بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهٗ حُطَامًا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰي لِاُولِي الْاَلْبَابِ ٢١
(یہ سمجھتے ہیں کہ اِن کے اقتدار پر زوال نہ آئے گا)؟ تم نے دیکھا نہیں، (اے پیغمبر کہ)اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور زمین میں اُس کے چشمے بہا دیے۔ پھر وہ اُس سے طرح طرح کے رنگ بدلتی کھیتی نکالتا ہے، پھر وہ خشک ہونے لگتی ہے تو اُس کو تم دیکھتے ہو کہ زرد پڑ گئی ہے۔ پھر وہ اُس کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے۔ اِس میں، یقیناً عقل والوں کے لیے بڑی یاددہانی ہے۔[30]۲۱
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ٢٢
(اِن پر افسوس، اِن کے دل سخت ہو گئے)۔ پھر کیا وہ جن کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہیں، اُن لوگوں کے برابر ہو جائیں گے جن کے دل سخت ہو چکے ہیں؟سو خرابی ہے اُن کے لیے جن کے دل اللہ کی یاددہانی کے معاملے میں سخت ہوگئے۔ یہی کھلی گم راہی میں ہیں۔۲۲
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰي ذِكْرِ اللّٰهِ ذٰلِكَ هُدَي اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ٢٣
(لوگو)، اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب کی صورت میں جس کا ہر جزو دوسرے سے ہم رنگ[31] اور جس کی سورتیں جوڑے جوڑے ہیں۔[32] اِس سے اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ پھر اُن کے جسم[33] اور اُن کے دل نرم ہو کر اللہ کی یادکی طرف جھک پڑتے ہیں۔[34] یہ اللہ کی ہدایت ہے، اِس سے وہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) ہدایت بخشتا ہے (اور اُسی کے مطابق گم راہ بھی کرتا ہے)، اور جس کو اللہ گم راہی میں ڈال دے، اُسے پھر کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ ۲۳
اَفَمَنْ يَّتَّقِيْ بِوَجْهِهٖ سُوْٓءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَقِيْلَ لِلظّٰلِمِيْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ٢٤
پھر کیا جو قیامت کے دن برے عذاب کی مار اپنے چہرے پر روکے گا،[35] وہ اِن ہدایت پانے والوں کے برابر ہو جائے گا؟ ایسے ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب چکھو اُس کمائی کا مزہ جو تم کرتے رہے۔۲۴
كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ ٢٥ فَاَذَاقَهُمُ اللّٰهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ٢٦
اِن سے پہلے والوں[36] نے بھی اِسی طرح جھٹلا دیا تھا تو اُن پر ہمارا عذاب وہاں سے آگیا، جہاں سے اُن کو خیال بھی نہ تھا۔[37] پھر اللہ نے اُن کو دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی کا مزہ چکھایا [38] اور آخرت کا عذاب تو اِس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اے کاش، یہ لوگ اِس کو سمجھتے! ۲۵- ۲۶
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ٢٧ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ٢٨ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ٢٩
ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی تمثیلیں بیان کر دی ہیں،[39] اِس لیے کہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔ ایسے قرآن کی صورت میں جو عربی زبان میں ہے، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ نہیں ہے،[40] اِس لیے کہ وہ خدا کے عذاب سے بچیں۔[41] (یہ شرک اور توحید کی حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو) اللہ (اِن کے لیے) ایک غلام کی تمثیل بیان کرتا ہے جس میں کئی آقا شریک ہیں جو آپس میں کشمکش رکھتے ہیں[42] اور ایک دوسرے غلام کی جو پورا کا پورا ایک ہی شخص کی ملکیت ہے۔ کیا اِن دونوں کا حال یکساں ہو گا؟ (ہرگز نہیں، حقیقت یہ ہے کہ) شکر کا سزاوار صرف اللہ ہے، لیکن اِن میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔[43] ۲۷- ۲۹
اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ ٣٠ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ ٣١ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللّٰهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًي لِّلْكٰفِرِيْنَ ٣٢
