبہ کی ان آیات کی طرح صرف ایک ایک صحابی کے پاس تھیں، اور ایک گواہی کی وجہ سے قبول نہیں کی گئیں۔اسی طرح کتنی ہی آیات تھیں جو ان صحابہ کے ساتھ ہی قبر میں چلی گئیں جو جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ وہ نہ جانے کتنی آیات اپنے سینوں میں ساتھ لے گئے۔نہ رسول نے اس کی فکر کی اور نہ اللہ تعالیٰ نے وعدۂ حفاظت کے باوجود حفاظ کی حفاظت کی۔
۱۱۔ یہ بھی تقدیر الہٰی کا معجزہ ہے کہ سورۂ توبہ کی دو آیات ایسے صحابی سے ملیں جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذو الشہادتین قرار دے چکے تھے، ورنہ یہ دو آیات ان کے پاس ہونے کے باوجود مصحف میں شامل نہ ہوتیں، اس لیے کہ اس روایت کے بقول دو صحابہ کی گواہی پر ہر آیت کو قرآن میں لکھا جارہا تھا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جمع قرآن کن مخدوش حالات میں ہواہے۔
۱۲۔ یہ جملہ یہ تاثر بھی دلوں میں پیدا کرتا ہے کہ قرآن عہد صحابہ میں خبر واحد ہی تھا، حضرت ابو بکر اور بالخصوص حضرت عثمان کے جمع کردہ نسخے بعد میں حدیث مشہور کا سا مقام حاصل کرگئے، کیونکہ آیات تمام صحابہ کے اجماع سے نہیں، بلکہ صرف دو دو صحابہ کی گواہی پر جمع کی گئیں۔
۱۳۔ پوری روایت کو از سر نو دیکھیے تو آپ کو اچنبھا ہو گا کہ تین صحابہ جمع قرآن کے مسئلے کو یوں سنبھال رہے ہیں کہ تینوں میں سے ایک بھی حافظ نہیں ہےکہ تینوں مل کر آرام سے قرآن لکھ لیں، جب کہ متعدد حوالوں سے ثابت ہے کہ یہ تینوں حافظ قرآن تھے۔
۱۴۔ تینوں یوں اس مسئلے سےنبرد آزما ہیں کہ باقی ساری امت کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ شاید ان ستر شہید حفاظ کے سوا باقی قرآن سے واقف بھی نہیں کہ ان سے مدد لی جاسکے۔فرض کرلیجیے کہ واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو منتشر چھوڑا تھا تو پھر بھی، مثلاًکسی دن مسجد نبوی میں، جمعہ کے دن ابو بکر صدیق اعلان کرتے کہ ہم قرآن کو جمع کرنا چاہتے ہیں، سب زید بن ثابت کی مدد کریں۔تو نہ ان کو پہاڑ جیسا کام کرنے کی زحمت اٹھانا پڑتی اور نہ شایدسورۂ توبہ کی آخری دو آیات کے لیے صرف حضرت خزیمہ پر انحصار کرناپڑتا، لیکن یہ تینوں مل کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خفیہ کام کرنے لگے ہیں، جس کی انھیں اجازت نہیں ہے۔
۱۵۔ اسی روایت میں حضرت عمر فرما رہے ہیں کہ دیگر حفاظ کے مختلف جنگوں میں مارے جانے کا امکان ہے، اس لیے ان کے دنیا سے جانے سے پہلے پہلے قرآن جمع کرلیا جائے، مگر جب اس روایت میں قرآن جمع کرنے کا معاملہ عمل میں لایا جاتا ہے، اس اندوہ ناک انجام پر جمع قرآن کاعمل اختتام پذیر ہوتا ہے کہ ایک ہی صحابی دو آیات فراہم کرتے ہیں،دیگر حفاظ دکھائی نہیں دیتے۔
۱۶۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ ’وَكَانَتِ الصُّحُفُ الَّتِي جُمِعَ فِيهَا القُرْآنُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ‘۔ اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ اگر زید بن ثابت کا جمع کردہ یہ نسخہ اتنے برس تک ان تین گھروں میں رہا تو باقی امت کے پاس کیا تھا؟ کیا وہ اس عرصہ میں پورے قرآن سے محروم رہے تھے؟ گویا جنگ یمامہ والی صورت حال تاحال چلی آرہی تھی کہ جس کو جتنا یاد ہے، بس وہی اس کے پاس ہے۔کسی کو یہ تمنا نہیں تھی کہ وہ پورا قرآن جانے، یاد کرے یا اسے سمجھے؟