(اِن کی ہٹ دھرمی پر غم نہ کھاؤ، اے پیغمبر)۔ تم کو بھی یقیناً مرنا ہے اور یہ بھی مرنے والے ہیں۔ پھر طے ہے کہ تم سب لوگ اپنا مقدمہ قیامت کے دن اپنے پروردگار کے حضور پیش کرو گے۔ سو اُس دن اُن سے بڑھ کر اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا کون ہو گا جنھوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور سچائی کو[44] جھٹلا دیا، جب کہ وہ اُن کے پاس آگئی! ایسے منکروں کا ٹھکانا کیا جہنم میں نہ ہوگا؟ ۳۰- ۳۲
وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖ٘ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ ٣٣ لَهُمْ مَّا يَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِيْنَ ٣٤ لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ عَمِلُوْا وَيَجْزِيَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٣٥
ہاں، جو سچائی لے کر آیا اور جنھوں نے[45] پورے دل کے ساتھ اُس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں۔ اُن کے لیے اُن کے پروردگار کے ہاں، جو چاہیں گے، ہو گا۔یہ صلہ ہے اُن کا جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں۔ اِس لیے[46] کہ جو عمل اُنھوں نے کیے تھے، اُن کے بدتر انجام کو اللہ اُن سے دور کرے اوراُن کا اجر اُن کو عطا فرمائے، اُن کے اعمال کا بہترین صلہ۔[47]۳۳- ۳۵
[30]۔ یعنی اِس بات کی یاددہانی کہ اِس دنیا کی ہر چیز عارضی ہے، لہٰذا ہر عاقل کی نگاہ خدا کی اُس ابدی بادشاہی پر رہنی چاہیے جو آگے اُس کی منتظر ہے۔
[31]۔ یہ ہم رنگی اور مشابہت ایسی واضح ہے کہ اِسے قرآن کا ہر قاری محسوس کر سکتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اگر آپ قرآن کی تلاوت کیجیے تو آپ محسوس کریں گے کہ ایک مضمون مختلف سورتوں میں بار بار سامنے آتا ہے۔ ایک مبتدی یہ دیکھ کر خیال کرتا ہے کہ یہ ایک ہی مضمون کی تکرار ہے، لیکن قرآن پر تدبر کرنے والے جانتے ہیں کہ قرآن تکرار محض سے بالکل پاک ہے۔ اُس میں ایک بات جو بار بار آتی ہے تو بعینہٖ ایک ہی پیش و عقب اور ایک ہی قسم کے لواحق و تضمنات کے ساتھ نہیں آتی، بلکہ ہر جگہ اُس کے اطراف و جوانب اور اُس کے تعلقات و روابط بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ مقام کی مناسبت سے اُس میں مناسب حال تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ایک مقام میں ایک پہلو مخفی ہوتا ہے، دوسرے مقام میں وہ واضح ہو جاتا ہے، ایک جگہ اُس کا اصل رخ غیر معین ہوتا ہے، دوسرے سیاق و سباق میں وہ رخ بالکل معین ہو جاتا ہے۔ بلکہ میرا ذاتی تجربہ اور مدتوں کا تجربہ تویہ ہے کہ ایک ہی لفظ ایک آیت میں بالکل مبہم نظر آتا ہے، دوسری آیت میں وہ بالکل بے نقاب ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح ایک جگہ ایک بات کی دلیل سمجھ میں نہیں آتی، لیکن دوسری جگہ وہ بالکل آفتاب کی طرح روشن نظر آتی ہے۔
قرآن کا یہ اسلوب، ظاہر ہے کہ اِسی مقصد کے لیے ہے کہ اِس کی ہر بات طالب کے ذہن نشین ہو جائے۔ چنانچہ میں بطور تحدیث نعمت کے عرض کرتا ہوں کہ مجھ پر قرآن کی مشکلات جتنی خود قرآن سے واضح ہوئی ہیں، دوسری کسی بھی چیز سے واضح نہیں ہوئی ہیں۔ میرانیس نے کہا ہے کہ:
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
ممکن ہے خود اُن کے اپنے کلام کے بارے میں یہ محض شاعرانہ مبالغہ آرائی ہو، لیکن قرآن کے باب میں یہ بات بالکل حق ہے۔ ایک ایک بات اتنے گوناگوں و بو قلموں اسلوبوں سے سامنے آتی ہے کہ اگر آدمی ذہن سلیم رکھتا ہو تو اُس کو پکڑ ہی لیتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۱/ ۲۸)
[32]۔ یہ بھی، ظاہر ہے کہ اُسی مقصد سے ہے، جس کی وضاحت اوپر ہوئی ہے۔
[33]۔ لفظ ’جُلُوْد‘ اِس آیت میں رونگٹوں کے معنی میں بھی آیا ہے اور پورے جسم کے معنی میں بھی۔یہ اِس قاعدے کے مطابق ہے کہ عربی زبان میں کل بول کر جزو بھی مراد لیا جاتا ہے اور جزو بول کر کل بھی۔
[34]۔ آیت میں لفظ ’تَلِيْنُ‘ آیا ہے جس کے بعد ’اِلٰي‘ کا صلہ ہے۔ اِس سے یہ ’مَيْل‘ کے مفہوم پر متضمن ہو گیا ہے۔ اِس میں جسم کے نرم ہو کر جھک پڑنے کی جو تعبیر اختیار کی گئی ہے، اُس سے مراد یہ ہے کہ اُن کے اندر کبر و غرور کا کوئی شائبہ باقی نہیں رہا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...آدمی کے اندر کبر و غرور ہو تو اُس کی گردن تنی ہوئی، جسم اکڑا ہوا رہتا ہے اور وہ زمین پر پاؤں دھمکتے ہوئے چلتا ہے۔ برعکس اِس کے جن کے اندر خدا کا خوف ہو، اُن کے اندر فروتنی و تواضع ہوتی ہے جس کا اثر اُن کی چال ڈھال اور اُن کے جسم کی ایک ایک ادا سے نمایاں ہوتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۸۳)
[35]۔ یہ انتہائی بے بسی کی تصویر ہے، اِس لیے کہ آدمی، جب تک اپنی مدافعت پر کچھ بھی قادر ہوتا ہے، اپنے چہرے پر کبھی مار نہیں پڑنے دیتا۔
[36]۔ یہ اُن قوموں کی طرف اشارہ ہے جن پر رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت کیا گیا۔
[37]۔ یہ اُس سنت کے مطابق ہوا جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کی تکذیب کرنے والوں کے لیے مقرر ہے۔ ہم پیچھے جگہ جگہ اِس سنت الہٰی کی وضاحت کر چکے ہیں۔
[38]۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُنھوں نے حق کے مقابل میں سرکشی اوراستکبار کا رویہ اختیار کیا اور اِس جرم کی سزا اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلت اور رسوائی کا عذاب ہی ہے۔
[39]۔ انبیا علیہم السلام جن حقائق کی تعلیم دیتے ہیں، اُن کی تفہیم کے لیے تمثیل کا اسلوب سب سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ الہامی صحائف میں اِسی بنا پر اِسے بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ تورات، زبور، انجیل سب امثال سے معمور ہیں اور سلیمان علیہ السلام کے صحیفۂ حکمت کا تو نام ہی ’’امثال‘‘ ہے۔
[40]۔ یعنی کوئی بات فلسفیانہ اینچ پینچ کے اسلوب میں نہیں کہی گئی، بلکہ جو کچھ فرمایا ہے، فصیح و بلیغ زبان میں اور نہایت سادہ اور دل پذیر اسلوب میں فرمایا ہے جس سے متکلم کا مدعا ہر جگہ بغیر کسی ابہام کے اور پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے۔
[41]۔ یہی وہ آخری مقصد ہے جس کے لیے قرآن مجید کواللہ تعالیٰ نے اِس اہتمام کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔
[42]۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ ایک سے زیادہ خداؤں کے درمیان یہ کشمکش ناگزیر ہے۔ چنانچہ دنیا کے تمام مشرکین اپنے دیوتاؤں کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ اُن میں سے بیش تر کے درمیان ایسی رقابت اور چشمک رہتی ہے جو بعض اوقات مدتوں کے لیے جنگ و جدال کا باعث بن جاتی ہے۔
[43]۔ یہ توحید کی نفسیاتی دلیل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... مطلب یہ ہے کہ کوئی غلام بھی اِس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ ایک آقا کی غلامی کی جگہ اُس کو ایک سے زیادہ مختلف الاغراض اور برسر نزاع آقاؤں کی غلامی کرنی پڑے۔ انسانی فطرت ایک خدا کی غلامی پر تو اِس وجہ سے راضی و مطمئن ہے کہ اُس کے اندر جو افتقار و احتیاج ہے، خدا کو مانے بغیر اُس کا کوئی حل نہیں ملتا۔ اِس کی دلیل اُس کے باطن میں بھی موجود ہے اور اُس کے باہر بھی۔ رہے دوسرے اصنام و آلہہ، تو ایک خدا سے جب اُس کی احتیاج پوری ہو گئی تو وہ اُن کی غلامی کا پٹا اپنی گردن میں کیوں ڈالے! اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی فطرت سے بغاوت کرتا ہے اور اپنے آپ کو ایک ایسے مخمصے میں پھنساتا ہے جس میں پھنسنے پر کوئی ذی ہوش بھی راضی نہیں ہوتا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۵۸۵)
[44]۔ یعنی قرآن کو جو سراسر سچائی ہے۔
[45]۔ اصل میں ’صَدَّقَ بِهٖ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے پہلے ’مَنْ‘ وضاحت قرینہ کی بنا پر محذوف ہے۔
[46]۔ جزا و سزا کے جس دن کا ذکر اوپر ہوا ہے، یہ اُس کے برپا کرنے کی وجہ بیان فرمائی ہے۔
[47]۔ آیت میں ’اَسْوَاُ‘ اور ’اَحْسَنُ‘ کے الفاظ آخرت کی جزا و سزا کے لیے استعمال ہوئے ہیں، اِس لیے کہ یہ سزا بھی ابدی ہے اور جزا بھی۔ اِس کے بعد کیا چیز ہے جو اِس سے بدتر یا بہتر ہو سکتی ہے؟
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