۱۷۔ اسی طرح یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبین وحی سے لکھوایا تھا تو اس کی نوعیت کیا تھی؟ یہ روایت یہ وسوسہ ڈالتی ہے کہ پورا نہیں لکھوایا گیا تھا، تبھی تو موجود نہیں تھا یا یہ کہتی ہے کہ لکھوایا تو پورا گیا تھا، مگر پھر محفوظ نہیں رکھا گیا! یعنی یا نہ قرآن پورا لکھوایا گیا یاجو لکھوایا گیا، اسے محفوظ نہیں رکھا گیا۔ تو پھر اس لکھوانے کا مقصد ہی کیا تھا! اگر دونوں میں کوئی بھی صورت ہو تو یہ روایت الزام دھرتی ہے کہ کاتبین وحی کا تقرر محض ایک کھیل ہی تھا(نعوذ باللہ)،چالیس کاتبین وحی کا محض وقت ضائع کیا گیا۔ جس کام پر اتنے لوگوں کی محنت لگی، اس کی قدر بھی نہیں کی گئی اور سب کیا ہوا کام ضائع کردیا گیا، بلکہ حضرت زید پر بھی تہمت آتی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کیا لکھا نہیں کرتے تھے؟
۱۸۔ اس روایت نے تو بہت سی باتوں اور حقیقتوں کو مشکوک بنا دیا ہے۔ صحابہ کی تہجدیں کیا ہوئیں؟ تراویح کیا ہوئی؟حفاظ کی اتنی کثرت جو بتائی جاتی ہے، وہ کیا ہوئی؟ کاتبین وحی کا تقرر کیا ہوا؟ قرآن مجید کی حفاظت کا وعدۂ الہٰی کیا ہوا؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ’لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ‘ (النحل ۱۶: ۴۴) اور ’بَلِّغْ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكَ‘ (المائدہ۵: ۶۷) احکام کی تعمیل کیا ہوئی؟
یہ وہ ڈیڑھ درجن فتنہ پرور امور ہیں جن کا یہ روایت دلوں میں وسوسہ ڈالتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ روایت پسند لوگ جو اس روایت کی وجہ سے قرآن کو اسی طرح سے تلاش کیا ہوا مانتے ہیں، ان کے لیے یہ نکات تعجب، حیرت اور کسی پریشانی کا باعث نہیں ہوں گے،لیکن اس کے برعکس، جن لوگوں کا امت کے اس تواتر کہ قرآن عہد نبوی سے تا حال محفوظ ہے اور قرآن کے وعدۂ حفاظت پر اعتماد ہے، ان کے لیے عہد صحابہ کا یہ منظر کسی طرح قابل قبول نہیں ہو گا۔یہ روایت نہ صرف یہ کہ قرآن اور امت کے تواتر کے خلاف ہے، بلکہ خود دیگر روایات کے بھی خلاف ہے۔آگے ہم وہ روایات پیش کریں گے، جو اس روایت کے قائم کردہ تاثرات کا ازالہ کرتی ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[26]۔بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ‘ اور بس ایک دو روایات میں ’فيذهب القرآن‘ کے الفاظ آئے ہیں، اس لیے روایات کی کثرت اسی مضمون کو بیان کرتی ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا۔
[27]۔ واضح رہے کہ آیات اور ان کی تعداد میں مختلف روایات میں اختلاف ہے، ہم نے دو کا ذکر اس روایت کی وجہ سے کیا ہے جو اوپر ہم نے پیش کی ہے۔اسی مضمون کی دوسری روایتوں میں جمع قرآن سے متعلق بے شمار ناقابل یقین باتیں ہیں، لیکن ہم نے اس مضمون کو ایک روایت تک محدود رکھا ہے تاکہ بحث سمٹی رہے۔